الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبيه المصطفى الأمين، وعلى آله وأصحابه ومن والاه أجمعين، وبعد،
نصر اللہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا مَعَهُ مَتَى نصر اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ [البقرة: 214]، ترجمہ: "کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے؟ انہیں سخت تکالیف اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد (نصر اللہ) کب آئے گی؟ سن لو! اللہ کی مدد (نصر اللہ) قریب ہے۔” [سورہ البقرہ: 214]
یہ آیت کریمہ غزوہ خندق کے موقع پر نازل ہوئی، جب مدینہ میں مسلمان نہایت مشکل حالات سے گزر رہے تھے اور جسمانی اورذہنی طور پر انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کررہے تھے، جب کفر کی تمام قوتیں ان کے خلاف متحد ہو گئیں تاکہ ان کا وجود مٹا دیں اور انہیں تاریخ بنا کر چھوڑ دیں۔
قرآنی سیاق میں اس حالت کو بڑی باریکی سے بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا، هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا [الأحزاب: 10-11] ترجمہ: "جب وہ تم پر اوپر سے اور نیچے سے آ گئے، اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلے تک آ پہنچے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ وہاں مومنوں کی آزمائش ہوئی اور وہ بری طرح ہلا مارے گئے۔” [سورہ احزاب: 10-11]، اور اس شدید جھٹکے کے باوجود جو احزاب کے موقع پہ مومن گروہ کو پیش آیا، انہوں نے جو کچھ ان پر ہوا اس میں صبر کیا ، اور ان کے دل اپنے رب سے جڑے رہے یہاں تک کہ خدا کی مدد آن پہنچی ۔ کفر کے لشکر ذلیل ہو کر شکست سے دوچار ہوئے،اور وہ نامراد ہوکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے۔ اورانہیں ذلت اور رسوائی کے گھونٹ پینے پڑے۔ احزاب کی جنگ میں مسلم امت کے لیے ایک بہت بڑا سبق تھا ،جس سے فتح کی سچائی اور اس کی طرف جانے والے راستے ظاہر ہوئے۔
شاید جن حالات سے امت اِس وقت گزر رہی ہے اور اِن دنوں دعوت جس بحران کا شکار ہے وہ ہمیں اس واقعے پر غور کرنے اور عملی اسباق اور تربیتی نکات نکالنے کی دعوت دے رہے ہیں، جو ہمیں اس بحران کا سامنا کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ہمیں خدا کی فتح اور عنقریب آنے والی آسانی کی بشارت دیتے ہیں۔
نصر اللہ کا تربیتی پہلو اور دعوتی اسباق:
پہلا: یہ سوال اس شخص کی طرف سے نہیں آیا جو نا امید اور ضعیف الایمان ہے، یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق کمزور ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کی طرف سے آیا ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی طرف سے اور ان مومنوں کی طرف سے جو اللہ کے وعدے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کی واضح مدد سے پہلے بڑی آزمائشیں آتی ہیں جو مومنوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں، بشمول رسولوں کے۔
دوسرا: سوال یہ نہیں تھا (خدا کی مدد کیسے ہوگی ؟) یا (خدا کی مدد کہاں ہے؟) کیونکہ کیسے اور کہاں کے ذریعے سوال دراصل مدد سے مایوسی پر دلالت کرتا ہے، اس کے برعکس سوال یہ تھا کہ (خدا کی مدد کب آئے گی؟) جو کہ اللہ کی مدد پر مومنین کے یقین پہ دلالت کرتا ہے، گرچہ وقت میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ اور یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ خدا کی مدد، صبر، استقامت اور یقین کے ساتھ آ رہی ہے اور لامحالہ آنے ہی والی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول امین کا وعدہ ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباسؓ سے فرمایا: "اور جان لو کہ مدد صبر واستقامت کے ساتھ آتی ہے”۔ [امام احمد سے مروی]۔
تیسرا: "کب آئے گی اللہ کی مدد؟” کا سوال نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی مومنین کی طرف سے یہ تسلیم کرنا تھا کہ نصرت اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دلوں کو اللہ کے علاوہ کسی سے نہ جوڑیں، کیونکہ وہی بہترین مددگار اور معاون ہے۔ ہمیں اپنی طاقت اور سازوسامان پر مغرور نہیں ہونا چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف یہی ہماری کامیابی کا سبب ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دشمن کی طاقت سے نہ گھبرائیں، کیونکہ جب تک ہم فتح کے تمام ذرائع اختیار کرتے ہیں اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہوتا ہے اللہ کا ارشاد ہے وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ، ترجمہ: اور فتح صرف اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور حکیم ہے۔ [آل عمران: 126]
چوتھا: ہلا مارنے کے بعد ہی نصرت آتی ہے، یہ اللہ کی سنت ہے اپنی دعوت، اپنے دوستوں اور دشمنوں کے معاملے میں۔ اور جس امتحان سے امت اور دعوت گزر رہی ہے، وہ ہر دانشمند کو حیران کر دیتا ہے، لیکن ایمان کے میزان میں اور اللہ تعالیٰ پر یقین کی کسوٹی پر سچے مومن اسے "نصرت سے پہلے کا زلزلہ” ہی سمجھتے ہیں۔
قرآن پاک کئی جگہوں پر اس ناقابل تردید سچائی کی تصدیق کرتا ہے، اس سنت خداوندى کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ وہ کہتا ہے: "کیا تم نے سوچا تھا کہ تم جنت میں داخل ہو گے حالانکہ تمہارے ساتھ ابھی تک ان لوگوں جیسی حالت نہیں ہوئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ؟” وہ غربت اور مصیبت سے دوچار ہوئے اور لرز گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے کہنے لگے اللہ کی مدد کب آئے گی؟ بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔”
اور اللہ نے مزید فرمایا: یقیناََ تم سے پہلے رسولوں کی تکذیب کی گئی تھی لیکن انہوں نے تکذیب پر صبر کیا اور انہیں اس وقت تک تکلیف پہنچائی گئی جب تک کہ ان کے پاس ہماری مدد نہ پہنچ گئی۔ اور اللہ نے فرمایا: یہاں تک کہ جب رسول بھی مایوس ہوئے اور ان کو گمان گزرا کہ ان کی دعوت کا انکار کیا گیا اس وقت ان کے پاس ہماری مدد پہنچی، تو آئیے ہم صبر کریں اور ثابت قدم رہیں ، پھر خدا کی قریب ترین مدد کا انتظار کریں۔
پانچواں: مدد قریب ہے، یہ صبر کرنے والوں اور اجر کی امید رکھنے والوں کے لیے خوشخبری ہے، اور آزمائش میں مبتلا لوگوں کے دلوں کے لیے تسکین ہے، ان لوگوں کے لیے جن کے دل اپنے رب سے جڑے ہیں۔ لیکن یہ کب واقع ہوگی؟ یہ وہ معاملہ ہے جسے اللہ چنتا ہے اور اس کا وقت اور طریقہ خود متعین کرتا ہے، کیونکہ وہی نصرت کا سرچشمہ ہے۔ "إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، ترجمہ: بے شک ہم اپنے رسولوں اور ان لوگوں کی مدد کریں گے جو ایمان لائے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن پر جب گواہ کھڑے ہوں گے۔” [غافر: 51]
اور جو شخص ابن عطا اللہ سکندری کے الفاظ پر غور کرے گا وہ اس بات کو سمجھ جائے گا: "دعا میں ثابت قدم رہنے کے باوجود اپنی دعا کی قبولیت میں تاخیر پہ تمہیں مایوس نہ ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کی ضمانت دیتا ہے جو وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے، نہ کہ اس کی جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو، اور اس وقت جب وہ چاہتا ہے، نہ کہ اس وقت جب تم چاہتے ہو۔” شاید اللہ آپ کو کسی چیز سے نوازنا چاہتا ہے جس کے لئے اس نے کچھ چیزوں سے آپ کو محروم رکھا۔ "
چھٹا: کبھی نصرت میں تاخیر اللہ کی کمال حکمت کی وجہ سے ہوسکتی ہے، جسے صرف اللہ جانتا ہے۔ جس میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہیں:
لوگوں کی اصل کا ظاہر ہونا، صفوں میں امتیاز، سچے لوگوں کا جھوٹے لوگوں سے الگ ہونا، مخلصوں کا موقع پرستوں سے الگ ہونا، اللہ نے فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے طلبگار ہوتے ہیں، اور کچھ آخرت کے طلبگار۔ بہادروں کا بزدلوں سے الگ ہونا، حقیقی مجاہدین کا جھوٹے دعویداروں سے متمیز ہونا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسی چیزیں جو عوام کے ساتھ سمجھنے والوں کو بھی حیران کر دیں جب تمام نقاب چہروں سے گر جائیں، اور آزمائش کچھ لوگوں کے لیے پستی، جب کہ دوسروں کے لیے بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔کٹھن حالات حقیقت میں رونے والے اور جھوٹ میں رونے کی ہیئت بنانے والے کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ "تاکہ ہالک ہونے والا ہلاک ہو جائے واضح دلیل کے ساتھ، اور جو زندہ رہے وہ روشن دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔” [الانفال: 42]۔
ساتواں: نصرت صبر کے ساتھ ہے، اور آسانی مشکل کے ساتھ ہے۔ امام حسن البنا شہیدؒ نے اپنے ایک مقالے میں اس معنی کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے فرمایا: "شکست اور فتح کے درمیان ایک گھڑی کا صبر ہے، جس میں نہ وہ موت جلدی آئے گی جس کو اللہ نے مؤخر کیا ہے، اور نہ وہ عمریں بڑھیں گی جن کا اللہ نے خاتمہ مقرر کر دیا ہے۔ الله تعالى نے فرمایا: (قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ)، ترجمہ: اگر تم اپنے گھروں میں (بھی) ہوتے تب بھی جن کا مارا جانا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے۔ [آل عمران: 154]۔ بلکہ یہ وقار کا رویہ، بہادری اور شجاعت کی نشانیاں ہی ہیں جن سے خدا اپنے مخلص بندوں کو آزماتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور، ترجمہ: تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو (وسوسے) تمہارے دلوں میں ہیں انہیں خوب صاف کر دے، اور اللہ سینوں کی بات خوب جانتا ہے۔ [آل عمران: 154] [حوالہ:۱]
آخری بات:
عزیزو! ہم پر لازم ہے، جب ہم ان حالات سے گزر رہے ہیں، اور ہماری دعوت آزمائش اور فتنے سے گزر رہی ہے، کہ ہم صبر اور احتساب کریں، اصول اور راہ حق پر ثابت قدم رہیں، اپنی بیعت اور دعوت کے وفادار رہیں، ہمارے دل اپنے مولا سے جڑے رہیں، اور اپنے خالق سے ہمارا تعلق مضبوط ہو۔
یہ چیزیں اور ان کے علاوہ فتح کو یقینی بنانے والی چیزیں ہم اپنے اندر پیدا کرلیں، اور ہم اپنے اندر وہ پیدا کریں جو ہمیں خدا کی فتح کی آمد کے لیے اہل بنائیں۔ اور ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اگر راستے تنگ ہوجائیں اور ہمارے اسباب منقطع ہوجائیں، تو ہمارے لیے اللہ کے دروازے کے سوا کوئی دروازہ نہیں ہے، اور وہی مصیبتوں کو کم کرنے والا اور نقصان کو کم کرنے والا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: "قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ * قُلِ اللّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ” ترجمہ: کہہ دو تمہیں خشکی اور دریا کے اندھیروں سے کون بچاتا ہے جب اسے عاجزی کے ساتھ اور چھپا کر پکارتے ہو، کہ اگر ہمیں اس آفت سے بچا لے تو البتہ ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ کہہ دو کہ اللہ تمہیں اس سے اور ہر سختی سے بچاتا ہے تم پھر بھی شرک کرتے ہو۔ [الأنعام: 63 – 64]
اللہ کی نصرت پر مکمل یقین رکھنا ضروری ہے، کیونکہ صحیح عقیدہ، حق کی دعوت دینے والوں کے دلوں میں اللہ پر امید اور اس کی نصرت پر بھروسہ پیدا کرتا ہے۔ مصیبتیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اور فتنے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، ظالم امت پر کتنا ہی غلبہ کیوں نہ پا لیں، اللہ پر بھروسہ ان کے دلوں سے مایوسی کو دور کرتا ہے۔ اور انہیں مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر ابھارتا کرتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں، اور حادثات کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، اور ایمان والے کو کیوں کر مایوسی ہو سکتی ہے جب کہ وہ پڑھتا ہے: "وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الوَارِثِينَ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الأَرْضِ..” ترجمہ: اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں وارث بنائیں۔ اور انہیں زمین میں اقتدارعطا کریں” [سورہ قصص: 5-6]
پس خوش ہو جاؤ اللہ کی قریبی مدد اور اس کی نصرت پر جو افق پر نمودار ہو رہی ہے۔ یہ یقینی نصرت ہے جو صبر اور استقامت کے ساتھ آئے گی، جسے مصر کے مردان حر ہر روز رقم کر رہے ہیں۔ ان کا بہادرانہ صبر- ظالموں کی سختی اور ان کے ظلم کے باوجود – اپنی چھینی ہوئی آزادی اور لوٹی ہوئی شریعت کو واپس لینے کے لیے ہے۔
اللہ معاملے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ "اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟ کہہ دیجیے کہ شاید وہ قریب ہی ہو۔” [سورة اسراء: 51]، "اور اس دن مومنین خوش ہوں گے اللہ کی نصرت سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب و مہربان ہے۔” [سورة روم: 4-5]
اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
حوالہ ۱: امام حسن البنا کا مقالہ، اخوان المسلمین اخبار میں شائع شدہ، بتاریخ 9 رمضان 1367 ہجری، بمطابق 16 جولائی 1948 عیسوی۔
مترجم: بہاء الدین