السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاته
کیا اسلام مردوں کو عورتوں پر ترجیح دیتا ہے؟
اس بات کا کیا مطلب ہے کہ مردوں کو ان پر ایک درجہ (برتری) حاصل ہے؟
کیا عورت کو مرد کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟
مرد کو تعدد ازدواج کا حق حاصل ہے اور اس کے لئے آخرت میں خوبصورت حوریں بھی ہیں۔ عورتوں کی اکثریت اس لئے جہنم میں جائے گی کہ وہ اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں۔ شوہر کو اپنی بیوی پر فوقیت حاصل ہے، وہ اسے اپنے گھر والوں کے پاس جانے سے روک سکتا ہے۔ جس کی صرف بیٹیاں ہوں جب اسے اپنی بیٹیوں میں سے کسی کی مدد کی ضرورت ہو، انہیں اپنے شوہر کی اجازت درکار ہوتی ہے جب کہ اسے اپنے خاندان کی خدمت کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی! پھر ہم کہتے ہیں: عورتوں سے خوش رہو؟!
قرآن میں ہے: { ۔۔۔ جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھے ہیں، اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے…}، لیکن مردوں کے لیے: {… جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو…}، عورت کو کہا گیا کہ چار ماہ تک صبر کرے اور مرد کو اسے مارنے تک کا اختیار دیا گیا ہے؟!
یہاں تک کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت پر مالی ذمہ داری ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کا گھرسے باہر کام پر چلے جانا مرد کی اجازت پر منحصر ہے، چاہے پھر وہ کتنی ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو، کچھ حضرات اس پر فخر کرتے ہیں کہ مرد کو شادی کے نتیجے میں آمرانہ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں! کیا یہی اسلام ہے؟!
معزز مہماننان کو بین الاقوامی فورم برائے تعلیم و تربیت میں خوش آمدید۔
ہمیں ایسے سوالات پر گفتگو کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے جو سمجھنے کی خواہش پر مبنی ہوں، نہ کہ محض ٹرولنگ کی خواہش پر۔ کسی بھی ایسے سوال میں کوئی حرج نہیں جو مقاصد اور قانون سازی کو سمجھنے اور اس سے متعلقہ کوئی بھی ابہام دور کرنے میں مدد دے۔
ہم یہاں لوگوں کے اعمال سے اسلامی احکام اخذ کرنے کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ بعض مردوں کے غیر منصفانہ برتاؤ کی وجہ سےبہت ساری خواتین ظلم کا شکار بنتی ہیں۔ لہذا حجت شریعت کے احکام ہیں، نہ کہ لوگوں کا تعامل اور برتاؤ۔
جو شخص اپنی بیوی کی عزت کرتا ہے وہ اسلام کے قوانین کا احترام کرتا ہے اور جو بیوی کو اس کے حقوق سے محروم کرتا ہے، اسلام اس کے رویے سے بری الزمہ ہے، لہذا ہمیں کسی فرد کی بے عملی اور بد چلنی کی وجہ سے ایک نظام کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے اور نہ کسی فرد کا ذاتی عمل کسی نظام کی خرابی کا ثبوت بن سکتا ہے۔ جو بھی شخص مردوں کی نفسیات سے واقف ہوگا وہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا!
نظام اور قانون سازی حقوق اور فرائض کو واضح کرتی ہے اور میاں بیوی کے درمیان موافقت کی ترغیب دیتی ہے، اور جو کوئی اس کے برعکس کرتا ہے اس کی اصل وجہ نظام و قانون کو نہ سمجھنا، یا اس نظام کے اصول و ضوابط کو اچھی طرح عملانے سے ناواقفیت ہے۔
عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا، مرد کے لیے نہیں، بلکہ وہ دنیا کی ویرانی سے اس کے لیے آسودگی پیدا کرنے کے لئے پیدا کی گئی، اور ابتدائے تخلیق سے لے کر آج تک عورت مرد کے لیے ناگزیر ہے، اور مرد عورت کے لیے ناگزیر ہے۔
قرآن شادی بیاہ کو پیار، محبت اور رحمت سے متصف کرتا ہے: {…اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی…}، اسی طرح رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، کیونکہ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں، اور سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے بیٹھو تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی رہے گی، لہٰذا عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو)۔
