میں قید میں تھی اور راستے پر سے تقریباً اعتماد کھو چکی تھی۔
عرب بہار کے انقلابات کے بعد سے ہم لوگ آگ کے انگاروں پر ہیں۔ مجھے اور میرے شوہر کو حراست میں لیا گیا، ہم میں سے ایک اندر جاتا ہے تو دوسرا باہر آتا ہے اور اس طرح ہم دائروں میں سفر کرتے ہیں۔ جیل میں ظلم و تشدد کے اس سے بھی برے حالات اور سزائیں ہیں، جن سے میں اور میرا شوہر گزر ے ہیں۔ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، کہ بچوں کو سزائیں اور پھانسی دی جاتی ہے اور بہت سی عورتوں کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ ہم سب کی امیدیں ختم ہو چکی ہیں اور جیل میں کافی عرصہ ہو چکا ہے اور ہماری مہلت بھی دراز ہو چکی ہے، ہمارے دل اب حلق تک آ پہنچے ہیں۔
سوال: بعض اوقات ہم کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس راستے کی صحت پر شک ہونے لگتا ہے اور ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی کسی کھلاڑی یا فنکار کی طرح ہوتے، تاکہ ہم اور ہمارے بچے بھی ان لوگوں کی طرح امن و امان اور خوشحالی والی زندگی گزارتے۔ کبھی کبھی ہم لوگ یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ اب بہت ہو گیا، ہمارے لئے کوئی سہولت اور آسانی کیوں نہیں آتی؟ تو کیا یہ باتیں اور یہ خیالات و احساسات، اللہ تعالی کو ناراض کرتے ہیں؟ ہم اپنے آپ کو کیسے دلاسہ دیں، تاکہ ہمیں اطمینان ہو اور صبر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بے رحم ظلم میں ہمارے حق میں کوئی فیصلہ کرے۔
عزیز سائلہ:
اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں آزادی عطا کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قید کا تجربہ بہت ہی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ آزادی کی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے، کسی کی آزادی چھین لینا ظالموں کا کام ہے، اور یہ آزاد لوگوں کے لئے دنیا میں ایک آزمائش بھی ہوتی ہے، (کیا لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ چھوڑ دئے جائیں گے صرف اتنی بات پر کہ وہ یہ کہہ دیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کی آزمائش نہیں ہوگی)۔ آزمائش جانچنے پرکھنے، درجات بلند کرنے اور افکار و نظریات کی مضبوطی پرکھنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے، لیکن یہ یقین رکھو کہ ہر مشکل تجربے کے کچھ روشن پہلو بھی ہوتے ہیں۔
آدمی کو اس کے ایمان کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے جسے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ “اے اللہ کے رسولؐ! سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام، اس کے بعد نیک لوگوں کی، اس کے بعد جو سب سے بہتر ہو۔ انسان کو اس کے دین کے مطایق آزمایا جاتا ہے، اگر اس کا دین مضبوط ہو اس کی آزمائشوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور اگر اس کا دین کمزور ہو تو اس کی آزمائشو ں میں کمی کی جاتی ہے۔ مومن کو اس وقت تک آزمایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا ہے”۔
جب آزمائش آتی ہے تو وہ گناہوں کو مٹاتی ہے، بوجھ اٹھاتی ہے، غلطیوں کو ختم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جس شخص نے ظلم کا مزہ چکھا ہو، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ جو تجربے کے ساتھ جیتا ہے، وہ آزادی کی نعمت کو جانتا ہے اور اپنے تصرفات کے انجام سے واقف رہتا ہے۔ وہ ایسے ہی کسی ظالم کے آگے سے نہیں گزرتا ہے، جب تک وہ اس کے اختیارات کے انجام سے واقف نہیں ہوتا۔ اللہ نے اس کے لئے جو طے کیا ہو اس پر خوش ہوتا ہے اور اپنے دنوں اور راتوں کا احتساب کرتے ہوئے جو اس نے اللہ تعالیٰ کے لئے قید میں گزاری ہیں بغیر کسی تھکاوٹ اور ندامت کے۔
