اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک استاد، رہنما اور روشن دیے کے طور پر بھیجا، لہٰذا وہ ان لوگوں کے لیے ایک عمدہ نمونہ ہیں جو خدا اور قیامت کے دن کی امید رکھتے ہیں، اور ان لوگوں میں پروفیسر نزار ریان بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے بارے میں علم حاصل کیا اور ان کے تعلیمی و تربیتی اسالیب کو عملی جامہ پہنایا۔
شیخ نزار دن کے اوقات میں ایک عالم دین تھے، جو اپنے کتب خانے میں دینی علوم کی کتابوں کے درمیان چکر لگاتے تھے، ان کتابوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد جلدوں اور شرعی حوالہ و مراجع پر مشتمل تھی، اور رات کے اوقات میں وہ غزہ کی پٹی کی سرحدوں پر تعینات رہتے تھے، جہاں وہ اسلامی مزاحمتی تحریک “حماس” کے ایک سیاسی رہنما کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کا قابض اسرائیلی فوج کے بارے میں ایک مشہور قول ہے، جب انہوں نے کہا: “وہ ہمارے کیمپ میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے۔”
شہید نزار ریان کی زندگی:
ان کا نام نزار عبدالقادر محمد عبداللطیف حسن ریان عسقلانی ہے، عسقلان فلسطین کے قصبوں میں سے ایک قصبہ ہے۔ وہ جمعہ 6 مارچ 1959ء کو صبح سویرے جبالیہ کیمپ میں پیدا ہوئے اور اپنے بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں، وہ اسی کیمپ میں پروان چڑھے، بڑے ہوئے، چار شادیاں کیں اور ان کے پندرہ بچے ہیں۔
نزار ریان نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم جبالیہ کیمپ کے الغوث اسکول میں مکمل کی، اور وہ اپنے بھائیوں میں ممتاز تھے، اور اپنی ذہانت کی وجہ سے، انہوں نے اپنے والدین اور اپنے شیخ، شیخ احمد یاسین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ یونیورسٹی کی تعلیم کا رخ کیا۔
انہوں نے 1978ء میں قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، لیکن اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کیا، لہٰذا انہوں نے ریاض، سعودی عرب میں امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اصول الدین کے شعبے میں داخلہ لیا۔
انہوں نے 1402ھ میں وہاں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، پھر عمان میں اردن یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اور حدیث میں مہارت و تخصص حاصل کیا اور 1990ء میں بہترین گریڈ کے ساتھ اپنا مقالہ (شہادت اور شہید) لکھا۔
1994ء میں انہوں نے سوڈان سے قرآن مجید یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور بہترین کارکردگی کے ساتھ (اسلام کا مستقبل ایک معروضی و تجزیاتی مطالعہ) کے عنوان سے اپنا مقالہ لکھا، پھر 2001ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کا عہدہ حاصل کیا اور 2004ء میں پروفیسر بن گئے ۔
شیخ ریان جمعرات یکم جنوری 2009ء کی سہ پہر تک “جنگ الفرقان” کے دوران دشمنوں سے لڑتے رہے اور نسلوں کی پرورش بھی جاری رکھی، اس جنگ میں قابض فوج نے شیخ نذر کے گھر پر بمباری کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اپنے سینے اور جسم سے لوگوں کے گھروں کی حفاظت کرنے والے قابل احترام عالم نے اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا، لہٰذا انہیں غاصب اسرائیلی طیاروں نے بمباری کر کے اپنی چار بیویوں اور گیارہ بچوں کے ساتھ شہید کر دیا۔
نزار ریان کی علمی کامیابیاں:
شہید نزار ریان نے بہت سی علمی کامیابیاں حاصل کیں، جو ان کے کیریئر کی ترقی اور علمی شراکت داری میں نمائندگی کرتی ہیں، اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا: کیریئر کی ترقی:
• اصول الدین فیکلٹی میں تدریسی معاون کے طور پر 27/2/1984 سے لے کر کام کیا31/8/1990۔
• انہوں نے فیکلٹی آف اصول الدین میں شعبہ حدیث میں استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ 1/9/1990 حتى 21/8/1994۔
• انہوں نے فیکلٹی آف اصول الدین میں شعبہ حدیث میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ 22/8/1994 وحتى 12/10/1999۔
• انہوں نے فیکلٹی آف اصول الدین میں شعبہ حدیث میں ایسوسیٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ 13/10/1999 حتى 5/7/2004۔
• انہوں نے نائب صدر برائے تعلیمی امور کے معاون کے طور پر کام کیا۔ 1/9/2001 وحتى 15/8/2003۔
• انہوں نے 6/7/2004 ء سے فیکلٹی آف اصول الدین کے شعبہ حدیث میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا یہاں تک کہ خدا نے انہیں شہادت سے سرفراز کیا۔
دوسرا: علمی شراکت داری، انہوں نے طلباء کو یونیورسٹی کے متعدد مضامین پڑھائے، جن میں درج ذیل مضامین شامل ہیں:
- انڈر گریجویٹ طالب علموں کو: تخریج، مطالعہ أسانید، حدیث، اور پیغمبر اکرم کی سوانح حیات کے مضامین۔
- ماسٹر کے طالب علموں کو: محدثین کے مناھج، جرح و تعدیل، تجزیاتی حدیث، اور معروضی حدیث کے مضامین۔
شیخ نزار کی زندگی کے تربیتی پہلو:
شیخ نذر ریان کی زندگی کے تربیتی پہلو، جرأت، لوگوں کے درمیان بھلائی، ان کی اصلاح ذات، مصائب پر صبر اور مجاہدین کی مدد اور انکا دفاع کرنا تھے، تفصیل درج ذیل ہے:
- اصلاح ذات: شیخ ریان کو فلسطینیوں میں بہت مقبولیت حاصل تھی، اور وہ شہریوں کی روزمرہ کی زندگی سے اپنی مضبوط وابستگی کی وجہ سے مشہور تھے، اور وہ اس ماحول میں شریک تھے جس میں وہ رہتے ہیں، اور وہ ان مردوں میں سے ایک تھے جنہوں نے لوگوں کے مابین تعلقات کی مصالحت کو اپنایا۔
- مجاہدین کے حوصلوں کو تیز کرنا: شیخ ریان تمام میدانوں میں نمایاں تھے، لہٰذا انہوں نے 2004 میں شمالی غزہ کی پٹی سے قابض ٹینکوں کو شکست دینے تک ایام غضب نامی جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا، اور انہوں نے چوکیوں پر مجاہدین کے پیش قدمی کی قیادت کی، اور ان میں عزم اور حوصلے کا جذبہ پیدا کیا، اور میدان جنگ میں ان کے ساتھ رات گزارتے تھے۔
- اللہ کی راستے میں بیٹے کو قربان کرنا: عظیم عالم ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے اور یہاں تک کہ اپنے بیٹے ابراہیم کو 2001 ء میں غاصب گاؤں (ایلی سینای) میں ایک کمانڈو آپریشن میں شہید کے طور پر پیش کیا تھا، جس میں 6 قابض فوجی ہلاک ہوئے تھے، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی اور ان کے دو بھتیجے غزہ قتل عام میں شہید ہوئے تھے، اور ان کا بیٹا بلال زخمی ہوا تھا اور اس کے پاؤں کاٹ دیے گئے تھے۔
- ضرورت مندوں کی مدد: شیخ نزار کو کئی بار موت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے حامیوں کے ساتھ ایک ایسے گھر کی حفاظت کے لیے کھڑے رہے جسے اسرائیلی غاصبوں نے بم باری کی دھمکی دی تھی، جسے “سد انسانی” پالیسی کے نام سے جانا جاتا ہے، جیسا کہ نومبر 2006ء میں جبالیہ میں سینکڑوں شہریوں نے عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے رہنما محمد بارود کے گھر پر قبضہ کر لیا تھا، جسے اسرائیلی فوج نے بمباری کی تیاری کے طور پر خالی کرنے کے لیے کہا تھا۔
- جہاد کی دعوت: شیخ نزار نے اللہ کے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس قول سے آغاز کیا: “آپ مومنوں کو لڑنے کی ترغیب دیں”، لہٰذا وہ رباط کی جگہوں کو تلاش کرتے کرتے تھے، لڑنے والے مجاہدین کی مدد کرتے تھے، ان کے لئے عطیات جمع کرتے تھے، کسی بھی صیہونی حملے میں ان کی مدد کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ان سے شہادت کے لئے محبت کرتے تھے۔
- بچوں کو دشمنوں سے نفرت کرنے کی تربیت دیتے تھے: براء بن الشیخ نزار کہتے ہیں: “میرے شہید والد نے ہمیں سکھایا کہ جو کچھ ہمارے اور یہودیوں کے درمیان ہے وہ ایک عقیدہ ہے، انہوں نے ہم سب میں یہ بات پیدا پیوست کی اور ہم میں سے ہر ایک کا مقصد قسام بریگیڈ میں مجاہد بننا بن گیا، جو اپنے رب سے بطور شہید ملنا پسند کرتا ہے۔ یہ باتیں اس وقت تک خواب تھیں جب تک کہ الاقصیٰ انتفاضہ کی برکات نہیں آئیں۔ پہلے انتفاضہ میں ابراہیم اور میں چھوٹے تھے اور جب ہم چھ سال سے کم عمر تھے تو یہودیوں پر پتھراؤ کیا کرتے تھے۔”
- دلیری وشجاعت: غاصب صیہونی حملوں کے عروج پر حدیث کے ایک پروفیسر کا مزاحمت کاروں کے درمیان تعینات ہونا غیر معمولی بات تھی اور وہ کبھی کبھی اپنے روزمرہ کے لباس کی جگہ “عز الدین القسام بریگیڈز” کی فوجی وردی پہننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے، جس سے مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے تھے اور انہیں قابض فوج کی دھمکیوں کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔
- لوگوں کو فقہ اور حدیث کی تعلیم دینا: دشمنوں کے خلاف جہاد نے شیخ نزار کو لوگوں کو فقہ اور حدیث کی تعلیم جاری رکھنے سے نہ روکا، وہ مجاہدین کے درمیان رات کو جاگتے تھے اور طلوع فجر کے بعد صحیح مسلم کا درس دیتے تھے، اور نماز عصر کے بعد وہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ان کے مسائل سے آگاہ کرتے تھے۔
- خدا کے ساتھ حسن ظن کی دعوت: نوجوانوں اور مجاہدین میں ایمان پیدا کرنے کی ان کی کوششوں میں سے ایک خدا کے ساتھ حسن ظن رکھنا تھا، اپنی وصیت میں انہوں نے کہا: میں ہر باب میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک نیتی اور حسن ظن کی تلقین کرتا ہوں اور ان دروازوں سے ایک اللہ رب العزت سے ملاقات شامل ہے، بشمول ہمارے ملک کو یہودیوں سے پاک کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے ہم سے اپنا وعدہ کیا ہے کہ وہ وہی کریں گے جو اسکے قوانین سے بغاوت والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارا ملک فلسطین اور باقی مسلم ممالک کو کافروں یا سیکولروں اور امریکہ کے پٹھوں اور دین کے دشمنوں سے آزاد نہیں کرا لیتا۔
شیخ نزار ریان ایسے ہی تھے یہاں تک کہ اپنے رب سے ایک شہید کی حیثیت سے ملاقات کی، ان کی زندگی خدا کی خاطر جہاد، علم دین اور لوگوں کو حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے اور ان کے تعلقات کو درست کرنے کی کوشش کرنے، اپنے جگر اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو قربان کرنے کے درمیان تھی تاکہ خدا کا کلام سب سے بلند ہو، اور اس نے اپنے شاگردوں اور بھائیوں کو بہت متاثر کیا، جنہوں نے انہیں والد، پروفیسر، مجاہد عالم، رول ماڈل اور سنت رسول کے بہترین پیروکار کے طور پر منسلک کر دیا۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین