بقلمِ ڈاکٹر منير الغضبان
اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے قیادت تیار کی اور ان کی تربیت (نبوی تربیت) کی، چاہے وہ اجتماعی زندگی ہو یا انفرادی، سیاسی زندگی ہو یا عسکری۔ ہمارے ان قائدین کا تعلق مہاجرین و انصار کے سابقون الاولون میں سے تھا۔ ہم نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبودار اور معطر حیاتِ طیبہ سے اپنے لئے رہنما اصول اخذ کرتے ہیں۔ ایک رہنما، استاد اور معلم و مربی کے طور پر ان کی مبارک زندگی ہمارے لئے بہترین اسوۂ حسنہ ہے۔
نبوی تربیت کا پہلا سبق: عاجزی و انکساری کی تربیت
عاجزی و انکساری کی صفت تمام قائدین کے لیے یکساں ضروری ہے، چاہے وہ سیاسی قائدین ہوں، یا پھر تعلیمی و تربیتی رہنما ہوں۔ بدر کی لڑائی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ستر اونٹ تھے، اس لیے ہر اونٹ پر تین تین سوار بیٹھتے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح دو لوگوں کے ساتھ اونٹ پر سوار ہوئے، جن میں سے ایک شخص باری باری اونٹ کو آگے سے پکڑ کر اسے چلاتا اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی اپنی باری پر ایسا ہی کرتے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹ کو پکڑ کر چلانے کی باری آئی تو ان کے دو ساتھیوں مرثد بن مرثد الغنوی اور ان کے بھائی سعد رضی اللہ عنھما کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احترام اور تعظیم کو دیکھ کر عار محسوس ہوا اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے فرمانے لگے کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رہنے دیں، آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ اونٹ پر بیٹھے رہیں اور ہم دونوں باری باری اسے پکڑ لیں گے۔ اب جو ان کی اس بات کا جواب اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیا وہ اس قابل ہے کہ قیامت کی صبح تک اس کی آواز ہمارے کانوں میں گونجتی رہے۔ خاص طور سے جو سیاسی قائدین، اساتذہ و معلمین اور مربیین ہیں ان کے لئے یہ جواب چشم کشا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دو مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، میں بالکل آپ ہی کی طرح ہوں اور میں تم سے زیادہ اجر کا حقدار نہیں ہوں۔ اگر اونٹ چلانے کی سب کی باری ہے تو میں بھی باری دینے کا اتنا ہی حق رکھتا ہوں جتنا تم ہو، اور آرام و راحت کا اتنا ہی مستحق ہوں جتنے کہ تم ہو۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اونٹ کی کمان سنبھالی اور اپنے حصے کی ڈیوٹی مکمل کی۔
نبوی تربیت کا دوسرا سبق: شوریٰ یعنی مشاورت کی تربیت
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف روانہ ہوئے، تو راستے میں ہی، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں میں سے ایک پر نصرت کا وعدہ کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا، اور انہوں نے کہا: ہمارے پاس بدر والے لشکر کے خلاف مقابلے کی طاقت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متحد و منضبط اور منظم ہوکر بھر پور تیاری کے ساتھ دشمن کا سامنا کرنا چاہتے تھے، ورنہ یہ تصادم کیسے ممکن تھا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو، مجھے اس بارے میں مشورہ دو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے لشکر سے مشورہ مانگ رہے تھے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر بہترین تقریر کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور تقریر کی، اسی طرح مقدار رضی اللہ عنہ بھی اٹھے اور بات کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صاحب کی تقریر کے بعد یہ الفاظ دہراتے: ”اے لوگو مجھے اس معاملے میں مشورہ دو!
انصار کے لحاظِ ادب نے انہیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور باقی مہاجرین کے سامنے بات کرنے سے روکا، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب کرنے پر اصرار کیا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: گویا آپ کا اشارہ ہماری (انصار) کی طرف ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! کیونکہ جو عہد ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھا وہ مدینہ کے اندر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے سے متعلق تھا، نہ کہ مدینہ سے باہر، جب کہ جنگ بدر مدینہ سے باہر ہو رہی تھی۔
سعد رضی اللہ عنہ نے انصار کی طرف سے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ خدا کی قسم، اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر سمندر میں کود پڑیں گے تو ہم میں سے ایک بھی پیچھے کی طرف نہ دیکھے گا۔ ہم جنگ میں صبر کرنے والے اور مقابلہ ہونے پر کھرا اترنے والے لوگ ہیں۔ لہٰذا اللہ کا نام لے کر ہمارے ساتھ چل پڑیں۔ شاید اللہ آپ کو ہم سے وہ چیز دکھائے جو آپ کی آنکھوں کو پسند ہے۔ یہ محض زبانی جمع خرچ نہیں ہے، ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ ہم جنگ کیسے لڑتے ہیں، ہمارا جنگی تجربہ کس قدر وسیع ہے، مقابلے میں ہمارے خلوص کا درجہ کیا ہے، تصادم کے لیے ہماری تیاری کیسی ہے، اور آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے میں ہم کس قدر یک جان اور یک زبان ہیں۔

نبوی تربیت کا تیسرا سبق: لیڈرشپ اور قیادت کی تربیت
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ انتہائی زیرک اور غیر معمولی قائد و رہنما تھے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وہ ایک بڑے معرکے کے لیے لوگوں کو متحرک کر رہے تھے۔ لیکن انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ معرکہ ان کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ تو کیا وہ سب کو موت کے منہ میں دینا چاہتے تھے؟
غور و فکر اور تفکیر ایک قائد اور رہنما کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جب کہ ایک عام سپاہی کے لیے یہ سب ضروری نہیں ہوتا۔ اس کا کام بس لڑنا اور جام شہادت نوش کرنا ہوتا ہے، جس کے ساتھ ہی اس کا مشن مکمل ہو جاتا ہے۔ یہاں سعد رضی اللہ عنہ نے گھمسان لڑائی کے لیے ایک طرف ماحول گرم کیا تو دوسری طرف مستقبل کے لیے جنگ کی حکمت عملی، اسٹریٹجی، اور نتائج کا حساب لگا رہے تھے۔ وہ پلاننگ کر رہے تھے کہ خدانخوستہ مسلمانوں کی شکست کی صورت میں کونسی پالیسی اپنائی جائے۔ اس خیال نے انہیں ایک بڑے منصوبے کی طرف راغب کیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے لیے ایک پناہ گاہ نہ بنائیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کریں؟ اس لئے کہ ایک لیڈر کا گھیراؤ اور اس کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ایک لیڈر کا انجام جنگ کا انجام ہوتا ہے۔ تو کیا ہم آپ کے لیے ایک پناہ گاہ نہ بنائیں جہاں آپ کی حفاظت یقینی ہو۔ پھر اگر اللہ نے ہماری قسمت میں فتح لکھی جو کہ ہمیں محبوب ہے تو دونوں صورتوں میں آپ کی حفاظت یقینی ہوگی۔
میرے بھائیو، کمانڈر کی مہم پر توجہ دو، اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو قربان کریں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان کی حفاظت اور ان کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایسا نہیں ہے تو ان ریڑھیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف چلو، کیونکہ وہاں لوگ موجود ہیں اور خدا کی قسم ہم ان سے زیادہ تم سے محبت کرنے والے نہیں ہیں۔
سعد بن معاذ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی طاقت صرف اتنی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اندازہ نہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم جنگ کی غرض سے نکلے ہیں ورنہ وہ جوق در جوق گھروں سے جنگ کے لیے نکلے ہوتے اور تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی۔ اور فرمایا: میں مدینہ کے لوگوں سے واقف ہوں جو کہ سب سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ آپ کی قیادت میں اللہ کی راہ میں لڑنا پسند کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمیں فتح و نصرت سے ہم کنار کرے۔
اور یہ ہر لیڈر کے لیے سبق ہے کہ وہ اپنے سپاہیوں کے بارے میں کیسی سوچ رکھے، اپنے بھائیوں کی توانائیوں کا احترام کیسے کرے، انہیں دعوت کیسے دے اور کس طرح پکارے۔ پھر ایک کمانڈر کے لیے کرنے کے کچھ اہم کام ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتا ہو:
پہلا کام: بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کرنا جب تک کہ پوری فوج لڑنے اور مرنے کیلئے تیار نہ ہوجائے۔
کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ: فوج کو زندہ کیسے رکھنا ہے اور کس طرح فتح کو ممکن بنانا ہے۔ اب اس کی مثال کہاں سے ملے گی؟ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۃ میں اس کی مثال موجود ہے۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے منصوبہ بنایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کیا۔ انہوں نے رسول اللہ کے لیے قیام گاہ تعمیر کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت سے ہم کنار کیا۔
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