اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سب سے بڑی نعمت بصارت (نظر) کی نعمت ہے، تاکہ ایک انسان اللہ کی نعمتوں کو دیکھے اور اس کی تخلیق پر غور و فکر کرے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حرام کی طرف دیکھنے اور اس معاملے میں بے احتیاطی برتنے سے منع کیا ہے، جس سے دنیا اور آخرت میں بڑے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
ہمیں بصارت کی نعمت عطا کرنے والے کا زبان اور عمل سے شکر بجا لانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے، پھر تمہیں قوت سماعت، بصارت اور دل و دماغ عطا کیے تاکہ تم شکر بجا لاؤ” [النحل: 7]۔ آج کل جو سب سے بڑی برائی خاص طور پر نوجوانوں میں پھیلی ہوئی ہے وہ یہی حرام نظری ہے، جو خدا نے حرام کی تھی، اور یہ چیز اتنی عام ہوگئی ہے جیسے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہونا ہے۔
حرام کی طرف دیکھنے پر تنبیہ:
آنکھ کی تخلیق خالق عز و جل کی قدرت کا سب سے بڑا کرشمہ ہے کیونکہ آس پاس کی تمام مخلوقات کے مقابلے میں اس کا حجم چھوٹا ہونے کے باوجود یہ آسمانوں، زمینوں، سمندروں، پہاڑوں، دریاؤں اور درختوں سمیت تمام مخلوقات اور اس عظیم کائنات کو دیکھنے کی وسعت رکھتی ہے، پس آنکھ جسم کا آئینہ ہے اور چیزوں میں فرق کرنے والا آلہ ہے۔
بصارت کی نعمت سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، کہ اگر ایک بندہ اسے اللہ کی اطاعت اور دنیا و آخرت کی بھلائی میں استعمال کرے، لیکن اگر اس کے برعکس کیا تو یہی نظر کی نعمت دنیا میں حسرت اور آخرت میں ندامت کا سبب بن سکتی ہے۔ آخر کتنے گناہ اور برائیاں ایسی ہیں جو حرام کی طرف دیکھنے اور نظر کی حفاظت میں بے احتیاطی برتنے سے جنم لیتی ہیں۔ پس تمام ایمان والوں کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلیں اور ان کی حفاظت کریں۔
شریعت مطہرہ نے ہر اس چیز کی طرف دیکھنے سے ممانعت کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اس میں سب کے لیے خیر اور مصلحت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آنکھ کو دل کا آئینہ بنایا ہے، اگر بندہ غضِ بصر کرے گا تو دل اپنی ہوس چھوڑ دے گا اور اگر وہ اپنی نگاہوں کو ہر طرف بھٹکنے کے لیے کھلا چھوٹ دے گا تو دل بھی اپنی ہوس پوری کرے گا۔
چونکہ ایک بندے کے ایمان کو متاثر کرنے والی چیزوں میں آنکھوں کا زنا شدید تر ہے، لہٰذا خدا نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نظریں پھیرنے کا حکم دیا ہے۔
بلکہ حرام کی طرف دیکھنے کا عمل غربت کا سبب بنتا ہے، کاش! ایک شخص اس بات پر غور کرے کہ صرف ایک نظر کی بے احتیاطی کی وجہ سے اسے کتنی مصیبتیں، پریشانیاں، رزق اور خیر میں تاخیر، مال اور صحت کی کمی وغیرہ تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں۔
مردوں کا عورتوں کے مخفی اعضاء کی طرف دیکھ کر لذت اٹھانا یا عورتوں کا مردوں کے مخفی اعضاء کو دیکھ کر لذت اٹھانا، چاہے وہ براہ راست ہو یا فلموں میں، تصاویر میں ہو یا کسی اور صورت میں، بہرحال یہ ایک قسم کے زنا میں شامل ہے، جس میں ایک بندہ لامحالہ پڑتا ہے، کیونکہ اس میں بہت سخت کشش ہوتی ہے، انسان کا نفس کمزور پڑتا ہے، شہوت غالب آتی ہے، شیطان اپنا تسلط جماتا ہے اس کے علاوہ لالچ اور فتنے کے آلات و ذرائع بھی بڑھ گئے ہیں۔
لیکن اگر ایک بندہ ہر اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اللہ منع کرتا ہے اور اس کی اطاعت کرے تو وہ اس کی نظر کو روشن کرکے، اس کے دل کو سکون، اطمینان اور طاقت سے بھر کر اس کی تلافی کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت کا وعدہ کیا ہے، لہٰذا شریعت نے حرام چیزوں کی طرف دیکھنے پر تنبیہ کی ہے۔
قرآن و سنت میں حرام کی طرف دیکھنے کا علاج:
قرآن مجید نے اللہ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی نعمتِ بصر اور دوسری نعمتوں کی عظمت بیان کی ہے، "کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں سماعت، بصارت اور سوجھ بوجھ عطا کی مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہو” [ملک: 23]۔
یہی وجہ ہے کہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کاموں میں استعمال کرنے کی وعید سنائی گئی ہے: "یقیناََ تمہاری قوت سماعت، بصارت اور فہم و ادراک، ان سب قوتوں سے باز پرس کی جائے گی” [الاسراء: 36]۔
قرآن و سنت نبوی میں ان لوگوں کو بہت سی تنبیہات کی گئی ہیں جو نظر کی حفاظت میں بے احتیاطی برتتے ہیں اور اس گناہ کے نتیجے میں ایک انسان کی اپنی ذات اور باقی لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو واضح کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو زور دے کر حکم دیا ہے کہ: "اے نبی مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ آنکھیں نیچی کرلیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔” [النور: 30-31]، اور "اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ نظریں نیچی کرلیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔” [النور: 30-31]۔
قرآن مجید میں ایسی قانون سازی شامل ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو منظم کرتی ہے، اسی ضمن میں اخلاقیات اور نگاہوں کا جھکا لینا آتا ہے، جو مہذب اقوام کی علامت ہے، اور یہ اسلامی اخلاقیات ایک جامع الٰہی نظریے سے پھوٹتی ہیں، جو مسلم معاشرے کو حفاظت، پاکیزگی اور ترقی عطا کرتے ہیں، اور ایسی بیماریوں سے پاک رکھتے ہیں جو اس کی ساخت کو کمزور کر سکتی ہیں اور اس کے تنزل اور اضمحلال کا فوری باعث بن سکتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لیے عورتوں کے فتنے کو مدنظر رکھ کر اس کی سخت ممانعت کی ہے، چنانچہ بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے علی! نظر کے اوپر نظر مت ڈالو، کیونکہ پہلی نظر جائز ہے دوسری نہیں” [ابو داؤد، ترمذی اور احمد]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے آپ لوگ چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: جب تم بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، اگر تم کو ذمہ داری سونپی گئی ہو تو اسے ادا کرو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، اپنی آنکھیں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھ بھیک سے روکو”۔ [ احمد و الحاکم ]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راستوں پر بیٹھنے سے احتراز کرو۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر ہم اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوں اور باتیں کرتے ہوں تو ہمیں کس چیز کا خیال رکھنا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم پھر بھی راستوں پر بیٹھتے ہو تو راستوں کے حقوق کا خیال رکھو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نظریں نیچی رکھو، تکلیف نہ دو، سلام کا جواب دو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو” [صحیح ابو داؤد]۔
البتہ ایک نظر جائز ہے جس سے نظر دینے والا، دل کی سختی اور گناہ میں مبتلا نہیں ہوتا اور وہ ہے اچانک پڑنے والی نظر، لیکن مسلمان کو اس پر دوسری نظر نہیں ڈالنی چاہیے جو حرام ہے، چونکہ جریر بن عبداللہ کا قول ہے: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اپنی نظریں پھیرنے کا حکم دیا”۔ [مسلم]
غضِ بصر کے ثمرات:
نگاہیں نیچی کرنےاور حرام کو نہ دیکھنے کے بہت سے ثمرات ہیں، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں :
- خدا کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جو کہ سب سے بڑی سعادت ہے۔
- یہ دل کو روشنی اور نور عطا کرتا ہے، جو آنکھوں، چہرے اور اعضاء کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح نظروں کو حرام کی کھلی چھوٹ دینے سے ظلمت عطا ہوتی ہے جو چہرے اور اعضاء میں ظاہر ہوتی ہے۔
- زہر میں بجھی ہوئی ( نظروں ) تیروں کی آمد کے اثر کو روکتا ہے۔
- یہ علم کی راہیں اور دروازے کھولتا ہے اور اس کے اسباب کو آسان بناتا ہے، کیونکہ جب دل میں روشنی پیدا ہوتی ہے، تو اس پر چیزوں کے حقائق صاف ظاہر ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے ظاہر ہوتے ہیں۔
- انسان کے دل میں طاقت، حوصلہ اور ہمت پیدا ہوتی ہے، اسے بصیرت کی قوت کے ساتھ دلیل کی طاقت بھی ملتی ہے۔
- انسان کے دل میں اللہ سے انس پیدا ہوتا ہے اور ملاقات کا شوق بڑھتا یے۔
- انسان کو سچی فراست حاصل ہوتی ہے، جب دل میں نور آتا ہے تو فراست درست ہوتی ہے، کیونکہ یہ ایک صاف شیشہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے جس میں حقائق ویسے نظر آتے ہیں جیسے وہ اصل میں ہیں، اور نظر کی حیثیت اس میں سانس کی طرح ہے، جب بندہ اپنی نظر کھلی چھوڑتا ہے تو اس سے دل کے آئینے پر پرچھائی پڑتی ہے اور اس کا نور مٹ جاتا ہے۔
- یہ شیطان کے چور دروازوں کو بند کر دیتا ہے۔
- دل کی درد بھری حسرتوں سے چھٹکارا ملتا ہے، کیونکہ جو نظروں کو کھلا چھوڑتا ہے اس کا غم برقرار رہتا ہے، اور دل کو سب سے زیادہ چوٹ پہنچانے والی چیز چھوڑی ہوئی نظر ہے جو اسے وہ سب دکھاتی ہے جس سے اس کی طلب بڑھتی ہے، وہ صبر نہیں کر پاتا ہے، اور اس تک رسائی بھی نہیں ہوتی ہے، یہی چیز اس کے لیے درد و الم اور عذاب کی انتہا ہے۔
معاشرے پر نظر کی بے احتیاطی کے خطرات:
اس زمانے میں انسان اللہ سے بے خوف ہوکر جس برائی میں سب سے زیادہ ملوث ہوئے وہ یہی بد نظری ہے۔ جہاں گھر، بازار، قہوہ کھانے، ریستوران اور ہوائی اڈے اسکرینوں سے بھرے پڑے ہیں، اور جہاں جیبوں اور ہاتھوں میں موجود موبائل ڈیوائسز، پلک جھپکنے کی مہلت نہیں دیتے ہیں، اور موبائیل فون وہ آخری چیز ہے جسے لوگ سونے سے پہلے دیکھتے ہیں، اور صبح آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلی نظر اسی پر پڑتی ہے اور اس میں حرام تصویریں موجود ہیں بعض ثابت اور بعض حرکت کرتی نظر آتی ہیں، یہاں تک کہ لوگ انہیں شئیر کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اب آنکھیں ان سے نفرت نہیں کرتی ہیں اور نہ دلوں میں ان سے تنگی پیدا ہوتی ہیں۔
حرام کو دیکھنے کے نقصانات یہ ہیں: یہ ایک فتنہ ہے، اور دیکھنے والے کو ایسے فتنوں میں ڈالتا ہے جو نظر کے فتنہ سے بھی بڑے ہیں، اور اس سے دل میں حسرت اور سختی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ وہ تصاویر اور فلموں میں جو کچھ دیکھتا ہے اسی میں مشغول رہتا ہے جو اسے اپنی عبادت اور کاموں سے دور کر دیتا ہے۔
بلکہ بد نظری کی غفلت سے معاشرے میں افراد کے درمیان جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں اختلافات، لڑائیاں اور خونریزی شروع ہوتی ہے اور ایک مسلمان اپنے گھر والوں کی غیرت کے نام پر دوسرے مسلمان بھائی کا قتل کرتا ہے۔
بلکہ ہر خاندان اپنے رشتہ دار کا ساتھ دیتا ہے، چاہے وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہو، اور یہ قبیلوں یا خاندانوں کے درمیان جنگوں کا باعث بن جاتا ہے جن میں خون بہایا جاتا ہے، اور دل نفرت اور انتقام کے جذبات سے بھر جاتے ہیں۔
روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے ایک سوراخ سے اندر جھانکا اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک کنگھا تھا جس سے آپ اپنے سر کے بال سنوار رہے تھے۔ اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم دیکھ رہے ہو تو میں تیری آنکھوں میں یہ کنگھا گھسا دیتا اسی لیے اللہ نے اجازت مانگنے کا حکم نازل کیا ہے تاکہ کوئی چھپ کر نہ دیکھے۔ [بخاری]۔
ھنادی بن السری کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کے ماتھے سے چوٹ کی وجہ سے خون نکل رہا تھا کسی نیک شخص کے پاس آیا اور اس نے اس سے کہا: مالک؟ کیا ہوا؟، اس نے کہا: ایک عورت میرے پاس سے گزری اور میں نے اس کی طرف دیکھا، اور میں پیچھے چلتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا رہا کہ ایک دیوار نے میرا استقبال کیا اور مجھے ٹکر ماری، اور اس سے میری یہ حالت ہوئی جو تم دیکھ رہےہو۔
لیکن کچھ لوگ نظریں دوڑاتے رہتے ہیں، مگر وہ کسی دیوار، کار یا بس سے نہیں ٹکراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے غافل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو اونگھ یا نیند نہیں آتی ہے۔ لہٰذا اسلام کا مقصد ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرنا ہے، جہاں ہر وقت خواہشات میں ہیجان پیدا نہ ہو۔
اس سے ازدواجی تعلقات میں بہت زیادہ انتشار پیدا ہوتا ہے، جہاں ایک عورت اپنی دوست کے شوہر کو دیکھتی ہے اور اس میں ایک عجیب سی خوبصورتی دیکھتی ہے جو اس کے شوہر میں نہیں پائی جاتی، لہٰذا اسے افسوس ہوتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ کاش یہ مرد اس کا شوہر ہوتا! یا مرد اپنے دوست کی بیوی کی طرف دیکھتا ہے اور اس میں ایسی خوبصورتی اور خصوصیات پاتا ہے جو اس کی بیوی میں نہیں پائی جاتی، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ عورت اس کی ساتھی ہو اور وہ اپنے اندر وہ کچھ محسوس کرتا ہے جو صرف خدا جانتا ہے۔ نتیجتاََ ایسی آفتیں، حرام کاری اور مصائب رونما ہوتی ہیں، جو شادی شدہ زندگی کے بندھنوں کو الگ کرنے کا باعث بنتی ہیں، اور محض ایک نظر کی غلطی پورے معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے۔
غض بصر میں معاون اعمال:
اسلام نے کچھ ایسے اعمال کی وضاحت کی ہے جو ایک مسلمان کو حرام نظر سے بچنے میں معاون بن سکتے ہیں، جیسے:
- اس بات کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے بندوں پر نگہبان اور نظر رکھتا ہے۔
- ہر وقت اللہ کی مدد اور توجہ طلب کرنا کہ وہ مجھے اس حرام سے بچنے میں مدد کرے۔
- بندے کا یہ احساس کرنا کہ وہ جن نعمتوں سے زندگی گذار رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور وہ انہیں چھیننے پر قادر ہے۔
- قرآنی نصوص اور دوسری باتوں کو یاد رکھںا جو آنکھیں جھکانے کی تلقین کرتی ہیں۔
- نوافل کی تعداد میں اضافہ کرنا اور فرائض کی پابندی کرنا کیونکہ ان سے دل کی پاکیزگی میں مدد ملتی ہے۔
- غض بصر پر تدریج سے کام کرنا اور نفس سے جہاد کرنا یہاں تک کہ وہ مطیع فرماں بن جائے۔
- ایسی جگہوں سے گریز کرنا جہاں حرام نظری میں اضافہ ہوتا ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- حسان أحمد العماری: بصارت کی نعمت اور بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت
- نظر کی حفاظت میں بے احتیاطی
- محمد حمدی الجندی : نظر کی بے احتیاطی ، اس کا دھوکہ اور انسان کے لیے اس کا نقصان
- ابن قیم جوزی : صحیح شفاء تلاش کرنے والے کے لیے مکمل جواب، تحقیق، محمد یونس شعیب اور عصام فارس الحرستانی، مکتب اسلامی، بیروت، 1991
- محمد صالح المنجد: نظر کے اوپر نظر مت ڈالو
- غضِ بصر کے لیے معاون ذرائع
مترجم: سجاد الحق