اسلامی تربیت نے ازدواجی زندگی کے ایسے اصول متعین کیے ہیں جن سے نکاح کا رشتہ محبت، رحمت اور باہمی مشاورت کی بنیاد پر قائم رہے، اور بیوی کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد، بدسلوکی، سختی یا بےجا درشتی سے دوررہا جائے۔ یہی چیز اسلامی تربیت کو دیگر ثقافتوں کے ماحول اور روایتوں سے ممیز کرتی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ خاندان ہی ایک متوازن معاشرتی زندگی کی بنیاد اور ایک مکمل معاشرے کی اساس ہے؛ اگر خاندان درست ہو جائے تو معاشرہ درست ہو جاتا ہے، اور اگر بگڑ جائے تو معاشرہ بھی بگڑ جاتا ہے۔
ڈاکٹر حیاۃ بنت عبدالعزیز محمد نیاز نے اپنی ایک تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بعض گھرانوں میں بیویوں پہ شوہروں کے تشدد کے اسباب کیا ہیں اور یہ تشدد کن کن صورتوں میں عورت کو برداشت کرنا پڑتا ہے، نیز اسلامی تربیت اس مسئلے سے نمٹنے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
گھریلو تشدد کی اقسام:
عورت پر تشدد کی چار اقسام ہیں۔
جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور معاشی تشدد۔
جسمانی تشدد: ان تمام اقسام میں سب سے زیادہ معروف جسمانی تشدد ہے۔ کم درجے سے لے کر انتہائی درجے کے جسمانی تشدد کے حملوں کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں، جیسے زور سے دھکا دینا، لات مارنا، ہاتھ یا کسی آلے سے مارنا، گلا گھونٹنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، جلانا یا داغنا، رسیوں سے باندھنا، چہرے پر مکے مارنا، کوڑے یا لکڑی یا کسی نوکیلی چیز سے مارنا، جس کے نتیجے میں مختلف قسم کی علامات اور اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
نفسیاتی تشدد: دوسری قسم نفسیاتی تشدد کی ہے، جو سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ ہر قسم کے تشدد کا لازمی نتیجہ ہے۔ خواہ جسم متاثر ہو یا معاش و معاشرت، نفسیاتی دباؤ ساتھ ہی منسلک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کے نتیجے میں جو نفسیاتی اثرات پیدا ہوتے ہیں، وہ بہت شدید ہو سکتے ہیں، اور ان کے اثرات کا تعین کرنا آسان نہیں ہوتا، بلکہ ان اثرات کو سمجھنے کے لیے ہی ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں سنگین نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں، جیسے افسردگی طاری رہنا، خود میں بند ہو جانا، احساسِ کمتری، منفی سوچ اور بے بسی کا احساس، ہمہ وقتی اضطراب وغیرہ۔
نفسیاتی تشدد ایسا کوئی بھی عمل ہے جو کسی کو نفسیاتی یا جذباتی طور پر اذیت پہنچائے، خواہ اس کے جسم پر ظاہری زخم ہوں یا نہ ہوں۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً دھمکیاں دینا جو متاثرہ کے جذبات کی توہین اور تکلیف کا باعث ہوں، یا اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس کی زندگی پر کنٹرول قائم کرنا، جیسے یہ طے کرنا کہ وہ کہاں جائے، کس سے ملے اور کس سے بات کرے۔ اسی طرح خوف و دہشت پیدا کرنا، ڈرانے والی نظریں، حرکات یا اشارے کرنا، چیخنا چلّانا، گالیاں دینا، یا لاپرواہی و بے اعتنائی برتنا، نظرانداز کرنا، اور دیکھ بھال و توجہ سے محروم رکھنا۔
سماجی تشدد: اس سے مراد وہ سماجی گھیراؤ اور مقاطعہ ہے جو شوہر بیوی پر مسلط کرتا ہے۔ بیوی پردوست احباب اور اعزاء و اقارب سے ملنے پہ پابندی عائد کرنا، اسے ان محافل سے دور رکھنا جہاں جانے میں شرعی قباحت نہ ہو، یا پھر اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا اور اس کی برائیوں کو مشتہر کرنا وغیرہ سماجی تشدد ہے کیوں کہ یہ سماجی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
معاشی تشدد: اس سے مراد فرد پر مالی دباؤ ڈالنا، اسے تابع یا مالی طور پر استحصال کا شکار بنانا یا اس کے مال پہ بزور قبضہ کرنا ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً بیوی کے مال پر قبضہ کرنا، اس کے خرچ پر پابندی لگانا، اسے نوکری کرنے یا روزگار حاصل کرنے سے روکنا، اس کی ذاتی چیزیں یا جائیداد تباہ کرنا، اور بیوی کو نفقے یا مالی حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا۔
گھریلو تشدد کے اسباب:
دینی اسباب: جیسے دینی جذبے کی کمزوری، ربانی راستے سے انحراف، گناہوں کا ارتکاب، شوہر کا نشہ آور اشیاء کا استعمال اور منشیات کی لت، گھریلو تعلقات میں حدودِ الٰہی کی عدم پابندی، اور گھر کی بنیاد اسلامی شریعت کے اصولوں پر نہ رکھنا، مثلاً شوہر اور بیوی کے انتخاب کے اصولوں کی پامالی اور نکاح میں رضامندی کے حق کو نظرانداز کرنا۔
ثقافتی اسباب: جیسے جہالت، تعلیمی معیار کی کمی، دوسروں کے ساتھ برتاؤ کے طریقے سے نا واقفیت، اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے لاعلمی۔ یہ جہالت دونوں فریقوں میں ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیوی اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہتی ہو اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ شوہر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرجاتا ہو۔ یہ ناواقفیت حد سے تجاوز اور ظلم کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ شوہر اور بیوی کے درمیان بہت زیادہ فرق ہو تو اکثر تناؤ اور عدم توازن رہتا ہے۔ (فرق سے مراد کفو نہ ہونا)
اخلاقی اسباب: جن کا خلاصہ یہ ہے کہ شادی اور خاندانی تعلقات خالصتاً مادی بنیادوں پر قائم کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اعتماد کی کمی، خیانت، شک اور حد سے زیادہ غیرت جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح بدخلقی، حلم، رحم، ایثار اور دوسروں سے محبت جیسے اخلاق سے دوری، خود غرضی اور انانیت یعنی اپنی ہی ذات کے گرد گردش کرنے کا رویہ بھی تشدد کے اسباب میں شامل ہے۔
نفسیاتی اسباب: جیسے میاں بیوی میں سے کسی ایک کا نفسیاتی یا اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہونا، یا دونوں کے درمیان جذباتی اور نفسیاتی عدم ہم آہنگی کا پایا جانا۔ اسی طرح معاشی دباؤ، جو شوہر اور بیوی دونوں پر نفسیاتی اثر ڈالتا ہے، اور بعض اوقات وہ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر غصہ نکالتے ہیں۔
معاشی حالات کی خرابی: جیسے شوہر کا بے روزگار ہونا، خاندان کی کمزور اقتصادی حالت، (خاص طور پر زیادہ کثیر العیال گھرانوں میں)، یا مہنگائی میں اضافہ، جو براہِ راست خاندان کے معیارِ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی اور گھریلو سکون کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اکثر اوقات گھر کے اخراجات پورے کرنے کے مسئلے پر جھگڑا شروع ہوتا ہے جو بڑھ کر مارپیٹ تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے غلط طرزِ فکر بھی ایک سبب ہے، جس کے زیرِ اثر شوہر نان و نفقے کے حق کو عورت پر احسان سمجھ کر اسے مالی طور پر کمتر اور ذلیل کرنے کا جواز بناتا ہے۔