پھر قرآن نے میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی شکل کو ترتیب دیا اور ان میں سے ہر ایک کے لیے حدود و قیود مقرر کر دیے۔ قرآن نے جب مرد کی ولایت (قوامیت) کی بات کی تو اسے دو باتوں کے ساتھ مقید کردیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {۔۔۔ مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں…}، علماء نے خواتین کے مفادات کی رعایت کرتے ہوئے اس ذمہ داری کی وضاحت کی۔ پس لفظ [قوام]، قام سے صیغہ مبالغہ ہے جس سے مراد کھڑا ہونا ہے۔ یعنی مرد ذمہ دار ہے، وہ عورت کی دیکھ بھال کرنے والا ہے، وہ عورت کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے، نہ کہ اسے قیدی بناکر اسے کنٹرول کرنے والا اور اس پر اپنا رعب قائم کرنے والا، جیسا کہ بعض کج فہم سمجھتے ہیں۔
بلکہ علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے مرد کی صحت بگڑ جائے تو عورت اس وقت سرپرست اور قوام بن جاتی ہے کہ اب مرد کی حفاظت بھی عورت کے ذمے ہے، لہذا یہاں ذمہ داریاں منتقل ہوگئیں۔ مثال کے طور پر، اب ایک عورت ایک زمینی گھر سے دوسرے گھر میں جانے کا فیصلہ کر سکتی ہے، کیونکہ اب اس کا شوہر اسے چور یا دوسرے کسی خطرے سے بچانے سے قاصر ہے۔ اس لیے شوہر کے لیے اس کی مخالفت کرنا درست نہیں، کیونکہ اگر ان کے ساتھ کچھ برا ہوا تو وہ عورت سب سے آگے ہو گی، خدا نہ کرے۔
ہاں، وہ اس کی رائے اور مشورے کو خندہ پیشانی سے قبول کرلے گی، اور اسے انکار یا ہٹ دھرمی کا حق نہیں ہے، اسی طرح اگر وہ خرچ کرنے سے عاجز ہو اور وہ خرچ کرنے والی ہو، تو فیصلے لینا اور ذمہ داری بھی اسی پر آتی ہے۔ یہ وہ ولایت اور اختیار ہے جو مطلق نہیں ہے، اور نہ شرف و منزلت کیلئے ہے، بلکہ یہ ذمہ داری اٹھانے اور گھر کا نظم و نسق جاری رکھنے پر مبنی ولایت ہے۔
ایک مغربی ملک میں ایک کانفرنس کے دوران کسی نے حاضرین سے مخاطب ہوکر مرد کی قوامیت کے حوالے سے ایک کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی تو حاضرین میں سے کسی نے اس سے پوچھا: اگر تمہارے گھر میں کوئی چور داخل ہو جائے تو اس کا مقابلہ کرنے اور گھر والوں کی حفاظت کے لیے کون کھڑا ہو گا؟ زیادہ تر کا جواب تھا: مرد۔
دنیا کی بیشتر تہذیبیں علمی اور عملی طور پر اپنی نصرت و حمایت کیلئے مرد کے سینے پر جمع ہوتی ہیں۔ اب جو کوئی بھی ان شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے وہ متن سے الفاظ نکالتا ہے اور ان کو ایسے مقاصد کے لیے خارجی معانی پہناتا ہے جو اکثر بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {…اور مردوں کو ان (عورتوں) پر ایک درجہ حاصل ہے…}؛ قرآن کے ترجمان اور امت کی روشنائی/ سیاہی حضرت ابن عباس نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “درجہ” کا مطلب یہ ہے کہ مرد کا اپنی بیوی کو اس کے بعض فرائض کی وجہ سے مستثنیٰ رکھنا اور اس کی طرف سے اس کو صرف نظر کرنا اور جو اس پر واجب ہیں اسے بہ تمام و کمال انجام دینا۔ اس آیت کا یہ حصہ اس آیت سے ماخوذ ہے: {۔۔۔ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں، اُنہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے، اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں، البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔۔۔}‘‘ (البقرۃ: 228)۔
شریعت نے عورتوں کے حقوق اور فرائض کا معقول انداز میں ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ: ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔‘‘ پھر مردوں کو یاد دلایا کہ وہ عدت کے دوران عورت کو اس کے علم میں لائے بغیر واپس کرنے کا اپنا حق چھوڑ سکتے ہیں۔ شریعت نے مردوں کو واپس کرنے کا یہ اختیار گھر کو بچانے کیلئے دیا ہے کہ خاندان کو محفوظ کیا جائے اور اسے نہ ٹوٹنے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی مرد کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ اگر اسے بیوی کی طرف سے قبولیت نہ ملے تو وہ اس حق سے دستبردار ہو جائے، کیونکہ اگر عورت اپنے غصے اور نرمی کی حالت پر قائم رہے تو نکاح مستحکم نہیں ہوگا۔
شریعت میں اہداف ہمیشہ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں اور کوئی ایک قانون دوسرے سے متصادم نہیں ہے، اور شریعت مردوں کو عورتوں پر فوقیت نہیں دیتی، وہ اس چیز سے بالکل پاک ہے، اسلامی شریعت جانتی ہے کہ ایک فرد کی بھلائی کس میں ہے اور اس کے لئے کیا صحیح ہے اس لیے وہ ہر اس معاملے کے لیے قانون سازی کرتی ہے جس میں فرد اور معاشرے کی بھلائی ہے۔
جب ہم کوئی ڈیوائس خریدتے ہیں، تو ہم کیٹلاگ میں دی گئی آپریٹنگ ہدایات پر عمل کرتے ہیں، اور جو بھی اپنے دماغ کو مینوفیکچرر (انجینئر) کی ہدایات سے ہٹ کر استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اسے مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو پھر ہم شرعی نصوص میں مذکور احکامات سے کیوں منہ موڑ لیتے ہیں، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ صرف ہمارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لئے کون سی ہدایات ٹھیک ہیں! ہاں، ہم اپنے ذہن کو ضرور استعمال کریں اور سوچ وبچار کرنے میں اپنے کو مشغول رکھیں، لیکن طریقہ کار کے خالق، قادر مطلق میں اپنے یقین کی حدوں کے اندر رہتے ہیں۔ تو پھر ہم کیوں متن اور قانون سازی سے منہ موڑ لیتے ہیں، جب ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف خدا کے علم میں ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے! ہاں، ہم اپنے ذہن کو سوچنے اور سوال کرنے میں مشغول رکھیں اور سوالات اٹھائیں، لیکن یہ بھی انہی حدود کے تحت ہوں جو رب العالمین نے ہمارے لئے مقرر کئے ہیں۔
ان دو آیات کے درمیان آپ کا تقابل کہ: {جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ..}، اور: {…اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھاؤ اور خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو اور مارو…}، آپ ان اختیارات کے انکاری ہیں اور حیران ہو جاتے ہیں جو شریعت مردوں کو دیتی ہے، جیسے عورت کو ترک کرنا، اسے نصیحت کرنا اور مارنا، اور یہ کہ عورتوں کو چار مہینے تک ترک کرنا، گویا آپ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ مرد کے پاس ہے، پھر عورت کے ہاتھ میں کیا ہے؟
اولاً: جب شریعت شوہر کو بیوی کو چھوڑنے کا اختیار دیتی ہے تو یہ اس کی تادیب کیلئے ہے، اور ایک سمجھدار آدمی اس اختیار کو ضرورت کے علاوہ استعمال نہیں کرے گا، اور شریعت نے پھر اس مدت کا تعین خود کیا ہے، اور اسے مقید کیا ہے۔ اللہ پاک، جو کہ بندوں کے احوال کو جانتے ہیں، نے اس کی وہ مدت مقرر کی ہے جس دوران بیوی شوہر سے دور رہنے کو برداشت کر سکتی ہے۔ اس نے شوہر کو یہ بھی تاکید کی کہ اس مقررہ مدت سے ایک دن زیادہ اس کا حق نہیں ہے، بلکہ عورت اپنے شوہر کی شکایت جج کے پاس کر سکتی ہے جو اسے فوراً طلاق دے کر نئی عدت کے بغیر کسی اور سے شادی کر سکتی ہے، تاکہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ ہیرا پھیری نہ کرسکے، اس طرح دونوں فریقین کے حقوق محفوظ رہیں گے۔
جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے، تو اس میں ازدواجی تعلق میں بے وفائی پر بات کی گئی ہے۔ شریعت نے یہاں بھی مار پیٹ سے بات شروع نہیں کی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {… انہیں سمجھاؤ اور خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو اور مارو…}۔ جب شوہر کو بے وفائی شروع ہونے کا شبہ ہو تو وہ پہلے نصیحت کرنے اور پھر بیوی کے باز آنے تک اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ وہ باز آئے۔ اگر یہ بدستور اپنی روش پر قائم رہے، تو پھر جسمانی مارپیٹ کی باری آتی ہے۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ مارپیٹ زیادہ سنگین نہ ہو اور ایسے طریقے سے مارنا جو تکلیف دہ نہ ہو اور توہین آمیز نہ ہو، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مارپیٹ سے مراد مسواک سے مارنا ہے۔
جیسا کہ مفسرین وضاحت کرتے ہیں، قرآن میں امر(حکم) کا مطلب ہمیشہ فرض یا واجب نہیں ہوتا، امر کا صیغہ کبھی کبھار جواز یا اجازت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ پھرمار پیٹ بے وفائی کے سیاق میں آئی ہے اور اس سے پہلے نصیحت اور علاحدہ کرنے کا حکم ہے، اور مار پیٹ کے زمرے میں یہ تصریح کی گئی کہ یہ تکلیف دہ یا ذلت آمیز نہیں ہونی چاہیے۔ یہ عام فہم میں سمجھی جانے والی مار پیٹ کی طرح نہیں ہے، بلکہ بعض ممالک میں اگر شوہر اس وجہ سے بیوی کو مارتا ہے اور بیوی شوہر کی شکایت جج سے کرتی ہے تو جج شوہر کو مارنے کا حکم دیتا ہے۔
