عبد الرحمن الکواکبی کے افکار میں تربیت کا موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس درجے تک کہ انہوں نے تعلیم و تربیت کو استبداد کی مزاحمت اور اس کے خاتمے کی واحد سبیل بتایا ہے۔ اور پھر اسی چیز (تعلیم و تربیت) کو پسماندگی سے نکلنے کا واحد ذریعہ بھی بتایا ہے۔ ان کے خیال میں جہالت کا علم پر اور نفس کا عقل پر غالب آنا استبداد (ظلم) کی سب سے قبیح شکل ہے۔
زیان عاشور الجلفہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس سوشل سائنس اینڈ ہیومینیٹیز کے محقق بومانہ محمد نے الکواکبی کے ان تصوارت پر بحث کی ہے جو استبداد اور تربیت کے آپسی تعلق سے متعلق ہیں۔ اسی لئے اس مقالے میں ہم کچھ مسائل اور اشکالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اس حسّیت اور بیداری پر دلالت کرتے ہیں، جو کہ دونوں کواکبی کا امتیازی وصف ہیں۔
استبداد کی مزاحمت الکواکبی کی نظر میں:
عبدالرحمن الکواکبی جدید عرب دنیا کے اصلاحی علماء میں سے ایک ایسے نامور مصلح ہیں جنہوں نےعالم عرب کو درپیش مسائل کے بارے میں لکھا، اس کی مشکلات کو محسوس کیا اور لوگوں کو ان سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ الکواکبی نے اپنی ساری زندگی اسی کام کے لئے وقف کر دی تھی اور اسی کام میں اپنی جان بھی گنوا بیٹھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی اچانک موت کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
کواکبی نے بڑی ہمت اور بہادری سے اس پسماندگی کے مسئلے پر اظہار خیال کیا جس سے مسلم دنیا دوچار تھی، بالمقابل اس مغربی دنیا کے جو مادی طور پر دن بہ دن ترقی یافتہ ہوتی جا رہی تھی۔ ایک طویل اور گہرے غور و فکر کے بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ پسماندگی کے اس مسئلے کے کچھ داخلی اور موضوعی اسباب بھی ہیں جن کی وضاحت انہوں نے اپنی دو مشہور کتابوں (طبائع الاستبداد و مصادر الاستبداد اور ام القری) میں کی ہے۔
ان کتابوں میں الکواکبی نے کافی اسباب کا تذکرہ کیا ہے جو مجموعی طور پر مسلمانوں کو اس خستہ اور زبوں حالی تک لے آئے تھے۔ انہوں نے ان اسباب کوسیاسی، دینی، اخلاقی اور تربیتی خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ الکواکبی کے نزدیک اس پسماندگی کا واحد علاج استبداد کی مزاحمت اور اس کا خاتمہ ہے۔
کواکبی کی نظرمیں استبداد اور تربیت میں اس درجہ دشمنی و تضاد ہے کہ یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مستبد (استبداد کرنے والے) علم کو نا پسند کیوں کرتے ہیں؟
الکواکبی نے اس سوال کے کئی جواب دئے ہیں جن میں سے ایک جواب یہ ہے کہ مستبد کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ علم کے ساتھ استبداد قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ مستبد کتنا ہی بے وقوف کیوں نہ ہو وہ یہ بات اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے کہ ظلم و استبداد اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک لوگ بے وقوف ہیں اور جہالت کے اندھیرے میں ہیں۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ظالم کے مفاد میں یہ ہے کہ لوگ سراسر جاہل بنے رہیں۔
کواکبی اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح ظالم، علم سے اپنے انجام کی وجہ سے نفرت کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے لئے بھی علم کو ناپسند کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ علم ہر طاقت سے بڑی طاقت ہے۔ اسی لئے ظالم کی نظر جب کسی ایسے شخص پر پڑتی ہے جو علم میں اس پر فوقیت رکھتا ہو، تو وہ اپنے آپ کو کمتر سمجھ لیتا ہے۔
استبداد کی مزاحمت اور مطلوبہ تعلیم و تربیت:
کواکبی کی نظر میں استبداد اور تربیت ایسے عوامل ہیں جن کے نتائج ایک دوسرے کے برعکس ہیں، اس لئے کہ تربیت جو کچھ بھی تعمیر کرتی ہے استبداد اسے طاقت کے بل پر ڈھا دیتا ہے۔ الکواکبی کا یہ ماننا ہے کہ استبداد کے سایے میں تربیت نہیں ہو سکتی۔ وہ تربیت کا مطلق انکار نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ کہتے ہیں کہ استبداد اپنے لئے ایسی مناسب تربیت کا قالب بناتا ہے جو اس کے اقتدار کو دوام بخشتا ہے۔ لیکن الکواکبی کی رائے میں ایسی تربیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس کی بنیاد اخلاقی قدروں کی تخریب کاری پر ہو، اور جو خیر کو شر اور شر کو خیر بنا کر پیش کرے۔
کواکبی کے خیال میں تربیت قوموں کی جمع پونجی ہوتی ہے، جس کا زیاں سب سے بڑی مصیبت ہے، یہ اس لئے کہ انسان بغیر تربیت کے انسان نہیں ہو سکتا۔
کواکبی کی نظر میں تربیت کے درجہ ذیل مراحل ہیں:
- جسم کی تربیت، جو ماں اور پرورش کرنے والی کی ذمہ داری ہے۔
- عقل کی تربیت، جو اساتذہ اور تعلیم گاہوں کی ذمہ داری ہے۔
- مثالی انسان کی تربیت، نزدیکی لوگوں کے ذریعے / اقربا کے ذریعے اور شادی بیاہ کے معاملات کی تربیت۔
- تقابل کی تربیت، یہ کام / ذمہ داری میاں بیوی کی ہے تا وقتیکہ موت آ جائے یا دونوں الگ ہو جائیں۔
کواکبی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مطلوب تربیت یہ ہے کہ تربیت مرحلہ وار ہو۔ عقل کو پہلے تیار کریں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکے، پھر فہم و فراست کا مرحلہ ہے اور اس کے بعد ہمت اور اولوالعزمی جیسی صفات کا پیوست ہونا ہے اور پھر ان صفات کی مشق اورعادت ڈالنا ہے۔ پھر بہترین اسوہ اور مثالی انسان بننا اور اس کے بعد نظم و ضبط اور بحسن و خوبی کام کی انجام دہی ہے۔ پھر توسط واعتدال قائم رکھنا ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ عقل کی تربیت جسم کی تربیت کے ساتھ ساتھ ہو۔ اس قسم کی تربیت استبداد کے زیر سایہ ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ استبداد اس قسم کی تربیت کے بجائے مخالف اقدار کی تربیت کا حامل ہے۔
تربیت میں اصلاح کا کردار:
کواکبی استبداد کے خاتمے، امت کی اصلاح اور پسماندگی سے نکلنے کے لئے، تربیت کے فیصلہ کن کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے مرض کی تشخیص اور علاج کا یہ نسخہ لکھ دیا ہے کہ پہلے افکار کو تعلیم و تربیت سے روشناس کرنا ہے۔
کواکبی استبداد کی مزاحمت میں سب سے کامیاب طریقہ یہ بتاتے ہیں کہ تربیت کے ذریعے تھوڑی تھوڑی تبدیلی لائی جائے۔ اگرچہ اس میں کافی وقت لگے گا، لیکن دائمی اور پائدار حل اور فائدہ اسی میں ہے۔
کواکبی استبداد کے خاتمے کے تین بنیادی اصول و ضوابط طے کرتے ہیں، جو درجہ ذیل ہیں:
۱ْ۔ جس قوم کی اکثریت یا ایک کثیر تعداد استبداد کے آلام و مصائب کا ادراک نہ رکھتی ہو وہ قوم آزادی کی مستحق نہیں ہے۔
۲۔ استبداد کی مزاحمت شدت سے نہیں، بلکہ نرمی اور آہستگی سے درجہ بہ درجہ کی جاتی ہے۔
۳۔ استبداد کی مزاحمت سے ما قبل مرحلے میں یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ استبداد کا متبادل کیا ہوگا۔
استبداد کی طرف مائل ہونے کے رجحان کا دانشمندانہ سد باب:
استبداد کا رجحان انسانوں میں پیوست جڑوں کی مانند ہے اور یہ استبداد کا رجحان انسانی فطرت میں بہت گہرا ہے۔ استبداد کا رجحان بھی باقی تمام شہوات کی طرح ایک طویل تربیتی پروگرام کے ذریعے قابل اصلاح ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ اس کی ابتدا بچپن میں مثبت مفاہیم کے ذریعے ہو اور بچے کو مثبت سلوک کی مشق کے ذریعے سے ہو۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رہے کہ کوئی بیرونی طاقت ایسی ہو جو ظالموں کے سامنے بندھ باندھے کہ وہ کسی پر اپنا استبداد قائم نہ کرسکیں اور آنے والی نسلوں کی تربیت آزادی، عزت نفس، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے، مظلوم کا ساتھ دینے اور عدل کا قیام جیسی اقدار پر ہو، تو یہ چیز معاشرے کو مجموعی طور پر ظالموں کے سامنے کھڑا ہوجانے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اس قسم کی تربیت کا شوق حضرت عمرؓ کو تھا اور وہ اسی پیمانے پر معاشرے کو پرکھتے تھے کہ یہ صفات موجود ہیں یا نہیں۔ اس لئے کہ انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ معاشرے میں ان صفات کا عدم وجود ظلم و استبداد کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے معاشرے کے با اثر طبقے، مہاجرین و انصار کو جانچنا چاہا تو ان سے سوال کیا کہ، اگر میں کچھ معاملات میں کوتاہی کروں تو آپ کیا کریں گے؟
حضرت عمرؓ معاشرے کی سلامتی پراطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے، کہ معاشرہ تب ہی سلامت رہ سکتا ہے جب وہ طاقتوروں کے انحراف کو قبول نہ کرے۔ لیکن جب مہاجرین و انصار اس سوال پر چپ رہے تو حضرت عمرؓ نے یہی سوال دوبارہ دہرایا اور پوچھا کہ بتاؤ کیا کرو گے؟ یہاں تک کہ جواب آیا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہانڈی کی طرح درست کریں گے۔ حضرت عمرؓ کو اطمینان ہو گیا کہ معاشرہ زندہ ہے۔ انہوں نے چنیندہ مہاجرین و انصار سے کہا کہ تم، تم ہی ہو، یعنی جیسا میں تمہارے بارے میں سوچتا تھا، تم کو حسب گمان ہی پایا۔
نبیؐ سے روایت ہے کہ "جب آپ میری امت کو ڈرتے دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم نہیں کہہ پا رہی ہے، تو اللہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے”۔ اس حدیث کا عملی انطباق صرف حکام کے ظلم و بربریت پر ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حدیث ہر چھوٹے بڑے ظالم کے بارے میں ہے، کہ ظلم کرنے والوں کو روکا جائے ورنہ پوری امت ہلاکت میں پڑ جائے گی۔ اور تربیت کے پہلو سے یہ بات لازم ہے کہ ایسے قوانین اور تنظیمیں موجود ہوں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن کے پاس ظلم کرنے کی طاقت ہے ان کو اس سے روکا جائے۔ اور یہی بات اہل مغرب نے تجربے سے سیکھی ہے کہ حاکم کو تا حیات اپنے منصب پر قائم رہنے سے روکنے سے استبداد کے خطرات بڑے کم ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی شخص کا تاحیات کسی منصب پر رہنا استبداد کو جنم دیتا ہے۔ اور اسی لئے انہوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں کہ کوئی بھی شخص دو دفعہ سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا ہے۔ اور اس لئے کہ استبداد کسی بھی شخص کا انفرادی طور پر اجارہ دار ہونا ہے۔ لہٰذا قران حکیم نے اس چیز (استبداد) کو مقدمہ کے طور پر پیش کیا ہے کہ یہ چیز بغاوت اور ظلم کی طرف لے جاتی ہے، بلکہ اس چیز کو ایک نہ تبدیل ہونے والا اور اجتماعی اور آفاقی قانون قرار دیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔ (العلق: ۶ و ۷)
استبداد کا شمار اسلامی منہج میں سب سے بڑی برائی کے طور پر ہوتا ہے، کیونکہ یہ شوریٰ کے قرآنی تصور کو ختم کرتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو تاریخی طور پر استبداد نے اسلامی ریاست کو ایک لمبے عرصے تک اپنی گرفت میں لئے رکھا اور اس کے خاتمے کے لئے پوری امت خاص کر علما کوشاں رہے۔ انہوں نے اس لڑائی کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی تبدیلی کے لئے کبھی ہاتھ سے انقلاب برپا کر کے، کبھی زبان سے، اور کبھی اسکی مخالفت میں لکھ کر اپنا فرض ادا کیا اور اس سے دلی نفرت کی، یہاں تک کہ سول نافرمانی کی ترغیب اور اس (استبداد) کا انکار تو ہمیشہ ہی سے کیا ہے۔
استبداد کی مزاحمت اور اس سے چھٹکارا، ایک ایسی نسلِ نو کی تعلیم و تربیت سے ہوگا جو علمی معرفت سے مالا مال ہو، اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو اور ظالم کے ظلم کے سامنے بڑی حکمت و دانائی سے بند باندھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام، منکر کا انکار اور اس کی تبدیلی کا خواہاں ہے، تاکہ معروف اس منکر کی جگہ لے لے۔ اسلام نے اس کام کو ایک مکمل اجتماعی فرض قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کام کی اقامت سے امت دور چلی گئی تو ایمان کی تمام ذیلی شاخوں کی اقامت اپنے آپ رک جاتی ہے۔ اسلامی شریعت ہی استبداد کی مزاحمت کے لئے حل ہے، ورنہ استبداد وہ مناسب ماحول فراہم کرتا ہے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں برائی پھیل جاتی ہے۔
مراجع و مصادر:
- استبداد کی مزاحمت کیسے ہو؟
- کیا استبداد کی مزاحمت بغیر ہتھیار کے ہو سکتی ہے؟
- استبداد کی مزاحمت کے بارے میں۔
- استبداد کیا ہے؟
- استبداد اور اخلاقی قدروں کے حامل معاشرے کی تشکیل نو۔