تحریر: ڈاکٹر طلعت فہمی
یہ ایک امر واقع ہے کہ کسی بھی تعلیمی اسکیم کے لیے استاد سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک صحیح وسالم تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب کو اُس طرز پر عمل درآمد کروانا جو سیکھنے والوں کے لیے ترقی کا راستہ ہموار کرے، یہ بھی استاد ہی کا مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح ہمیشہ سے اس چیز کی ضرورت رہی ہے کہ ایک ایسا خوبصورت انسانی تعلق قائم کیا جائے جو شاگردوں سے معاملہ کرنے میں آسانی پیدا کرے اور جس میں شاگردوں کو خالص اخوت اور ارفع انسانی روح کا احساس ہو۔
چونکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم معلمین کے لیے خالص ماخذ اور قابل اعتماد حوالہ ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اس میں تحقیق کرکے رسول انسانیت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ انسانی طریقوں کی تلاش کروں۔ اس کے لیے میں نے چار عنوانات کو ترتیب دیا۔
- پہلا: مکمل اور گہری واقفیت
- دوسرا: مؤثر عملی تعلق
- تیسرا: دوسروں کے جذبات کا احساس
- چوتھا: نفسیاتی ضروریات کی تکمیل۔
پہلا محور: مکمل اور گہری واقفیت
مکمل اور گہری واقفیت اس لیے تاکہ اساتذہ کو اپنے بھائیوں کی شخصیتوں، صلاحیتوں، امکانات، احساسات اور جذبات کی مکمل اور گہری واقفیت حاصل کرنے میں مدد ملے۔ جو باہمی افہام وتفہیم اور تعاون میں مفید ثابت ہوگی۔
تاکہ انہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ ان کی خوشیوں، غموں، اور زندگی کے دیگر تمام پہلوؤں میں اچھا اور مؤثر تعلق بنانے میں مدد ملے۔
تاکہ وہ اپنے پیارے بھائیوں، جن کے دل اپنے رب کی محبت میں متحد ہو چکے ہیں، اس کی فرمانبرداری پر اکٹھے ہوئے ہیں، اور اس کے قانون کی حمایت کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں، کے جذبات کو محسوس کرسکیں۔
اپنے بھائیوں کی نفسیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں اساتذہ کی مدد کرنا کہ وہ ایک دل، ایک جسم اور ایک جان ہیں۔
دوسرا محور: مؤثر عملی تعلق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین عملی تعلق پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے صحابہ سے معاملہ کیا۔ ہم آپؐ کے طریقہ کار سے درج ذیل عملی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم عوامی رابطہ نشستیں منعقد کرنے کے بہت حریص تھے، خاص طور پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ۔
- آپؐ لوگوں کو ان کی انفرادیت ملحوظ رکھتے ہوئے رہنمائی کرتے ہیں۔
- آپؐ لوگوں کی خبر گیری کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں کیا کررہے ہیں۔
- آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف مواقع پر رابطہ استوار کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا دیکھتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ اپنے صحابہ کے ساتھ ملتے رہتے اور رابطے میں ہوتے ہیں۔
دعوت کے آغاز میں آپ صلعم مسلمانوں سے فرداََ فرداََ ملتے تھے مثلاً ابوبکرؓ، علیؓ، خبابؓ، خالدؓ بن سعید وغیرہ سے آپ کی ملاقاتیں۔
جب مسلمانوں کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تو آپ صلعم نے ان سے ملاقات اور اجتماع کے لیے دارِ ارقم بن ابی ارقم کو منتخب کیا۔
عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے کبھی والدین سے بحث نہیں کی، سوائے اس وقت جب انہوں نے دین کی مذمّت کی۔ اور ہم پر کوئی ایسا دن نہیں گزرا ہے جس دن ہمارے پاس رسول اللہ نہ آئے ہوں آپ صبح وشام دونوں وقت آتے رہتے تھے [1]۔
