میرے تین (بچے) بیٹے ہیں جن کی عمر بالترتیب 23، 19 اور 17 سال کی ہے، جو باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور اپنے والد کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔ ہم ان کے اندر خدا کی محبت، اطاعت، نرمی یا فرمانبرداری نہیں پاتے، جس کی وجہ سے ہم دونوں بہت دکھی ہیں، اور ہم نے ان پر بہت حربے آزمائے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، حتیٰ کہ ہم نے قانون کا سہارا بھی لیا۔ کیا کوئی حل ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ ہمیں صبر اور خود احتسابی سے کام لینا ہے، پھر بھی ہم ممکنہ اسباب اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
جواب:
مکرمی سائلہ: اللہ آپ کے حال پر رحم کرے اور بچوں کے ذریعے آپ کو وہ خوشی عطا کرے جس کی آپ تمنا کرتی ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ بچے کاہلی یا لاپرواہی کی وجہ سے نماز نہ پڑھتے ہوں مگر یہ کوئی ہلکی بات نہیں ہے، بلکہ لازمی ہے کہ انہیں آپ اور آپ کے شوہر کی طرف سے ایک سخت اور فیصلہ کن مؤقف کا سامنا کرنا پڑے۔ ہم آپ سے ایک سوال پوچھنے کے بعد دوبارہ اس نکتے پر بات کرنے کے لئے واپس آئیں گے وہ یہ کہ بچپن میں آپ دونوں کا اپنے بچوں کے ساتھ رشتہ کیسا تھا؟
وہ تمہارے اور اپنے باپ کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیوں کر رہے ہیں؟، کہیں یہ اس ظلم کا نتیجہ تو نہیں جو ان کے ساتھ بچپن میں کیا جاتا تھا؟ یا آپ کے اور ان کے والد کے درمیان کوئی مسئلہ ہے جس نے پورے گھر کی حالت کو متاثر کیا ہے؟
ہم اس برے حال کو ان کی بچپن کی حالت سے کبھی الگ نہیں کر سکتے، اور حقیقت یہی ہے کہ ہم اچھا بیج بوتے ہیں تو اچھا اور میٹھا پھل کاٹتے ہیں۔ پھر کیا آپ نے بچپن میں اچھے پودے لگائے ہیں اور اچھی پرورش کی ہے؟ ”اور نوجوان لڑکے وہی کرتے ہیں جو پہلے ان کے والد کیا کرتے تھے۔”
مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کے بیٹوں کو بچپن میں اپنے باپ کے ساتھ کچھ ایسا مسئلہ رہا ہوگا جسے سمجھنے اور جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تاکہ بچپن کی مشکل کو حل کیا جاسکے، جو مجھے لگتا ہے کہ ہوش و حواس سنبھالنے اور جوان ہونے کے بعد بھی ان کے دل و دماغ میں رہ گیا ہے، جیسے کہ آپ کا بڑا بیٹا جو اب جوان ہوچکا ہے جس کے بارے میں آپ کو یہی شکایت ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ بچپن میں کچھ چیزوں کوغلط طریقے سے معاملہ کیا گیا ہے اس لیے نتیجہ یہ غیر متوقع صورتحال، مختلف شکلوں میں پیدا ہوگئی ہے۔
کچھ لوگ آپ سے یہ کہیں گے: "بہت دیر ہوچکی ہے، یا ماضی میں جانکنا بے وقوفی ہے، یا جو ہوگیا سو ہوگیا!” سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں جو کچھ ہوا ہے اس میں سے کچھ بھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدقسمتی سے یہ رویے اور ردعمل مسخ شدہ شکلوں میں کسی نہ کسی طرح لاشعور کے اندر محفوظ ہو جاتے ہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ قضاء حاجت کے لئے دو رکعت نماز پڑھیں اور دعا میں اللہ سے اصرار کریں، پھر ہر ایک کے ساتھ الگ الگ بیٹھیں اور اس سے اپنے اور ان کے والد پر ظلم کی وجہ پوچھیں تو آپ کو ان میں سے ہر ایک کے پاس وجہ ملے گی صحیح یا غلط، اور ہم سے جس بات کی وضاحت ممکن ہوسکتی تھی اسے ہم نے واضح کیا ہے اور بحیثیت خاندان آپ سے جو خطا سرزد ہوئی ہے آپ جرأت سے اس کی معافی مانگیں۔
بچے چاہے کتنے ہی بڑے ہو جائیں بہرحال انہیں ہم سے محبت کے جذبات کی تصدیق چاہیے، اور ہر حال میں انہیں قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
ہوسکتا ہے آپ کو یہ عمل انفرادی طور پر دہرانے کی ضرورت پڑ جائے یہاں تک کہ حالات بہتر ہوجائیں۔ انہیں ایک خوشگوار دعوت پر جمع کریں جیسے یہ کسی نئے باب کا آغاز ہو، اور شروع میں ان کے ظلم کی وجوہات کو ان کے نقطۂ نظر سے پیش کرنے کے بعد انہیں اپنے والد سے بات کرنے کی اجازت دیں، تاکہ ان کے والد کا سینہ سننے کے لیے کھل جائے۔
پھر ماضی کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور اس کی غلطیوں پر درگذر کرنے کے بعد، ہم ان کی نماز کی حالت پر ان کے ساتھ کھڑے ہوں، اور آپ دیکھیں گے کہ جونہی آپ اور ان کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے جائیں گے تو رب کے ساتھ ان کے تعلق میں خود بخود بہتری آتی جائے گی۔ بدقسمتی سے بعض اوقات بچوں کو والدین کے ساتھ خراب تعلقات کے نتیجے میں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
بچے شریعت کے احکامات کو ہمارے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر ہمارے اور ان کے درمیان تعلق متزلزل ہو جائے تو اس سے ان کے الہٰی نقطہ نظر پر اثر پڑتا ہے اور وہ جان بوجھ کر دوری کا انتخاب کرتے ہیں۔
مکرمی سائلہ:
والدین کو ایک یا دو بیٹوں سے آزمائش ہوسکتی ہے لیکن اگر تینوں بیٹے یکساں طور پر برے ہیں تو ہمیں شک ہے کہ اصل چیز بچپن میں پرورش اور رہنمائی میں مسئلہ رہا ہے۔
حوصلہ افزائی اور ڈرانے دھمکانے کا وقت تو گذر چکا ہے، سب سے چھوٹے بچے کی سات برس کی عمر میں نماز کی تربیت تو ہاتھ سے نکل گئی ہے تاہم باجماعت نماز پڑھنے کی نصیحت کرنے میں ہم کوئی کسر نہ چھوڑیں، انہیں یاد دلانے سے باز نہ آئیں اور انہیں اس معاملے میں سبقت لے جانے تک انتظار نہ کریں، شروع میں وہ ناراض ہونگے اور پھر اللہ ان پر راستہ آسان کرے گا۔
اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم اس بات کی وضاحت کریں جو بات ہمیں واضح لگتی ہے کہ نماز دین کا ستون ہے، ان سے ایک سوال پوچھیں جو بڑا اچھنبا لگتا ہے، کیا آپ اب بھی مسلمان ہیں؟ نماز کے بغیر آپ کے اسلام کا کیا مطلب ہے؟
اسلام میں فرائض کی تعداد تھوڑی ہے، دن اور رات میں کل پانچ فرض ہیں، جن کے ذریعے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
انہیں یاد دلاؤ کہ نماز ایک فرض ہے جس میں کوئی کسی کی طرف سے ادا نہیں کرسکتا: "نماز مومنوں کے لئے مقررہ وقت پر فرض ہے۔” [القرآن]
نماز سفر، جنگ یا بیماری میں ساقط نہیں ہوتی، ان میں سے ہر ایک حالت میں نماز ایک خاص ہئیت اور شکل میں فرض ہے، ایک ایسی بھی آیت نازل ہوئی ہے جو نماز خوف کی شکل کو بیان کرتی ہے، اور ہم ہیں کہ اپنے گھروں میں محفوظ ہونے کے باوجود بھی اس بارے میں سست ہیں!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور جب تم بحیثیت امام انہیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوجاؤ تو ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ ہتھیار لیے کھڑا ہوجائے پھر جب وہ سجدہ کرچکے تو ہٹ کر پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی تو وہ تمہارے ساتھ نماز پڑھیں اور احتیاطاََ ہتھیار ساتھ رکھیں۔ اور کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے بے خبر رہو تاکہ وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔۔۔” انہیں نصیحت کرنے کے بعد ہم انہیں اس وقت تک چھوڑیں گے جب تک کہ ان کی اصلاح نہ ہوجائے۔
اور ان کے لیے دعا کرنے سے نہ تھکو، اے ہمارے رب۔۔۔ ہمارے اور ہماری اولاد کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر۔ اور تو سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور جس طرح خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے: "اے میرے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے۔ اے ہمارے رب میری دعا کو قبول فرما۔”
مترجم: سجاد الحق