تربیتی اسباب: بعض اوقات شوہر کے بیوی پہ تشدد کرنے کی وجہ اس کی غلط نہج پہ تربیت ہوتی ہے۔ اگر وہ سخت یا پرتشدد تربیت کے ماحول میں پلا ہو تو وہ خود بھی اس کا شکار بنتا ہے۔ اس سے اس کی شخصیت کمزور، مضطرب اور اعتماد سے خالی بن جاتی ہے، جس کی تلافی وہ مستقبل میں دوسروں، خصوصاً اپنی بیوی یا بچوں پر تشدد کر کے کرتا ہے۔ بعض اوقات شوہر نے بچپن میں اپنے والد کو اپنی والدہ پر تشدد کرتے دیکھا ہوتا ہے، جس سے وہ بیوی کے احترام و قدر کو نہیں سمجھتا اور اس سے سختی و بدسلوکی سے پیش آتا ہے۔
برے رفقاء: جو خاندانی تعلقات میں خطرناک کردار ادا کرتے ہیں، یا تو فرد کو پرتشدد رویّہ سکھا کر، یا پھر گھریلو تعلقات میں منفی مداخلت کے ذریعے، جس سے میاں بیوی کے درمیان تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
بیوی بذاتِ خود: بعض اقسام کے تشدد اور ظلم کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے، کیونکہ وہ اکثر اس ظلم کو برداشت کر لیتی ہے، اسے درگزر یا خاموش ردِعمل کے قابل سمجھتی ہے۔ اس رویّے سے شوہر مزید جری اور بےباک ہو جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت زیادہ نمایاں ہوتی ہے جب بیوی کے پاس پناہ لینے والا یا اس کا دفاع کرنے والا کوئی نہ ہو۔
متعدد ذمہ داریاں: جو بیوی پر ڈال دی جاتی ہیں جب کہ شوہر گھریلو ذمے داریوں کی تقسیم میں اُس کا ساتھ نہیں دیتا۔
بعض رسوم و روایات کی بالادستی: جو دین سے دور ہیں مگر اُس کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں، اور شوہر کو بیوی پر غلبہ، اختیار اور اس کی مرضی سلب کرنے کا حق دیتی ہیں، جب کہ بیوی کو ان سب پر لامتناہی صبر، برداشت اور اطاعت کا عادی بنا دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کا بھی نمایاں کردار ہے جو اس امتیاز کو مضبوط بناتے اور بیوی پر تشدد کے مختلف رویوں کو اپنے پروگراموں میں قابلِ قبول انداز میں پیش کر کے غلط استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی تربیت کے ذریعہ گھریلو تشدد کی روک تھام:
اسلام کی جانب سے خاندان کے ساتھ حسنِ سلوک کی ایک نمایاں مثال وہ قرآنی اور نبوی ہدایات ہیں جنہوں نے ایسے ذرائع اور طریقے متعین کیے جو خاندان کو اُس تناؤ اور جھگڑوں سے محفوظ رکھتے ہیں جو بیوی پر تشدد یا اُس کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں، تاکہ گھر کا استحکام قائم رہے اور میاں بیوی کے درمیان محبت و رحمت برقرار رہے۔ ان ہدایات میں سے چند یہ ہیں:
اچھے شریکِ حیات کا انتخاب: یہ ازدواجی زندگی کی کامیابی اور اسے تشدد و اسبابِ تشدد سے محفوظ رکھنے کی ضمانت ہے۔ انتخاب کی بنیاد عقیدہ کی درستی، حسنِ اخلاق، فطرت کی پاکیزگی اور عزت و شرف ہونا چاہیے، تاکہ میاں بیوی دونوں کو مکمل خوشی نصیب ہو اور اولاد کو بہترین اسلامی تربیت ملے۔
نکاح سے قبل دونوں فریقوں کی رضامندی: زبردستی نکاح سے سختی سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ نکاح ایک مضبوط عہد ہے جس میں مکمل ارادہ اور حقیقی رضا مندی ضروری ہے۔