اس جگہ ابن تیمیہؒ کی باتیں بہت پُراثر معلوم ہوتی ہیں، وہ کہتے ہیں: “میرے دشمن میرے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں؟ میں اپنی جنت ہوں اور میرا باغ میرے سینے میں ہے، اگر میں مر جاؤں تو وہ میرے ساتھ ہوتا ہے مجھے نہیں چھوڑتا ہے، میری قید تنہائی ہے، اور میرا قتل شہادت ہے اور میرے شہر سے میری بے دخلی سیاحت ہے”۔
مومن آزمائشوں کو اسی طرح دیکھتا ہے، وہ فتح و نصرت کے محدود معنی کی جلدی نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ ہر آزامائش کے ساتھ انعام ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آزمائش ہر حال میں آنے والی ہے، کیونکہ یہ ایک فطری طریقہ ہے۔ لیکن ہم مشکلات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، ہمارا نظریہ ان کو آسان بناتا ہے اور مشکلات میں خیر کے پہلو کا پتہ ہونا ان کے گزارنے میں مدد کرتا ہے اور اللہ کی معیت کا احساس مومن کو سکون عطا کرتا ہے اور وہ تقدیر پر راضی رہتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم قیدیوں سے ڈرتے ہیں، جن کے پاس بظاہر مزاحمت کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں اور وہ اپنے خلاف دعا کی طاقت و تاثیر بھی جانتے ہیں۔ اسی لئے ان میں سے کچھ لوگ ان مظلوموں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کے حق میں کم بد دعا کریں، کیونکہ وہ اس کے نتائج دنیا میں ہی اپنے اور اپنے بچوں ساتھ دیکھ لیتے ہیں! تو ان میں سے کون زیادہ کمزور ہے۔
قید ایک تلخ تجربہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو اس سے بچائے اور اسے اعمال صالحہ کے میزان میں رکھے۔ جب بھی ہم اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگیں تو عافیت مانگیں، کوئی عقل مند انسان اس تجربے کی تمنا نہیں کرتا، اور ان تمام دردناک کہانیوں کے باوجود جن کے ساتھ تم نے زندگی گزاری، تم نے اپنی آنکھوں سے خدا کی رحمتیں دیکھی ہوں گی۔ کتنے ہی قیدی ایسے ہیں جنہیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی عمریں ان کو جیل میں ڈالنے والوں سے لمبی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزادی کے فیصلے فرمائے۔ ظالم جو چاہے کرے، لیکن کسی انسان کا حکم، اللہ تعالیٰ کی مرضی کو نہیں روک سکتا ہے۔
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں ہماری لئے تسلی کا سبق ہے (قید کا رب مجھے اس سے زیادی پسند ہے جس کی طرف یہ لوگ بلا رہے ہیں)۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشقت میں ہمارے لئے کتنی نعمتیں رکھی ہیں۔ اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام کی قید میں بہت سی نشانیاں اور فائدے ہیں، اسی میں وہ بری ہوئے تھے، اسی میں انہیں بادشاہ بنایا گیا اور اسی میں آنے والی فتح و نصرت کے مراحل بھی مہیا ہوئے۔
حجاج ابن یوسف الثقفی نے ایک صحابی حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور اسے سولی پر چڑھایا، پھر اس کی ماں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا کے پاس گالیاں دیتے ہوئے گیا اور کہنے لگا “دیکھا تم نے میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا ؟ تو اس نے پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا: میں نے دیکھا کہ تم نے اس کی دنیا تباہ کر دی لیکن اس نے تمہاری آخرت تباہ کی۔” تو ظالم چاہے کتنا ہی بڑا بنے اور ظلم و جبر کرے، ہم جانتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنی ہی آخرت کو بگاڑتا ہے، تو کیا اسے ان لوگوں کی فتح سمجھا جائے؟ نہیں بلکہ وہ ناکام اور نامراد ہوئے۔
(اور وہ مومنین کے دلوں کو شفا دیتا ہے۔) یہ ظالم لوگ صرف آخرت میں ہی ناکام و نامراد نہیں ہوں گے، بلکہ ہم نے اس قسم کے کتنے ہی لوگوں کا نہایت خوفناک انجام دیکھا ہے۔ اللہ ایسے انجام سے مومنوں کے دلوں کو تسلی دے۔ وہ انہیں مہلت دیتا رہتا ہے کہ وہ اور زیادہ سے زیادہ گناہ کریں اور یقیناً ان کا انجام ناکامی اور خسارہ ہوگا۔
