میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ کامل ادب واحترام سے پیش آنا، آپس میں انس ومحبت کی فضا قائم کردینا، اور ایسا مستحکم گھر بنانے کے لیے کوشاں رہنا جو امن ومحبت کا گہوارہ ہو، یہ وہ کامیاب ازدواجی رشتے کی علامتیں ہیں، جس میں ہر شخص خوش وخرم رہتا ہے۔ اسی نعمت کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نشانی قرار دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت وحکمت پر ایک دلیل ہے، جب اللہ جل شأنہ فرماتا ہے: (اور اس کی نشانیوں میں یہ ہے کہ اس نے تمہارے اندر سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرلو اور تمہارے درمیان محبت ورحمت ڈال دی۔ یقیناً ان سب چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں)۔ [الروم: 21]
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ازدواجی تعلق ایک طرح کا سایہ ہے جو معاشرے کو اجتماعی آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے، وہ آفتیں جو اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے جوڑے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں اور اپنی ساری توانائی آپسی اختلافات اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں صرف کرتے ہیں، حالانکہ گھر کی چھوٹی سی دنیا جنگ کا اکھاڑہ بننے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ایک مثالی ازدواجی تعلق بنانے میں کوشش، منصوبہ بندی اور صبر کی ضرورت ہے۔
کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے شرائط:
کامیاب ازدواجی تعلق کے لیے زوجین کے درمیان دینی، نفسیاتی، شعوری، معاشی، معاشرتی اور جنسی اعتبار سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ ایک مضبوط خاندان کو قائم کرنے کے لیے صرف محبت کافی نہیں ہے، بلکہ خاندان کو ایسی پختہ بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے جو کسی بھی طوفان اور بدلتے ہوئے حالات کے آگے ڈٹ سکے۔ ایک کامیاب ازدواجی تعلق تو وہ ہوسکتا ہے جو سوچ سمجھ کر ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرکے قائم کیا جائے اور مرد وعورت دونوں کو دیکھ پرکھ کرصاحب فراست ونیکوکار لوگوں سے مشورہ کیا جائے، جن پر دونوں کے احوال عیاں ہوں، اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا جائے۔ پہلے نکاح کا پیغام بھیجنے والے شخص کے متعلق پورا اطمینان کرلیا جائے اور کہیں ظاہری ٹپ ٹاپ سے دھوکا نہ کھائیں۔ ایسا معیاری ازدواجی رشتہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
- جذباتی وروحانی ہم آہنگی: ازدواجی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے میں اس عنصر کا بڑا عمل دخل ہے، کیونکہ ازدواجی تعلق قائم کرنے کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی طرف کشش محسوس کریں، تاکہ ان کو ایک دوسرے سے وہ سکون اور اطمینان حاصل ہو جس کی بنیاد آپسی محبت، ہمدردی اور ترحم ہو۔ یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے اندر سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرلو اور تمہارے درمیان محبت ورحمت ڈال دی۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔) [ الروم:21]
- معاشی ہم آہنگی: اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اپنی معاشی استطاعت کے مطابق بیوی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کرے۔ بیوی بھی اپنے شوہر کے اوپر معاشی مطالبات کا اتنا بوجھ نہ ڈال دے جو وہ اٹھا نہ سکے۔ کیونکہ یہ بوجھ شوہر کو یا تو قرضہ ادھار لینے کی طرف دھکیل دے گا اور گھر کی اقتصادی حالت ہمیشہ مضطرب رہے گی۔ یا وہ لمبی مدت کے لیے گھر سے دور رہ کر کام کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور اپنی عائلی ذمہ داریوں سے بھی دور رہے گا، اس طرح وہ ایسا شوہر کہلائے گا جو اپنی فیملی میں موجود ہے بھی اور نہیں بھی۔ پس وہ فیملی میں موجود تو ہے لیکن اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
- جنسی ہم آہنگی: اس سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق کی وہ حالت قائم ہو جس پر دونوں راضی ہوں، کیونکہ جنسی ہم آہنگی وہ ضروری عنصر ہے جس سے ازدواجی تعلق کی ہم آہنگی کو تقویت ملتی ہے۔ جب کہ اس تعلق کی کمی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ازدواجی زندگی میں اختلافات اور کشمکش کی ابتدا ہوچکی ہے۔
