فلسطین کے دفاع کا مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ جاری ہے اور دنیا بھر میں فعال تنازعات کے باوجود کبھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک مقدس جہاد اور ایک نظریاتی وراثت ہے جس پر ہم پرورش پاتے ہیں، اور یہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، کیونکہ یہ آسمانی پیغامات کی سرزمین سے جڑا ہوا ہے، اور یہ اسلام کا گہوارہ مانا جاتا ہے، اور اس سے پہلے یہ یہودی اور عیسائی شریعتوں کا گہوارہ تھا۔
قرآن مجید میں مذکور ایک عظیم دینی واقعہ اس ملک میں پیش آیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے اسراء اور معراج کا سفر ہے۔ لہٰذا فلسطین اور اس کی مقدس سرزمین کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک بلند مقام حاصل ہے اور ہر وقت اور ہر جگہ افراد اور گروہوں کی جانب سے اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔
فلسطین اور اس کی سرزمین کا دفاع
اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں میں سے فلسطین کی سرزمین کو زیادہ تر نبیوں کا مسکن منتخب کیا ہے۔ جہاں مسجد الحرام، اور مسجد نبوی کے بعد سب سے پاکیزہ اور مقدس ترین عبادت گاہیں موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واقع اسراء اس سرزمین میں پیش آیا، جہاں آپ نے تمام انبیاء کی امامت کی، لہٰذا فلسطین کا دفاع ہر وقت ملت محمدیہ کے سپوتوں کی ترجیحات میں سرفہرست رہتا ہے۔
اور جب سےنکہ صہیونیوں نے 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں بازل کانفرنس میں فلسطین کا نام اپنے قومی وطن کے طور پر پیش کیا تھا۔ انہوں نے اس کے لئے منصوبہ بندی کی اور صرف اسلامی تحریکوں اور کچھ انفرادی شخصیات نے اس کی اہمیت اور اس کے ہمہ جہت خطرات پر توجہ دی، یہاں تک کہ اخوان المسلمون نے، اسے اپنے مقاصد میں سرفہرست شامل کرلیا، اس کا خیال کیا اور اس کی تیاری کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سب پر واضح ہو گئی کہ فلسطین کے لیے کیا سازش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اور کس طرح بیرونی اور داخلی قوتوں نے صہیونیوں کے حق میں گٹھ جوڑ کیا، یہاں تک کہ تقسیم کا اعلان کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد منظور ہوئی اور پھر1948ء کی جنگ، جس کا بعض مصنفین نے اسلامی تحریکوں اور فلسطینی عوام کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ صہیونیوں کا فلسطین پر حق ہے۔
فلسطینی عوام نے برطانوی اور صیہونی آباد کاروں کے قبضے کا مقابلہ کیا اور صیہونیوں کے بیٹوں کے نئے نوآبادیات سے اس وقت تک لڑائی لڑی جب تک کہ بہت بڑی ذلت نہ آن پہنچی، جب تقسیم کی قرارداد کا اعلان ہوا، اور تقسیم کی قرارداد جاری کرکے کچھ کرنا اور ریاست اسرائیل کی تشکیل میں صیہونیوں اور ان کے معاونین کے ہاتھوں سے حکمت عملی اور جنگی پہل کو ختم کرنا ممکن نہ تھا۔
یہودیوں کے لیے فلسطین کی اہمیت
فلسطین اور اس کی سرزمین کے دفاع کی جنگ اس وقت سے شروع ہوئی ہے جب سے صہیونیوں نے اپنے غلط ارادوں کا جس پر انہیں ایمان ہے، کا اظہار کرنا شروع کیا اور وقتاََ فوقتاً اپنے خطابات و تقاریر میں اس کا تذکرہ کرنے لگے، کیونکہ وہ بائبل کے اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی خدا کے منتخب کردہ لوگ ہیں، اور ارضِ مقدسہ یعنی فلسطین خدا تعالیٰ نے انہیں خداوند کی طرف سے ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور ان کے بعد ان کی اولاد سے کیے گئے خدائی اور مقدس وعدے کی بنیاد پرانہیں عطا کی ہے۔
ان کی رسومات میں ہر بالغ یہودی مرد پر فرض ہے کہ وہ سال میں دو بار یروشلم کی زیارت کرنے اور پورے ایک ہفتے تک وہاں قیام کرے، جس کے دوران وہ رسومات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ عبادت کا اہتمام کرے، تورات پڑھے اور دیوار گریہ کے سامنے دعا کرے، جسے وہ اپنے مقدس ہیکل کی دیواروں میں سے ایک سمجھتے ہیں۔
یہودیوں کے عقائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس مقدس چٹان پر ایمان رکھتے ہیں: جہاں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسحاق کو خدائے تعالیٰ کو قربانی کے طور پر پیش کیا تھا، اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ چٹان جبوسی ارونا کی تھی اور پھر داؤد علیہ السلام نے اسے خریدا، اور اس چٹان کو خدائے قادر مطلق کے لئے ایک ہیکل بنا دیا۔
اپنی باطل جنگ کا دفاع کرنے کے لیے یہودیوں نے اپنا معاشی، سیاسی اور مذہبی فکری وزن ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پلڑے میں ڈال دیا، امریکی معاشرے کی ذہنیت کو کنٹرول میں لیا۔ تمام ذرائع ابلاغ اور تعلیم کو استعمال کیا، مذاہب اور مذہبی کانفرنسوں کا فائدہ اٹھایا، اور پرانے عہد نامے کی مذہبی تشریحات اور وضاحتیں تیار کیں۔
بلکہ یہودی زیادہ تر امریکی پبلشنگ ہاؤسز، فلم پروڈکشنز اور پبلک لائبریریوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کنٹرول کرتے ہیں، اور صرف اخبارات آزاد ہیں جو یہودی میڈیا سلطنتوں کے کنٹرول سے باہر ہیں۔
صیہونی مسیحمغربی عیسائیوں کےاذہان و قلوب میں یہ بات پیوست کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ فلسطین میں یسوع مسیح کے ظہور سے پہلے تین چیزیں حاصل کرنا ضروری ہیں:
اول: اسرائیل کی ریاست کا قیام اور جب 1948ء میں اس کا قیام عمل میں آیا تو اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائی صیہونی نظریہ چار ستونوں پر مبنی ہو گیا، اور وہ یہ ہیں کہ:
1۔ اسرائیل صرف ایک نام اورریاست نہیں بلکہ اسے ایک علامتی مذہبی معنی دینا۔
2۔ یہودی ریاست کی قانونی حیثیت کو خدائی قانونی سازی سے معتبر ٹھہرانا، اور اس طرح اسرائیل کی ریاست کے قیام کو مذہبی پیشگوئیوں کی تکمیل کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
3۔ اس بات پر زور دینا کہ اسرائیل کی سرزمین وہ تمام زمین ہے جس کا خدائے تعالیٰ نے ابرہیم اور اس کی اولاد سے وعدہ کیا: دریائے نیل سے فرات تک۔
4۔ بائبل کے اس نعرے کا تسلسل جس میں کہا گیا ہے: خدا اسرائیل پر رحمت کرتا ہے اور اس پر لعنت کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔
دوم: یروشلم – القدس- شہر کو اسرائیل کے کنٹرول میں لانا۔
سوم : مسجد اقصیٰ کا انہدام اور اس کے وجود کو ختم کرنے کے بعد اس کے کھنڈرات پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو۔
اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے دنیا بھر میں سینکڑوں عیسائی اور یہودی صیہونی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی تحریکیں ہیں جو زمین خریدنے اور ان پر قبضہ کرنے اور یروشلم میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے میں اور اس کی سرزمین کو مسلمانون کے لیے تنگ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

اخوان المسلمون کی نظر میں فلسطین کا دفاع:
جب یہ صہیونی منصوبہ نمودار ہوا اور اس پاک سرزمین کو کنٹرول کرنے کے لئے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگا، اخوان المسلمون نے سمجھا کہ صرف ہتھیاروں سے قابض کے ساتھ جنگ حل نہیں، بلکہ ایک شخص کا انتخاب کرنا پڑے گا جو قیادت کرے گا اور مسلح لوگوں کی پشت پہ کھڑا ہو گا۔ امام البنا نے عرب حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اپنی افواج کے ذریعہ مداخلت بند کریں اور فلسطین کے دفاع کی ذمہ داری عرب عوام پر چھوڑ دیں تاکہ عوام مقبول لوگوں کے ساتھ اس جنگ کی قیادت کریں، اور عرب حکومتوں کو بڑے ممالک اور سیاسی فیصلوں میں مداخلت سے روکا جاسکے جو یقینی طور پر عرب قوم کے نقصان کے لئے جنگ کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔
ایسا ہوا اور اخوان المسلمون کے پاس اپنی افرادی قوت کو متحرک کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے تمام عرب ممالک میں ان کے اور دوسروں کے لئے عام شرکت کا اعلان کیا، اور مرکزعام پر اخوان المسلمون کے رضاکاروں نے جہاد کا بوجھ اٹھانے کے لئے روحانی اور جسمانی طور پر پیشگی تیاری کی، اور اخوان المسلمون کے رضاکاروں نے متحرک ہونے کے لئے عرب لیگ کی طرف پیش قدمی کی، اور اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے متعدد افسران نے فوج سے استعفیٰ دے دیا، جن میں سے کچھ بعد میں انقلابی کمانڈ کونسل کے ارکان تھے، جن میں بہادر رہنما احمد عبد العزیز، حسن الدین، حسین اور دیگر شامل تھے۔ ان میں صلاح سلیم بھی شامل ہیں۔
تاہم مرشد عام انفرادی طور پر منتخب کردہ ایک خصوصی بٹالین تیار کرنے کے خواہاں تھے اور ان کا تعلق اخوان المسلمون کی پہلی صفوں سے تھا، جس کی قیادت میجر محمود عبدو کر رہے تھے۔ اس بٹالین کی تحریک کا آغاز قاہرہ کی ریپبلک اسٹریٹ سے عوام کے درمیان ایک بڑی پریڈ میں ہوا اور مصر کی خواتین گانا گا رہی تھیں، اور ہر کوئی گلیوں اور گھروں کی چھت پر قطاروں میں کھڑا تھا اور اپنے بیٹوں اورجگر گوشوں کو فلسطین کی جنگ آزادی کے لیےالوداع کہہ رہا تھا۔
امام حسن البنا نے فلسطین کی آزادی کے لیے تاج پوش مجاہدین سے کہا کہ آپ اسلام کے ایک نئے احیاء کی نمائندگی کرتے ہیں، لہٰذا اپنے پیشرو صحابہ اور مجاہدین کی طرح بننا یقینی بنائیں، جنہوں نے جنگ میں ثابت قدمی دکھائی اور فرار نہیں ہوئے، اور جنہوں نے اسلام کی ریاست قائم کی اور مال و جان کی قربانی دینے میں کسی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا، یہاں تک انہوں نے اس دین کے حکم کو دنیا تک پہنچا دیا۔ پھر بحری بیڑا سمندر کی لہروں کو چیرتا ہوا بیروت کے لیے روانہ ہوا۔
جب اخوان المسلمون کے دستے بیروت پہنچے تو انہوں نے دارالحکومت کی گلیوں میں دار عباد الرحمن تک فوجی پریڈ کی، جہاں انہوں نے تین راتوں سے زیادہ قیام کیا، پھر دمشق کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں اخوان المسلمون کے جنرل سینٹر میں تین دن قیام کیا۔
اگرچہ برف پہاڑوں کو ڈھانپ رہی تھی اور سردی شدید تھی، اخوان المسلمون کے دستوں کو گوریلاوں کی تربیت حاصل تھی، اور کیمپ (قطہ) میں عرب اور اسلامی ممالک کے رضاکاروں کا ایک بہت بڑا اجتماع تھا: عراقی، لبنانی، اردنی، ترک اور یوگوسلاوین، جن کی قیادت اخوان المسلمون بٹالین کے کمانڈر مرحوم ڈاکٹر مصطفی السباعی کر رہے تھے، اور ہر ایک نے القدس اور قابل فخر فلسطین کے دفاع میں صیہونیوں کے خلاف جہاد میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
فلسطین کے مسئلے پر امام البنا کے موقف پر ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا: “خدا کی قسم، میں نے کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا جو جانثاری میں ان سے زیادہ شاندار ہو، نصیحت میں مخلص، تربیت میں عظیم، روح میں سخی، اور اصلاح میں حسن البنا سے زیادہ گہرا اثر رکھتا ہو۔”
حوالہ جات:
امت اور دفاع فلسطین
مصطفی السباعی: تاریخ میں ہمارے عظیم لوگ، ص 247۔
ایک خصوصی مطالعہ: جنگ فلسطین میں شہادتیں اور حقائق
مترجم: بہاٍء الدین