یہ تمام باتیں اس تجربے کو ہلکا کرتی ہیں اور اس راستے پر بھروسے اور اعتماد کی تجدید کرتی ہیں اور اللہ کی مدد کی امید دلاتی ہیں، اگرچہ اس میں تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔ ایک داعی کا کہنا ہے کہ کیا یہ مدد نہیں ہے کہ میں حق کے راستے پرہوں اور وہ لوگ باطل کے راستے پر ہیں۔
کیا یہ مدد نہیں کہ ہمارے بارے میں حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “مومن کا معاملہ بڑا عجیب و غریب ہے، اس کے تمام معاملات اس کے لئے باعث خیر ہیں اور یہ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، جو اس کے لئے خیر کا باعث بنتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے، تو یہ بھی اس کے لئے باعث خیر ہوتا ہے”۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے فتح و نصرت کے معنی کو ایک شکل میں محدود کر کے خراب کر دیا ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ان گزشتہ معنی پر غور کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں اہل حق کے گروہ میں شامل کیا۔ ہمارے علاوہ دوسرے لوگ مسکین ہیں جو دنیا کے عارضی فائدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، لیکن پرہیز گاروں کے لئے بہترین انجام ہے- اے اللہ ہمیں ان میں شامل کر۔
یہ دنیا ایک لمحہ کے لئے ہے، یہ دنیا آخرت کا ایک پل ہے۔ اس شخص کے لئے کیا ہی خوش بختی اور سعادت ہے جو اللہ کی خوشنودی اور اس کے سامنے کامیاب ہونے کے لئے پودے لگاتا ہے۔ تمہیں یہ فن کاروں اور ان جیسے لوگوں کی خوشحالی ہرگز دھوکہ نہ دے، ان میں سے بیشتر لوگ خود ان کے اپنے بقول نفسیاتی معالجوں کے پاس جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ سکون کی گولیوں کے سہارے جی رہے ہیں، اس لئے کہ وہ اپنی سمت کھو چکے ہیں۔ وہ معمولی اور محدود مقاصد یعنی پیسہ جمع کرنے، بہترین گاڑیاں خریدنے، اور جدید ٹیکنالوجی، جو ان کے جسموں کو جوان رکھتی ہے، وغیرہ کے ساتھ جیتے ہیں۔ وہ اپنی پوری دولت اپنے فانی جسموں پر خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بچایا ہے اور ہم ان لوگوں کے راستے پر نہیں ہیں اور اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں حق کے راستے پر چلایا۔
معزز سائلہ:
ہم نے کبھی کسی کو اس آزمائش میں مبتلا نہیں دیکھا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ایسی بھلائی کی جس پر ان کے ظالموں کو ان سے رشک اور حسد ہونے لگا۔ وہ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ملاقات کے وقت ایک بیوی کیسے اپنے شوہر کا ہاتھ چومتی ہے اور شوہر اپنی بیوی کا ہاتھ چومتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “ہماری بیویاں تو ہمارے چہرے کی طرف دیکھتی بھی نہیں!” تو کون کس کے ساتھ شفقت کرے گا۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی گنجائش بچتی ہے کہ ہم اس آزمائش اور مصیبت میں انتخاب کے معنی نہ دیکھ سکیں۔
ان میں سے ایک شخص نفسیاتی معالج کے پاس اپنی بدحالی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خراب معاملات کی شکایت لے کر گیا۔ اس کے چچا نے اس پر ظلم کیا تھا اور اس کا حق چھین لیا تھا۔ وہ شخص بیس سال تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا مگر اس کا حق اس کی طرف واپس نہیں آیا، پھر اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے معاملات بدل دیے اور نفسیاتی معالج نے اس کی بیوی کو نصیحت کی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ برابر کھڑی رہے اور اس کے لئے دعا کرے اور مشکلات میں اس کا ساتھ دے۔ وہ شخص اس نفسیاتی معالج کے پاس تین سال بعد واپس آیا تو اس کی حالت بہتر ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی، اس نفسیاتی معالج نے اس سے پوچھا کیا چچا کی وفات ہو گئی یا اس نے تمہارا مال لوٹا دیا؟
