اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک صحیح اور پاکیزہ فطرت ودیعت کی ہے جو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور برائیوں و خبائث سے بچاتی ہے۔ ان خبائث میں سے ایک ہم جنس پرستی بھی ہے، جو آج کے دور میں آگ کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، اور بہت سی ریاستیں اور ادارے نہ صرف اس کی حمایت کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اس کے خلاف ہوں اُنہیں مجرم ٹھہراتے ہیں۔
یہ وبا صرف اسلامی ممالک کو ہی نہیں بلکہ تمام معاشروں کو پریشان کر رہی ہے، اور مختلف دینی، فکری اور سماجی طبقات کے لوگ اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ اس کے پرچارک اسے پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں، اور اب وہ دفاعی کے بجائے اقدامی پوزیشن میں آ چکے ہیں (یعنی بجائے اس پہ نادم ہونے کے، اس پہ فخر کرتے ہیں اور پرائڈ مارچز وغیرہ کرتے ہیں۔ مترجم) یہاں تک کہ اُنہوں نے ان قوانین و شریعتوں کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے جو اس عمل کو حرام اور مجرمانہ قرار دیتی ہیں۔
ہم جنس پرستی ہے کیا؟
عربی زبان میں ہم جنس پرستی کے لیے الشذوذ الجنسی لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
شذوذ: (اسم) شَذُوذ، شُذُوذ… یہ "شذَّ/ شذَّ عن” سے ماخوذ مصدر ہے، جس کے معنی ہیں فطری حالت سے ہٹ جانا، معروف یا رائج قاعدے، شکل یا نظام سے انحراف اختیار کرنا۔
اور "شذوذ جنسی” سے مراد ہے فطری جنسی رویے سے انحراف (1)۔
شذوذ جنسی، جسے "انحراف جنسی” یا "خطل جنسی” بھی کہا جاتا ہے، ایک اصطلاح ہے جو اُن جذباتی اضطرابات کے لیے استعمال ہوتی ہے جو غیر فطری جنسی رویوں، حرکات یا محرکات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، اور جن میں انسان اپنی ہی جنس کی طرف جنسی رغبت محسوس کرتا ہے (2)۔
یہ وہ نام ہے جو تمام غیر فطری جنسی اعمال پر بولا جاتا ہے، جو اس فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یہ اعمال مرد اور مرد کے درمیان واقع ہوں تو انہیں لواط (لواطت) کہا جاتا ہے، اور اگر عورت اور عورت کے درمیان ہوں تو سحاق کہلاتے ہیں۔
اسباب؟
شذوذ (ہم جنس پرستی) ایک نہایت پیچیدہ انسانی رویّہ ہے، اور اس کے پیچھے کئی ایسے اسباب ہوتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گُھل مل کر اس جنسی میلانِ شاذ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اسباب یہ ہیں
• بچپن میں جنسی زیادتیوں کا شکار ہونا۔
• تربیت کی کمزوری، اور شخصیت کی ایسی بنیاد پر عدمِ تعمیر جس میں فضیلت، حسنِ اخلاق اور درست جنسی رجحان سکھایا جائے۔
• بعض والدین کا جنسی تربیت کے بارے میں کم علم ہونا، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے، یا جدیدیت کے اثر میں آ کر انہیں تجربہ کرنے اور خود فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔
• معاشرتی سطح پر اس عمل کی حوصلہ افزائی بھی شذوذ جنسی اور فواحش کے ارتکاب کا ایک بڑا سبب ہے، کیونکہ جب بچہ ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں یہ سب کچھ ایک عام بات کے طور پر ہو رہا ہو، تو وہ بھی اسے فطری سمجھنے لگتا ہے۔
• شخصیت میں پائے جانے والے خلل کی وجہ سے انسان حق و باطل میں تمییز نہیں کر پاتا، اور مکمل آزادی، دینی حدود سے بیزاری اور بے لگام افکار سے متاثر ہو جاتا ہے۔
• فراغت اور دوسروں کی نقل یا محض تجربے کی خواہش بعض لوگوں کو ایسی بند گلی میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔ (3)
اسلام اور ہم جنس پرستی:
اسلامی شریعت، جو قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہ پر مبنی ہے، ہم جنسی رجحان یا جنسی شذوذ کو انسانی فطرت سے انحراف تصور کرتی ہے، اور اسے ایک گناہ اور جرم قرار دیتی ہے، جس پر اس کے مرتکب کو حساب دینا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس قرآنِ کریم میں قومِ لوط کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، اس گناہِ عظیم اور فطری راہ سے ہٹنے کے باعث جو ان کی طرف سے سرزد ہوا تھا۔ حتیٰ کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الجواب الكافي میں اس فعلِ بد کے بارے میں فرمایا:
"اور چونکہ لواط کی خرابی سب سے بڑی خرابیوں میں سے ہے، تو دنیا و آخرت میں اس کی سزا بھی سب سے بڑی سزاؤں میں سے ہے”۔
اللہ تعالیٰ نے جنسی تعلق کے فطری راستے کو بیان فرمایا:
"اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر ( محفوظ نہ رکھنے میں ) وہ قابل ملامت نہیں ہیں”، [المؤمنون: 5-6]۔
اور پھر خبردار کیا کہ جو اس راستے سے ہٹے، وہ جرم کا مرتکب ہے:
"البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں، تو وہی زیادتی کرنے والے ہیں” [المؤمنون: 7]۔
مفسرین کے مطابق، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: "فَمَنِ ابْتَغَى ورَاء ذَلِكَ”
ہر اس جنسی عمل اور لذت کے بارے میں ہے جو جائز نکاح کے دائرے سے باہر ہو۔
چنانچہ اسلام نے ہم جنس پرستی کو حرام قرار دیا کیونکہ یہ انسان کی خداداد فطرت سے انحراف ہے۔ جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا:
"کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو؟ اور تمھاری بیویوں میں تمھارے رب نے تمھارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے گذر گئے ہو” [الشعراء: 165-166]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح فعل پر سخت ترین سزا بیان فرمائی:
"جس کو تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ، تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو” [صحیح ابو داؤد]۔
عالمِ اسلام کے ممتاز عالم، ڈاکٹر یوسف القرضاوی رحمہ اللہ، ہم جنس پرستی کو "فطرت کی الٹ پلٹ، مردانگی کی بربادی، اور عورت پر ظلم” قرار دیتے ہیں، اور ان کے نزدیک "اس پر سخت سزائیں دینا دراصل اسلامی معاشرے کو پاک رکھنے کے لیے ہے”۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور ثمود جیسی اقوام کو ایک ایک سزا دی، لیکن قومِ لوط پر کئی سزائیں نازل فرمائیں: انہیں زمین میں دھنسا دیا، ان کی بستیوں کو الٹ دیا، اور ان پر سنگ باری فرمائی، تاکہ یہ دنیا اور آخرت کے لیے نشانِ عبرت بن جائیں۔
مغرب ہم جنس پرستی کا دفاع کیوں کرتا ہے؟
مغرب میں کلیسا کی ظالمانہ اجارہ داری اور بالا دستی، اور دین کو سادہ جاگیرداروں اور ظالموں کی خدمت میں لگا دینے سے لوگوں کا دین اور کلیسا پر اعتماد اُٹھ گیا، اور یوں لوگوں نے محسوس کیا کہ خدا ظالموں اور جابروں کا ساتھی ہے۔
چنانچہ جیسے ہی صنعتی انقلاب آیا، مغرب نے اپنے مذہبی اصولوں کے خلاف بغاوت کی، اور ہر چیز میں مکمل آزادی کا نعرہ لگا دیا۔
اس بات کے بھی ناقابل تردید شواہد ہیں کہ یہودیوں نے مغرب کے دین اور اخلاق سے آزادی کے مطالبے، اور انحرافی رجحانات کی پشت پناہی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں سب سے بڑے یہودی مذہبی گروہ سے وابستہ ربّیوں نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا، یہ "ریفرم جوڈائزم” تحریک سے وابستہ ربّیوں کی مرکزی کانفرنس میں ہوا۔ کانفرنس کے صدر چارلس کرولوف نے کہا: "ہم جنس پرستوں کو اپنی شادیوں کو تسلیم کروانے اور عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے”۔
وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے ہم جنس پرستی کو گناہ یا جرم نہیں بلکہ بیماری قرار دیا، اور ان لوگوں کو قبول کرنے کی بات کی، تاکہ وہ اپنی زندگی نارمل انداز میں گزار سکیں۔ حتیٰ کہ 1957ء میں برطانیہ میں شائع ہونے والی "ولفنڈن رپورٹ” میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والے تمام قوانین کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔
پھر 1969ء میں ہم جنس پرستی کی دنیا میں ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہوا، اور جیسے جیسے اس کا اثر بڑھا، اور مظاہرے ہونے لگے، سیاستدان ان کے مطالبات کے آگے جھکنے لگے، یہاں تک کہ اب ان کے مطالبات انتخابی منشور کا حصہ بن چکے ہیں۔
بلکہ بین الاقوامی ادارے، جیسے اقوامِ متحدہ نے بھی ان مطالبات کو اپنایا اور دنیا بھر کے ممالک، حتیٰ کہ اسلامی و عرب ریاستوں پر بھی ان کو نافذ کرنے کی کوشش کی، اگرچہ انہیں اس میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
مسئلہ کے حل کے لیے عملی اقدامات:
اگرچہ ہم جنس پرستی کو پھیلانے کی شدید کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن اسلامی تربیت اور شریعتِ اسلامی کی تعلیمات اب بھی ایک عظیم تربیتی پناہ گاہ ہیں جو افراد اور امت کو اس فحاشی کے سیلاب کے آگے سپرانداز ہونے سے بچاتی ہیں۔
اور اس فعل کے جرم ہونے کے باوجود، بہت سے علماء نے اس شخص کی توبہ کو جائز قرار دیا ہے جو اس میں مبتلا ہو چکا ہو اور سزا پانے سے پہلے اس سے رجوع کرنا چاہے۔ ان امور میں سے جو اس مسئلے کے علاج میں مدد دیتے ہیں:
فرد کو اس مسئلے کی سنگینی پہ یکسو ہونا چاہیے اور یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے، یہ نفس اور خاندان کی توہین ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ شریعت کے واضح نصوص سے قطعی طور پر حرام ہے، اور نفسیاتی دفاع کے طور پر انکار یا جواز تراشی کا سہارا نہ لیا جائے، کیونکہ یہی فحاشی میں پڑنے کی ابتدا ہے۔
اللہ کی نگرانی کا احساس اور یہ علم کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، تو یہ اسے حیا کرنے پر مجبور کرے گا۔
یہ یاد رکھنا کہ دنیا کی تمام لذتیں اور خواہشات انسان اُس وقت بھول جاتا ہے جب اسے جہنم میں ایک لمحے کے لیے بھی ڈالا جاتا ہے، اللہ کی پناہ۔
موت کے قریب ہونے کا احساس، پس دیکھو کہ اگر اللہ نے تمہاری روح کو اس نافرمانی کے حال میں قبض کر لیا تو تمہارا انجام کیا ہوگا؟
گناہ گاروں، خاص طور پر اس فعل کے مرتکب لوگوں کی صحبت سے اجتناب اور ان کی جگہ نیک و صالح صحبت اختیار کرنا۔
اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ گڑگڑا کر دعا مانگنا، کیونکہ یہ وہ حال ہے جسے اللہ اپنے بندے میں دیکھنا پسند فرماتا ہے، لہٰذا اس سے دعا کرو کہ وہ تم سے یہ بلا دور کرے، تمہارے دل کو ہدایت دے، اور تمہیں عفت عطا کرے۔

ہم اپنے بچوں کو ہم جنس پرستی سے کیسے بچائیں؟
والدین کا بہت اہم کردار ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جنسی انحراف یا ہم جنس پرستی کے تصور سے بچائیں، اس لیے انہیں درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:
• بچوں کی عملی اور آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ انہیں ہم جنس پرستی کے فروغ، قبولیت اور حمایت کے پیغامات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
• ادیان اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہم جنس پرستی کے خلاف مؤقف واضح کریں، اور ایسے درست شعور کو عام کریں جو ان ذرائع سے آنے والے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرے۔
• بچوں کا فارغ وقت مفید علم حاصل کرنے اور مختلف کھیلوں کی سرگرمیوں سے بھر دیں۔
• بچوں کی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور انہیں مفید کاموں میں استعمال کریں، ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں، اور ان کے لیے نیک نمونہ بنیں۔
• بچوں کے لیے نیک صحبت کا انتخاب کریں، اور ان کی تعلیم کا مسلسل اساتذہ کے ساتھ رابطہ رکھ کر جائزہ لیتے رہیں۔
• والدین کو نوجوانوں کی چھوٹی سے چھوٹی مثبت کاوش پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، انہیں خود کو منوانے کا موقع دیں، صلاحیتوں کو ابھاریں اور اعتماد پیدا کریں۔
• بچے میں خود اعتمادی اور شخصیت کو مضبوط کریں تاکہ وہ مستقبل میں نفسیاتی اور اخلاقی انحرافات سے محفوظ رہ سکے۔
• بچے سے اس کی عمر کے مطابق اس انداز میں بات کریں کہ اسے معلوم ہو کہ اللہ نے آدم کے لیے حوا کو پیدا کیا، اور کہ مرد و عورت کا رشتہ جذباتی اور جنسی لحاظ سے ایک دوسرے کو مکمل کرنے پر مبنی ہے، تاکہ نسل کو باقی رکھا جا سکے اور دونوں جنسوں کے درمیان تعلق کی حدود قائم رہیں۔
• بچے کو خادمہ، ڈرائیور یا کسی بھی شخص کے ساتھ تنہا نہ چھوڑیں، چاہے وہ شخص کتنا ہی قابلِ اعتماد کیوں نہ ہو؛ کیونکہ جب شہوت غالب آتی ہے تو عقل مفلوج ہو جاتی ہے۔
• والدین کو فوراً اپنے بچوں کو بلاواسطہ انداز میں یہ سکھانا چاہیے کہ وہ خود کو جنسی ہراسانی سے کیسے محفوظ رکھیں، جیسے: کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کوئی نہیں چھو سکتا، اور اگر ایسا ہو تو فوراً والدین کو بتائیں۔
• بچے کو خبردار کریں کہ وہ کسی بالغ یا اجنبی کے ساتھ تنہائی والی جگہ یا ایسی جگہ نہ جائے جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو۔
شذوذ جنسی یا ہم جنس پرستی ایک بہت بڑی برائی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے، اخلاقی اقدار کو تباہ کرتی ہے، اور ایک فاسد رویہ ہے، ہمیں اپنے بچوں کو اس سے بچانے کے لیے احتیاط کرنی چاہیے اور وہ تمام تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو انہیں استحصال یا اس عمل میں پڑنے سے بچا سکیں۔
مصادر:
(1) تعريف ومعنى شذوذ في معجم المعاني الجامع
الشذوذ الجنسي في المصطلحات الطبية.(2)
د. محمد عبد العليم: ما هي أسباب الوقوع في الشذوذ الجنسي؟، 1 (3)
فتحي يكن: الإسلام والجنس، طـ2، مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1975، صـ56- 57.(4)
(5)ثورة الشذوذ الجنسي في الغرب تهدد العالم الإسلامي
(6)مركز الأزهر العالمي للرصد والفتوى الإلكترونية: وسائل نافعة لعلاج الشذوذ، 21 ديسمبر 2004،
بسام رمضان: 6 نصائح لحماية الأبناء من الشذوذ الجنسي، وانظر أيضا: ك(7)کيف تحمي طفلك من الشذوذ الجنسي؟.
مترجم: زعیم الرحمان