ٹال مٹول کسی بھی کام کی تکمیل اور ترقی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ درحقیقت عبادت میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام لینے والا اپنی زندگی اللہ کی طرف سے عائد کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے گزارتا ہے، یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے۔ پھر جب اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، اور وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھتا ہے جیسے کہ وہ واقعی ہیں، تو اسے پچھتاوا اور ندامت ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنی حالت کو سدھارنے کے لیے دنیا میں واپس آنے کی خواہش کرتا ہے، جو کہ ممکن نہیں ہو سکتا! کیونکہ اس نے موقع گنوا دیا ہوتا ہے اور اب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت انسان کے ہاتھ میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ عقلمند وہ ہے جو اس مقررہ مہلت میں بڑی سے بڑی خواہش اور مقصد کو بغیر کسی تاخیر کے پورا کر سکے۔ کیونکہ وقت ہی زندگی ہے، اور اگر اس کا ایک حصہ گزر گیا تو جلد ہی باقی ماندہ وقت بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چونکہ انسان کو آزمائش کیلئے پیدا کیا گیا ہے، یعنی اسے زندگی میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو اسے آگے بڑھنے سے روک سکتی ہیں، اور اسے ٹال مٹول کی طرف لے جا سکتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا قیمتی وقت برباد ہو سکتا ہے، جو کبھی لوٹ کے واپس نہیں آتا۔ لہذا اس تحریر میں ہم تاخیر اور ٹال مٹول کی وجوہات اور اس کے ممکنہ علاج پر بحث کریں گے۔
تاخیر یا ٹال مٹول کا مفہوم: وجوہات اور اقسام
عربی زبان میں اس کیلئے” التسویف” کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ” ٹال مٹول” کے ہیں۔ یعنی کوئی بھی کام کرتے وقت یہ کہنا کہ ” بعد میں کروں گا”، ” تھوڑی دیر بعد کروں گا” یا ” عنقریب کروں گا”۔ جب کہ اس کےاصطلاحی معنی یہ ہیں کہ "کسی شخص کا عادتاً بغیر کسی منطقی جواز کے ایسے کاموں کو ٹالنا یا ملتوی کردینا جنہیں انجام دینا ضروری ہو، باوجود اس کے کہ اس کام کے ملتوی ہونے کے نتیجے میں ہونے والے منفی نقصان کے بارے میں اسے پیشگی علم ہو۔
بعض لوگ اسے خود ریگولیٹری ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ، جس وجہ سے لوگ برضا و رغبت غیر معقول طور پر ضروری اور اہم کاموں میں تاخیر کرتے ہیں۔
ٹال مٹول کی بے شمار وجوہات ہیں۔ جس میں بہت سے عوامل کا عمل دخل ہے۔ جیسے کہ شخصی خصائل، قوتِ فیصلہ، وقت اور زمانے کے حوالے سے نقطہ نظر، جذباتیت، اور یہاں تک کہ حیاتیاتی اور بیالوجیکل عوامل بھی: جن میں سے اہم ترین وجوہات کچھ یہ ہیں:
پست ہمتی : یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک ایسے شخص کو متاثر کرتی ہے جس میں خوف کا پہلو امید کے پہلو پر غالب ہو، اس کے علاوہ جو ان لوگوں کی صحبت میں رہتا ہو جو اپنے معاملات میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔
شخصی خصائل: کچھ لوگ عادتاً کاموں میں تاخیر کرتے ہیں، خود پر قابو نہیں رکھ پاتے، جو پریشان رہتے ہیں، اور اپنے آپ کو منظم کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے تاخیر اور ٹال مٹول ان کی زندگی کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے۔
فوری اور نقد فائدے کی خواہش: اس کی وجہ سے بہت سے لوگ بوریت اور لا ابالی پن کا شکار ہو جاتے ہیں اور طویل المدتی نتائج کا انتظار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے وہ لگن سے کام کرنے اور کوشش کرتے رہنے کے بجائے تاخیر اور ٹالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جسمانی صحت: جسمانی صحت کا ایک شخص کی مثبت اور منفی رویے پر بہت اثر پڑتا ہے۔ وہ شخص جو جسمانی اور ذہنی طور پر توانا ہو، وہ زندگی میں آگے بڑھتا ہے اور اپنے اہداف پر نظر رکھنے والا ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے کام میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام نہیں لیتا، بہ نسبت اس شخص کے جو افسردہ ہو یا اضطراب اور پریشانی کا شکار ہو، جسمانی اور ذہنی طور پر لاغر ہو تو وہ کبھی بھی اپنے ہدف کا تعاقب نہیں کر پاتا، کیونکہ یہ سب چیزیں اسے کا راستہ روکتی ہیں۔
قوتِ ارادہ کی کمزوری: کچھ لوگ مشکلات کا سامنا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اپنے آپ کو منظم کرنے یا انہیں تفویض کردہ کاموں کو مکمل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، انہیں خلفشار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے وہ کام مکمل کرنے کے بجائے محض وقت گزاری کیلئے دوسرے ذرائع جیسے سوشل میڈیا، گپ شپ جیسی چیزوں کی طرف لپکتے ہیں تاکہ ان کی جان چھوٹ جائے۔
واضح مقصد اور ہدف کی عدم موجودگی: جو کام کیا جارہا ہے اس کے مقصد، اس کی قیمت اور اس کی اہمیت سے عدمِ واقفیت انسان کو سستی اور ٹال مٹول کی طرف لے جاتی ہے۔
آغاز کا خوف: بہت سے لوگ ہیں جو زندگی کے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، زندگی کے مختلف مراحل کو لے کر ان کے ذہنوں میں عجیب قسم کے مشکل تصورات ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی کام کے آغاز کو لے کر ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
صلاحیتوں سے بڑھ کر توقعات: بعض لوگ اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اہداف، توقعات اور عزائم طے کرتے ہیں، پھر اگر وہ ایک بار ناکام ہو جائیں، تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور معاملات کو لے کر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔
ہر طرح کی تاخیر نقصان دہ نہیں ہوتی، کیونکہ بہت سے کامیاب افراد جو اپنی زندگی کو منظم کرتے ہیں، اپنی سرگرمیوں کو بحال کرنے اور اپنے اوپر دباؤ کم کرنے کے لیے کچھ کاموں کو التواء میں ڈال دیتے ہیں، اس وجہ سے بسا اوقات ٹال مٹول سے کام لینا مثبت نتائج دیتا ہے۔ جب کہ اکثر اوقات ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔
مثبت تاخیر: یہ تاخیر کی دوسری شکل ہے، اور یہ جان بوجھ کر اور اپنی مرضی سے کسی کام کو ملتوی کرنے کے لیے کوئی شخص اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ کام کا دباؤ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ ہم ترجیحات متعین کرکے اس کام کو فوری طور انجام دیں جو زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جب کہ دوسرے کام کچھ وقت کیلئے ملتوی کریں۔
منفی یا ناپسندیدہ تاخیر: یہ التوا کی ایک ناپسندیدہ شکل ہے جو ایک شخص کو کام کا بوجھ نہ ہونے کے باوجود مدتہائے دراز تک کام کو لٹکائے رکھنے اور ٹال مٹول سے کام لینے پر اکساتا ہے۔ جس کی وجہ پست حوصلگی، کم ہمتی یا کام کو مکمل کرنے کے حوالے سے مناسب فیصلے کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔
ماہرین نفسیات بعض نفسیاتی وجوہات کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
پرفیکشنسٹ (کمال پرست) شخصیت: وہ شخص جو کسی کام کی تکمیل میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات کا خیال رکھتا ہے، یہاں تک کہ بعض ثانوی چیزوں کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرنے سے ہی گھبراتے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں! کیونکہ وہ ناکامی سے ڈر رہے ہوتے ہیں، اور وہ تمام کاموں کو بتمام و کمال انجام دینا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اسی کے اسیر بنے رہتے ہیں اور آگے بڑھنے سے ڈر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
خوابیدہ شخصیت: وہ شخص جو کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور عملی کام کرنے کے بجائے محض خیالی منصوبے بنانے سے لطف اندوز ہوتا ہے، لیکن اسے اس منصوبے کو عملی دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔
پرہیز کرنے والی شخصیت: یہ وہ شخص ہے جو کسی کام کو انجام دینے سے ڈرتا ہے اور ناکامی کے خوف اور دوسروں کی باتوں سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر اسے ملتوی کر دیتا ہے۔
عام روٹین والے لوگ: ایک عام آدمی کو ترجیحات طے کرنے میں اکثر اوقات دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب کہ ایک ہی وقت میں اس پر کافی سارے کاموں کا بوجھ ہو تو نتیجتاً وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور چیزیں اس سے رہ جاتی ہیں۔
بحران پیدا کرنے والی شخصیت: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لئے جان بوجھ کر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ یہ وقت پر کام کرنے کے بجائے انہیں آخری وقت تک ملتوی کرتے ہیں۔ پھر یہ جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور اپنے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
اسلام ٹال مٹول سے منع کرتا ہے:
اسلام اپنے ماننے والوں کو ٹال مٹول سے خبردار کرتا ہے اور اس کا مقابلہ اعتدال پسندانہ تعلیمی اور تربیتی طریقوں سے کرتا ہے، جو افراط و تفریط سے پاک اور انسانی بشری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تاخیری حربوں اور ٹال مٹول کی رسی کو جرأت، پھرتی، تندہی اور ایک دوسرے سے سبقت لینے کی تلوار سے کاٹنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی [آل عمران: 133]۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں [الحدید: 21]۔
جب اللہ تعالٰی اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء و رُسل کا ذکر اپنے پاک کلام میں کرتے ہیں تو ان کی پاکیزہ صفات کو گن کر انہیں اس شان سے یاد کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے "یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے” [الأنبياء: 90]۔ وہ اللہ سے ڈرنے والوں کو اپنی جنت کہہ کر انہیں اس طرح مخاطب کرتا ہے "بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کرکے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں” [المؤمنون: 61]۔
وہ ہر اس شخص کو متنبہ کرتا ہے جو نیک کاموں میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ” جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ "اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا‘‘ [المنافقون: 10-11]۔
یہ ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمیں زندگی، صحت، جوانی اور فارغ اوقات سے فائدہ اٹھانے کی تلقین اس خوبصورت انداز سے کرتے ہیں: فرماتے ہیں "پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: اپنی زندگی کو موت سے پہلے، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، فارغ اوقات کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور اپنی دولت کو غربت سے پہلے” [صحیح، اسے احمد نے زھد میں روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے حاکم، بیھقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نیک اعمال میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہے قبل اس کے کہ حالات کے اندر تغیر و تبدل ہو، اور فرمایا: سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، کیا تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو نہایت سخت اور کڑوی ہے” [ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے]۔
ٹال مٹول فرد اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے:
ٹال مٹول، تاخیر اور چیزوں کو التواء میں ڈالنا فرد اور معاشرہ دونوں کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے دل کو مردہ اور دماغ پر جمود طاری کر دیتی ہے۔ یہ ایک گمراہ کُن شیطانی حربہ ہے جو کہ انسان کا تعاقب کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے عاجزی اور قعرِمذلت کی تنگنائیوں میں گُم کر دیتا ہے۔ شیطان انسانی وقت کا بدترین دشمن ہے، جو کہ زندگی کو گمراہیوں میں ڈال کر تباہ و برباد کر دیتا ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ابنِ آدم کی زندگی اکارت جائے اور یہ آخرت میں ناکام و نامراد ہو۔
یہ بیماری لوگوں کو راہ راست سے ہٹاتی ہے اور ان کی توانائیوں کو صحیح راستے پر خرچ ہونے سے روکتی ہے۔ یہ انسان کی زندگی کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے اور اسے ہر کامیابی اور بلندی سے دور رکھتی ہے۔
اس کا نتیجہ قیمتی وقت کی ناقدری، فرصت کے مواقع کا ضیاع، اور کاموں کو وقت پر مکمل نہ کر پانے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت کی بہت سی بھلائیوں سے محرومی اور پشیمانی ہے۔
بہت سارے کاموں کا بیک وقت جمع ہو جانا، پھر ان کی انجام دہی میں تاخیر کرنا انسان کو اس مخمصے میں ڈالتا ہے کہ کس کام کو مکمل کروں اور کس کو مؤخر کروں! نتیجتاً اس کی سوچیں بھٹک جاتی ہیں، اس کی کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں، اس پر حد سے زیادہ بوجھ دباؤ آتا ہے۔ آخر کار وہ فرائض کی بر وقت انجام دہی سے قاصر رہتا ہے۔
فرائض کو بر وقت انجام نہ دینا انسان کے وقار کو مجروح کر دیتا ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور قدر و منزلت گھٹ جاتی ہے، لوگ آپ کو ہلکا لیتے ہیں اور کوئی آپ کی بات کو اہمیت نہیں دیتا۔
فرائض کو بر وقت انجام نہ دینے اور ٹال مٹول کرنے سے انسان اکثر اوقات غلط فیصلے کرتا ہے۔
اسی طرح جو انسان ٹال مٹول سے کام لیتا ہے وہ خالق کائنات کی امداد سے بھی محروم ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مدد بالکل بھی نہیں کرتے جو اس کی طرف رجوع کرنے میں تاخیر کرتے ہیں اور اسے نظرانداز کرتے ہیں۔
ممکنہ علاج اور سدِ باب:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر ایک بیماری کا علاج بتایا ہے۔ لہذا اس بیماری کے تدارک کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اس بیماری کی تشخیص کرے اور اس کی علامات اور اسباب کی نشاندہی کرے، تاکہ وہ اس کا مناسب اور مؤثر علاج تیار کر سکے۔ اس کے علاج کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:
- یہ کہ انسان کے اہداف واضح ہوں، ان اہداف کو مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہو، اسے اپنے جذبات پر کنٹرول ہو۔ کیونکہ آج کی تھکاوٹ کل کے کی آرام سے بہتر ہے، بجائے اس کے آپ آج آرام کریں اور پھر زندگی بھر آپ خوار ہوتے رہیں۔
- اللہ تعالیٰ سے مدد اور استعانت طلب کرنا اور اس سے عاجزی اور کاہلی سے نجات کے لیے مسلسل دعا کرنا۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس سلسلے میں اللہ سے بالخصوص یہ دعا مانگتے تھے "اے اللہ! میں فکر و سوچ اور پریشانی سے، عاجزی و کاہلی سے، کنجوسی و بزدلی سے، تیری پناہ مانگتا ہوں“
- سست، کاہل اور ٹال مٹول کرنے والوں کی صحبت سے دور رہنا، اور ہمہ وقت ان لوگوں کی تلاش میں رہنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا جن کے عزائم پختہ ہوں اور جن کے اہداف و مقاصد بلند ہوں۔
- اپنے کاموں کے سلسلے میں ترجیحات متعین کریں۔ اور ہر کام کیلئے مناسب وقت متعین کریں۔ یہ چیز آپ کو اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے اور مقررہ وقت کے اندر اسے مکمل کرنے پر مجبور کرے گی۔
- حقیقت پسندی اختیار کیجئیے۔ خیالی دنیا میں رہنے سے اجتناب کریں۔ اپنے ہدف کو متعین کریں، اپنے مقاصد کو واضح رکھیں اور پھر ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔
- اپنے نفس کو عزم، جوش اور جذبے کا عادی بنائیں۔ اسے اس چیز کا عادی بنائیں کہ وہ ہمت، حوصلہ اور سنجیدگی کے ساتھ خوابوں کی تکمیل میں آگے بڑھتا رہے۔
- اپنے پیش روؤں کی حالات زندگی کا مطالعہ کیجئیے ، اور غور کریں کہ انہوں نے کس طرح اس بری خصلت سے اپنے آپ کو محفوظ کیا۔
- سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ فروعی، غیر ضروری اور لایعنی کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اپنی توجہ اسی کام پر مرکوز کریں جو آپ اور آپ کے معاشرے کیلئے فایدہ مند ہو۔
- اپنے کاموں کا بار بار جائزہ لیجئے۔ اور ان مثبت، منفی، کمزوریوں اور خوبیوں کی نشاندہی کریں جو آپ نے کام کو مکمل کرنے کے دوران محسوس کی ہوں تاکہ مستقبل میں آپ انہی غلطیوں کا اعادہ کرنے سے بچ جائیں اور آپ کا قیمتی وقت برباد نہ ہو۔
- اپنے کام کو چھوٹے چھوٹے اجزاء میں تقسیم کریں: یہ چیز کام کی کثرت کے احساس کر ختم کر دیتی ہے اور انہیں مکمل کرنے کے جذبے اور جوش کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے ۔ اور اس خوف پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے جو کسی بھی نئے کام کو شروع کرتے وقت انسان کو لاحق ہوتا ہے۔
- ذہنی خلفشار پر قابو پانا: کیونکہ کاموں کو وقت پر مکمل کر سکنے اور مہارت حاصل کرنے اور کام پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ذہنی خلفشار پر مکمل قابو حاصل کر سکے۔
- دباؤ کی شدت کی وجہ سے گھٹن کے زیر اثر ہر گز کام نہ کریں۔ پہلے ان سے چھٹکارا حاصل کر لیجئیے۔ پھرسکون سے، جی لگا کر مطمئن روح کے ساتھ کام کیجئیے۔
ٹال مٹول کا مطلب ہے وقت کی قدر و منزلت کا احساس نہ ہونا! جیسا کہ حسن البصری رحمہ اللہ نے کہا ہے: "اے ابن آدم، تمہارا وجود ایام سے تعبیر ہے۔ جب ایک دن گزرتا ہے تو تمہارے وجود کا ایک حصہ گھٹ جاتا ہے۔ اور اگر تم میں سے کچھ لوگ چلے گئے تو یقیناً تم سب جلد ہی ختم ہو جاؤ گے” اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ایسے عام مسائل پیش آتے ہیں جو انسان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو انہیں سنبھالنے سے قاصر پاتا ہے۔ لہذا اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ وہ اپنی فیصلہ سازی کی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام معاملات میں خدا تعالیٰ سے استعانت طلب کرے۔ اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔
مصادر و مراجع:
مدونۃ إدراك: ما هو التسويف؟ معناه، وأسبابه!: 2 فبراير 2022
رقية مقلد: مفهوم التّسويف؛ وأهم 6 مصطلحات تفسر المماطلة والتأجيل، نوفمبر 2022
موقع النجاح: 5 أنواع للمماطلة، وكيف نتغلب على كلٍّ منها؟: 25 أغسطس 2020
إسلام ويب: احذروا .. (سوف) !!: 26 نوفمبر 2017
هبة سعيد: تأثير تأجيل الأعمال والتسويف على حياتك، 25 فبراير 2020
محمود أبو عادي: لا تُؤجّل قراءة هذا التقرير إلى وقتٍ لاحق: إليك نصائح علم النفس للتغلّب على عادة التسويف، 1 يونيو 2022
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