عرب بہار کے انقلابات کے خاتمے کے بعد نوجوانوں کو جن مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا وہ واحد چیلنج نہیں تھے جس نے ان کے مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کیونکہ جہاں کچھ نے الحاد ولادینیت کی طرف رخ کیا، جو انہیں ہر حرام کام کرنے کی اجازت دیتی ہے، وہیں کچھ دوسرے انتہا پسندی کی بھٹی میں پھینک دیے گئے، جب کہ ایک اور نوجوانوں کی قسم مایوسی، قتل اور قید کا نشانہ بن گئی۔
جن نوجوانوں نے اپنی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کے لیے اپنے تخیل کا اظہار کیا، انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے معصوم انقلاب کی تفصیلات میں وحشی بھیڑیے بسے ہوئے ہیں، جو انہیں آہستہ آہستہ مایوسی کے طویل سمندروں میں دھکیل رہے ہیں، ان کے انقلاب کو زخموں سے بھری لاش میں تبدیل کر رہے ہیں، اور ان نوجوانوں کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ یہ سازش ان تک پہنچنے کے لیے کی گئی تھی جہاں کہیں بھی وہ تھے، ایک نقاب پوش دشمن نے اس جنگ کو بھڑکایا ، جہاں اس کے پاس اس معصوم انقلابی پر رحم کرنے کے اختیارات شامل نہیں تھے۔
اس سلسلے میں ہم اپنے ملک میں لادینیت اور اس کی داغدار تاریخ کا برا چہرہ، اس کے وسائل و ذرائع اور اس کے داخل ہونے کے راستے، اس کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے کے طریقوں کو متعارف کرانے کی کوشش کریں گے، اور کس طرح تعلیم اپنے وسائل و ذرائع، مواد و میٹیریل اور علمبرداروں، مؤسسین کے ساتھ اس محاذ آرائی میں سب سے مؤثر اور کامیاب ذریعہ اور آلہ کار ہے ۔
لادینیت کا خطرہ اور اس کے اوزار و لوازمات:
لادینیت کا خطرہ ہر اس چیز کی حوصلہ افزائی کرنے میں مضمر ہے جو بدصورت ومنکر اور انسانی جبلت کے منافی ہے: جسم فروشی کا مطالبہ کرنا، اسے ذاتی حق سمجھنا، نیز زنا اور ہم جنس پرستی کی اجازت دینا، جو خاندان اور اس کے معاشرتی مستقبل کے لئے خطرہ ہے، اس کے علاوہ ان اخلاقیات کو تباہ کرنا جن کا کوئی حوالہ ومرجع نہیں ہے، سوائے اس کے کہ انسان ان کو کرنا چاہتا ہے.. لہٰذا ملحد افراد اور قومیں آج اخلاقی اور خاندانی زوال کا شکار ہیں اور قتل و غارت گری، تباہی، آپسی لڑائیاں، نافرمانی، جسم فروشی، بداخلاقی اور سود سمیت ہر قسم کی برائی کا ارتکاب کر رہی ہیں۔
جہاں تک ہمارے ممالک میں ملحدوں کے ذرائع و وسائل اور اوزاروں کا تعلق ہے، ان کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
پہلی چیز: خواہشات اور جذبات کی پیروی کرنا: مصری اسکالر مصطفیٰ محمود – جو ملحد بن گئے تھے اور پھر اپنی غلطی اور اپنے عقائد کے جھوٹ کا پتہ لگنے کے بعد دوبارہ اسلام میں واپس آئے – کہتے ہیں: ملحد خدا کے وجود کے تصور کو ، اس کی عبادت کرنے کو اور اس کے تابع ہونے کو رد کرتا ہے، تاکہ خود کو ان ذمہ داریوں، شعائر و فرائض سے چھٹکارا دلا سکے جو خالق اس سے چاہتا ہے، وہ اپنے آرام کی تلاش میں ہے اور اپنے آپ کو کسی احتساب، پوچھ تاچھ، تفویض یا بوجھ کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کر رہا ہے، وہ اپنی خواہشات اور شہوات کی پیروی کرنا پسند کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی حساب کتاب یا سزا کے جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور وہ اکثر چھوٹی عمر سے ہی اس کا عادی ہوتا ہے، اس لیے اس کی پرورش ہدایت اور راستبازی کے ماحول میں نہیں ہوئی۔
وہ تکبر اور روکھے پن کے ساتھ کسی ایسی ہستی کے وجود کے تصور کو بھی مسترد کرتا ہے جو اس سے بلند اور بہتر ہے، اور وہ شخصیت رسول ہیں جنہیں خدا نے انسانوں تک پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہے، اور کبھی کبھی بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ ملحد خود اپنا موازنہ خالق سے بھی کر سکتا ہے، تو پھر اس خدا کی عبادت کیوں کرے اور اس کے تابع کیوں ہو؟ لہٰذا ایسا انسان ملحد و لادین بن جاتا ہے۔
دوسری چیز: میڈیا: اس کی وجہ وہ فلمیں، تصاویر، پروگرام، ماڈلز، مکالمے اور زندگی کے بدعنوان طریقے ہیں، جو میڈیا پیش کرتا ہے۔ اس نے ہر انسان تک پہنچنے کا کوئی راستہ یا ذریعہ نہیں چھوڑا، اور لوگوں کے لئے بداخلاقی اور برائی کی حوصلہ افزائی کی جو وہ چاہتے ہیں۔
تیسری چیز: مادر پدر آزادی اور دینی انحطاط کے مطالبہ و باتیں: یہ ترقی یافتہ مغربی تہذیب اور مغربی نظریات سے متاثر ہونے اور مغربی مادیت پسندانہ فکر سے لوگوں کی وابستگی اور اس کی پیداوار اور علوم سے کشش و لگاؤ اور مغربی لوگوں کی پہنچ تک پہنچنے کا نتیجہ ہے، اور ان کے اخلاق، طرز عمل اور عقیدے سے آنکھیں بند کر رکھنی ہیں۔ مذاہب سے آزادی اور دین کی عدم پابندی، اور خالق پر ایمان سے آزادی کے ساتھ ساتھ سیکولرازم نے اس بات کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ دین وشریعت کو حقیقی زندگی میں لاگو کرنے اور لوگوں کے معاملات کو منظم کرنے سے دور رکھیں، جب کہ اخلاقی لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، کھلے عام عورتوں کے مذہبی لباس کے پہننے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، ان کی آزادی کیلئے کوششیں کیں، اسی طرح کھلے عام علماء کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ان پر حملہ آور ہوتے ہوئے ان کی کردار کشی کرتے ہیں۔
اسلام نے شروع سے ہی ملحدانہ نظریات کا مقابلہ کیا ہے، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے وجود کے انکار کرنے والوں کو دہریہ کا نام دیتا ہے، اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:: "وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ” [الجاثية: 24]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملحدانہ نظریات سے منع فرمایا۔، صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک سوال کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یہ بات کہی جاتی ہے، کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جس شخص کو ایسی بات سننے کو ملے تو وہ کہے کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں۔
جب بعض ملحدین نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ: خالق (اللہ تعالیٰ) کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ انہوں نے کہا: شہتوت کے پتے کا ذائقہ اور رنگ، اس کا طبع اور اس کا مزاج آپ کے یہاں ایک جیسا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، امام شافعی نے کہا: تو ریشم کے کیڑے انہیں کھاتے ہیں اور ان میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھیاں ان سے شہد بناتی ہیں، بھیڑیں ان میں سے اون باہر آتی ہیں، ہرن انہیں کھا جاتے ہیں اور ان کی بغلوں میں مشک پیدا ہو جاتا ہے۔ تو ان چیزوں کو کس نے بنایا حالانکہ شہتوت کے پتے کی فطرت وطبع ایک جیسی ہے؟ چنانچہ انہوں نے اس بات پر امام شافعی کی تعریف کی اور انہوں نے ان کے ہاتھ پر ایمان لایا جب کہ ان کی تعداد سترہ تھی۔
لادینیت کے اسباب:
اگر ہم لادینیت کے اسباب تلاش کریں، جو نوجوانوں کے عام فہم کو کھا جاتا ہے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل چیزیں ہیں:
ایک ایسے گھر میں پرورش پانا جو اسلام کے آداب سے واقف نہ ہو اور اس کی ہدایت سے رہنمائی نہ لیتا ہو، جہاں نوجوان دینداری نہیں پاتا ہے۔
یہ کہ نوعمر نوجوان ایک ایسے ملحد کے ساتھ بات چیت کرتا ہو جو قوت میں اس سے زیادہ مضبوط ہو، دلیل میں زیادہ طاقتور ہو، اور زبان میں اس سے زیادہ ذہین ہو۔
ایسی کتابیں پڑھتا ہو جن میں خوبصورت الفاظ کے ساتھ زہر کا انجکشن لگایا گیا ہو، تاکہ ان الفاظ کو ان کے گمراہ کن معانی سے یکجا کیا جا سکے۔
انسان کے دل پر خواہشات غالب آجائیں، اور انسان ان خواہشات کو مباح قرار دینے میں مصلحت سمجھے، اور یہ کہے کہ شریعت کی ممانعت حکمت سے عاری ہے، جس کی وجہ سے وہ فحاشی اور ناشکری کی طرف چلا جاتا ہے۔
اس دور میں جن بھی نئی چیزوں کا ظہور ہوا ہے: چینلز اور انٹرنیٹ دونوں کی خلائی دنیا کا کھلا پن اور ان میں نشر ہونے والی خواہشات و شہوات اور شکوک و شبہات، ان میں سے ہر ایک ہمارے نوجوانوں کو حفاظتی ٹیکوں کی عدم موجودگی کے ساتھ اپنا بنا لیتا ہے۔
نظام مملکت بھی لوگوں کے دین میں فساد کا سبب بنتا ہے، کچھ ایسے تعلیمی ادارے اور سرگرمیاں قائم کرتے ہیں جو نوجوانوں میں لادینیت پھیلاتے ہیں، اور دوسری طرف جو ادارے دین کو اپنانے کا دعویٰ کرتے ہیں؛ وہ بغیر قصد کے- غیر ارادی طور پر – دین کا ایک برا نمونہ پیش کرتے ہیں، جو دین اور دیندار لوگوں کی طرف الٹے اور برے رد عمل کا سبب بنتے ہیں!
تعلیم اور تربیت کے اداروں اور یونیورسٹیوں سمیت تنظیمی اداروں کی لادینیت کی نئی لہر کے خلاف نمایاں سرگرمیاں انجام دینے میں کمی اور ادارہ جاتی انداز میں عالمی مستجدات اور سماجی نقل و حرکت کے خلاف ان کا سست رد عمل۔
پبلشنگ ہاؤسز اور ان کے ملحدانہ ناول، گمراہ کن تجربات اور فکری و فلسفیانہ کتابیں اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہیں۔
انٹرنیٹ پر بڑے ملحدوں کی حمایت یافتہ مشکوک ویب سائٹس جو مظلوموں کی حمایت کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور اسی ضمن میں اپنی مرضی کے مطابق ملحدانہ خیالات نشر کرتی ہیں۔
بعض حکومتیں بعض ملحدوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیتی ہیں جو انہیں بااثر بنا دیتی ہیں۔
کچھ ملحد قومی تحریکوں میں داخل ہوئے اور ان سے دھوکے کھائے ہوئے لوگوں نے انہیں رہنما کا لقب دیا اور انہوں نے ان سے رابطہ کرنے والے نوجوانوں میں ملحدانہ خیالات کو فروغ دینا شروع کر دیا۔
معاشرے کے ان طبقوں کا وجود جنہوں نے دین کو رسم و رواج کے ساتھ الجھایا ہے اور اپنے بے قابو جوش و خروش اور وسیع جہالت کے ذریعے دین کو بدنام کیا ہے، تاکہ دین پھر ایسے مظاہر میں تبدیل ہوجائے جس کا حقیقی عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔
تہذیب کے مسائل اور شناخت کا بحران نوجوانوں میں رائج ہے، جس میں قابل اعتماد تعلیمی قلعوں کی کمی ہے جس میں طرزعمل کے علاوہ سوچ اور عقیدے کا بھی احاطہ کیا گیا ہو۔
کچھ حکومتیں اب اپنے قوانین کو ایسے الفاظ میں پیش کرتی ہیں جن میں ملحد کو کوئی ایسی پابندی نظر نہیں آتی جو اسے اپنی لادینیت کا اعلان کرنے یا اس کا مطالبہ کرنے سے روکے۔
شریعت کے بہت سے پیروکاروں نے حق کے لئے غیرت کی ذمہ داری کو کمی بیشی کے ساتھ پیش کیا ہے، لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے اپیل کرتے ہیں جنہیں لوگ ملحد قرار دیتے ہیں، ان کی چاپلوسی کرتے ہیں، اور دین میں ان کے اخلاص کی گواہی دیتے ہیں۔
ملحدوں کی سوچ کا مقابلہ کیسے کریں:
لادینیت اور ملحدوں کے نظریے کا مقابلہ بہت سے طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، جن میں نوجوانوں کی توجہ کائنات کے مشاہدے، اس میں خدا کی عظمت اور اس کی قدرت کے ثبوت کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل چیزوں کے ذریعے مبذول کرانا شامل ہے:
نوجوانوں کو عبادت سے جوڑنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے تعلقات کو مضبوط بنانا۔
نوجوانوں کو موت اور آخرت اور اس کے اجر و ثواب کی یاد دلانا۔
قرآن پاک کی تلاوت، حفظ اور تدبر میں نوجوانوں کا اہتمام کرانا۔
نوجوانوں کے ذہنوں اور خیالات کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات اور احساسات کو بھی مخاطب کرنا۔
اللہ تعالیٰ کے مشاہدے ومحاسبے کے تصور کو فروغ دینا اور مضبوط کرنا۔
نوجوانوں کو راستبازوں کی زندگیوں سے جوڑنا اور ان کے احوال پر غور وفکر کرانا۔
سیمینارز اور لیکچرز کے ذریعے علماء اور نوجوانوں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانا۔
ابتدائی ایمان کی تعلیم وترتیب اور بلوغت کے آغاز میں یا اس سے پہلے اس پر عمل کرنے کے لئے رہنمائی۔
مراہق و نوجوانوں کو سوال کرنے اور کائنات، نفس اور زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ شریعت اور مذہبی اسکالرز کو اس قابل بنائے کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم دینے اور ان خیالات کے خطرات سے آگاہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اسکولوں کو اپنے تعلیمی وترتیبتی کردار کی طرف لوٹنا چاہئے اور نوجوانوں اور بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کرنی چاہئے۔
خاندانوں کو اس چیلنج کی نوعیت کو سمجھنا چاہئے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے شعوری طور پر کام کرنا چاہئے، اور اپنے بچوں کو اجنبیوں کا سہارا لینے سے بچانے کے لئے خاندان کے اندر تعمیری مکالمے کو فروغ دیکر ان کے مسائل سے مثبت طور پر نمٹنا چاہئے۔
سیکولر اور ملحدانہ نظریات کی راہ ہموار کرنے والے میڈیا کا بائیکاٹ کریں اور معاشرے کی مذہبی اقدار سے وابستہ میڈیا کی حوصلہ افزائی کریں۔
مصادر و مراجع:
عرب نوجوان اور پوشیدہ لادینیت۔
ہم اپنے نوجوانوں کو لادینیت سے کیسے پاک کر سکتے ہیں؟
حافظ حكمي: معارج القبول، 1/78۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین