سوال!
میں ایک نوجوان ہوں اور میں نے کام کے سلسلے میں بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ بعض پُرعزم اور جوشیلے نوجوان اور مبلغین کا اندازِ گفتگو حیران کن حد تک نامناسب ہوگیا ہے۔ وہ اپنی گفتگو کے دوران انتہائی نامناسب اور ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ خامیاں ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں، لیکن جس چیز نے میری غیرت کو اپیل کیا وہ ان لوگوں کا مقام ہے کہ جس پر فائز ہونے کے باوجود وہ ایسی گفتگو کرتے ہیں۔ انہیں تفویض کردہ کردار کے باوجود بھی وہ مسلسل زوال کی طرف گامزن ہیں۔
جواب!
مبلغین اور پرعزم و جوشیلے نوجوان معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہیں، جن کے اندر معاشرے میں پائی جانے والی خرابیاں ظاہر و باہر ہوتی ہیں۔ بد زبانی اور ناشائستہ زبان ان مظاہر میں سے ایک مظہر ہے جو نوجوانوں کے درمیان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وجہ سے عام ہوگیا ہے۔ ایک طرف تعلیمی و تربیتی ادارے اپنا کلیدی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، تو دوسری طرف میڈیا اپنی تمام تر واہیات اور لغویات کے ساتھ کھڑا ہے، پھر نوجوان جن مسائل کا شکار ہیں وہ کسی کے سامنے ان کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں، لہٰذا وہ اسی طریقے سے اپنی بے اطمینانی اور ما فی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ لوگ اس کی سند کے طور پر اللہ تعالیٰ کے اس قول کو لاتے ہیں کہ: {اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو} تاہم یہ کہنے سے معاملہ ایک ایسی عادت میں بدل جاتا ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا عادتاً اس بیماری کا اظہار تب بھی ہوگا جب نا انصافی یا ظلم نہ ہوا ہو۔
بلاشبہ یہ رویہ کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام کی تبلیغ کرنے والے داعیان حق کا معیار تو ویسے بھی بلند ہونا چاہیے جو کہ بہر حال ایک استثناء ہے۔ عام لوگوں کے لیے بھی یہ رویہ شایانِ شان نہیں ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: {اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق “وہ مسلمان نہیں ہے جو طعن و تشنیع کرے اور لعنت کرے، اور جو فحش گوئی اور بے حیائی کا ارتکاب کرے” اور اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
یہاں مسلمانوں کے درمیان نصیحت کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ جب تک آپ کسی شخص سے خیر اور بھلائی کی توقع رکھتے ہیں اور اس میں آپ کو خیر نظر آتی ہے لیکن اس سے آپ ایسی بات سنتے ہیں جو آپ کو ناپسند ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس کی تنبیہ کریں اور اسے نصیحت کریں۔ جب تک آپ اس کے آس پاس کے لوگوں پر اس کے اثر و رسوخ پر یقین رکھتے ہیں۔
میں آپ کو اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ پرعزم نوجوانوں اور مبلغین کے بارے میں اپنی رائے کو جنرلائز (عام) نہ کریں، کیونکہ کسی بھی رائے کی تعمیم بذاتِ خود ایک غلطی ہے اور یہ ان میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں صحیح ہو سکتی ہے اور کچھ کے بارے میں غلطی پر مبنی ہو سکتی ہے۔ چند ایک کے لئے یہ حوصلہ افزا ہوسکتی ہے اور شاید کبھی کبھار بعض لوگ اس کی وجہ سے غلطیوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور صحیح راہ پر گامزن ہونے سے ان کیلئے سد راہ بن سکتی ہے، اگر چہ سچائی اور حق کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے وہ کتنے ہی پُر جوش ہوں۔
یہ چیز میرا دھیان ایک تیسرے نکتے کی طرف لے جاتی ہے کہ تم کسی انسان سے غلطی سرزد ہونے کی توقع رکھنے کے عادی نہ بنو! کیونکہ کوئی بھی شخص نہ تو مجسمِ خیر ہوتا ہے نہ شر۔ تاکہ آپ کسی کے لیے سد راہ نہ بنیں اور شیطان کے لیے آماجگاہ بن کر آپ اسے اہل ایمان سے مایوس کر دیں۔ جان لو جیسا کہ امام مالک رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ: “کسی بھی شخص کی بات قبول کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے سوائے اس صاحب قبر(صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے۔ اور یہ کہ حق لوگوں کی وجہ سے پہچانا نہیں جاتا بلکہ لوگ حق اور سچائی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔”
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