- اقدار، معیارات، عمر اور تعلیمی درجہ میں مماثلت: یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور اگر ان سب معاملات میں اختلاف ہے پھر تو ضروری ہے کہ ہر پہلو میں ایڈجسٹمنٹ کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ مشترکہ سطح پر آکر مل جائیں اور دونوں ایک دوسرے کی معاشرتی حالت کا لحاظ کریں، تاکہ معاشرت میں ہم آہنگی پیدا ہو اور دو طرفہ تعلقات کو اس طرح نبھایا جائے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے حقوق وفرائض ادا کرنے اور مخلصانہ باہمی تعاون پر ہو، جو ایسی فضا قائم کردے جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت، عزت اور قدر شناسی ہو۔
- حسنِ انتخاب: بہت ضروری ہے کہ نکاح کے لیے دین دار، با اخلاق، عقلمند اور شریف خاندانی عورت منتخب کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت سے چار وجوہات پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کی دولت، حسب ونسب، حسن اور دین داری دیکھ کر۔ پس تم دین والی کو چن لو اور خوش رہو”۔ اس لیے کہ بیوی پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے، اپنے شوہر کے گھر، مال، عزت اور رازوں کی حفاظت کرنے والی ہے۔ اسی طرح عورت پر واجب ہے کہ اس شخص کو اپنا شوہر منتخب کرے، جو متقی ہو، اچھے اخلاق والا ہو۔ جو گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو اور گھر کو امن وسکون فراہم کرسکتا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں کوئی ایسا شخص پیغامِ نکاح دے جس کے دین واخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر لو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو دنیا میں بہت بڑا فتنہ وفساد برپا ہو جائے گا ۔ (ابن ماجہ)
- حسنِ معاشرت: اسلام میاں بیوی سے حسنِ معاشرت کا مطالبہ کرتا ہے، خاص کر شوہر سے، جس کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، یعنی سربراہی اور قیادت حوالے کی ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے حسنِ معاملہ اور اچھے سلوک کی نا قدری نہ کرے، کہیں وہ اس کی وجہ سے آگ میں داخل نہ ہوجائے، جیسا کہ نبی کریم صلی نے فرمایا: (میں نے دیکھا کہ اہل دوزخ میں سب سے زیادہ اکثریت عورتوں کی ہے کیونکہ وہ کفر کرتی ہیں۔ پوچھا گیا؛ کیا وہ اللہ سے کفر کرتی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، احسان فراموش ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ عمر بھر اچھا برتاؤ کرتے رہو۔ پھر صرف ایک بار تم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو وہ کہے گی، "میں نے کبھی تجھ میں کوئی اچھی بات دیکھی نہیں” (البخاری)
کامیاب ازدواجی تعلق کی أساس:
کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جن پر ایک خوشحال اور محبت وشفقت سے بھرے خاندان کا دارومدار ہے۔ ان میں درج ذیل اصول شامل ہیں:
- اپنے شریکِ حیات کی صفات کا تعارف: مطلوبہ صفات شریکِ حیات کو تلاش کرنے کے لیے بہت احتیاط اور صبر سے کام لینا ضروری ہے تاکہ بعد میں کسی جانب سے ناخوشی یا احساس کمتری کا اظہار نہ ہو، جس سے تعلق میں سردمہری پیدا ہوتی ہے، اور بات بات پر اختلاف اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔
- عزت: یہ ایک خوشحال ازدواجی تعلق کے لیے از بس ضروری ہے۔ اس لیے دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ خاص کر دوسروں کے سامنے اگرچہ اختلاف رائے کتنا بھی ہو۔
- دوسرے کی کوششوں کا اعتراف کرنا: دوسرے کی کوششوں کو سراہنا، شکریہ ادا کرنا، نا کہ رد کرنا اور فراموش کردینا۔ کیونکہ اکثر رشتوں کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی کوششوں کی قدر نہیں کرتے۔
- توجہ: ایک بیوی اور شوہر کے لیے توجہ سے بھرپور لمس اور محبت بھری بات، سب کچھ ہے، اگر وہ شفقت ومحبت اور خوش حال زندگی چاہتے ہیں۔
- نظر انداز کرنا: ازدواجی تعلق کی کامیابی میں یہ بہت اہم اصول ہے کہ اپنے شریکِ حیات کی غلطیوں اور خطاؤں سے درگزر کیا جائے۔ اس کی ہر بات میں نقص نہ ڈھونڈیں اور ہر فعل پر نہ ٹوکیں، کیونکہ سارے انسان لغزشوں اور خطاؤں کے پتلے ہیں۔ اس لیے دوسروں کی تاک میں رہنے سے ان کو کھودینے کا خطرہ ہے۔
- مؤثر مکالمہ: یہ زوجین کے درمیان رشتے کی کامیابی، باہمی افہام وتفہیم اور محبت کے لیے اہم ہے، جو کہ صحتمند ازدواجی زندگی کی ضمانت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بامقصد خاندانی مذاکرات، مساوات، آزادی اظہار رائے پر زور دیا جائے۔ منفی تبصرہ نہ کیا جائے۔ بیوی کی بات کا جواب دیا جائے اور بات کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دی جائے۔
- ذمہ داریاں بانٹنا: ضروری ہے کہ گھر کے ہر فرد پر مختلف ذمہ داریاں عائد ہوں، اور ہر فرد با شعور ہو۔ ان میں ایثار وقربانی کا جذبہ ہو۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ محبت وشفقت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں، سپورٹ کریں اور سمجھیں کہ وہ حقوق وفرائض میں برابر برابر ہیں۔
- خوش اسلوبی سے تنازعات حل کرنا: اور مسئلہ حل کرنے کے لیے وہ مؤثر قرارداد عمل میں لائی جائے، جس سے زوجین اور دیگر افراد خانہ کے تعلقات مضبوط ہوں اور ان سب کے درمیان آپسی افہام وتفہیم بڑھ جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بہترین طریقہ کار استعمال کیا جائے جو بعد میں کام آسکے تاکہ دوبارہ مسئلہ پیدا نہ ہو۔
خوشگوار ازدواجی تعلق کی منصوبہ بندی:
ایک خوشگوار ازدواجی تعلق کے لیے گھر بنانے سے پہلے اور گھر بنانے کے بعد منصوبہ بندی، صبر اور بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ اس منصوبہ بندی کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
- نکاح سے پہلے والدین کی طرف سے تیاری: کتنا اچھا ہوتا اگر والدین اپنے بیٹے یا بیٹی، جس کا نکاح ہونے والا ہو، کی پہلے سے تربیت کرتے، انہیں حقوق وفرائض سمجھاتے۔ والدین پر واجب ہے کہ دولہا دلہن کو اپنے منفی تجربات سے بچائیں اور مثبت پہلوؤں سے فائدہ پہنچائیں۔
- نکاح سے پہلے کاؤنسلنگ: ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ضروری ہے جو نکاح کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں مہارت رکھنے والے ماہرین سے مشورہ لیں، جو انہیں خوشحال اور مستحکم ازدواجی تعلق کے گُر سکھائیں گے۔ ایسے ہی ایک دوسرے کی شخصیت کا تعارف حاصل کرنے سے مستقبل میں موافقت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
- شادی کے ابتدائی دنوں میں شوہر کا رول: شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو ازدواجی زندگی کے متعلق ٹھیک ٹھیک معلومات فراہم کرے۔ ان وسائل سے آگاہ کرے جو انہیں مشکلات میں کام آئیں گے۔ اس کے ساتھ وہ انداز گفتگو اپنائے، جس سے فوری طور مسئلہ حل کرنے میں آسانی ہو کہ کہیں معاملہ قابو سے باہرنہ ہوجائے۔ اسے اپنے کام، ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کفالت کرنے کی ذمہ داریوں کے متعلق صاف صاف بتا دے۔ ہاں اگر گھر والوں کے ساتھ مجبوراً وقتی طور یا ہمیشہ کے لیے رہنا ہے تو رشتے کی نوعیت پر دونوں میں اتفاق ہونا واجب ہے، تاکہ مستقبل میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ایسا اس لیے کہ شادی کے ابتدائی دور میں زوجین کے درمیان الفت ومحبت اور کامل اتفاق ہوتا ہے جو کہ ایک دوسرے کو ماننے جاننے اور آپسی افہام وتفہیم کے لیے بہترین موقع ہے۔
- میریج کاؤنسلنگ اور علاج: اس طرح کی ذمہ داری نبھانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ماہر اور قابل کاونسلر سے مدد طلب کی جائے، جس کے پاس اس معاملے میں عملی تجربہ ہو یا وہ فیملی اور ازدواجی ماہر نفسیات ہو، جس سے مطلوبہ نتائج کی گارنٹی ہو۔ کیونکہ اکثر ناخواندہ نیم حکیم ماہرین کی نا اہلی اور نا تجربہ کاری سے معاملات مزید بگڑتے ہیں اور نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔
- مسائل حل کرنے میں دلچسپی: میاں بیوی کے اندر اختلافات رفع کرنے اور صلح کرنے کی حقیقی خواہش اور دلچسپی موجود ہونی چاہیے۔ طرفین میں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور ذمہ داری لینے کی جرأت ہونی چاہیے، اگر یہ بات (غلطی) ثابت ہوگئی۔
ایک کامیاب ازدواجی تعلق کو میاں بیوی کی آپسی محبت کی مشترکہ ذمہ داری سے جوڑا جاتا ہے۔ وہ محبت جو اس پاک بندھن کو قوت، سہارا اور مضبوطی بخشتی ہے، تاکہ وہ خوشی، ذہنی سکون، ہم آہنگی اور روحانی بالیدگی حاصل ہو، جس سے پورا کنبہ فیض یاب ہوسکے اور سب لوگوں کو وہ خوبصورت زندگی گزارنے کا موقع ملے جو محبت سے بھری ہو۔ جسے مثبت سوچ اور گرم احساسات تقویت پہنچا رہے ہوں۔
ماخذ اور حوالہ جات:
- ڈاکٹر داؤد بورقیبہ: مباحثہ "میریج کاؤنسلنگ”، یونیورسٹی آف لغوت، الجزائر.
- مختصر سائٹ: ایک کامیاب شادی کی بنیادیں.
- عادل بن سعد الخوفی: ایک کامیاب ازدواجی تعلق کی اسکلز۔
- ارین العمر: تعارف۔۔۔ ایک کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد .
- المرسال ویب سائٹ: اسلام میں کامیاب شادی کی شرائط۔