افراد کے درمیان رابطۂ عمل میں قائل کرنا، ترغیب دینا، بنیادی اور اہم کردار ادا کرتا ہے؛ یہ ایک سماجی اور نفسیاتی پہلو کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کا عمل ہے کہ اس کے بغیر معاشرتی زندگی صحیح اور مکمل نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ ذہنوں اور دلوں کو مخاطب کرنا ایک ایسا فن ہے جس کو صرف وہی لوگ اچھی طرح نبھاتے ہیں جن کے پاس اس کے گُر ہیں، اور اگر اس فن کو وقتی اور مقامی حالات کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے، جس سے مبلغین کو لوگوں کے دلوں تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔
دوسروں کو قائل کرنا ایک ایسا کام ہے جس کا مقصد رضاکارانہ انداز میں عقائد اور خیالات کو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل کرنا ہے، اور یہ بہت سے مکالموں اور تعلقات کا مقصد ہے، بلکہ بہت ساری انسانی سرگرمیاں، جیسے تعلیم، میڈیا، مارکیٹنگ اور دیگر کا بھی یہی مقصد ہے۔ جب ہم اس عمل کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے مراحل اور شرائط ہیں، اگر وہ دستیاب ہوں تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ دوسرا فریق بات کو قبول کرے گا اور اس پر قائل ہو جائے گا، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا کے دین کی دعوت لوگوں کو حق سے روشناس کرانے کے لئے اس طرح کے لوازمات کی سب سے پہلے ہے حقدار ہے۔
قائل کرنے کا مفہوم :
قائل کرنے کی بہت سی تعریفیں ہیں، باوجود اس کے کہ وہ سب تعریفات دوسروں کو قائل کرنے اور انہیں بولنے والے کی طرف ہمہ تن متوجہ کرنے میں مشترک ہیں۔
یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی کوشش ہے جو دوسروں کی رائے اور خیالات پر اثر انداز ہونے کے لئے متعدد طریقوں کا استعمال کرتی ہے، اس انداز سے کہ بولنے والا سامعین کے نفسیاتی اور معاشرتی طرز عمل کے ذریعہ مخصوص موضوعات پر کچھ آراء کی حمایت یا مخالفت کروا سکے۔
اس کی تعریف فکری اور رسمی عمل کے طور پر کی جاتی ہے جس میں ایک فریق دوسرے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اسے کسی فکر کے تابع کرتا ہے۔ اسے الفاظ، کلمات، ہدایات اور ہر اس چیز کا استعمال کرنے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جو رویوں اور طرز عمل کی تعمیر کے لئے ایک عام معنی رکھتا ہے۔
پچھلی تعریفوں سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کو قائل کرنا، ذہن اور سوچ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے، اس کا مقصد فرد یا عوام کو اپنے نقطہ نظر کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہے، یہ پروپیگنڈے کے مقصد سے مختلف ہے، جس کا مقصد عوام کے جذبات اور احساسات کو براہ راست متاثر کرنا ہے (1)۔
قائل کرنا اور عقل کو نشانہ بنانا:
قائل کرنا بنیادی طور پر عقل کو نشانہ بناتا ہے، کیونکہ یہ سمجھنے، غور و فکر کرنے اور فیصلے کرنے کا ذمہ دار عضو ہے، اور یہ دل کے برعکس ہے جو چیزوں کا فیصلہ کرنے میں جذباتی پہلو کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔
اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں فرد کی کامیابی اور ترقی اس کی اس صلاحیت میں مضمر ہے کہ وہ دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت حاصل کرسکے کہ وہ کیا چاہتا ہے، جس کے لئے اعلیٰ درجے کی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے جو عقل کی خصوصیت ہے۔
قرآنی نظم کی خصوصیت ہے کہ معنی کے پہلو کا غلبہ ہے: (ذہن کو ترغیب دینا و قائل کرنا) اس کے ساتھ (جذبات سے لطف اندوز ہونا) یا (ذہنی تصدیق کے ساتھ جذباتی اور نفسیاتی مطابقت) (2)۔
دوسروں کو کیسے قائل کریں؟
