طلبہ میں عربی زبان کی کمزوری کا رجحان آج پورے عالم عرب کے تمام اسکولوں میں اس قدر واضح اور عام ہوچکا ہے کہ نہ تو نگران کی آنکھ اس سے چوک سکتی ہے، نہ ہی محقق یا مربی کی بصیرت اسے نظرانداز کرسکتی ہے، اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے کو اس کمزوری کی تصدیق کرنے والی تحقیقات میں کسی اضافی محنت کی ضرورت نہیں، کہ اسے ان خطرات کا علم نہ ہوسکے جو ثقافت و روایت کو درپیش ہیں۔
چونکہ عربی زبان محض اظہار و ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ فکر، عقیدہ، ثقافت، جذبات، وراثت اور تاریخ بھی ہے، اور اس کے کسی ایک پہلو کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے لازم ہے کہ طلبہ کے درمیان اس کے استعمال میں پائی جانے والی نمایاں کمزوریوں کا مطالعہ کیا جائے، خواہ وہ تعلیمی سطح پر ہو یا عملی سطح پر، جیسے کہ پڑھنے، لکھنے، اظہار، فہم و ادراک، اور ابلاغ میں۔ اسی طرح اس کو سیکھنے اور اس کی طرف رغبت میں کمی کا بھی جائزہ لیا جائے، نیز اس کے اسباب اور اس مسئلے کے حل کے لیے تربیتی علاج کا مطالعہ کیا جائے۔
طلبہ کی کمزور لغت کے مظاہر:
عربی ممالک میں کی جانے والی تحقیق سے طلبہ میں زبان کی کمزوری کے کئی مظاہر سامنے آئے ہیں، جو ایک قدیم شکایت بھی ہے اور جدید بھی۔ ابن الجوزی (وفات: 510ھ/1201ء) نے بھی اپنے دور میں لحن کے عام ہونے کو نوٹ کیا اور اسی باعث اپنی کتاب تقويم اللسان تصنیف کی۔ وہ اس کی تمہید میں لکھتے ہیں: “میں نے دیکھا کہ بہت سے علم سے وابستہ لوگ عوام کی ناقص زبان میں گفتگو کرتے ہیں، عادتاََ اور علومِ عربی سے دوری کے سبب، تو میں نے اس کتاب کی تصنیف کا ارادہ کیا”۔
کچھ مطالعات کے مطابق طلبہ میں زبان کے استعمال کی کمزوری کے نمایاں مظاہر یہ ہیں:
- مفہوم ادا کرنے سے عاجزی، خطاب کا بکھرا ہونا، کمزور مواد، اور خیالات کا ٹوٹا پھوٹا تسلسل، چاہے زبان کا معیار کچھ بھی ہو۔
- لحن اور غلطی، جس کی چھ صورتیں پائی جاتی ہیں
(الف) اعراب میں ضبط کی غلطی (ب) املا (ہجوں) کی غلطی (ج) الفاظ میں غلطی
(د) صرفی صیغوں کی غلطی (ہ) بعض اصوات کی ادائیگی میں غلطی (و) نحوی تراکیب میں غلطی
- جہری قراءت میں کمزوری اور حروف و کلمات کے درست تلفظ میں ناکامی۔
- تقریر و خطابت کی مہارتوں میں کمزوری، اور ادائیگیِ صوتی کا کلام کے مفہوم سے ہم آہنگ نہ ہونا۔
- مطالعہ شدہ متن کو سمجھنے میں کمی، بنیادی اور ذیلی خیالات کا ادراک نہ ہونا، اور خلاصہ پیش کرنے میں ناکامی۔
- قواعدِ املا اور ان کے اصطلاحات سے ناواقفیت۔
- اظہار و گفتگو میں عامی بولی کا پھیلاؤ۔
- واضح نحوی و صرفی قواعد سے جہالت، جنہیں عموماً اعدادی یا ثانوی مرحلے میں پڑھایا جاتا ہے۔
- شعری و نثری شواہد کے ذخیرے میں کمی، باوجود اس کے کہ شواہد کا حفظ اظہار کو غنی اور معانی کو مختصر کرنے میں اہم ہے۔
- آزاد مطالعے سے گریز اور عدم رغبت۔
- عربی زبان پر فخر کے احساس میں کمی۔
- عام رائج غلطیوں کا زیادہ ہونا جو زبان کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہیں۔
- لغوی ادوات کے معانی و افعال سے لاعلمی۔
- علاماتِ ترقیم کی نظراندازی اور تحریر میں ان کے درست استعمال پر قدرت نہ ہونا۔
- اسلوب کی کمزوری اور جملوں کی صحیح اور جمالیاتی ترکیب میں تصنع۔
طلباء میں لغت کی کمزوری کے اسباب:
عوام میں— بڑوں اور بچوں دونوں میں — عربی زبان کی کمزوری نے بہت سے سابقہ ماہرینِ لسانیات کو اس مسئلے پر تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن منظور (وفات 711 ھ) نے اپنی عظیم کتاب “لسان العرب” تصنیف کی، اس کے بعد جب انہوں نے عربی میں غلطیوں کے پھیلاؤ کو محسوس کیا۔ وہ اس کی تمہید میں لکھتے ہیں: “اور یہ اس لیے کہ میں نے دیکھا کہ اس زمانے میں زبانوں اور رنگوں کا اختلاف غالب ہو گیا ہے، یہاں تک کہ بات چیت میں غلطی کو ناقابل قبول سمجھا جانے لگا، اور عربی کی ادائیگی میں نقائص کو معیوب شمار کیا جانے لگا، اور لوگ غیر عربی زبان میں ترجمے کی تصنیفات میں مقابلہ کرتے رہے، اور غیرعربی میں فصاحت اختیار کی، اس لیے یہ کتاب میں نے اس وقت کے لوگوں کے لیے جمع کی جنہیں اپنی زبان پر فخر تھا”۔
بہت سے علماء نے اس مسئلے کی درج ذیل وجوہات بیان کی ہیں:
- مطالعہ کی کتابوں میں لسانی ترتیب اور مناسب منصوبہ بندی کی کمی، جو مطالعہ اور فہم و ادراک کے درمیان تعلق کو کمزور کرتی ہے۔
- نحو کے نصاب میں بہت زیادہ اور پیچیدہ قواعد کا ہونا، خاص طور پر درمیانے یا کمزور طلبہ کے لیے، جو عربی زبان کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔
- جدید تعلیمی وسائل کا کم استعمال اور اساتذہ کی طرف سے تدریس میں تنوع، سرگرمی اور جِلا نہ دینا، جس سے عربی کی کلاس دلچسپی اور جوش کھو دیتی ہے۔
- نحو کے قواعد سے لاعلمی جیسے رفع و نصب کی درست ادائیگی میں غلطی، معرفہ اور نکرہ میں فرق نہ سمجھنا۔
- عامیانہ اور غیر ملکی الفاظ کا ضرورت سے زیادہ استعمال جب کہ عربی کے مناسب متبادل موجود ہیں۔
- املا کے قواعد سے لاعلمی جو غلط لکھائی کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ کچھ کتابوں، اخبارات، خطوط اور رپورٹس میں دیکھا جاتا ہے۔
- قارئین کی کمی جس سے یہ تاثر پھیل گیا کہ ہم ایک غیر خواندہ معاشرہ ہیں، اور یہ قوم کی تمدنی و تخلیقی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
- نوآبادیاتی تسلط جس نے عربی کو کمزور کرنے کی کوشش کی، کیونکہ یہ عرب قوم کی روح اور اتحاد کی علامت تھی، اس لیے غیر ملکی زبانوں کو فروغ دیا گیا۔
- طلبہ اور عوام کا قرآن کریم سے کم رابطہ، جو عربی کو عالمی سطح پر لے جانے والا ذریعہ تھا، اور ابتدائی اسلامی دور میں لوگ ہمیشہ قرآن پڑھتے رہتے تھے، جس سے عربی سے محبت پروان چڑھی۔
- عربی ادب کا نظرانداز ہونا، شعر و نثر کی تعلیم میں کمی، حالانکہ یہ قرآن کے بعد زبان کی مہارت مضبوط کرنے کا دوسرا ستون ہے۔
- نفسیاتی وجوہات جیسے مطالعہ سے نفرت، گفتگو میں خوف، بات کرنے میں ناتوانی، اور طویل خاموشی۔
- میڈیا میں کمزوری، جہاں عامیانہ مواد غالب آتا ہے اور فصیح مواد کم، نیز میڈیا پر بولنے والوں کی زبان کی خرابیاں جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔
- مساجد میں اماموں کی کم مہارت اور ان کی متعدد غلطیاں۔
- فزیولوجیکل وجوہات جیسے سماعت کی کمی، کسی عضوِ کلام (زبان، دانت، جبڑے، حلق، ہونٹ) میں عیب، یا محدود ذہانت والے طلبہ۔
کمزور لغت کا علاج:
زبان میں کمزوری کے مسئلے کا بڑھتے چلے جانا اور اس کا مؤثر علاج نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے، حتیٰ کہ زبان کا مرنا، اس کا خاتمہ، شناخت کا نقصان، شخصیت کا مدھم ہونا، اور قوم کو متحد رکھنے والے رشتے سے تعلق کا کٹ جانا تک ممکن ہے۔ اس لیے زندہ قومیں ہمیشہ اپنی زبان کی حفاظت اور مضبوطی کو یقینی بناتی ہیں اور اس میں کمزوری کے عناصر کے داخلے سے خبردار رہتی ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر طریقے درج ذیل ہیں:
قرآن کریم کی پابندی: سننا، پڑھنا، حفظ کرنا اور مطالعہ کرنا، کیونکہ یہ عربی زبان سیکھنے، اس کے الفاظ، معانی، نحو اور صرف کو جاننے کا بنیادی ذریعہ ہے۔
عربی ادب سے میل جول: نثر اور شعر دونوں، کیونکہ یہ زبان کی مہارت کو مضبوط کرتا ہے۔
تعلیمی طریقہ کار: ہر طالب علم کا جائزہ لینا تاکہ کمزوری کے نکات معلوم ہوں اور ان کی اصلاح کے لیے ضروری مہارتیں استعمال کی جائیں۔
غلطیوں کو فہرست کی صورت میں درج کرنا اور طلبہ کو پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دینا، ساتھ ہی ایک مشاہداتی ڈائری رکھنا تاکہ غلطیوں کا اندراج ہو۔ صوتی تجزیہ اور مشقیں تیار کرنا، چاہے وہ گھریلو ہوں یا جماعتی، جن میں الفاظ اور حروف شامل ہوں۔
صبح کی تقریری مشقیں (کلمات صباحیہ) جماعت کے دوران، تاکہ طلبہ سب کے سامنے پڑھنے کی مشق کریں اور ہچکچاہٹ یا خوف کم ہو۔
خاندان کا کردار: والدین طلبہ کو مطالعے اور پڑھائی کی طرف راغب کریں، کیونکہ یہ عربی زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی کنجی ہے۔ والدین تنہائی میں بھی طالب علم کے ثقافتی خلا کو پر کر سکتے ہیں اور اسے مہارت یافتہ لوگوں کے دائرے میں لا سکتے ہیں۔
میڈیا کا کردار: زبان کی صحیح استعمال اور عام بولی سے گریز کے ذریعے قوم اور ریاست کی عمومی تربیت میں مدد دینا۔
اساتذہ کے لیے آسان اور مؤثر طریقے اپنانا: نحو و صرف پڑھانے میں، اور یہ پرانی سوچ تبدیل کرنا کہ عربی صرف پیچیدہ قواعد کا مجموعہ ہے۔
کلاس میں استاد اور طلبہ کے درمیان مباحثے اور مکالمہ: یہ طلبہ کو آزادانہ طور پر خیالات کے اظہار میں مدد دیتا ہے اور گفتگو کی مہارت کو فروغ دیتا ہے۔
ابتدائی مراحل میں فصیح عربی کا استعمال اور اساتذہ کی تربیت: زبانی اور تحریری زبان پر مہارت حاصل کرنے کے لیے۔
فصیح عربی میں کتابوں کی تصنیف، خصوصاً بچوں کی کتابوں میں عام بولی سے پرہیز۔
استاد کا علم: نفسیات اور لسانیات کے اصولوں اور نظریات کا علم تاکہ مختلف طلبہ کی ضروریات کے مطابق معلومات منتقل کی جا سکیں۔
تعلیمی پالیسی میں تبدیلی: عربی زبان کے شعبوں میں داخلہ کی شرح بڑھانا تاکہ زبان کو اس کی اہمیت اور قوت واپس ملے۔
بچوں کو دوسری زبان نہ سکھانا جب تک وہ عربی زبان پر عبور حاصل نہ کر لیں، یہ ذمہ داری خاندان اور اسکول دونوں پر عائد ہے۔
عربی زبان کی تعلیم کے انداز کو دوبارہ ترتیب دینا: پرانے نصاب میں کئی مہارتوں جیسے لکھائی، املا، مطالعہ، لائبریری دوروں، اور اسکول میں ادبی سیمینارز پر توجہ دی جاتی تھی۔
بچوں میں زبان کی کمزوری کے مظاہروں، اسباب اور علاج کے جاننے کے بعد والدین پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائیں، جس میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ ابتدا قرآن کریم کی پابندی سے کریں: سننا، پڑھنا اور حفظ کرنا۔ پھر بچے کی کمزوریوں کو جانچیں اور ان کی مضبوطی پر کام کریں۔ اس کے ساتھ اسکولوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا تعاون بھی ضروری ہے تاکہ ہر طالب علم کے لیے مناسب طریقہ تدریس کے ذریعے زبان کی مہارت کو مضبوط کیا جا سکے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ فصحی زبان استعمال کرے اور عام بولی کے استعمال کو کم کرے، تاکہ بچہ ایسے ماحول میں پروان چڑھے جہاں وہ اپنی مادری زبان پر فخر کرے اور وہ خود بھی اسے محبت اور مہارت کے ساتھ سیکھے۔
مترجم: زعیم الرحمان