مرد و عورت دونوں میں دینی احساس اور خدا ترسی کی تربیت: دونوں کو ان کے شرعی حقوق و فرائض سے آگاہ کرنا۔ دینی احساس سے مراد خود احتسابی، اللہ کی نگرانی کا احساس، اور اُس کے سامنے جواب دہی کا شعور ہے۔ یہ شعور مرد کو ظلم سے روکتا ہے اور اسے شرعی حدود پر قائم رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
بیوی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا اور غیرت میں اعتدال: غیرت فطری جذبہ ہے جو بیوی کو غیر مردوں سے تعلقات میں احتیاط برتنے پر آمادہ کرتا ہے، اور میاں بیوی کے درمیان مزید محبت و گرمجوشی پیدا کرتا ہے۔ جب کہ بے حسی یا سرد مہری کو اکثر بے توجہی یا حتیٰ کہ عدمِ محبت سمجھا جاتا ہے۔
بیوی سے حسنِ سلوک: جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں”۔ کیونکہ ازدواجی زندگی میں ایمان کا معیار بیوی سے اچھے سلوک میں ہے۔ نیز فرمایا: “ایمان کے لحاظ سے سب سے کامل مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر اور اپنے اہل کے لیے سب سے نرم دل ہو”۔
لہٰذا شوہر کو عورت کی نفسیات اور احساسات کو سمجھ کر عقل و دانائی سے برتاؤ کرنا چاہیے، اور اسے جھگڑوں کے اسباب سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔
بیوی کی اصلاح میں نرمی و لچک: عورت کے ساتھ برتاؤ مرد کے ساتھ برتاؤ سے مختلف ہے، اسی لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ نرمی و حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اُس کا اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، لہٰذا عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔”
علاج میں تدریج: اسلام نے اُن عورتوں کے علاج کے لیے تدریجی طریقہ بتایا ہے جو شوہر کے حقوق سے سرکشی کی کوشش کرتی ہیں، جس سے خاندان میں بگاڑ اور تباہی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کا علاج مرحلہ وار ہے، اور شوہر کو اگلے مرحلے میں جانے کی اجازت تب ہی ہے جب پہلا مرحلہ مؤثر نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاوٴ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔ [النساء: 34]
تربیتی تجاویز:
یہ ضروری ہے کہ میاں بیوی دونوں ایسے تربیتی کورسز میں شریک ہوں جو ازدواجی حقوق و فرائض کی آگاہی، نفسیات کی سمجھ، اور ازدواجی اختلافات کے نظم و نسق کے فن سے متعلق ہوں۔
میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ باہمی تعلقات میں حسنِ سلوک اور انسانی رفاقت کی اچھی مثالیں پیش کریں تاکہ بچوں میں تشدد یا سختی کا تصور پیدا نہ ہو۔
مدارس اور جامعات کو چاہیے کہ بیوی پر تشدد اور اس کے سدِّباب کے بارے میں آگاہی پروگرام منعقد کریں۔
مساجد کو چاہیے کہ گھریلو تشدد کے خطرات اور اس کے خاندانی و سماجی نقصانات سے متعلق شعور عام کریں۔
جامعات پر لازم ہے کہ گھریلو تشدد کے موضوع پر ہونے والی تحقیقی کاوشوں کی سرپرستی کریں اور ان کے لیے مالی معاونت فراہم کریں۔
ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ بیویوں کے شرعی و قانونی حقوق سے متعلق آگاہی پروگرام زیادہ سے زیادہ نشر کریں اور ایک جامع ابلاغی منصوبہ ترتیب دیں جو گھریلو تشدد کے مسئلے پر روشنی ڈالنے کو اپنا مقصد بنائے۔
مترجم: زعیم الرحمان