جو لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں مطلوبہ ہدف حاصل ہو وہ وہ دوسروں کو قائل کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں، اور اسے ماہرین میں ایک ایسے ماہر کے بطور کھڑا کرتا ہے جس سے وہ امتیازی حیثیت کا حامل بن جاتا ہے، اور اس مہارت کی کامیابی کے لیے درج ذیل امور از حد ضروری ہے:
1۔ انسان اپنی زندگی میں ہر قدم پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے، جس میں مسلسل دعا، اللہ سے تضرع، اس سے حسن ظن اور اس سے حاصل ہونے والی توفیق شامل ہے۔
2۔ اللہ کے لیے اخلاص پیدا کرنا، کیونکہ مکالمے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مکالمہ کرنے والا اپنی ذہانت اور ثقافت کا مظاہرہ کرے، یا دوسروں پر بڑے پن کا مظاہرہ کرے، یا تعریف اور توصیف حاصل کرے، یہ سب کچھ ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس شخص کے کام کو ختم کرتی ہے اور لوگوں کے یہاں اس کے کام کو برباد کر دیتی ہے۔
3۔ دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت، اس کےطریقوں اور ذرائع کو حاصل کرنا، اور یہ روابط میں مہارت اور مکالمے کے فن میں مہارت حاصل کرکے کیا جا سکتا ہے۔
4۔ فرد کی اپنے اصولوں، خیالات اور معلومات کو کمال اور آسانی کے ساتھ پہنچانے کی صلاحیت پر قادر ہونا۔
5۔ دوسرے فریق کے حالات اور اس کے خیالات و افکار سے مکمل واقفیت اور اس کے جملہ اوصاف سے مطلع ہونا جس کا حامل ہو۔
6 ۔ بہترین صفات سے مزین اور ممتاز ہونا، جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں، جیسے: اچھے اخلاق، ظاہری شکل میں خوبصورتی، اور وسیع تجربہ۔
7۔ دوسرے فریق کے ساتھ مثبت بات چیت، بات کہنے میں صدق و صفا، اور مناسب انداز واسلوب اختیار کرنا۔
8۔ گفتگو کا موضوع ذاتی خواہشات اور رغبات سے دور ہونا چاہئے۔
9۔ منتخب کردہ موضوعات اور خیالات کو مدنظر رکھیں جو ہم دوسروں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، اور اس میں ان موضوعات کی ساکھ کی جانچ پڑتال کریں؛ اگر کوئی موضوع، جس پر مکالمہ ہو رہا ہے، وہ متنازعہ ہے، یا مختلف فیہ ہے، تو بات کرنے والے کو کچھ مضبوط ثبوت پیش کرنا ہوں گے جو اس کے الفاظ کی صداقت کو ثابت کرتے ہوں، اور جو قابل اعتماد معلومات پر مبنی ہیں۔
10۔ خوف کا سامنا کرنا، وہ تمام عظیم لوگ جو دوسروں کو قائل کرنے کی اعلی صلاحیت سے ممتاز ہیں، اپنے خوف پر قابو پا لیتے ہیں، لہٰذا انسان کو اپنے خوف کا سامنا کرنا ہوگا، اور اس پر قابو پانا ہوگا۔
11۔ اہداف کا تعین، ہر انسان کے اندر اہداف، ممکنہ توانائیاں، اور حیرت انگیز خیالات ہوتے ہیں (3)۔
ہم دوسروں کو قائل کرنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں؟
بہت سے لوگ دوسرے کو قائل کرنے اور رہنمائی کے عمل میں ناکام ہوجاتے ہیں، کیونکہ انہیں احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ ایک ہنر ہے جسے سیکھنا اور اس پر پریکٹس کرنا ضروری ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ دوسروں کو قائل کرنے اور فطری طور پر دوسروں کو متاثر کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں، لیکن بعض کو اس مہارت کے حصول میں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ شخص جس کے پاس دوسروں کو قائل کرنے کے فن کی مہارت نہیں ہے وہ اس مہارت کو حاصل کرنے کے لئے “ناکام طریقوں” کا سہارا لیتاہے، بشمول:
ڈرانا دھمکانا یا بلیک میلنگ: بہت سے عالمی مطالعات اور تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ پیداواری صلاحیت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے جب ہم دلجوئی سے کاموں کو پورا کرتے ہیں، اور اگر آپ طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو دوسرے لوگ وہی کرسکتے ہیں جو آپ ان سے طلب کرتے ہیں، لیکن یقین کریں کہ یہ صرف تھوڑی دیر کے لئے ہوگا جب آپ ان کے آس پاس ہوں گے۔
اصرار: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دوسروں کو کچھ کرنے کی ضرورت کے بارے میں مسلسل یاد دلانا بالآخر انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن یہ نقطہ نظر مکمل طور پر غلط ہے، اور یہ دوسروں کو قائل کرنے کے فن سے بہت دور ہے۔ یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ اصرار اور یاددہانی کے بعد، آپ ان سے جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے ہیں، تو وہ آپ اور آپ کے اصرار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے مقصد سے ایسا کریں گے! جب کہ دوسرے لوگ آپ پر غصہ کر سکتے ہیں اور آپ کو سختی سے پیچھے ہٹا سکتے ہیں۔
دوسروں کو قائل کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا حد سے زیادہ اندازہ لگانا: اس سے دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے مہارتیں حاصل کرنے کی کوششیں رک جاتی ہیں، زیادہ تر امکان یہی ہے۔
بہت زیادہ جوش وخروش اور دوسری پارٹی کی بات سنے بغیر بات کرنا: کچھ لوگ دوسرے فریق کو اپنے خیالات سے قائل کرنے کی کوشش میں طویل عرصے تک بات کرتے رہتے ہیں، بغیر اس کے کہ سمجھیں کہ دوسرے کا نقطہ نظر کیا ہے یا وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
دوسرے فریق کو سمجھنے میں غلطی کرنا: اس سے دوسروں کو غلط فہمی ہوتی ہے جنہیں ہم قائل کرنا چاہتے ہیں (4)۔
نبی صلى الله عليه وسلم کا دوسروں کو قائل کرنے کا فن:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا والوں کے لیے رحمت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے” [الانبیاء: 107] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت یا خون ریزی کی مقابلے میں دلیل پیش کیا کرتے تھے، جب دعوت دیتے تھے، یہاں تک کہ جب اسلامی ریاست بھی مضبوط تھی، دوسروں کو قائل کرنے کا اسلامی نقطہ نظر طاقت سے بالاتر رہا۔
رسول اللہ ؐ مسلمانوں کو سب سے بہتر اخلاق کی تعلیم دیتے تھے۔ جب ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور آپ سے زنا کرنے کی اجازت مانگی، لوگوں کو بہت غصہ آیا اور اس کو پکڑنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا، پھر آپؐ نے کہا، اسے قریب لے آؤ، وہ قریب آیا یہاں تک کہ آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ چیز اپنی ماں کے لئے پسند کرو گے ؟ اس نے کہا، “نہیں، میری جان آپ پر قربان” تو آپؐ نے اس نے کہا، “اسی طرح، لوگ اپنی ماؤں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے ہیں.” کیا آپ کو اپنی بیٹی کیلئے یہ چیز پسند ہے؟ اس نے کہا: نہیں، میری جان آپ پر قربان”، آپؐ نے اس سے کہا: اسی طرح لوگ اپنی بیٹیوں کے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتے ہیں، کیا تم یہ چیز اپنی بہن کے لئے پسند کرو گے؟ ابن عوف نے خالہ اور پھوپھی کا ذکر بھی کیا ہے اور وہ ہر ایک میں کہتے ہیں کہ نہیں، میری جان آپ پر قربان”، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی طرح لوگ اسے پسند نہیں کرتے ہیں (اس کی سند اچھی ہے، اس کے رجال صحیح ہیں)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے، اور میں نے اس (کو اپنانے) سے انکار کر دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہارے کچھ اونٹ ہیں؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیا ہیں؟“ اس نے عرض کی: سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کہاں سے آیا؟“ کہنے لگا: اللہ کے رسول! ممکن ہے اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”اور یہ (بچہ) شاید اسے بھی اس کی کسی رگ نے (اپنی طرف) کھینچ لیا ہو۔“
دوسروں کو قائل کرنے کے لئے حکمت عملی کیسے تیار کریں؟
قائل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اس انداز سے متاثر کریں کہ وہ وہی دیکھیں جو آپ دیکھٓتے ہیں، بلکہ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنا، تصورات کے مابین مشترک فرق تلاش کرنا، اور کسی ایسے حل یا نقطہ نظر تک پہنچنے کے لئے ان کے ساتھ بات چیت کرنا ہے جو دونوں فریقوں کے لئے موزوں ہو۔
لہٰذا مبلغین اور مربین کو اس فن کو سیکھنا اور فروغ دینا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچ سکیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ مشترکہ نکات تلاش کرنا جو دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ جوڑتے ہوں اور ان کے درمیان محبت کے پل تعمیر کرتے ہوں۔
2۔ دوسرے فریق کو وضاحت کریں کہ آپ ان کی خدمت کیسے کرسکتے ہیں اس سے پہلے کہ آپ ان کو اپنے نقطہ نظر پر قائل کرنے کے لئے بات کرنا شروع کریں، اس بارے میں سوچیں کہ آپ ان کی مدد کیسے کرسکتے ہیں، پھر ان کے ساتھ بات چیت کریں اور اپنے نقطہ نظر کو اس طرح پیش کریں جو انہیں ایک ایسا حل پیش کرے جو ان کے لیے مفید ثابت ہو۔
3۔ اپنے نقطہ نظر کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے بارے میں بات کریں، کیونکہ کسی خاص نقطہ نظر کے متضاد پہلوؤں کو شیئر کرنے سے لوگوں کا ان پر قائل ہونا بڑھ جاتا ہے۔
4۔ بات چیت کا مناسب طریقہ منتخب کریں، کیونکہ مؤثر گفتگو دوسروں کو قائل کرنے کے لئے سب سے اہم ہتھیاروں میں سے ایک ہے، مثال کے طور پر: اگر آپ ایک ایسے شخص ہیں جو کسی دوسرے شخص کو قائل کرنا چاہتے ہیں جسے آپ اچھی طرح سے نہیں جانتے ہیں، تو یہاں اس کے ساتھ ذاتی طور پر بات چیت کرنا بہتر نہیں ہے، آپ اسے ایسے بات کریں جیسے اسے ای میل بھیجنا ہو، اور اس میں مردوں سے خواتین مختلف ہیں، کیونکہ خواتین مشترکہ تعلقات بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں اور مردوں کی طرح مسابقتی نہیں ہیں۔
5۔ دوسروں کو نام سے مخاطب کرنا: دوسرے شخص کو ان کے نام کا استعمال کرتے ہوئے اسمارٹ طریقے سے مخاطب کرنا یقینی بنائیں جس سے انہیں اتنا اطمینان ملے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اور وہ اسے قبول کریں لیکن اس کا نام بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں۔
6۔ دوسروں کو قائل کرنے کے لئے زبان حال کا استعمال ایک طاقتور اوزار کے طور پر کریں۔
یقیناََ کم وقت میں مقاصد کے حصول کو آسان بنانے کے لیے قائل کرنے کی مہارت اہم ہے، اور اس کو سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے سے داعی و مربین اور عوامی شخصیات کو جمہور عوام میں ایک افضلیت حاصل ہوتی ہے، جس طرح یہ ان افراد کی حیثیت کو بھی بڑھاتا ہے جن کے ساتھ وہ اپنے آس پاس بات چیت کرتے ہیں۔
ماخذ اور حوالہ جات:
ابراہیم ابو ارقب: سماجی رابطہ اور سماجی تعامل میں اس کا کردار، مجدالوی پبلشنگ اینڈ ڈسٹری بیوشن هاوس، عمان، اردن، 1993ء، ص 189۔
کيرٹ ڈبلیو مورٹنسن: ترغیب کی ذہانت، حصہ 1، پہلا ایڈیشن، ریاض، سعودی عرب: جریر بک اسٹور، 2011، صفحہ 11-12۔
صنعاء ڈویکٹ: مکالمے میں قائل کرنے کے طریقے، 14 دسمبر 2021۔
قائل کرنے اور اثر انداز ہونے کی مہارتیں کیا ہیں اور آپ انہیں کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟: نومبر 2019۔
مکالمہ کا طریقہ کار اور ذہنی ترغیب: 14 نومبر، 2007۔
قائل کرنے اور اثر انداز ہونے کی مہارتیں کیا ہیں اور آپ انہیں کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین