اللہ تعالیٰ نے والدین کی خدمت کو توحید اور حقوق اللہ کے بعد دوسرے نمبر پر اہمیت دی ہے۔ صحابہ کرام اپنے والدین کے ساتھ اسی سوچ کی بنا پر اچھا سلوک کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بہترین اعمال میں سے ایک ہے۔ یہ عمل فرائض و واجبات میں اللہ کے سب سے قریب کرنے والا عمل ہے، اور اس پر عمل نہ کرنا بدترین گناہوں اور برے اعمال میں شمار ہوتا ہے۔
اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کی نظر میں بہت ہی بڑی عبادت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین انسان کی جڑ ہیں اور قادر و بلند مرتبہ رب کی تقدیر کے بعد یہی والدین اس کے وجود کا سبب ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہر قیمت پراپنے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کی، لہٰذا اس کے بعد ان کے ساتھ عزت اور اچھے سلوک سے پیش آنا ہی عقل کا تقاضا ہے۔

صحابہ کرام کا اپنے والدین کا احترام : شرعی اصول
صحابہ کرامؓ کا اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے جو اصولاََ قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں بہت سی جگہوں پر والدین کی خدمت کا ذکر کیا ہے، جن میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی شامل ہے: “اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی، اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں رکھتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔” [النساء: 36]
حتیٰ کہ اگر والدین مشرک بھی ہوں پھر بھی ان سے حسن سلوک منع نہیں کیا گیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں میرے ساتھ کسی بات میں شرک کروانے پر مجبور کریں جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے، تو ان کا یہ کہنا نہ مانو، بہرحال سب کو میرے پاس ہی لوٹنا ہے، پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے۔” [العنکبوت: 8]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ انہوں نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا، میں نے کہا: پھر کون سا؟ انہوں نے فرمایا: اپنے والدین سے نیک برتاؤ کرنا، میں نے کہا: “پھر کیا؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کی راہ میں جہاد” [ متفق علیہ] اور اس طرح والدین کی خدمت کو نماز، جس کے متعلق مسلمان کو سب سے پہلا سوال ہوگا اور جہاد، جو اس دین کی چوٹی کا عمل ہے کے بیچوں بیچ رکھا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، اور جب اللہ اس کام سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ میں اسی وقت قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں ان لوگوں سے جڑوں جو تمہارے ساتھ جڑیں گے اور جو تم سے تعلق منقطع کرتے ہیں میں ان کے ساتھ تعلق منقطع کردوں۔ اس نے کہا کہ میں مطمئن ہوں، اللہ نے کہا یہ تم سے وعدہ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو، “اگر تمہیں اختیارات دیے جائیں پھر کیا تم نافرمانیاں کرو گے۔ زمین میں فساد برپا کرو گے۔ قطع رحمی کرو گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے ان کو بہرا کر دیا اور انہیں بینائی سے محروم کردیا۔” [محمد: 22،23]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اچھی صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا، “پھر کون؟” انہوں نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا، “پھر کون؟” انہوں نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا، “پھر کون؟” ”آپ کے والد،” انہوں نے فرمایا۔
مشرک والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بارے میں سورۂ عنکبوت میں جو بات بیان کی گئی ہے سنت مطہرہ اس سے اتفاق کرتی ہے، جیسے اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرک تھیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری ماں میرے پاس کسی چیز کی طلب سے آئی تھی کیا مجھے اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے؟ انہوں نے فرمایا، “ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔” [متفق علیہ]
بلکہ نیک سلوک میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کو بھول کر بھی کوئی ایذا نہ دی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دیتا ہے، ” انہوں نے کہا: یا رسول اللہ، کیا کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں اگر کوئی شخص کسی اور شخص کے باپ کو گالیاں دے، تو وہ اس کے باپ کو گالیاں دے گا اور اگر کوئی کسی دوسرے کی ماں کو گالی دے تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا” [بخاری و مسلم]۔
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ تھا کہ ماں باپ کی عزت کرنا اور خاص طور پر ماؤں کے ساتھ نیکی کرنا افضل ترین عمل ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا: میں ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کے بارے میں نہیں جانتا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس نے ایک آدمی سے کہا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ آدمی نے کہا کہ میرے پاس صرف ماں ہے اور اس نے کہا کہ اگر تم اس سے نرمی سے بات کرو گے اسے کھلاؤ پلاؤ گے پھر بڑے گناہوں سے دور رہو گے تو یقیناََ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

والدین کے ساتھ صحابہ کرام کے نیک برتاؤ کی عملی مثالیں:
احادیث اور سیرت کی کتابیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ان کے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ، ان کی عزت اور دیکھ بھال کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میری والدہ مشرک تھی اور میں انہیں اسلام کی دعوت دیتا تھا، وہ جواب میں مجھے انکار کرتی تھی، لیکن ایک دن جب میں نے اسے دعوت دی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسی بات کہہ دی جو مجھے بہت بری لگی۔ اس وجہ سے میں روتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپؐ سے اپنی ماں کی ہدایت کے لیے دعا کی درخواست کی، تو آپؐ نے کہا : اے اللہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنی ماں کو خوشخبری دینے کے لئے دوڑتے ہوئے باہر نکلا اور جب میں وہاں پہنچا تو دروازہ بند تھا اور میں نے اندر سے پانی کی آوازسنی وہ غسل کر رہی تھی اور اس نے مجھے قدموں کی آہٹ سے پہچان لیا اور کہا: جہاں ہو وہیں رک جاؤ، پھر اس نے لباس پہن کر دروازہ کھولا اور جلدی سے سر ڈھانپے بغیر باہر چلی آئی اور کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور میں خوشی سے روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اے اللہ کے رسول دعا کرو کہ اللہ کے مخلص اور وفادار بندوں کو میری ماں اور مجھ سے محبت ہوجائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ اپنے اس بندے اور اس کی ماں کے لیے اپنے وفادار بندوں کے دل میں محبت پیدا کر۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نفلی حج کو ماں کی صحبت میں چھوڑ دیا اور فرمایا: اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے اگر اللہ کی خاطر جہاد کرنا، حج کرنا اور اپنی ماں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا نہ ہوتا تو میں غلام بن کر مرنا پسند کرتا۔ مسلم کی روایت میں اضافہ کے ساتھ آیا ہے الزھری نے کہا: ہمارے پاس یہ بات پہنچی ہے کہ ابو ہریرہؓ نے ماں کے انتقال تک حج نہیں کیا تاکہ اس کے ساتھ رہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد نفلی حج ہے کیونکہ دور نبویؐ میں حج اسلام کی حجت تھا۔ لہٰذا اس نے نفلی حج پر ماں کی خدمت کو ترجیح دی، کیونکہ ماں کے ساتھ حسن سلوک واجب ہے، اس لیے اسے نفل پر مقدم رکھا۔
صحیح بخاری و مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری والدہ فوت ہو گئیں اور ان کے ذمہ نذر کا روزہ ہے، کیا میں ان کی طرف سے روزہ رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی کیا رائے ہے اگر آپ کی والدہ پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتی تو کیا اس کی طرف سے قرض ادا ہوجاتا؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “تو اس کی طرف سے روزہ رکھو۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ فوت ہوگئیں جب وہ وہاں موجود نہیں تھا اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ، میری والدہ فوت ہو گئیں جب کہ میں غائب تھا۔ کیا میں اس کے لیے صدقہ کرسکتا ہوں، آپؐ نے کہا: ہاں، اس نے کہا میں آپؐ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا پھل دار کھجور کا باغ اس کے لیے صدقہ ہے۔
نیکی صرف روزے اور صدقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں حج بھی شامل ہے چنانچہ عطاء بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی ماں کو صدقہ میں ایک خادمہ دی تھی اور میری ماں وفات پاگئی اور اپنے پیچھے وہ لونڈی چھوڑ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اجر تو یقینی ہے اور یہ لونڈی تمہیں وراثت میں واپس مل گئی۔ اس نے کہا: جب وہ مرگئی اس وقت اس کے ذمہ ایک مہینے کے روزے تھے، اگر میں اس کے لئے روزہ رکھوں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ جی ہاں، اس نے کہا کہ وہ کبھی حج پر نہیں گئی، کیا میں اس کے لئے حج کر سکتی ہوں تو کیا اسے ثواب ملے گا، آپؐ نے فرمایا، ہاں [صحیح ابی داؤد]۔
ابومرہ مولی ام ہانی بنت ابی طالب سے روایت ہے کہ وہ ابوہریرہ ؓ کے ساتھ عقیق میں اس کے گھر گیا اور جب وہ گھر کے آنگن میں داخل ہوئے تو بلند آواز میں پکارا: اے ماں تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ اس نے کہا: تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ اس نے کہا تم پر رحمت ہو جس طرح تو نے مجھے بچپن میں پالا ہے اور ماں نے کہا: اے میرے بیٹے، اللہ تجھے جزا دے اور تجھ سے اسی طرح راضی ہو جس طرح تم نے میرے بڑھاپے میں میری خدمت کی۔ [بخاری، الادب المفرد]۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قسم کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ نے کرنا تھا اور اس سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ آپؐ نے کہا کہ اس کی طرف سے پورا کرو۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب جنگ احد سر پر تھی تو میرے والد نے مجھے ایک رات بلایا اور کہا: “میں دیکھ رہا ہوں کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے پہلے میں قتل ہوجاؤں گا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے۔ اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ میرا قرض ہے اسے ادا کرنا اور میں تمہیں تمہاری بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔” اور جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ سب سے پہلے شہید ہوگیا تھا، لہٰذا میں نے اسے ایک اور شخص کے ساتھ قبر میں دفن کیا، اور کچھ عرصہ بعد مجھے اس کو قبر میں دوسرے کے ساتھ چھوڑنا اچھا نہیں لگا تو میں نے چھ ماہ کے بعد اسے قبر سے باہر نکال دیا، اور اس کے کانوں کو چھوڑ کر پورا جسم ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ایک دن پہلے ہی اسے دفن کیا گیا ہو۔
صحابہ کرامؓ کا اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک ان مثالوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے بالکل واضح ہے، اور اس میں ان کے راستے پر چلنے اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے کی دعوت اور ترغیب ہے، کیونکہ نیک برتاو کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، نیز والدین کی دیکھ بھال کرنا، ان کی خواہشوں کا خیال رکھنا، ان کی خدمت کرنا، ان کا قرض ادا کرنا، اور محتاجی میں ان کی مدد کرنا بچوں پر لازم ہے اور انہیں چاہیے کہ زندگی بھر اس عمل میں حتی الامکان زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔
مآخذ و حوالہ جات:
- فہد بن عبد العزیز بن عبد اللہ الشویرح : صحابۂ کرام کا والدین کے ساتھ نیک سلوک کا مطالعہ۔
- بخاری : صحیح الادب المفرد، ص4 و 6
- ذھبی : اسلام کی تاریخ، 4/351
- امام نووی : مسلم کی شرح، ص 114
- ابن حجر عسقلانی : فتح الباری، 453/5
- ابن الاثیر : أسد الغابہ 232/3
مترجم: سجاد الحق