سوال:
میرا بیٹا نو سال کا ہے میں نے اسے الیکٹرانک گیمز پر وقت گزارنے، تعلیمی کارٹون دیکھنے اور مذہبی کہانیوں سے محظوظ ہونے کے لیے ایک ٹیبلٹ کمپیوٹر لے کر دیا تھا، مگر ایک بار ایسا ہوا کہ اس کے بڑے بھائی نے موبائل گیم کھیلنے کے لیے جب اس کا ٹیبلٹ ہاتھ میں لیا تو دیکھا کہ وہ اس پر فحش تصویریں اور وڈیوز دیکھتا ہے۔ یہ فحش مواد کوئی اپنے آپ ظاہر نہیں ہوا تھا بلکہ اس کو دیکھنے کے لیے ایک خاص قسم کے الفاظ کو چن کر سرچ میں ڈالا گیا تھا اور وہ الفاظ صنف نازک کے اعضاء مخصوصہ سے تعلق رکھتے تھے، تب جاکر یہ تصویریں اور وڈیوز سکرین پر نمودار ہوئے ہیں۔ مجھے کچھ نہیں معلوم ایسا کیسے ہوا ہے؟ ہم ایک عزت دار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ایسے الفاظ سے بالکل نا آشنا ہیں جنہیں سرچ کرکے اس نے یہ سب دیکھا ہے۔ مجھے جب سے پتہ چلا ہے میرے تو ہوش ہی اڑ گئے ہیں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں میں کیسے ردعمل ظاہر کروں اور اس کے ساتھ کیا کروں؟ کیا میں اس کا ٹیبلٹ واپس لے لوں؟
جواب:
ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہماری نئی نسل کو ابتدا ہی میں اس گندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں شعور کی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ایسے خطرناک تجربات سے گذارا جاتا ہے اور وہ سب کچھ دکھایا جاتا ہے کہ جس کا بڑی عمر کے لوگ گمان بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو کم عمری میں ہی سوشل میڈیا کی سہولیات سے متعارف کروایا جاتا ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ یہ چیزیں ہماری زندگی میں لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں، مگر اس کے باوجود ایسے خاندان بھی موجود ہیں جو ان آلات کے استعمال سے پیدا ہونے والے سنگین نتائج کو مدنظر رکھ کر ایسے آلات کو اپنے بچوں کی زندگی میں متعارف کرنے میں زیادہ سے زیادہ وقت تک رکے رہتے ہیں۔ اور اگر ضرورت پڑنے پر بچوں کو یہ آلات دلوا بھی دیں، لیکن ان کے استعمال پرسخت قسم کی ضابطہ بندی لگا دیتے ہیں۔ ویسے بھی چیزوں کو قابو میں رکھنا ناممکن نہیں ہے۔
بدقسمتی سے ہم بعض اوقات بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں جلدی کرتے ہیں یا ہم اپنے آس پاس کے عام رواج سے مرعوب ہوکر بلا ضرورت یہ آلات ان کے استعمال میں دے دیتے ہیں۔ پھر ہماری آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں سے ان نتائج کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کا ہمیں ڈر تھا یا جس کے بارے میں ہمیں پہلے سے ہوشیار کیا گیا تھا۔
بہرحال جو ہوا سو ہوا، اللہ نے جو مقدر کیا تھا اور جو چاہا وہ کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس مسئلے کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔ ویسے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ نے اس کے الفاظ تلاشنے کا جو مطلب لیا ہے آپ اس میں غلط ثابت ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی بڑے نے ایسا کیا ہو۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس سنگین مسئلے کو ہر ممکن زاویے سے دیکھنا پڑے گا، کیونکہ ایک نو سال کا بچہ کوئی بالغ لڑکا تو ہوتا نہیں ہے۔ اس لیے عقل بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس عمر کا بچہ جنسی مواد تلاش کرنے کا شوق رکھتا ہوگا۔ شاید اس نے کسی کی نقل میں ایسا کیا ہوگا یا کسی غلط دوست کے زیر اثر آیا ہوگا۔
معاملہ جو کچھ بھی ہو، ہمیں اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے تاکہ دوبارہ ایسی نوبت نہ
آئے۔ اس مشکل کو دو طریقوں سے نمٹا جاسکتا ہے:
- انجان بننے کا طریقہ: یعنی اس حادثے کے بارے میں بچے سے کچھ نہ کہنا، البتہ ضروری احتیاطی تدابیر کا اہتمام کرنا۔ لیکن ہم اس طریقے کے مطلق استعمال کی حمایت نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ بچے کی دل آزاری نہ ہو اس کے اندر غم وغصہ کی کیفیت پیدا نہ ہو اور وہ عافیت کے ساتھ اس حالت سے نکل آئے۔
- بچے کا سامنا کرنا: یہ طریقہ اپنانے سے پہلے ہم اپنے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لیں کہ غلطی کرنے سے انسان کو سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ہم اسے برا جان کر اس کے ساتھ پیش نہ آئیں بلکہ اسے ایسا کمزور انسان تسلیم کریں جسے کسی چیز کی عادت پڑ چکی ہے یا کسی انجانی خواہش نے اسے ایسا مواد تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، جیسے یہ سوال:
تجھے ان الفاظ کی مدد سے تلاش کرنے کے بارے میں کس نے بتایا؟
تم نے مجھ سے یا اپنے بابا سے اس کے متعلق سوال کیوں نہیں کیا؟
ہم اسے ان باتوں کے بارے میں جو اس کے ذہن میں چل رہی ہیں اپنی معلومات کی حد تک بتائیں گے اور ان باتوں کا جواب دینے کی کوشش کریں گے، جن کا جواب اسے مل نہیں رہا ہے۔ ہم اسے اس کی عمر کے مطابق جانکاری فراہم کریں گے۔ اس کے ساتھ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے درج ذیل وجوہات کی وجہ سے اس طرف مائل ہوتے ہیں۔
- بہت زیادہ خالی اوقات کی وجہ سے۔
- والدین کی طرف سے نگرانی میں کمی۔
- ڈیجیٹل آلات تک بلا روک ٹوک رسائی۔
- اپنے بچوں کے وقت کو ان کاموں میں نہ لگانا جو انہیں اسلامی ثقافت اور دوسرے مفید معلومات کی غذا فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ عادت کی وجہ سے بچے یہ چیزیں پھر سے دیکھیں گے۔ اگرچہ انہیں اس بات کا احساس ہے اور پتہ ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے، پھرچاہے کوئی بھی عادت ہو مگر آپ کے بچے میں عادت لگنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ صرف نو سال کا ہے۔
چونکہ ہم ممنوعہ سائٹس دیکھنے کی وجوہات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، لہٰذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کڑی نگرانی اور مفید کاموں میں وقت صرف کیے بغیر یہ فحش مواد بار بار سامنے آئے گا اور اس کی لت پڑ جائے گی اور یہ نشہ ان سائٹس کو براؤز کرنے کا محرک اور وجہ بن جائے گا۔ جس کسی کو عادت لگ جاتی ہے، وہ اس سے بچ نہیں سکتا ہے پھر اسے نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ ابتدا میں عادت پڑنے سے پہلے انسان کی عقل اور خواہشات میں جنگ چھڑ جاتی ہے لیکن جب ایک انسان اس کا عادی بن جاتا ہے تو وہ خواہشات کی پکار پر لبیک کرتا جاتا ہےاور عقل کی آواز کو سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ انسان خواہشات، لذات اور ترغیبات کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ جو اس نے کیا وہ حلال ہے کہ حرام ہے۔ وہ اس عمل کے نقصان سے لاپرواہ ہو جاتا ہے۔ پھر جب کوئی چیز نشہ بن جاتا ہے، وہ انسانی عقل کو بدمست کرتی ہے۔ اس سے پریشانی، ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور کچلی ہوئی عزت نفس کو تسلی ملتی ہے۔
علاج کے متعلق بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس کی عقلی توجیہ
کرنی چاہیے، وہ اس طرح کہ:
- ہم عقل سے سوال کریں گے کہ ہمیں یہ کام کرنے سے کیا فائدے ملے گا۔
- عقل کے جواب کا جائزہ لیں گے کہ تھوڑی دیر رکنا چاہیے یا فوراََ عمل پیرا ہونا چاہیے۔
- ہم بچے کو اس بات کا علم دیں گے کہ مزاحمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کہیں۔۔۔ “نہیں میں کبھی نہیں کروں گا” بلکہ جب ہمیں کوئی ترک کی ہوئی بات کا خیال آئے گا، ہم اس برے کام کی جگہ کوئی دوسرا اچھا کام کریں گے، یہاں تک کہ ہمارے اندر اس کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جائے گی اور بدلے میں اچھے کام کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
یہ علاج کے نظری پہلو کی بات ہوئی، جہاں تک عملی پہلو کی بات ہے وہ یہ ہے:
- ہم بچے کو فلمی کارٹون ٹیبلٹ پر دیکھنے کے بجائے سب کے سامنے ٹیلی ویژن پر دکھائیں گے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو ٹیبلٹ اپنے پاس رکھ کر اسے ہال میں بٹھا کر دکھائیں گے، نہ کہ اسے اپنے کمرے میں دروازہ بند کرکے چھوڑ دیں کہ جو اس کے من میں آئے کرتا پھرے۔
- ہم ایک سکرین ٹائم مقرر کریں گے، اس عمر کے بچوں کے لیے ماہرین ایک گھنٹہ تجویز کرتے ہیں۔
- ہم اس کے وقت کو مختلف مشغولیات میں لگائیں گے، اور کھیلوں میں حصہ لینا سب سے اہم شغل اور فائدہ مند ہے، خاص کر اس وقت جب ہم کسی عادت کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
- ہم اس کے وقت کو قرآن کی خوبصورت سورتیں حفظ کرانے میں لگائیں گے، اسے علم کی مجلسوں میں لے جانے اور فائدہ مند چیزیں پڑھائیں گے۔
- چونکہ بری صحبت کے اپنے مضر اثرات ہیں، اس لیے ہم اس کے دوستوں، تعلقات اور اثر ڈالنے والے لوگوں کا جائزہ لیں گے۔
ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اپنے بچوں کی حفاظت اور نگرانی کے لیے اللہ سے دست بدعا ہوں۔ ہمیں ان کی رہنمائی کرنے میں مدد کرنی چاہئے، کیونکہ ہم صرف اسباب ہیں، اصلی ہادی تو اللہ ہے۔
مترجم: سجاد الحق