بیوی نے کہا: نہ تو یہ ہوا اور نہ ہی وہ ہوا، بلکہ ہمارا بیٹا بڑا ہوا اور اسے ایک امیر ملک میں بڑا کنٹریکٹ مل گیا، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے خیر و برکت سے نوازا۔ شوہر نے اس نفسیاتی معالج کے لئے ایک پیغام چھوڑا، جس میں اس نے اس کا شکریہ ادا کیا ان باتوں پر جن کی وجہ سے وہ اس راستے پر چل پڑا تھا۔ اس خط کے مندرجات یہ تھے ” میرے والد ہمیشہ مجھے یہ سکھاتے تھے کہ اللہ کا انصاف ہر حال میں قائم رہتا ہے، وہ الگ الگ شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے لیکن ہم اسے اپنے خیال میں ایک ہی محدود طریقے سے تلاش کرتے رہتے ہیں اور پھر جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم بغاوت کر دیتے ہیں، لیکن جب ہم گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو اسے ہمیشہ اپنے برابر میں موجود پاتے ہیں”۔ یہ مریض تصدیق کرتا ہے کہ جب وہ ٹھیک ہوا تو اسے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف اس سے دور نہیں ہوا ہے۔
اپنے آپ کے ساتھ نرمی کیجئے، یہ کمزوری کے لمحات ہیں، ہم انسان ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریاں جانتا ہے، ہم اس کی رحمت سے چمٹے رہتے ہیں، اور اس کے درگزر سے جب ہم اس کے بارے میں بد گمان ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ذریعے ہماری عزت کرتا ہے جو بھلائی کے ساتھ ہمارا ذکر کرتے ہیں اور ہمیں اس کی طرف دعوت دیتے ہیں، مومن پر کبھی کبھی کمزوری آجاتی ہے، یہ ہماری بشریت کا تقاضہ ہے، اگر تم کبھی اس حالت سے گزرو تو مایوس مت ہونا اور اپنے آپ کو شیطان کے سامنے مت ڈال دینا، بلکہ ہمیں چاہئے کہ ایسے وقت میں اپنے آپ کو نیک لوگوں کے ساتھ رکھیں، اور لوگوں کے حالات کے بارے میں کثرت سے پڑھیں۔ نہ تو شکست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور نہ ہی اہل باطل ہمیشہ بلند رہتے ہیں۔
جب ہمیں اپنی اولاد کی آزمائش کے بارے میں یہ ڈر ہو، اس وجہ سے کہ انہوں نے جو ظلم دیکھا ہے، تو ضروری ہے کہ ہم انہیں بہت سی دردناک کہانیوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ انہوں نے تمہارے مسئلے میں جو کچھ دیکھا وہ ان کے لئے کافی ہے اور جب وہ تمہاری طرف سے ثابت قدمی دیکھیں گے، تو پھر ان شاء اللہ وہ کبھی نہیں ڈریں گے۔
ہم پر واجب ہے کہ ہم انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا دین زمین پر غالب ہوگا اور اس کا وعدہ بالکل سچا ہے، اور امتحان اس میں ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس میں ہمیں استعمال کرے گا یا ہمارے بدلے کوئی دوسری قوم لے آئے گا۔ (زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے ) [الانبیاء: 105]۔
اسلام غالب ہوا ہے اور پھیلا ہے اور زمین کے مختلف علاقوں تک پہنچا ہے، باوجود ان مسائل اور مشکلات کے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا سامنا ہوا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے دین میں عزت اور فتح و نصرت کی کہانیاں سنائیں اور اللہ کے فضل سے یہ ہمارے دین میں بہت ہیں، ہمیں شکست کی کہانیوں سے دور رہنا چاہئے اور انہیں کہیں تنگ جگہ چھوڑ دینا چاہئے، تاکہ ان سے حقیقت چھپ نہ جائے۔ وہ بہت سی تفصیلات جانتے ہیں جن کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جن سے وہ ڈرتے ہیں۔
اے اللہ اپنے دین اور اپنے بندوں کو اس زمیں پر طاقتور بنا، اور جو شخص اس طرح کے تلخ تجربات سے گزرا ہو، اس کے لئے اس کا بہترین اجر دے، تو پاک ہے اور اس کا نگہبان ہے اور اس پر قادر ہے۔