عصام العریانؒ کے بارے میں لکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ خود جڑتے چلے جاتے ہیں۔ وہ فکر و تربیت کے میدان کی نمایاں شخصیات میں سے تھے اور آپ جیسی شخصیت قحط الرجال کے اس زمانے میں خال خال ہی دستیاب ہوتی ہے۔ جو ان سے ملا، جس نے ان کو سُنا یا جس تک بھی ان کی باتیں پہنچیں سب نے ان سے محبت کی۔ دشمنوں نے ان کے ذریعے سے اخوان المسلمین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر فتنہ انگیزیوں اور آزمائشوں کے باجود انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ اخلاق و تربیت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
ظلم و استبداد کے خلاف اپنے مؤقف کی وجہ سے انہوں نے سات سال ظلم و ستم سہا اور پھر وفات پائی۔ وہ ایک ایسے مسلمان کا نمونہ پیش کرتے تھے جو حافظِ قرآن بھی تھا اور اس پر عامل بھی۔ انہوں نے تمام تر سیاسی، سماجی اور ثقافتی معاملات میں اسلام کو اعتدال سے اپنایا۔
عصام العریان کی نشوونما:
ڈاکٹر عصام العریان 28 اپریل 1954ء میں ناہیہ نامی گاؤں، ضلع الجیزہ میں پیدا ہوئے۔ تمام بچوں کی طرح انہوں نے بھی ابتدائی تعلیم “ناہیہ پرائمری اسکول” سے حاصل کی اور 94٪ نمبرات حاصل کئے۔ پھر سیکنڈری کی تعلیم کے لیے الدقی کے”اورمان ماڈل اسکول” میں داخل ہوئے اور مڈل اور ہائی اسکول کے امتحانات میں 91٪ نتائج حاصل کی۔
عصام العریان نے تمام زندگی اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوایا۔ جب وہ قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ طب میں داخل ہوئے تو وہاں بھی اپنی تعلیم میں نمایاں تھے۔ ان کی یہ قابلیت صرف تعلیم تک محدود نہیں تھی بلکہ اسلامی تحریک کے بانی اراکین میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ امورِ طلبہ میں بھی بہت سرگرم تھے۔
العریان پر امن اصلاحی و تربیتی فکر کے حامل تھے۔ کوئی بھی باشعور انسان، انسان کے اس بنیادی حق کی مخالفت نہیں کرتا کہ وہ کسی فکر کا حامی ہو۔۔ لیکن اپنی اسی سوچ کو قلب و ذہن میں سمائے رکھنے اور اس کو پھیلانے کی آرزو کو دل میں بسائے رکھنے کے سبب وہ بارہا قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، گویا کہ جیل ان کا دوسرا گھر بن گیا ہو۔ لیکن اس سب میں وہ صبر اور امید کا پیکر بنے رہے۔
عصام العریان تحریک اسلامی کی صفوں میں:
عصام العریان کی تربیت انہیں اسلام میں اعتدال کو اپنانے اور اس کے لیے عملی کردار ادا کرنے کا ایک مضبوط محرک ثابت ہوئی۔ جب قاہرہ یونیورسٹی میں سناء أبو زید کے ہاتھوں اسلامی عمل کے تخم ریزی ہوئی تو العریان نے اس کی رہنمائی میں شامل ہوکر تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس میں حلمی الجزار، عبد المنعم أبو مفتوح اور محمود أبو زید وغیرہ بھی ان کے ہمراہ رہے۔ عصام قاہرہ یونیورسٹی میں اسلامی تحریک کے زمہ دار رہے۔ 1970ء کے اواخر میں انہوں نے اسلامی تنظیموں اور جماعتوں کے اتحاد میں مجلس شوریٰ کے معاون کے طور پر بھی کام کیا جس کے سربراہ اخوان المسلمین کے سابق مرشد عام، استاذ عمر تلمسانیؒ تھے۔
