میں ایک نوجوان ہوں اور میری عمر ایسی ہے کہ اب تک مجھے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر لینی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے میں اب تک اسے مکمل نہیں کر سکا۔ میں کئی سالوں سے پڑھائی میں پیچھے ہوں، اور مسلسل فیل ہونا میری پڑھائی کا سب سے نمایاں حصہ بن گیا ہے۔ میں کالج میں کئی بار ناکام ہوا، یہاں تک کہ پڑھائی سے تھک گیا، مایوس ہو گیا، اور بار بار کی ناکامی نے مجھے اس حد تک پہنچا دیا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس راستے پر مزید نہیں چل سکتا۔ میں نے سوچا کہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لوں، خصوصاً جب کہ میری عمر بڑھ رہی ہے، میرے دوست گریجویٹ ہو چکے ہیں، اور میں تو راستے میں کسی پرانے دوست کو دیکھ کر سلام کرنے سے بھی جھجکتا ہوں کہ کہیں وہ مجھ سے میری پیش رفت نہ پوچھ لے، یا میرے دل میں اس کے لیے حسد اور کڑواہٹ نہ پیدا ہو جائے کہ وہ مجھ سے پہلے پڑھ کر نوکری پر لگ گیا۔
میں یہ بات مانتا ہوں کہ میرا شعبہ مشکل نہیں تھا، اصل مسئلہ میں خود تھا۔ میں نے کئی بار امتحانات میں بیٹھنے سے معذرت کی۔ پھر جب میں نے واپس پڑھائی کی طرف آنا چاہا تو نہ پڑھنے کی رغبت رہی، نہ حوصلہ، نہ جذبہ … جیسے سب کچھ مجھ سے رخصت ہو چکا ہو۔ اس لیے ناکامی بار بار میرے سامنے آتی رہی۔
کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے ان غلطیوں پر جو میں نے کیں ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ محض میری لاپرواہ زندگی کا نتیجہ ہے، وہ زندگی جس میں، میں آج تک غفلت اور بے توجہی کے ساتھ جیتا آیا ہوں۔ اب تو میں وسوسوں اور مستقل ناکامی کے احساسات کا قیدی بن گیا ہوں۔
میں نے لوگوں سے نفرت کرنا شروع کر دی ہے، دل میں ان کے لیے کینہ محسوس ہونے لگا ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی بھلائی ہو تو مجھے خوشی محسوس نہیں ہوتی، حالانکہ پہلے میں ہر آدمی کی بھلائی پر خوش ہوتا تھا۔ یہ تلخ ناکامی — خصوصاً تعلیمی ناکامی جو عمر کو کھا جاتی ہے، اندر سے مار دیتی ہے۔ میں اس کا کیا کروں؟
جواب
عزیز بھائی! ہم ہر نئے دن کا آغاز ایک دعا سے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی:
“الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور”
اگر آپ غور کریں تو اس دعا کا آغاز اللہ کی تعریف سے ہوتا ہے، کیونکہ ہر نیا دن اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے — ایک نیا موقع، ایک نئی شروعات، ایک نیا صفحہ۔ جب تک اللہ نے آپ کو ایک اور سانس دی ہے، اور آپ کا ذہن کام کر رہا ہے، آپ کے پاس تبدیلی لانے کے تمام اوزار موجود ہیں۔
حضرت حسن بصریؒ سے منسوب ایک قول ہے:
“ہر فجر جو طلوع ہوتی ہے، وہ پکارتی ہے: اے ابنِ آدم! میں ایک نیا دن ہوں، تمہارے عمل کی گواہی دینے آئی ہوں، میرے ساتھ کچھ نیکی کر لو، میں جب گزر جاؤں گی تو قیامت تک واپس نہیں آؤں گی۔”
یعنی ہر دن خود ایک موقع ہے، اس سے پہلے والے دن کی ناکامی یا کامیابی سے قطع نظر۔
اب آپ کو صرف اُن چیزوں سے جان چھڑانی ہے جو روح کو کمزور کرتی ہیں، حوصلہ توڑتی ہیں، اور ارادے کو مٹا دیتی ہیں، چاہے وہ خیالات ہوں، لوگ ہوں یا ماحول۔
یہ ناکامیاں جن میں کامیابی نہیں ملی، انہوں نے آپ کے ارد گرد منفی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ:
- ایسے ماحول سے دور رہیں۔
- منفی خیالات کو شروع میں ہی دبا دیں۔
- بُرے خیالات کے ساتھ جنگ کریں۔
- آگے بڑھتے رہیں۔
- لوگوں کی باتیں سن کر رک نہ جائیں۔
- مسکراتے رہیں اور ہر منفی جملے سے خود کو بچائیں۔
اور اس کے مقابلے میں:
- اُن لوگوں سے دوستی کریں جو باحوصلہ ہیں، مثبت سوچ رکھتے ہیں۔
- اپنے آپ کو معاف کریں۔
- نئی شروعات کریں۔
آپ کی روح جاگ اٹھی ہے، آپ کا ضمیر بیدار ہے، آپ کو احساس ہو چکا ہے کہ لاپرواہی نے آپ کا وقت ضائع کیا۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اب کام کیجیے، اور جیسا کہ کہا جاتا ہے:
“جس نے شروع کیا، اس کو کبھی دیر نہیں ہوئی۔”
آپ کے معاملے میں بڑی حد تک مسئلہ ذہنی تھا، صلاحیت کا نہیں۔ اس لیے آپ ایک سے زیادہ راستے ایک ساتھ اپنا سکتے ہیں تاکہ گزرے ہوئے سالوں کی تلافی ہو جائے۔ جیسے:
- اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
- ساتھ ساتھ کوئی ایسا کام جس سے آمدنی بھی ہو۔
- اضافی تربیتی کورسز تاکہ فوری طور پر مارکیٹ کی مہارتیں حاصل کر سکیں۔
جہاں تک آپ کا یہ خیال کہ یہ سب اللہ کی سزا ہے، تو اللہ اس سے کہیں زیادہ رحیم ہے۔ ناکامی اگر ہے بھی تو اس کے حقیقی اسباب ہوتے ہیں۔ اس کو اللہ کی سزا سمجھ کر خود کو الزام دینا درست نہیں، کیونکہ یہ سوچ آپ کو اصل اسباب دیکھنے نہیں دیتی۔
اللہ نے فرمایا:
“اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرے۔ اور اس کی کوشش ضرور دیکھی جائے گی۔ پھر اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا” [النجم: 39–41(]
اور فرمایا:
“ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے” [الکہف: 30]
یہ بات دنیا کے کاموں پر بھی صادق آتی ہے — اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے ناکامی نہ دیکھی ہو۔ سب ناکامیوں سے گزرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ:
- کوئی ناکامی کے بعد دوبارہ اٹھتا ہے۔
- اور کوئی ہار مان لیتا ہے۔
زندگی ہمیشہ کوشش (مجاهده) پر کھڑی ہے۔ اللہ نے فرمایا:
“اور جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنے راستوں کی ہدایت دیتے ہیں۔” [العنکبوت: 69]
یعنی راستہ اُنہیں ملتا ہے جو کوشش کرتے ہیں — گِر کر سنبھلتے رہتے ہیں۔ زندگی کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جلدی مکمل کر لیتے ہیں، کچھ کو دیر لگتی ہے۔ یہ نہ کمزوری ہے نہ ناکامی، بشرطیکہ سفر حرکت سے بھرپور ہو، سستی سے نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اپنا شعار بنائیں:
“طاقتور مؤمن، کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، اور دونوں میں بھلائی ہے۔ جو چیز تمہیں فائدہ دے اس کی حرص کرو، اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو”…
اور یہ دعا کثرت سے کریں:
“یا حی یا قیوم برحمتک أستغیث، أصلح لي شأني كله ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين”
(اے زندہ، اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت سے فریاد کرتا ہوں، میرے سارے کام سنوار دے، اور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر۔)
جہاں تک دوسروں کے بارے میں آپ کے منفی جذبات کا تعلق ہے تو کچھ باتیں فطری ہیں، مثلاً لوگوں سے ملنے جلنے میں جھجک۔ یہ ٹھیک ہے، آپ اپنے آپ کو وقت دیں۔ لیکن لوگوں سے نفرت اور حسد، یہ وہ چیزیں ہیں جو بڑھنے نہ دیں۔
قرآن کی یہ دعا پڑھیں:
…”اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رہنے دے”…
اور کوشش کریں کہ جسے کامیابی ملے، اس کے لیے دل سے خیر کی دعا کریں، چاہے ابتدا میں مشکل لگے۔ یہ عادت دل کو پاک کر دیتی ہے۔
مترجم: سجاد الحق