وہ شوہر جو مار پیٹ کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے وہ شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ایک بہترین نمونہ موجود ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ’’اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کبھی کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ عورت کو، نہ کسی نوکرکو۔ سوائے اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران۔ اور نہ کبھی کسی سے کوئی انتقام لیا، الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا گیا تو وہاں پر اللہ کے لئے انتقام لے لیا‘‘ (رواہ مسلم)، جس نے ہدایت سے انحراف کیا تو تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔
معزز سائل: جب شریعت نے عورتوں کو کام کرنے کا حق دیا، انہیں مالی طور پر ذمہ دار بنایا، اور مردوں اور عورتوں کو اپنے گھر والوں کی یکساں عزت کرنے کا حکم دیا، تو اس نے اس احسان کو صرف ایک ضابطہ کی پابندی سے جوڑ دیا، جس سے بیوی کی پہلی ترجیح اپنے گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاندان کی عزت اور خاندانی تعلقات کو برقرار رکھنے میں تاخیر کرے اور پس پشت ڈال دے۔ اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاندان کی عزت اور خاندانی رشتوں کو ہمیشہ کے لئے کوئی ترجیح نہ دے، اگر شوہر اس معاملے میں اسے روکے تو یہ اس مرد کی غلطی ہے نہ کہ شریعت کی۔
بعض اوقات جب شوہر گھر میں اور اپنے حقوق میں کوتاہی دیکھتا ہے تو وہ روک تھام کا ہتھیار استعمال کرتا ہے، لیکن ہم اس راست باز شخص کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، جو اس طریقہ پر عمل کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بیوی کے گھر والوں کی عزت خود بیوی کی عزت کے لیے کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “عورت کی زیادہ عزت وہی مرد کرتا ہے جو سخی ہو۔”
اگر ہم ان معاملات کو صرف حقوق و فرائض کے آئینے کے طور دیکھیں گے تو تصادم اور تناقض پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ فرائض میں غفلت ایک ایسی چیز ہے جو وقت کی کمی یا بعض اوقات دل کی تنگی کی وجہ سے ہو سکتی ہے، اس لیے فریقین کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرمی اور رحمدلی کے ساتھ ان معاملات سے نمٹیں۔ اور ایک ہوشیار عورت ایک مرد کے دل کو بہت آسانی سے حاصل کر سکتی ہے، اگر وہ مرد کے دل میں اپنی جگہ بنانے کے گرسیکھ لے، اور خدا سے ڈرے، تو وہ یقیناَ احسان اور نیکی کا بدلہ حاصل کرلے گی۔
میدان اُن چیزوں سے بھرا ہوا ہے جو انسان کے دین اور عقیدے کو خراب کرتی ہیں۔ اس قسم کے شکوک و شبہات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کیے بغیر پھیلانا انسان کو تکلیف دیتا ہے، اور یہ عقیدے کو خراب کرتی ہیں۔ اور ان لوگوں کی روزی خراب ہو جاتی ہے جو اپنے حالات سے مطمئن ہیں، اسی لئے ہم پر لازم ہے کہ ہمیں ہر اس بات پر دھیان دینا چاہئے جو کہی جاتی ہے، اسے اپنے ذہنوں میں منتقل کرنا چاہئے، اور جس چیز پر ہمیں شک ہے اس کے بارے میں پوچھنا چاہئے، سوال کرنا چاہیے۔ اور جو کچھ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت ہمیں حکم دیتی ہے، اس پر عمل کریں، نہ کہ ان فلسفیانہ موشگافیوں پر توجہ دیں جو جعلسازی کی بنا پر پھیلائی جارہی ہیں۔
عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آخری وقت میں نصیحت فرمائی ہے، جیسا کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صراحت فرمائی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں اور کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کی کوشش کریں، اور اس بات کا یقین رکھیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہ واقعی اس کے بندوں کی بھلائی کے لیے ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مشکوک اور مردود ہے۔
خدا ہمیں اور آپ کو ان لوگوں میں شامل کرے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس پر یقین کریں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی ہے اس میں خیر اور بھلائی ہے۔
اے ہمارے رب، ہم سے جو تو چاہتا ہے وہ ہمیں کرنے کی توفیق دے اور مسلمان مردوں اور خواتین کو تیرے دین پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ان کے دلوں میں الفت و محبت ڈال دے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات درست کردے، تو پاک ہے، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا۔