کچھ ملاقاتیں فرداََ فرداََ ہوتی تھیں، کچھ اجتماعی بھی تھیں اور ابوبکرؓ سے خاص ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ جس کا نتیجہ رسول اللہ صلعم کے بعد ابوبکرؓ کی خلافت میں ظاہر ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں سے تعامل کرنے کی مثال ماہرین سماجی نفسیات کے مطابق سب سے اعلیٰ ہے۔ جب اللہ کا یہ قول نازل ہوا، [اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ] [2]۔ اسی وقت آپ صلعم نے علیؓ کو حکم دیا، اس نے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ پھر بنی عبد المطلب کو بلاوا بھیجا، کچھ چالیس کے قریب لوگ جمع ہوگئے، ایک زیادہ یا ایک کم۔ انہیں کھانا پیش کیا، پانی پلایا، پھر اللہ کی طرف دعوت دی [3]۔
پس آپ دیکھیں گے وہ اپنے خاندان کے ساتھ ملتا رہتا ہے۔ انہیں اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ ان کے درمیان الفت ومحبت قائم کرتا ہے۔ ان کے لیے کھانا پینا تیار کرتا ہے۔ ان کے لیے دسترخوان بچھاتا ہے۔ اسی وجہ سے سماجی نفسیاتی علم کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوگوں کے درمیان روابط مضبوط کرنے کے لیے خاص مواقع پر کھانے پینے کا انتظام کرکے اجتماع منعقد کیا جاتا ہے۔
آپ صلعم کا اہل قباء کے ہاں ہرسنیچر کے دن جانا اور مسجد قباء میں ظہر کی نماز ادا کرنا [4]۔
اور اہل قباء کے بارے میں آپؐ فرماتے ہیں۔ یہ آیت اہلِ قباء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاکباز بندوں کو پسند فرماتا ہے] [5] کیونکہ وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے [6]۔
اور اہل قباء کے لیے آپ کی خبر گیری کا یہ حال تھا کہ جب انہوں نے بنو عمرو بن عوف سے جنگ کی حتیٰ کہ پتھر برسانے لگے، آپؐ نے فرمایا “میرے ساتھ آؤ، ان میں صلح کراتے ہیں” [7]
بنی عبد أشہل میں آپ کی زیارت اور ان کی مسجد میں نماز پڑھنا۔ [8]
اور جب ان کی عورتوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے۔ [9]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا مسجد میں حاضر ہونے اور ان سے ملنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کر ان کی خبر گیری کرنے، حال چال پوچھنے، اصلاح کرنے اور آپس میں صلح کرانے اور دیگر امور کا اہتمام بھی کیا۔
آپؐ انصار کی طرف گئے: اور ان سے فرمایا، “اے انصار والو! اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکیزگی کی صفت کو سراہا ہے تمہاری پاکیزگی کیا چیز ہے؟ ’’انہوں نے کہا۔ ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، غسلِ جنابت کرتے ہیں، استنجاء میں پانی استعمال کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلعم نے کہا ۔ “ہاں یہ چیز ہے اس پر کاربند رہو۔” [10]
ایسے ہی آپ نے لوگوں کو ان کا مقام عطا کیا، ان کی خوبیاں بیان کیں۔ جب آپ صلعم جنگ تبوک سے واپس آرہے تھے راستے میں مدینہ سے گزرے تو فرمایا۔ “یہ وادی ہے، یہ احد ہے، اور وہ پہاڑ ہے، وہ ہم سے محبت کرتے ہیں، ہم ان سے محبت کرتے ہیں”۔ پھر فرمایا۔ “انصار کے گھروں میں بہترین گھر بنو نجار کا ہے، پھر بنو اشھل، پھر بنو عبد حارث اور اس کے بعد بنو ساعدہ، اور انصار کے ہر گھر میں بھلائی ہے۔” راوی ابو حمید کہتے ہیں، پھر ہم سے سعد بن عبادہ ملے۔ اس نے کہا: اے ابو أسید کیا تم جانتے ہو رسول اللہ نے انصار کے گھروں میں بہترین گھر کی نشاندہی کی اور ہمارے گھر کو سب سے آخر میں رکھا، پھر جب سعد رسول اللہ سے ملے اور کہا یا رسول اللہ آپ نے انصار کے گھروں میں بہترین کا انتخاب کیا تو ہمیں آخری قرار دیا ہے۔ آپ صلعم نے جواب دیا “کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تم بہترین گھروں میں سے ایک ہو” [11]۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلعم نے اس کی ہاتھوں کی انگلیوں کو پکڑا پھر انہیں اپنے ہاتھوں میں تیروں کی طرح پھیلا دیا اور کہا “انصار کے ہر گھر میں خیر ہے” [12]۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہؓ کے ساتھ تعلق کی ایک نوعیت یہ تھی کہ آپ صلعم نے ان میں سے ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق لقب دیا۔
ایک مسلمان کی تعریف آپ صلعم نے یوں کی ہے۔ “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے باقی مسلمان محفوظ ہوں ۔ اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں سے دور رہے” [13]۔
آپ نے انہیں اس بات کی وصیت کی جس سے ان میں قرابت داری مضبوط ہو اور جنت میں داخل ہوسکیں۔ “رحمٰن کی بندگی کرو، سلام کو عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور جنت میں داخل ہوجاو۔” [14]۔
اور جو آپ سے جنت میں لے جانے والی چیز کے بارے میں سوال کرتا آپؐ اسے فرماتے۔ “میں تمہیں اچھی بات کرنے اور سلام پھیلانے کی نصیحت کرتا ہوں۔” [15]۔
حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا۔ اے اللہ کے رسولؐ! جب میں آپؐ کو دیکھتا ہوں میرے اندر زندگی دوڑتی ہے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ آپؐ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتادیں۔ تو آپؐ نے فرمایا۔ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے ابو ہریرہؓ نے کہا، مجھے ایسی چیز کے بارے میں بتائیں جس پر عمل کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ صلعم نے فرمایا “سلام کو عام کرو۔ کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور راتوں کو قیام کرو، جب لوگ سورہے ہوں۔ پھر جنت میں سلامتی سے داخل ہوجا۔” [16]۔
ایک شخص نے کہا۔ یا رسول اللہؐ! کون سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ “اللہ پر ایمان لانا، صدقہ دینا، اللہ کے راستے میں جہاد اور بیت اللہ کا حج کرنا”۔ اس شخص نے کہا۔ آپ نے زیادہ کہا۔ اس پر آپ صلعم نے فرمایا۔ “نرم گفتگو، کھانا کھلانا، معاف کرنا اور حسنِ اخلاق”۔ اس شخص نے کہا۔ میرا مطلب صرف ایک بات بتائیں۔ تو آپؐ نے فرمایا۔ “جاؤ اور اپنے متعلق اللہ پر الزام نہیں لگانا” [17]۔
اور جب کسی شخص کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا۔ “اے میرے رب مجھے وہ بہترین فضل عطا کر جو تو اپنے نیکوکار بندوں کو دیتا ہے۔” اس پر آپؐ نے فرمایا “پھر تیرا گھوڑا اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے اور تو شہادت حاصل کرے” [18]۔
اس طرح ہر شخص کو اس کی حیثیت کے مطابق مخاطب کیا گیا ہے۔ جس سے اسلام کے وسیع تصور میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ان کے رتبے اور حالات کے مطابق پیش آتے تھے۔ وہ انہیں اس انداز میں رہنمائی کرتے جس میں وہ اپنے آپ کو محفوظ ومامون محسوس کرتے تھے۔ آپؐ کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے، اس بات پر یہ دلیل دی جاتی ہے:
ابن اسحاق نے أم سلمہ کی وساطت سے درج کیا ہے وہ کہتی ہیں: جب مسلمانوں پر مکہ تنگ ہوا اور انہیں اذیت دی گئی، آزمائے گئے۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ جو تکلیف اور مصیبت ان پر اور دین کے حوالے سے انہیں پہنچ رہی ہے، رسول اللہ اس پر ان کی مدد نہیں کرسکتے۔ اور چونکہ رسول اللہ صلعم کا دفاع کرنے کے لیے اس کا خاندان اور چچازاد آتے تھے، اس لیے آپ کو کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچی جس کا سامنا آپ کے ساتھیوں کو کرنا پڑا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا۔ “سرزمین حبشہ میں ایک ایسا بادشاہ ہے جہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، اس لیے وہاں چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لیے کوئی راستہ نکالے اور اس مصیبت سے نجات دلائے” [19]۔
آپ صلعم نے انہیں دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت دی۔ ایک نبوت کے پانچویں سال اور دوسرا نبوت کے ساتویں سال، (یعنی) جب مسلمان سخت ظلم وتشدد کے مراحل سے گزر رہے تھے، یعنی مکمل سماجی بائیکاٹ کے دور سے۔
اور جب آپ صلعم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اپنے پیروکاروں کو وہاں جانے کی ہدایت کی۔ اور خود آپ صلعم مکہ میں ٹھہرے رہے۔ یہاں تک کہ ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی عذر نہیں تھا مہاجر بن کر چلا گیا۔
اور احمد نے شداد بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے کہتے ہیں ابو أمامہ نے کہا۔ اے عمرو بن عنبسہ تم کس چیز کو ¼ اسلام سمجھتے ہو۔ اس نے کہا: میں دور جاھلیت میں لوگوں کو گمراہی میں دیکھتا تھا۔ میں بتوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ پھر میں نے کسی شخص کو رسول اللہ صلعم کی بعثت کے بارے میں ذکر کرتے سنا، میں اپنی سواری پر سوار ہوگیا اور مکہ جا پہنچا۔ جب میں وہاں پہنچا تو آپ صلعم اپنی قوم سے چھپ کر رہتے تھے، کیونکہ انہوں نے آپ کا قافیہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ [20] میں بڑا مہربان ہوکر آپ سے ملا۔ جب میں داخل ہوا میں نے سوال کیا، آپ کون ہیں؟ آپ صلعم نے کہا “میں اللہ کا نبی ہوں” میں نے پوچھا نبی کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے بولا “اللہ کا رسول”۔ میں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ کو مبعوث کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا “ہاں”۔
میں نے پوچھا کس چیز کے ساتھ مبعوث کیا ہے؟ فرمایا “کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے، بتوں کو توڑنے اور صلہ رحمی کرنے کے لیے۔” میں نے پوچھا آپ کے ساتھ اس مشن میں کون کون ہے؟ آپ نے فرمایا “آزاد اور غلام یا غلام اور آزاد”۔ چونکہ آپ کے ساتھ صرف ابوبکر بن قحافہ اور بلال تھے۔
میں نے پوچھا میں آپ کا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ فرمایا “تم اس وقت اتنی طاقت نہیں رکھتے، بلکہ تم واپس گھر جاؤ اور جب تمہیں میرے متعلق پتہ چلے کہ میں غالب آگیا تب میرے ساتھ جڑ جانا”۔ کہتا ہے میں اسلام قبول کرکے گھر واپس آگیا۔ پھر رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے میں لوگوں سے آپ کے بارے میں معلوم کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک شخص مدینہ سے آیا۔ میں نے پوچھا اس مکی شخص کا کیا حال ہے جو آپ کے ہاں آیا ہے؟ انہوں نے کہا اس کی قوم نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اور انہوں نے ہمارے درمیان سازشیں بھی کیں، لیکن لوگ تیزی سے اس کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
عمرو بن عنبسہ نے کہا میں اپنی سواری پر چڑھ گیا اور مدینہ پہنچ گیا۔ میں رسول اللہ کے پاس گیا اور کہا یا رسول اللہ کیا آپ نے مجھے پہچانا۔ فرمایا “ہاں کیا تم وہی جو مکہ میں میرے پاس آیا تھا “[21]میں نے کہا، ہاں!
