فجر کی نماز شریعتِ اسلامی کے تربیتی نظام کا ایک اہم ترین ستون ہے۔ یہ تربیت کے ذرائع میں سے ایک بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کے اندر قدروں اور خوبیوں کا مجموعہ پیدا کرتی ہے، جن میں سب سے نمایاں قدر دل میں ایمان کو مضبوط کرنا، اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا، قوتِ ارادی کو مضبوط کرنا، روح اور جسم کی سستی پر قابو پانا اور جسم کی صحت کو برقرار رکھنا وغیرہ شامل ہے۔
چونکہ یہ نماز (فجر) ایک عظیم تربیتی درسگاہ ہے، اس لیے بڑوں اور بزرگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نماز کی حفاظت کریں اور اس حوالے سے اپنے چھوٹے بچوں اور نونہالوں کی تربیت کریں۔ یہ ایک شرعی حکم ہے کہ سات سال کی عمر سے اس کی پابندی لازمی ہے۔ لہذا اپنے نونہالوں کی اس طور سے بالکل ابتداء ہی میں تربیت کی جائے تاکہ وہ آگے جاکر اس فرض کے حوالے سے سستی نہ برتیں۔
نمازِ فجر کی فضیلت:
نمازِ فجر کی فضیلت خدائے تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی ہے، کیونکہ یہ روزی میں برکت لاتی ہے، نفس کو پاکیزگی عطا کرتی ہے اور اس کو باقاعدگی سے ادا کرنے والا اجرِ عظیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ فجر کی نماز اپنے باقاعدگی سے ادا کرنے والے کو حفاظت کی ضمانت دیتی ہے- یعنی اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور سلامتی میں – نیز اللہ کے فرشتے فجر کی نماز پڑھنے والے کی گواہی دیتے ہیں، اس کا ذکرِ خیر آسمان پر کرتے ہیں اور اس کے لیے اللہ سے استغفار کرتے ہیں، اور اسے مکمل قیام اللیل کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔
فجر کے وقت کی نماز جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص “ٹھنڈے وقت کی” دو نمازیں پڑھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘ [بخاری]۔ یہاں ان دو نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ اور یہ ہر اس شخص کے لیے دنیا وما فیہا سے بہتر جو ان کی پابندی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی عظمت اور قدر و منزلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “فجر کی دو (سنت) نمازیں دنیا وما فیہا سے بہتر ہیں” [مسلم]۔
یہ (نماز) قیامت کے دن ایک مومن بندے کے لیے کامل نور ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کے اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو اللہ کی طرف سے قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری سنادو۔” [صحیح ابی داؤد]۔
اس کی فضیلت میں سے طلوعِ فجر کے وقت قرآنِ فجر کی شہادت ہے: جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے” [الاسراء: 78]، مفسرین کرام اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ: “اس سے مراد قرآن مجید کا جو حصہ تم فجر کی نماز کے دوران تلاوت کرتے ہو وہی مشہود ہوتا ہے” یعنی دن اور رات کے فرشتے اس کی گواہی دیتے ہیں، تو اس چیز سے اس کی قدر و منزلت اور فضیلت واضح ہو جاتی ہے۔
فجر کی نماز جنت میں دیدارِ الہٰی کا شرف حاصل ہونے کی وجوہات میں سے ایک ہے: چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “تم اپنے رب کو قیامت کے دن اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ کھلم کھلا دیکھو گے، بےتکلف، بےمشقت، بےزحمت۔ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا، اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر)کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو، پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: “اور اپنے رب کی تسبیح و تقدیس بیان کرو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے” [سورۃ ق: 39]۔
فجر کی نماز سے تربیتی اسباق:
فجر کی نماز ایک مسلمان کی زندگی میں ایک اہم تعلیمی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ اس کے اندر چند بہترین اور لائقِ تحسین صفات پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جن میں سے کچھ یوں ہیں:
ایمان میں اضافہ: فجر کی نماز کو اپنے وقت پر جماعت کے ساتھ ادا کرنے والا نفاق کی بیماری سے پاک ہو جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقین پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ کوئی نماز گراں نہیں ہے، اور اگر وہ جان لیں کہ ان نمازوں کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ان کو ادا ضرور ادا کرتے، چاہے انہیں اپنی ایڈیاں رگڑ کر مسجد آنا پڑے“ [بخاری]۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن کی گواہی فرشتے دیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے” [الاسراء: 78] اور قرآنِ فجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔
معاشرے کی فکری اور معاشی تربیت: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا کہ وہ مسجد نبوی کے اندر بطورِ خاص فجر کی نماز اور دیگر نمازوں میں جمع ہوتے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بہترین اخلاق کے ساتھ یاد کرتے اور حال و احوال پوچھتے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے آج کس نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے: میں نے: پھر فرمایا آج تم میں سے کس نے اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھا؟ ابوبکر بولے میں نے: پھر فرمایا، تم میں سے کس نے ایک مسکین کو کھانا کھلایا؟ ابوبکر پھر بولے، میں نے: آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تم میں سے کس نے بیمار کی عیادت کی ہے؟ ابوبکر صدیق بولے، میں نے۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمام صفات کسی شخص میں جمع نہیں ہوتیں سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے۔” عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے بھائیوں کو نماز میں تلاش کرو، اگر تم انہیں غیرموجود پاؤ اور وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لیے جاؤ، اور اگر وہ صحیح سالم ہوں تو انہیں سزا دو۔”
جسمانی صحت کا بھرپور پیکیج: فجر کی نماز دل کو منور کرتی ہے، روح کو نکھارتی ہے اور جسمانی ورزش کو ممکن بناتی ہے۔ اگر مسلمان اسے باقاعدگی سے جماعت کے ساتھ اپنے مناسب وقت پر ادا کرتے تو وہ جدید بیماریوں میں مبتلا نہ ہوتے۔ خاص طور پر ہائی بلڈ پریشر، امراضِ قلب، کولیسٹرول وغیرہ جو کہ ضرورت سے زیادہ نیند اور چربی والی غذائیں کھانے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نماز کا اپنے مقررہ اوقات پر باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنا انسان کی صحت کو بہت ساری بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جب فجر کی دو رکعتیں ادا کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں کروٹ لیٹ گئے” [بخاری]۔
تعلیمی اور تحقیقی فائدہ: فجر کی نماز کے اوقات میں انسان کا ذہن صاف اور ہر نئے آئیڈیا کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، جیسا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فجر کی نماز پڑھی اور وہ وقت آگیا جب روزے دار کے لیے کھانا کھانا حرام ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہیں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو فجر کی نماز کا وقت اور طریقہ سکھایا، اور صحابہ کرام نے بھی فجر کے وقت قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کو اپنا معمول بنایا۔ جیسا کہ عمرو بن میمون نے فرمایا ہے: “جو شخص فجر کی نماز کے وقت قرآن پاک کھولتا ہے اور پھر سو آیات کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا کے تمام لوگوں کے بقدر درجات بلند کرے گا۔
نمازِ فجر اور جہاد فی سبیل اللہ کی تربیت: فجر کی نماز ایسے وقت میں ہوتی ہے جب بہت سے لوگوں کے لیے اسے ادا کرنا مشکل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف اس نماز کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کے لیے باقاعدہ صبح کی تیاری کرتے تھے اور گروہ در گروہ راہ خدا میں پیش قدمی کرتے تھے۔ جیسے کہ تابعین میں سے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ: میں طلوعِ فجر سے پہلے مسجد میں داخل ہوا، تو میں نے کہا: اے ابوہریرہؓ، تم مجھ سے سبقت لے گئے؟ وہ فرمانے لگے اے میرے بھتیجے، تم اس وقت گھر سے کیوں نکلے؟ تو میں نے کہا: صبح کی نماز کے لیے، اس نے کہا: خوشخبری ہو- ہم اس وقت مسجد میں بیٹھنے اور نماز پڑھنے کو جہاد فی سبیل اللّٰہ کے مترادف سمجھتے ہیں۔
نماز فجر اور درسِ استقامت: یہ دن کی پہلی نماز ہے اور مسلمان کا اس کو باقاعدگی سے ادا کرنا اللہ کے دین کے ساتھ اس کی کا بین ثبوت ہے۔ یہ انسان کے اندر استقامت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
نمازِفجر اور عزم و ارادے کی پختگی: فجر کی نماز کو وقت پر ادا کرنے کے لیے ایک مسلمان کو مضبوط ارادے اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ سحری کا وقت ہوتا ہے، اور یہ ایسا وقت ہوتا ہے جس میں لوگوں کی اکثریت نیند میں ہوتی ہے۔
نمازِ فجر اور جذبۂ تحرک: یہ ایک ایسی نماز ہے جو ایک مسلمان کو دن بھر چوکنا اور متحرک رکھتی ہے، دل کو نجاستوں سے پاک کرتی ہے، اور روح میں سرگرمی اور زندگی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ انسان کے اندر سے جمود کو ختم کر دیتی ہے۔
نمازِ فجر اور تقوی اللہ: فجر کی نماز ایک مسلمان کو تقویٰ اور عاجزی پر ابھارتی ہے۔ یہ مسلمان کو اس کے رب کے قریب لاتی ہے، اور اسے اس کی طاقت، عظمت اور کبریائی کا احساس دلاتی ہے۔
نمازِ فجر اتحاد اور وحدت کا درس دیتی ہے: یہ مسلمانوں کو اتحاد اور بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ نماز مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتی ہے، اور انہیں ایک ہدف، ایک نصب العین کیلئے اجتماعی جدوجہد کرنے کا احساس دلاتی ہے۔
فجر کی نماز وقت پر ادا کر سکنے کے مخصوص ذرائع و وسائل:
فجر کی نماز وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بہت سے مخصوص طریقے ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:
اس کی فضیلت کا احساس ہونا: اس عمل کی فضیلت کا احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بندۂ مومن کو اس کی بروقت اور جماعت کے ساتھ ادائیگی پر ابھارتا ہے۔
اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا: جو کوئی اس نماز کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کا خواہشمند ہو، اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے سچی دعا کے ذریعے استعانت طلب کرے کہ وہ اسے نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے بیدار ہونے میں کامیابی عطا فرمائے۔ اور پھر اس دعا کے حوالے سے ثابت قدم رہے۔
صالحین کی صحبت اور ان سے تعاون: صبح کی بیداری کے حوالے سے نیک کام کرنا اور صالحین سے تعاون کرنا بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو‘‘ [المائدہ: 2]۔
الارم کا استعمال کرنا: الارم کسی ایسی جگہ پر رکھنا چاہیے جو ہاتھ کی پہنچ سے باہر ہو اور جو تھوڑی سی اونچی جگہ ہو۔ ایک سے زائد الارم رکھی جاسکتی ہیں، جن کے اوقات بھی مختلف ہوں۔
دوسری نمازوں کو وقت پر باجماعت ادا کرنا، چنانچہ یہ انسان کو فجر کی نماز وقت پر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
وضو کے ساتھ سونا، اور نیند کے اذکار و اوراد اور وہ دعائیں پڑھنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
سونے کی جگہ پر بطورِ نشانی بڑی اور واضح تحریر لکھ کر آویزاں کرنا جس میں فجر کی نماز کی فضیلت کے بارے میں کچھ احادیث موجود ہوں۔
اپنے اندر اس احساس کو جاگزیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھتا ہے، وہ تمہارے سب راز جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ تم بیدار ہوئے اور پھر سو گئے، وہ جانتا ہے کہ تم نے اذان سنی لیکن جواب نہیں دیا، وہ جانتا ہے کہ تم نے نماز پر گرم بستر کو ترجیح دی ہے۔
جلدی سونا اور دیر تک جاگنے سے گریز کرنا۔
گناہوں اور اللہ کی نافرمانی کو ترک کرنا، کیونکہ گناہوں کی ایک سزا اللہ کی عبادت و اطاعت سے محروم ہونا ہے۔
بے شک فجر کی نماز روح اور جسم کی تربیت کے حوالے سے ایک عظیم درس گاہ ہے اور جس کسی نے اس پر عمل کیا اور اس کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کی اس نے یقیناً دنیا اور آخرت کی ساری بھلائی اپنے نام کرلی۔
مصادر ومراجع:
- القرطبي: الجامع لأحكام القرآن 10/ 305، 306.
- أبو حامد الغزالي: إحياء علوم الدين 1/226.
- مختار سالم: الطب الإسلامي بين العقيدة والإبداع، ص 241.
- راغب السرجاني: كيف تحافظ على صلاة الفجر؟
- الجعفري: الخروج لصلاة الفجر.
مترجم: عاشق حسین پیرزادہ