امام حسن البنا شہید علیہ الرحمہ اپنے مخصوص رسالے میں ملت کے نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے ایک الگ باب باندھنے کے شدید خواہشمند تھے۔ اس لیے انہوں نے ” نوجوانوں کو دعوت” کے نام سے ایک اہم پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے ان نوجوانوں کے لئے ایک خاص تربیتی روڈ میپ ترتیب دیا، جن پر قوموں اور ملتوں کی ترقی اور نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اور جن کے بل پر قومیں اپنی تاریخ رقم کرتی ہیں۔
درحقیقت امام حسن البنا نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز ہی اس وقت کیا جب وہ ایک نوجوان تھے اور ان کی عمر بائیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ وہ پہلا ہراول دستہ جس نے حقیقی اسلام کو اس کی جامع ترین شکل میں سمجھنے کیلئے امام کی آواز پر لبیک کہا وہ چھ نوجوان ہی تھے، جن کی عمریں بیس سال سے زیادہ نہ تھیں۔ جن کے کندھوں پر اخوان المسلمین جیسی عظیم تحریک کی بنیاد ڈالی گئی۔ انہوں نے التہذیب اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی، جسے امام شہید نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کے لیے بنایا تھا، جو آزادانہ اور مثبت طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوں اور جو قوم و ملت کی بھلائی کیلئے کام کرنے کے اہل ہوں۔

نوجوانوں کو دعوت دینے کے اصول و ضوابط:
امام حسن البنا نے اپنے پیغام میں نوجوانوں کو دعوت دینے کے لیے چند قواعد و ضوابط کی ہدایت کی، جن کے ذریعے سے وہ چاہ رہے تھے کہ نوجوان طبقے تک اخوان المسلمین کی دعوت اپنے صحیح اسپرٹ میں واضح طور پر پیش کی جائے۔ تو اللہ کی حمد و ثناء اور نبی مہربان صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد، وہ چند قواعد و ضوابط یہ ہیں:
• ایک نظریہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب اس کے صحیح ہونے پر پختہ یقین ہو، پھر انسان اس کیلئے مخلص اور وفادار ہو، اس کو عام کرنے کے لیے بھرپور جوش و جذبہ ہو، اور پھر اس مقصد کے حصول کیلئے جی جان سے محنت کرے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ اس طرح یہ بنیادی طور پر چار ستون بنتے ہیں: ایمان، اخلاص، جوش و جذبہ اور کام۔ یہ چاروں خصوصیات نوجوانوں کے اندر بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد ایک پاکیزہ دل ہے، خلوص کی بنیاد پاکیزہ سوچ اور نیت ہے، جوش و جذبے کی بنیاد مضبوط فکر ہے، اور عمل کی بنیاد جوان عزم ہے، اور یہ ساری صفات بیک وقت ایک صالح نوجوان میں ہی پائی جا سکتی ہیں۔
• ایک مہذب، اورتہذیب یافتہ اور پرسکون نوجوان اسی قوم میں پروان چڑھ سکتا ہے، جس کا اختیار مضبوط ہو اور جو خوشحال اور ترقی یافتہ ہو، اور جسے اپنی ذات سے زیادہ قوم کی فکر ہو۔ جس کی روح پرسکون اور ضمیر پاک ہو۔ یہ خصائل ایک جدوجہد کرنے والی، محنت کش قوم میں پیدا ہوسکتے ہیں، جسے کسی غاصب طاقت نے اپنے قبضے میں لے لیا ہو، اور جس کے معاملات کو اس غاصب قوت نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہو اور وہ چوری شدہ حقوق، غصب شدہ میراث، کھوئی ہوئی آزادی اور بلند مقاصد، اعلیٰ نظریات کی بازیابی کے لیے زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرتی ہو۔ لہٰذا اس نوجوان کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے زیادہ اپنی قوم پر توجہ دے۔ جب وہ ایسا کرتا ہے، تو وہ فوری طور پر کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور اللہ کے فضل سے مستقبل کی ساری بھلائیاں اس کے انتظار میں ہوتی ہیں۔
• کسی بھی ابھرتی ہوئی قوم کیلئے اس کی نشاۃ ثانیہ کے آغاز میں یہ چیزیں بہت خطرناک اور مہلک ہیں کہ اس کے دعوؤں میں اختلاف اور رجحانات میں اختلاط ہو، اس میں تقطہ ہائے نظر کی کثرت ہو، منصوبوں اور طریقہ ہائے کار میں فرق ہو، لوگوں کی بڑی تعداد قیادت کی مخالف ہو۔ جہاں قیادت منقسم ہو۔ تقسیم ہائے کار صحیح طرح سے نہ ہو۔ یہ سب چیزیں ایک قوم کو اپنے اہداف تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو اصلاح کے خواہاں ہوں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کا بغور جائزہ لیں اور اپنی دعوت، اپنے اہداف و مقاصد اور طریقۂ کار کے درمیان توازن قائم کریں۔
• اسلام ہی وہ واحد نظریہ ہے جو مصیبت زدہ دنیا کو بچاتا ہے، مسائل کے بھنور میں پھنسی اور گھری ہوئی انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے اور لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ لہٰذا یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے، اس کی تبلیغ و تلقین کی جائے اور اس کی خاطر جان و مال کے ساتھ ساتھ ہر سستی اور مہنگی چیز کی قربانی دی جائے۔
• مضبوطی اور پختگی کی بنیاد ایمان ہے، اور اس کا لازمی نتیجہ باہمی اتحاد ہے اور اتحاد کا نتیجہ ایک واضح اور کھلی فتح ہے، لہٰذا یقین رکھو، بھائی چارہ کو فروغ دو، علم حاصل کرو، اور پھر فتح و نصرت کا انتظار کرو۔۔۔۔ کیونکہ مومنین کیلئے کُھلی فتح کی بشارت ہے۔
• پوری دنیا پریشان اور مضطرب ہے، باقی تمام نظام ہائے زندگی اس اضطراب کا علاج کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، لہٰذا اسلام کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ دنیائے انسانیت کو بچانے کیلئے اللہ کا نام لے کر اس کے نظام کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لے لو، کیونکہ ساری دنیا نجات دہندہ کی منتظر ہے! جب کہ اسلام کے پیغام کے سوا اس کا کوئی نجات دہندہ نہیں ہے۔
• دین اور سیاست میں تفریق حقیقی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اور جو حقیقی معنوں میں اسلام کے ساتھ مخلص ہے اور اس کا صحیح فہم رکھتا ہے، وہ کبھی بھی دین و سیاست کے درمیان تفریق کا قائل نہیں ہوسکتا۔ البتہ جو لوگ اسلام سے عناد رکھتے ہیں یا جو جاہل ہیں ان کی بات الگ ہے۔ لیکن انہیں بھی یہ بات مان لینی چاہیے کہ اسلام دین و سیاست کی دوئی کا ہرگز قائل نہیں ہے۔
• اخوان المسلمین کوئی درویشوں کی جماعت نہیں ہے۔ ان کے فکر کی بنیاد نماز، روزہ، ذکر اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان ہماری طرح اسلام کے حوالے سے سطحیت کے قائل نہیں تھے، بلکہ وہ اسے ایک نظریۂ حیات کے طور پر مانتے تھے۔ جس میں عقیدہ، عبادت، وطن، قوم، اخلاق، معیشت، تجارت، معاشرت، ثقافت و قانون وغیرہ غرض سب کچھ شامل تھا۔ وہ اسلام کو مکمل نظام زندگی کے طور پر مانتے تھے، جو انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات کا احاطہ کرتا ہے، اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے معاملات کو بھی منظم کرتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی عبادت اور اپنے رب کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے، وہ اللہ سے ہمیشہ دعاگو ہوتے اور کلام پاک کی مستقل تلاوت میں مصروف رہتے۔ وہ شریعت کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرتے ہیں جیسا کہ اسے یاد کرنے کا حق ہے۔
• اخوان المسلمون وطن پرستی کا درس دینے کے بجائے حب الوطنی سکھاتی ہے۔ اس سے وابستہ تمام لوگ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، جو اپنے وطن کی خدمت اور اس کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ اپنی ملت اور قوم پر فخر کرنے والے لوگ ہیں۔
• اخوان کے اندر کاہلی، غفلت اور سستی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا نعرہ ہی یہ ہے کہ ایک مسلمان کو دنیا کے میدان کا شہسوار ہونا چاہیے۔ اور وہ علم، طاقت، صحت اور مال کے حصول کیلئے قائدانہ رول، انتھک محنت، جدوجہد، کے علاوہ کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتی۔
• اخوان قوم کے مختلف طبقات کے درمیان نسلی امتیاز کی قطعاََ روادار نہیں، اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کا تعلق انسانوں کے درمیان عمومی انسانی بندھن کے احترام سے ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو) [الحجرات: 13]۔
• اخوان کسی خاص خطے یا کسی شخص یا جماعت کیلئے کام نہیں کرتی اور نہ کسی جماعت یا تنظیم پر تکیہ کرتی ہے۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے اپنے رب کی ہدایت پر عمل کرتی ہے۔ یہ اسلام اور اس کے ماننے والوں پر اعتماد کرتی ہے۔ جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ اسے فخر ہے کہ ابھی تک اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، اور نہ ہی کسی فرد، گروہ یا تنظیم کا سہارا لیا۔

نوجوانوں کو دعوت کے تربیتی اہداف و مقاصد:
نوجوانوں کے دعوتی پیغام میں امام حسن البنا شہید نے اخوان المسلمین کی دعوت کے تربیتی اہداف اور مقاصد بیان کیے ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
• ایک مسلمان فرد کی فکراورعقیدے کی صحیح تشکیل، اس کے کردار اور جذبات و احساسات اور اس کے طرز عمل کی صحیح نہج ہمارا بنیادی ہدف ہے۔
• مسلمان گھرانے کی صحیح سوچ، فکر اور عقیدہ، اس کا کردار، اس کے جذبات و احساسات، اس کے کام اور اس کے رویے اور طرز عمل میں ترقی ہمارا ہدف ہے۔ جس میں ہم مرد کے ساتھ ساتھ خواتین کی تربیت پر فوکس (Focus)کرتے ہیں۔ ہم ان کے بچپن اور جوانی میں ان کی بہتر تربیت کا خیال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم بہتر خاندان کی تشکیل کرتے ہیں۔
• مسلم عوام بھی اس سب میں شامل ہیں، اور اسی وجہ سے ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ہماری دعوت ہر گھر تک پہنچے۔ ہماری آواز ہر جگہ سنی جائے، تاکہ ہمارا کام آسان ہو جائے اور یہ دعوت گاؤں، بستیوں، شہروں اور تمام چھوٹے بڑے مراکز تک پہنچ جائے، شہر و دیہات ہر جگہ۔ اس کے لئے ہم کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور ہر شخص کا پیچھا کریں گے۔

• مسلمانوں کی ایسی حکومت ہونی چاہیے جو لوگوں کو مسجد کی راہ دکھائے اور انہیں اس ہدایت کا راستہ دکھائے جسے اسلام لے کر آیا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے اپنے ادوار میں کیا۔ اسی لیے ہم ایسے کسی بھی نظام حکومت کو تسلیم نہیں کرتے جس کی بنیاد غیر اسلام پر ہو یا اسلام کی دی ہوئی ہدایات پر نہ ہو۔ ہم ان روایتی سیاسی جماعتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی ان روایتی شکلوں کو جن پر کفار اور اسلام کے دشمنوں نے ہمیں حکومت کرنے اور کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ہم اسلامی نظام حکومت کو اس کے تمام مظاہر کے ساتھ زندہ کرنے کے لیے کام کریں گے اور اس کی بنیاد پر اسلامی حکومت قائم کریں گے۔
• اس نظام اسلامی میں زمین کا ہر وہ حصہ شامل ہوگا جسے نام نہاد مغربی آقاؤں نے یا ان کی خوشنودی میں مقامی سہولت کاروں نے تقسیم کیا اور ہم سے جدا کیا ہے، کیونکہ یہ اتحاد یورپی عزائم کی وجہ سے مجروح ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس سیاسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور نہ انہیں تقویت پہنچانے والے بین الاقوامی معاہدوں کو خاطر میں لاتے ہیں۔ یہ اسلامی ممالک کو کمزور اور ٹوٹی پھوٹی ریاستوں میں تبدیل کر دیتے ہیں، تاکہ پھر انہیں غاصبوں کے ہاتھوں نگلنا آسان ہو جائے۔ لہٰذا آزادی کی خاطر اور ظلم و استبداد کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے پر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، بلکہ بھرپور مزاحمت کریں گے۔
• یہ اس لئے کہ اللہ کے نام کا کلمہ ان مقامات پر دوبارہ بلند ہو جائے جہاں پر پہلے کبھی ہوا تھا، اور جہاں کی فضا اللہ کی تکبیر اور اذانوں کی آواز سے گونجتی تھی۔ پھر مسلمانوں کی بدنصیبی کہ یہ سارے علاقے ایک ایک کر کے ان سے ہتھیائے گئے اور کفر کا غلبہ ہوا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اندلس، بلقان، جنوبی اٹلی، اور الجزائر، بحیرۂ روم، جیسے تمام علاقوں میں اسلام کا بول بالا ہو اور یہ اسی طرح اسلام کی طرف واپس لوٹیں جیسے کہ پہلے تھے۔
• پوری دنیا میں اخوان کی دعوت کا پھیلاؤ اور اس کو تمام لوگوں تک پہنچانا اور اسے تمام روئے زمین پر پھیلانا، تاکہ ہر طاقتور اس کا مطیع ہوجائے اور کوئی فتنہ برقرار نہ رہ سکے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے خالص ہو۔ پوری دھرتی پر اللہ کا حکم نافذ ہو اور مومنین اللہ کی نصرت اور اپنی فتح کا اعلان کرکے خوش ہو جائیں۔
اس طرح امام حسن البنا شہید کا پیغام "نوجوانوں کو دعوت” بنیادی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ دنیا کی کوئی تنظیم، کوئی ادارہ، کوئی نظریہ اور سوچ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی کہ نوجوان ہی کسی بھی قوم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کیلئے بنیادی ستون کا کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کا ہر انقلاب نوجوانوں کے دم سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ: (وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی) [الکہف: 13]۔ یہاں سے نوجوانوں کی ذمہ داریوں کا اندازہ ہو جاتا ہے، اور یہ کہ قوم و ملت کے تئیں ان کے کیا واجبات ہیں، اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان پر اعتماد کا بھی بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پوزیشن اور اپنے رول کو سمجھیں، اپنے مقام کا تعین کریں اور پھر اپنے بلند مقاصد کے حصول کیلئے طویل اور انتھک جدوجہد کریں۔ اور آخر میں یہ کہ قوم کے افراد بھی نوجوانوں کو اپنا بھر پور حق دیں۔
مصادر ومراجع:
ماهر جعوان: شباب الأمة ماذا بعد؟
محمد حقي: من رسائل الشهيد حسن البنا إلى الشباب.
بوابة الحرية والعدالة: تعرف إلى كلمات الإمام حسن البنا للشباب قبل استشهاده
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