اچھی ذہنی صحت اللہ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کو عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے۔ لیکن یہ صرف بیماریوں، پریشانیوں، یا ذہنی مسائل سے آزادی ہی نہیں، بلکہ ایک مثبت کیفیت بھی ہے جس میں انسان اپنے فرائض، ذمہ داریوں، اور زندگی کے مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمن العیسوی کہتے ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر اُس چیز سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے جو ان کے جسم، روح، یا ذہن کو نقصان پہنچائے۔ یہ نیک اعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور غصہ، ناراضگی، نفرت، حسد اور انتقام جیسے منفی جذبات سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام سکون، اطمینانِ قلب، اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مشکل وقت میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے، اُنہیں مصیبتوں سے بچاتا ہے، اور اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ وہی سب سے بہتر محافظ ہے۔
نفسیاتی صحت کا تصور:
نفسیاتی صحت کا لفظ بہت سے معاشروں میں عام ہو چکا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، نفسیاتی صحت سے مراد صرف بیماریوں یا کمزوریوں سے پاک ہونا نہیں، بلکہ جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل تندرستی کی حالت ہے۔
اس کی ایک جامع تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے اور اپنے معاشرے سے ہم آہنگ رہتے ہوئے پُرسکون زندگی گزارے، جس میں تناؤ اور ذہنی الجھنوں کی گنجائش نہ ہو۔ ایسا شخص نہ صرف خود سے مطمئن ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی قبول کرتا ہے۔ وہ معاشرے کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور غیر معیاری رویے سے بچتا ہے۔
ایک صحت مند انسان وہ ہے جو مایوسی یا مشکلات کے اسباب پر قابو پا سکے، زندگی کے تلخ تجربات اور مسائل کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہو، اور نہ صرف اپنے اندر بلکہ خاندان، کام، اور معاشرے کے ساتھ بھی امن اور توازن کے ساتھ رہے۔ یہی وہ تصور ہے جسے اسلام کی تعلیمات میں بھی اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام میں ذہنی صحت:
اسلام انسان کی تربیت کے لیے ایک متوازن طریقہ اپناتا ہے جو مادی اور روحانی پہلوؤں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے اور ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ اس تربیتی نظام میں تین بنیادی طریقے شامل ہیں:
پہلا طریقہ: روحانی طاقت کو مضبوط بنانا۔ یہ اللہ پر ایمان، تقویٰ، اور عبادات جیسے نماز، روزہ، ذکر وغیرہ کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: “وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں۔ یاد رکھو، اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے” [سورۃ الرعد: 28]۔
دوسرا طریقہ: جسمانی خواہشات کو کنٹرول کرنا۔ اسلام انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ اپنی فطری خواہشات (جیسے بھوک، غصہ، جنسی جذبہ) کو کچلنے کے بجائے انہیں اعتدال کے ساتھ پورا کرے۔ مثال کے طور پر، حلال طریقوں سے کھانا، پیسہ خرچ کرنا، اور شادی کرنا جائز ہے، لیکن اسراف (ضرورت سے زیادہ) سے بچنا ضروری ہے تاکہ جسم اور دماغ کو نقصان نہ پہنچے۔
تیسرا طریقہ: اچھے اخلاق اور عادات سیکھنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سیدھا راستہ دکھایا، انہیں ایمانداری، محبت، برداشت، اور دوسروں کی مدد جیسی عادات سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دلوں سے خوف اور پریشانی کو دور کیا اور لوگوں سے پیار کرنے کا سبق دیا۔
غربت اور محرومی سے بچاؤ:
بے شک غربت اور محرومی وہ عوامل ہیں جو انسان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمیں اسلام اپنے بچوں کی حفاظت اور انہیں فقر، بھوک، اور محرومی سے بچانے پر بہت زور دیتا ہے۔ اسی لیے اسلامی تعلیمات نے والد پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کرے اور انہیں محفوظ رکھے، جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا: “باپ پر لازم ہے کہ وہ ماں اور بچے کے لیے کھانے اور کپڑے کا مناسب انتظام کرے” [سورۃ البقرہ: 233]۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے بچے بے سہارا نہ ہوں۔
لیکن آج اسلام کی تعلیمات سے دوری نے معاشرے میں بہت سی پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی شرمندگی، عرب اور اسلامی دنیا کے لیے “گلیوں کے بچے” ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کو بھول جانا ہے، جیسے کہ مل کر رہنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا، نیکی، مہربانی، اور صدقہ خیرات کرنا۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو معاشرے کو غربت اور بے چارگی سے بچاتی ہیں۔
ہمارا اسلام اپنے بچوں کو پرہیزگاری، قناعت اور سادگی کی تربیت دیتا ہے۔ اس طرح یہ اسلامی شخصیت کو طمع، لالچ، خود غرضی، حرص، کینہ، جلن اور حسد جیسے احساسات سے دور رکھتا ہے۔
مسلمان کو امن و سکون اور بے خوفی کی تربیت دی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا: “اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو” [سورہ ہود: 6]۔ اس کے برعکس مغربی ممالک کا مادہ پرست فلسفہ انسان کے دل میں خوف، بے چینی، بھوک، بے گھری اور تباہی کے ڈر کو بڑھاتا ہے۔ یہاں انسان خود غرضی اور تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے اس کی ذہنی اور نفسیانی صحت متاثر ہوتی ہے۔
مسلمانوں کو برداشت، نرمی، تحمل، معافی، درگزر اور رواداری کی دعوت دی گئی ہے۔ ایسے اخلاقی اقدار مسلمان کو کینہ، انتقام، بدلے کی خواہش اور دوسروں کو تکلیف دینے کے جذبات سے آزاد کراتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے دل سے جارحیت، غصہ، جلن، انتقام، بدلہ لینے کی خواہش، اور دیگر تمام منفی جذبات کو نکال باہر کرتا ہے۔
یہ چیزیں انسان کی ذہنی صحت کو بہتر بناتی ہیں، جس سے اسے سکون، اطمینان، مستقل مزاجی، دماغی آرام، اور ذہنی صفائی ملتی ہے۔ اس کا دل کدورت، بغض، کینہ، اور غصہ جیسے گندے خیالات سے پاک ہو جاتا ہے۔
ایک سچا مسلمان اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر پرامن زندگی گزارتا ہے، بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ بھی امن سے رہتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: “اور جو غصہ پی جاتے ہیں، لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” [سورۃ آل عمران: 134]۔
نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، اور درگزر کرنا:
اسلام کی سب سے بہترین نصیحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرنے، نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے، اور ظلم و گمراہی سے دور رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: “معاف کرنے کو اپناؤ، نیکی کا حکم دو، اور بےوقوفوں سے دور رہو”[سورۃ الاعراف: 199]۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے، جس سے وہ معاشرے میں ایک مثبت، فعال اور اثر انداز شخص بن جاتا ہے۔
اسلام ہمیں “خوبصورت درگزر” کی دعوت دیتا ہے جو انسان کی ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “تو خوبصورتی کے ساتھ معاف کردو”[سورۃ الحجر: 85]۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو درگزر کرنے کی عادت اپنانے کی ترغیب دے اور انہیں اس دلی سکون سے روشناس کرائے جو دوسروں کو معاف کرنے اور ان کے ساتھ احسان کرنے سے ملتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں انسان کو پرسکون، آرام دہ اور گہری نیند سونے کے طریقے بتائے گئے ہیں، جو ذہنی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کے لیے بستر پر جاتے تو اپنے دائیں پہلو لیٹتے اور یہ دعا پڑھتے:
“اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے حوالے کردی، اپنا رخ تیری طرف کیا، اپنے معاملات تجھ پر چھوڑے، اور تیری ہی پناہ میں آیا۔ میں تیری رضا کی خواہش اور تیرے عذاب کے خوف کے ساتھ تیری طرف لوٹتا ہوں۔ میں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لایا۔” [صحیح ابن حبان]
پرسکون اور گہری نیند سے دماغ اور جسم کو آرام ملتا ہے، جس سے انسان تازہ دم، چست، اور توجہ سے کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
عدل اور مساوات کا احساس ایک مثبت جذبہ ہے جو اچھی ذہنی صحت کو بڑھاتا ہے اور اطمینان اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل والدین اکثر بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرتے، جب کہ ہمارا عظیم اسلام والدین کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ بچوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تحفے، رقم، یا روزمرہ کے خرچ میں فرق نہ کریں۔
بچوں کی پرورش میں انصاف کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے، کیونکہ اگر بچہ انصاف کے ماحول میں پلے گا تو وہ بڑا ہوکر سماجی، سیاسی، معاشی اور خاندانی زندگی میں بھی انصاف کو اپنا طریقہ کار بنائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسلام ہمیں بھلائی، احسان، پرہیزگاری، رحم، خدا خوفی، مساوات، مواقع کی برابری، آزادی، تعاون، اور ظلم، سختی، جبر، غیرملکی طاقتوں کے سہارے سے عوام پر تشدد جیسی برائیوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام نے اپنی روشن ہدایت کے ذریعے انسان کی ذہنی مضبوطی پر زور دیا ہے تاکہ وہ زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ ایمان، امید، اور استقامت سے کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے کے لیے مفید بنتا ہے، اصلاح کرتا ہے، اور اللہ کے پیغام کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- ذہنی صحت کے معنی، علامات اور مفاہیم
- ذہنی صحت اسلام کی نظر میں
- اسلام میں نفسیاتی صحت کے اصول و مبادی
- اسلام میں ذہنی صحت کے بنیادی عناصر
- نفسیاتی صحت کا مفہوم اور اس کے مختلف مظاہر
مترجم: سجاد الحق