عصام کے عزائم غیر متزلزل رہے اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ تحریکی عمل سرانجام دیتے رہے، نتیجتاََ جمال ناصر کے دور میں قدغن کی شکار اسلامی شناخت کے حق میں راہ ہموار ہوئی، حجاب کا رجحان بڑھا، طلبہ مساجد کا رخ کرنے لگے، اسلامی کتب کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا۔ العریان اور ان کے ساتھیوں نے اسلام کو طلبہ سے متعلق کرنے کا اور آسان کرنے کی اچھی مثال قائم کی۔
جب فیصلوں کے لمحات آپہنچے تو العریان نے اخوان المسلمین کی فکر و منھج کو اختیار کیا ۔۔ یونی ورسٹی سے فراغت کے بعد بھی وہ اخوان کے ساتھ ہی رہے۔ جب وہ ڈاکٹروں کی تنظیم کے انتخابات میں معتمد عام بنے یا 1987ء کے سال میں پارلمینٹ کے سب سے کم عمر رکن، وہ اخوانی فکر کے ہی حامل رہے۔ مختلف گروہوں کے مابین خلیج کو پاٹنے کی کوششوں نے انہیں امتیاز اور قبولیت بخشی۔
العریان حافظوں میں اللہ کی کتاب کے حافظ تھے، سیاسی لوگوں اور گروہوں میں مؤثر سیاستدان تھے، خطاب کرتے یا وعظ کہتے تو اللہ کے بندے تھے، اپنے بھائیوں میں ہوتے تو خدمت گزار ہوتے اور بات کرتے تو نرمی اور آسانی نمایاں ہوتی۔
انہوں نے بہت سے سیمیناروں اور عسکری تربیتی کیمپوں میں حصہ لیا اور حاضرین کے لیے تربیت کی عملی مثال بنے۔ یونی ورسٹی کے طلبہ ہوں یا ہائی اسکول کے نوجوان ان کیمپوں کا حصہ بننے والا ہر فرد ان کی باتوں کی تاثیر کا اسیر تھا۔ قلبِ مومن سے نکلا یہ کلام آج بھی لوگوں کے لیے متاثر کن ہے۔
العریان نے 1977ء میں طب میں گریجویشن کی، 1986ء میں کلینیکل پیتھالوجی میں ماسٹرز کیا، 1992ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اسی طرح جامعہ ازہر سے 1999ء میں شرعی علوم میں عالیہ کی سند حاصل کی اور اگلے ہی برس تجوید کی سند بھی حاصل کی۔ 2000ء میں آپ نے تاریخ کے شعبے میں بی۔ اے بھی مکمل کیا۔
2010ء میں العریان کو اخوان المسلمین کے مکتب الارشاد کا رکن منتخب کیا گیا۔ 25 جنوری کے انقلاب کے بعد وہ حزب العریۃ و العدالۃ کے سربراہ بنے اور صدر مملکت جناب محمد مرسی کے مشیر رہے۔
قرآن کے ساتھ تعلق:
عصام العریان غیر معمولی حافظے کے مالک تھے، انہوں نے دورانِ طالب علمی میں اپنے حفظ کو اس قدر پختگی سے مکمل کیا کہ وہ دوسرے حفاظ سے بآسانی مقابلہ بھی کرسکتے تھے۔ وہ روزانہ نوافل میں قرآن کا ایک پارہ مکمل کیا کرتے تھے۔ 2000ء میں انہوں نے تجوید میں اجازہ بھی حاصل کیا۔
العریان کے بیٹے ابراہیم اپنے والد کے لیے تعزیتی کلمات میں کہتے ہیں کہ:”وہ حافظ تھے اور نماز میں ہی قرآن مکمل کیا کرتے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی ان کے ساتھ نمازِ فجر ادا کرتے تھے اور دیکھتے رہتے کہ بابا کب مکمل کریں گے۔ جب کبھی رفتار میں کمی ہوتی تو مذاقاََ مجھ سے کہتے کہ اپنے والد سے کہو تھوڑی ہمت کرلیں اور رفتار بڑھادیں۔”
جیل میں بھی العریان چاشت کی نماز میں قرآن کا دورہ کرتے تھے اور اس طرح یہ نماز طوالت اختیار کر جاتی تھی تاکہ قرآن کا بڑا حصہ مکمل کرسکیں۔ یہ قرآن کے ساتھ ان کی لگن تھی کہ زندگی کے سخت ترین لمحات میں بھی وہ اللہ کی کتاب کو نہیں بھولے۔
حِکمِ عطائیہ کے ساتھ تربیتی لمحات:
ڈاکٹر عصام العریان کا حِکمِ عطائیہ کے ساتھ ایک گہرا تربیتی تعلق تھا۔ وہ اس بارے میں کہتے تھے کہ:” میں نے ابن عطاء اللہ سکندری (وفات 709ھ/1309ء) کی حکم کے ساتھ طویل وقت گزارا ہے۔ میں نے 1972ء میں ان کا شیخ زروق کا شرح شدہ نسخہ خریدا اور قید کی تنہائیوں میں اسے بار بار پڑھتا رہا۔ حتیٰ کہ قرآن و سنت کے بعد یہی وہ کتاب تھی جس کا مطالعہ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا کرتا تھا ۔۔۔ خصوصاََ جب طویل قید (1995-2000ء، 5 برس) میں مبتلا تھا۔”
العریان مزید کہتے ہیں:
“میں اب بھی ابن عطاء اللہ کی حکم میں تربیت کا غیر معمولی طریقہ پاتا ہوں۔ اس لیے کہ یہ محض لفاظی یا اخلاقی فلسفیانہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جو بھی ان کو اپنے رویوں میں اپنائے اور کردار میں ڈھالے تو وہ اس کا اثر محسوس کرسکتا ہے۔”
ابن عطاء اللہ کہتے ہیں کہ: “لوگ تمھاری اس چیز پر تعریف کرتے ہیں جس کا وہ تم میں گمان رکھتے ہیں، تو تم اپنے نفس کی ان باتوں پر ملامت کرنے والے بنو جو تم جانتے ہو۔”
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ: “جب مومن کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اس بات سے اللہ کی حیا کرتا ہے کہ اس بات پر اس کی تعریف کی جائے جو وہ خود میں نہیں پاتا”۔
ان سے یہ بھی منقول ہے کہ “لوگوں میں سب سے جاہل وہ ہے جو لوگوں کے گمان کے لیے اپنے پاس موجود یقین کو چھوڑدے۔”
العریان کہتے ہیں کہ یہ معاملہ دو طرح سے ہے:” اگرلوگ تمہاری اس بات کی تعریف کریں جو تم میں ہے تو یہ شکر کا مقام ہے اور تم پر لازم ہے کہ اللہ کا شکر کرو اور اس کی حمد بیان کرو اور اگر عمل تعریف کی خواہش کے بغیر کیا ہے تو کسی تعریف کرنے والی کی تعریف سے دھوکہ نہ کھاؤ ۔۔ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
“اے رسولِ خدا! آدمی لوگوں سے چھپ کر ایک عمل کرتا ہے، لوگ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے.”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اسے دو مرتبہ اجر ملتا ہے: عمل کا اجر، خوشی کا اجر۔”
اگر تعریف تمہارے عمل سے زیادہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے مزید عمل کی توفیق طلب کرو۔
اگر لوگ اس بات کی تعریف کریں جو تم میں نہیں ہے تو یہاں بھی دو زاویے ہیں۔ ایک یہ کہ تم سمجھو کہ یہ حق کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ کہ تم اپنے عمل میں اضافہ کرو۔ جیسا کہ جب لوگوں نے امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں تعریف کی کہ وہ تمام رات نماز پڑھتے ہیں، حالاں کہ وہ نصف رات قیام کرتے تھے۔ انہوں نے یہ سنا تو اپنے قیام کی مقدار بڑھادی۔ دوسرا زاویہ یہ کہ تم لوگوں کی ایسی تعریف پر خوش ہو جاؤ جو تم میں نہیں، تو جان لو کہ تمہارا نفس اب شیطان کے ہاتھوں یرغمال آچکا ہے۔
العریان کہتے ہیں کہ عقل مند اور معرفت الٰہی کے مشتاق کے لیے یہی موزوں ہے کہ وہ سلف صالحین کی اس دعا کو اپنائے کہ :
“اے اللہ! مجھے اس سے بہتر بنادے جیسا یہ گمان کرتے ہیں، یہ جو کہتے ہیں اس پر میری گرفت نہ کر اور جس سے یہ لاعلم ہیں اس میں میری مغفرت فرمادے۔”
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت بھی کی ہے کہ: “ہرگز گمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، انہیں ہرگز عذاب سے دور نہ سمجھو اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [3:188]
العریان کی رائے میں تربیت پر مبنی ان نصیحتوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حقیقت پسند ہو کر دیکھے تاکہ وہ لازماََ اپنے آپ کو قابل مواخذہ سمجھے، اور مواخذہ کی تین صورتیں ہیں:
1۔ یہ کہ انسان اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں اور برائیوں کو دیکھے اور یوں سمجھے کہ وہ لوگوں کی اس تعریف کے لائق ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنی برائیوں کو تو وہ خوب جانتا ہے، اور کچھ بھلائی ہے بھی تو وہ اللہ کا فضل اور احسان ہے۔
2۔ جن اعمال کی تعریف ہورہی ہے ان میں تعریف کے پہلو کو دیکھنے کی بجائے یہ ٹٹولے کہ کہیں ان میں خود پسندی، نمائش، دکھاوا یا تصنع تو نہیں۔
3۔ ان گناہوں کو یاد کرے جو لوگوں پر مخفی ہیں۔ کیوں کہ کبھی تعریف کیے جانے والے اعمال میں کوئی کمی نہیں بھی ملتی ہے لیکن انسان کے علم میں اپنے خلوت میں کیے اعمال ضرور ہوتے ہیں جن سے وہ واقف ہوتا ہے۔
اسی پر اللہ نے کہا: “انسان اپنی ذات پر خوب آگاہ ہے۔” [القیامۃ: 14]
تصوف سے شغف:
ڈاکٹر عصام العریان کا تصوف کی جانب خاصا میلان تھا، اور ان کے جیل کے ساتھیوں نے اس کا مشاہدہ کیا ۔۔ 2006 ء میں جب وہ قید تھے تو روز مغرب کے بعد اپنے ساتھیوں کو ابن عطاء اللہ سکندری کی حِکَم میں سے درس دیا کرتے تھے۔ اپنی یادداشت سے حِکَم کی ایک وصیت کو بیان کرتے اور اس کے معانی دلنشین انداز میں سمجھاتے۔ شرح کے لیے وہ شیخ عبد الحلیم محمود، شیخ زروق، شیخ محمد سعید رمضان البوطی جیسے مشہور علماء کی کتب سے استفادہ کرتے۔
مکتبِ ارشاد کے فیصلے کی پابندی:
جب 21 ستمبر 2009ء کو اخوان کے مکتب ارشاد کے رکن استاذ محمد ھلال کا انتقال ہوا تو مرشد عام محمد مہدی عاکف نے ڈاکٹر عصام العریان کو ان کی جگہ رکنیت دینے کی تجویز پیش کی۔ خاص کر اس لیے بھی کہ ڈاکٹر عریان نے 2008ء میں ہونے والے مجلس شوریٰ کے اراکین کے داخلی انتخاب “التکمیلیۃ” میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن جماعت کے دیگر رہنماؤں نے یہ تجویز مسترد کردی اور کہا کہ مکتب ارشاد کے عام انتخابات تک انتظار کرلیتے ہیں۔ میڈیا میں یوں بات آئی کہ استاذ عاکف نے بھی استعفیٰ پیش کردیا ہے۔ لیکن انہوں نے BBC اور دیگر میڈیا سے اس کی تردید کی اور کہا کہ: “میں خود ان الزامات پر حیران رہ گیا جسے میڈیا میں پزیرائی ملی، جب کہ درحقیقت یہ حکومت اور حفاظتی اداروں کی جانب سے گھڑا گیا پروپیگنڈا تھا کہ جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔”
اسی پروپیگنڈہ سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ :”یہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر عصام جیسے معزز آدمی کا نمبر آچکا تھا اور چونکہ انہوں نے انتخابات میں بھی 40٪ ووٹ حاصل کیے تھے تو میری رائے یہی تھی کہ انہیں مکتب ارشاد میں شامل کیا جائے لیکن ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ یہ خلافِ ضابطہ ہے اور چند ہفتوں میں ویسے بھی عام انتخاب ہونے والے ہیں۔”
انہوں نے اس پر بھی زور دیا کہ اخوان میں اقتدار کی کوئی جنگ نہیں ہے حتیٰ کہ خود وہ بھی ذمہ داری سے فراغت کا سوچ رہے ہیں، کیوں کہ: “اخوان کی زمہ داری ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری ہے اور اسے مضبوط عزم کے حامل افراد ہی نبھا سکتے ہیں”۔
اس معاملے میں ڈاکٹر عصام نے ارکانِ مکتبِ ارشاد کی اکثریتی رائے کی پیروی کی، جنہوں نے مرشد عام کی ان کے حق میں رائے کو مسترد کیا تھا۔
پسِ زنداں:
ڈاکٹر عصام العریان کو اسلامی نظریۂ حیات سے وابستگی اور نظامِ استبداد کے خلاف اپنے مؤقف کی شدید قیمت چکانی پڑی۔ انہیں پہلی بار انور سادات کے قتل سے قبل گرفتار کیا گیا اور ستمبر 1981ء سے اگست 1982ء کے دوران ایک سال وہ گرفتار رہے۔
1995ء میں وہ دوبارہ پانچ سال کے لیے گرفتار رکھے گئے اور اس کے بعد 2005ء ، 06ء اور 07ء میں چند چند ماہ کے لیے انہیں صرف اس وجہ سے گرفتار کیا جاتا رہا کہ وہ ججوں سے اظہار یک جہتی کررہے ہیں۔
25 جنوری 2011ء کی جمعۃ الغضب کی انقلابی تحریک سے قبل بھی وہ دیگر اخوانی رہنماؤں کے ساتھ گرفتار ہوئے، انقلاب کا دباؤ بڑھا اور وہ رہا ہوکر التحریر پہنچے تاکہ انقلاب میں شریک ہوسکیں۔
جب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو فوجی حکومت نے العریان کی گرفتاری کو ضروری سمجھا کیوں کہ وہ نوجوانوں پر بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ بدھ کی صبح 30 اکتوبر 2013ء کو انہیں گرفتار کیا گیا اور سات سال وہ بدنام زمانہ عقرب جیل میں رہے یہاں تک کہ 13 اگست 2020ء (23 ذو الحجہ، 1441ھ) کو ان کی وفات ہوگئی۔
وفات سے قبل بارہا عدالت میں ان کی طبی حالت کی شکایات کی گئیں، بالآخر جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے 66 سال کی عمر میں وہ وفات پاگئے۔
ان کے بارے میں:
ڈاکٹر عصام کی جیل میں وفات کے بعد اخوان کے رہنماؤں نے ان کے حوالے سے تعزیتی کلمات کہے۔
ڈاکٹر شرف الدین محمود ۔۔ جو اخوان کے رہنما اور 1970ء کے دوران اسلامی سرگرمیوں میں عصام کے ہمراہ بھی تھے۔۔ لکھتے ہیں کہ: “میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ وہ علم و عمل اور دعوت و جہاد میں ہم سے آگے تھے۔ قرآن کی تحفیظ و تلاوت میں، اخلاق اور اللہ سے تعلق میں بھی وہ ہم سے بہت آگے تھے”۔ “میں نے انہیں اللہ کی کتاب کو پڑھتے اور حفظ کرتے ہی دیکھا تھا۔ وہ نرم مزاج، کشادہ دل، وسعتِ نظری کے حامل اور معاملہ فہم تھے”۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ: “راہِ خدا میں ان کا عزم کبھی کم نہ ہوا۔ قید کی صعوبتیں اور تعذیب انہیں راہِ خدا سے ہٹا نہ سکیں نہ کلمۃ حق کہنا انہوں نے چھوڑا۔۔ وہ ظلم کے خلاف آخری سانس تک مزاحمت کرتے رہے۔”
“ملک نے ان کی وفات کی صورت میں ایک ماہر سیاستدان، ایک خطیبِ بلیغ اور طب، دین، سیاسیات، سماجیات اور قانون کے علوم کو سمیٹے ایک عالم اور دانشور کو کھویا ہے”۔
“ان کی روح اپنے خالق کی طرف اس حال میں پرواز کرگئی ہے کہ فرشتوں کی، قرآن اور نیک لوگوں کی گواہی ان کے ہمراہ تھی۔۔
اے اللہ! انہیں شہدا اور نیک لوگوں میں قبول فرما۔ ان کی کیا ہی بہترین رفاقت ہے!
ڈاکٹر ابراہیم الزعفرانی ان کی بابت لکھتے ہیں: “اے اللہ! تو ہی ہے جس نے اسے ہدایت دی، کامیابی دی اور وہ نعمتیں اسے عطا کی ہیں جو اکثر کو نہیں عطا کی تھیں۔ تو نے ہی اسے ثابت قدمی عطا کی اور اس کی قوت و استقامت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن غضبناک ہوتے رہے۔”
“اے اللہ! تو نے اس حال میں اسے اپنے پاس بلایا کہ وہ قید میں تھا، مظلوم تھا، اجنبی تھا اور تیری یاد اور تیرے قرب کے سوا اس کی تنہائی کو کوئی چیز نہیں بھرتی تھی۔ تو نے اسے قید اور ظالموں سے نجات دی اور اپنے رحمت کے سائے میں جگہ دی ۔۔ اے سب سے بڑھ کر رحمت کرنے والے۔۔!”
“اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تجھ پر اور تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، اسلام کو اپنے لیے پسند کیا، اپنی زندگی کو تیری بندگی، تیری طرف بلانے اور تیرے دین کی مدد کرنے میں وقف کردی۔ اے اللہ! اس کی تنہائی کو اس کے نیک اعمال کی رفاقت سے بھردے، اس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنادے، اور اس کی روح کو علیین میں مقام عطا کر۔”
ڈاکٹر علاء عباس نے “شہید ڈاکٹر عصام العریان ۔۔۔ دعوتی یادیں اور تربیتی واقعات” کے عنوان سے ایک نئی کتاب لکھی ہے،جو 111 صفحات پر مشتمل ہے اور العریان کی اخوان اور حزب الحریۃ والعدالۃ میں سرگرمیوں کو بیان کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے العریان کو “وہ شاگرد جو استاد کے تصور کو پہنچ گیا” یعنی جس نے امام حسن البناء کی تعلیمات پر عمل کیا، ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا اور ایک سچے اخوانی کی صفات پر پورے اترے۔
ڈاکٹر امام العدس العریان کے قریبی، جیل کے ساتھی اور ان کی بستی کے رہائشی تھے۔ انہوں نے بھی “شہید ڈاکٹر عصام العریان کے مناقب” کے نام سے ایک کتاب تحریر کی جس میں انہوں نے ان اہم خوبیوں کا ذکر کیا ہے جو عصام العریان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ساتھی کے بارے میں تاثرات اور خیالات بھی بیان کیے، جس کے ساتھ انہوں نے دکھ سکھ کے ایام گزارے۔
ڈاکٹر امام کہتے ہیں: “ہم دونوں 2005ء میں ایک ہی سیل میں 3 ماہ قید تھے۔ ایک مہینہ تو صرف ہم دو ہی ساتھ تھے۔ عمر کے معمولی فرق کے باجود میں ان کا خادم بن گیا تھا۔ میں ان آنکھوں میں آنکھیں ہی نہیں ڈال سکتا تھا۔ کبھی سوچتا کہ آخر یہ مقام کیوں نصیب ہوا ہے؟ ان کے اور ان کے رب کے درمیان ایسا کیا ہے؟ تو مجھے ان کی صحبت سے اس آیت کی سمجھ آگئی کہ :”اللہ فرشتوں میں سے بھی اور لوگوں میں سے بھی اپنے پیامبر منتخب کرتا ہے۔” [الحج: 75]
ایک اور موقع پر ڈاکٹر امام کہتے ہیں کہ:”چھٹی کے دوران میری ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا کہ فجر کہاں پڑھتے ہو؟ میں گھبرایا کیوں کہ میں نماز کا پابند نہیں تھا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ وہ “مسجد القنطرۃ” میں پڑھتے ہیں اور وہ مجھے روز فجر کے لیے جگانے آئیں گے ۔۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور یوں میں پابندی سے فجر پڑھنے لگا۔ تعلیمِ حدیث اور تحفیظِ متون کے باوجود پہلی مرتبہ ان کے مخصوص انداز میں صبح کے اذکار سنے۔ ان کے انتخاب پر میں حیران ہوا اور ان سے متاثر ہوا۔”
امام عدس، العریان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “میں نے خود بہت سوچا کہ اللہ اور العریان کے درمیان کیا راز ہے کہ لوگ متفق ہوگئے ہیں کہ ان جیسا نمونہ بار بار نہیں پیدا ہوتا۔ اور وقت گزرتے ساتھ مجھے اس کی سمجھ آگئی کہ راز یہ ہے کہ انہیں ترجیحات قائم کرنا اچھے سے آتا تھا۔ قرآن اور نماز کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا۔ سفر و حضر سب میں نماز قائم کرتے اور اس نماز میں اپنے رب سے اس کی کتاب کے ذریعے ہمکلام ہوتے جو ان کے دل میں محفوظ تھی۔
مترجم: زعیم الرحمان