پس آپ نے دیکھا کہ کس طرح حضور صلعم نے اپنے صحابہ کو دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت دی اور ایک بار مدینہ ہجرت کرنے کی ہدایت دی اور کس طرح عمرو بن عنبسہ کو رہنمائی کی کہ وہ دشمنوں سے محفوظ ہوگیا۔
مصادر و حوالہ جات:
[1] رواه أحمد؛ عن عائشة -رضي الله عنها- (42 / 419 – رقم: 25626) وقال الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وعبد الرزاق في المصنف؛ كتاب: المغازي؛ باب: من هاجر إلى الحبشة (5 / 384 – رقم: 9743) والبخاري؛ كتاب: الصلاة – باب: المسجد يكون في الطريق من غير ضرر بالناس (رقم: 476) وكتاب: الأدب – باب: هل يزور صاحبه كل يوم، أو بكرة، وعشيا (رقم: 6079) وابن خزيمة كتاب الوضوء – جماع أبواب التيمم – باب: إباحة التيمم بتراب السباخ (1 / 167 – رقم: 265) وصححه محمد مصطفى الأعظمي، وابن حبان كتاب: التاريخ – باب: بدء الخلق – فصل: في هجرته إلى المدينة وكيفية أحواله فيها (رقم: 6277، 6868) [2] الشعراء: 214 [3] القصة بطولها في صفوة السيرة النبوية لابن كثير؛ أبي الفداء عماد الدين ابن كثير(1 / 182: 185). [4] روى مسلم؛ عن زيد بن أرقم ؛ قال: خرج رسول الله ﷺ على أهل قباء وهم يصلون ، فقال: «صلاة الأوابين إذا رمضت الفصال» كتاب: صلاة المسافرين وقصرها – باب: صلاة الأوابين حين ترمض الفصال (رقم: 1747). [5] التوبة: 108. [6] رواه ابن ماجه؛ عن أبي هريرة -رضي الله عنه- كتاب: الطهارة وسننها – باب: الاستنجاء بالماء (رقم: 357). [7] رواه البخاري؛ عن سهل بن سعد -رضي الله عنه- كتاب: الصلح؛ باب: قول الإمام لأصحابه: اذهبوا بنا نصلح (رقم: 2693) وانظر (رقم: 684، 1218، 1234، 2690). [8] رواه أبو داود؛ عن كعب بن عُجْرَة -رضي الله عنه- كتاب: الصلاة – باب: ركعتي المغرب أين تصليان (رقم: 1300) والنسائي؛ كتاب: قيام الليل، وتطوع النهار – باب: الحث على الصلاة في البيوت والفضل في ذلك (رقم: 1601) وابن ماجه؛ عن ثابت بن الصامت، ورافع بن خديج -رضي الله عنه- كتاب: الصلاة – باب: السجود على الثياب في الحر والبرد (رقم: 1032، وانظر: 1165). [9] رواه الدارمي؛ كتاب: الاستئذان – باب: في التسليم على النساء (رقم: 2637) ورواه دون ذكر نساء بني الأشهل: أبو داود؛ عن أسماء بنت يزيد بن السكن -رضي الله عنه- كتاب: الأدب – باب: في السلام على النساء (رقم: 5204) والترمذي؛ كتاب: الاستئذان – باب: ما جاء في التسليم (رقم: 2697) وابن ماجه؛ كتاب: الأدب-باب: السلام على النساء والصبيان (رقم: 3701) وقال الترمذي: هذا حديث حسن. [10] رواه ابن ماجه؛ عن أبي أيوب الأنصاري، وجابر بن عبد الله، وأنس بن مالك -رضي الله عنه- كتاب: الطهارة– باب: الاستنجاء بالماء (رقم: 355). [11] رواه عن أبي حميد الساعدي -رضي الله عنه-: أحمد (39 / 16 – رقم: 23604) وقال الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط الشيخين، والبخاري؛ كتاب: الزكاة – باب: خَرْص التمر (رقم: 1481) ومسلم؛ كتاب: الفضائل – باب: في معجزات النبي ﷺ (رقم: 5948) وابن حبان؛ كتاب: السير – باب: الخلافة والإمارة (رقم: 4503) وروى نصفه الأول ابن أبي شيبة (20 / 543، 544 – رقم: 38161) ورواه الترمذي مختصرا؛ عن أنس؛ عن أبي أسيد الساعدي -رضي الله عنه- كتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ باب: ما جاء في أي دور الأنصار خير (رقم: 3911) وقال: هذا حديث حسن صحيح. [12] رواه الترمذي؛ عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- كتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ باب: في أي دور الأنصار خير (رقم: 3910) وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا الحديث أيضا عن أنس عن أبي أسيد الساعدي؛ عن النبي ﷺ ورواه أبو يعلى (3 / 461 – رقم: 3638). [13] رواه أحمد في مواضع عديدة؛ منها: عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنه- (10 / 23 – رقم: 6515) وصححه أحمد شاكر، وفي طبعة الرسالة (11 / 66 – رقم: 6515) وقال الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط الشيخين، والبخاري؛ كتاب الإيمان – باب: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده (رقم: 10 وانظر: 6484) وأبو داود؛ كتاب: الجهاد – باب: في الهجرة هل انقطعت (رقم: 2481) والنسائي؛ كتاب: الإيمان وشرائعه – باب: صفة المسلم (رقم: 4996) وعن أبي هريرة -رضي الله عنه- باب: صفة المؤمن (رقم: 4995) وبدلا من الشطر الثاني قال: «والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم» والبخاري في الأدب المفرد؛ باب: يتخطى إلى صاحب المجلس؛ وصححه الألباني. [14] ورواه أحمد؛ مسند: عبد الله بن عمرو -رضي الله عنه- (10 / 93 – رقم: 6587) بلفظ: {تدخلون} وصححه أحمد شاكر، وفي الرسالة (11 / 158، 436 – رقما: 6587، 6846) وصححه الأرنؤوط لغيره، والترمذي؛ كتاب الأطعمة – باب: ما جاء في فضل إطعام الطعام (رقم: 1854) وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح، وابن حبان؛ واللفظ له؛ كتاب: البر والإحسان – باب: إفشاء السلام، وإطعام الطعام (رقم: 489). والدارمي؛ (2 / 357 – رقم: 2632) والبخاري في الأدب المفرد (رقم: 981). وللحديث طرق عديدة عن أبي هريرة -رضي الله عنه- وغيره. [15] رواه ابن حبان؛ عن هانئ -رضي الله عنه- كتاب: البر والإحسان – باب: إفشاء السلام، وإطعام الطعام (رقم: 490). [16] رواه أحمد؛ مسند ابي هريرة -رضي الله عنه- (15 / 72، 73 – رقم: 7919) وصححه أحمد شاكر، وابن حبان؛ كتاب: الصلاة – باب: النوافل؛ فصل في قيام الليل (رقم: 2559). [17] رواه أحمد؛ مسند أبي ذر -رضي الله عنه- عن النبي ﷺ (8 / 76، 103 – رقما: 21389، 21505) وعن الشفاء بنت عبد الله -رضي الله عنه- مختصرا (10 / 312 – 27162).ومعنى: {لا تتهم الله على نفسك} يعني فيما أصابك من بلاء؛ فهو عدل منه ورحمة؛ وليس عقابا ومذلة؛ والله أعلم.
[18] رواه ابن حبان؛ عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- كتاب: السير – باب: فضل الجهاد (زقم: 4640) والحاكم في المستدرك؛ كتاب: الإمامة وصلاة الجماعة (1 / 274 – رقم: 748) وكتاب: الجهاد (2 / 96 – رقم: 2402) وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي. [19] سبق تخريجه. [20] المعنى: أنهم عليه حراس؛ كصغير الكلب أو الأسد؛ خوفا من اتصاله بالناس وانتشار دعوته. [21] رواه أحمد في قصة طويلة؛ كتاب: حديث عمرو بن عنبسة (7 / 111 – رقم: 19450) ومن طبعة الرسالة (28 / 237: 239 – رقم: 17019) وقال الأرنؤوط: إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وأخرجه المزي في تهذيب الكمال من طريق حمد (22 / 122).