جب محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا ہے تو انسان کے پاس کلمات گم ہو جاتے ہیں اور الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمین پر چلنے والے سب سے افضل انسان ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی زمین میں سب سے برگزیدہ مقام نصیب ہوا۔ دنیا آپ کے پاس آئی لیکن انہوں نے اس سے بے رُخی اختیار کی۔ انہیں اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو بادشاہ بنیں یا اللہ کے عاجز بندے اور رسول، تو انہوں نے اپنے رب کے آگے عاجزی اختیار کی اور بندہ و رسول بننے کو ترجیح دی۔ ربّ العالمین نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی: “بے شک آپ بلند اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں”۔ اور اللہ کے کلام کے بعد کسی اور بات کی گنجائش نہیں رہتی۔
بڑے لوگ اپنی عظمت کی جھلک بچپن ہی سے دکھا دیتے ہیں، پھر سوچئے کہ اگر وہ عظیم ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں تو کیا مقام ہوگا! وہ سردارِ انبیاء ہیں، افضل الرّسل ہیں اور خاتم النّبیین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے انہیں اپنی خاص رحمت اور حفاظت میں رکھا تاکہ انہیں نبوت کے عظیم منصب کے لیے تیار کیا جا سکے۔
میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد:
عربوں کی زندگی زمانۂ جاہلیت میں محض فریب تھی، حقیقت سے محروم تھی۔ انسانی زندگی کا کوئی مقام صرف انہی کو دیا جاتا تھا جو اشراف اور بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اور جو ان سے باہر ہوتا، اُس کے حصے میں ذلت و خواری لکھ دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس باطل تصور کو بدل کر عدل و مساوات کا نظام قائم فرمایا۔
پھر ایک بابرکت صبح، پیر کے دن، 12 ربیع الاول عام الفیل (جو عیسوی کلینڈر کے مطابق 20 یا 22 اپریل 571ء کے قریب ہے) میں، مکۃ المکرمہ میں وہ ہستی پیدا ہوئی جو تمام مخلوقات میں سب سے کریم اور عظیم ہیں، اور وہ بھی بنی ہاشم جیسے معزز و محترم گھرانے میں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام نسلوں اور خاندانوں میں سے چن کر سرداری اور فضیلت عطا فرمائی۔
ہر سال اس تاریخ پر، مسلمان دلوں میں خوشی، سرور اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہوکر میلاد النبی مناتے ہیں۔ وہ ہادیٔ کامل، آخری نبی اور سب سے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جن کے بارے میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے مروی حدیث میں آیا ہے:
“اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا، پھر مجھے اس میں سب سے بہترین حصے سے بنایا، پھر قبیلوں میں سے بہترین قبیلہ مجھے عطا کیا، پھر ان قبیلوں کے گھرانوں میں سے سب سے باعزت گھرانہ مجھے عطا کیا۔ پس میں سب سے بہترین فرد بھی ہوں اور سب سے بہترین گھرانے کا فرد بھی۔”
مفید دروس
میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے گراں قدر سبق عطا کرتی ہے، جن میں سے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیلی کا راستہ فطری، سماجی، نفسیاتی اور عقلی سنتوں کے ذریعے اختیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے تمام حواس، صلاحیتوں اور امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے دعوتِ حق دی اور لوگوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راتوں کو جاگ کر گزارا، صحراؤں اور وادیوں کو عبور کیا، ہر مجمع، ہر موقع، ہر رشتہ اور ہر تعلق کو اللہ کے دین کی دعوت کے لیے استعمال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا ادراک کیا اور ان کے مطابق پیش آئے، معاشرتی روایات کو سمجھا اور ان پر حکمت سے عمل کیا، عقلوں کو مخاطب کیا، انہیں دلائل دیے، ان کی رہنمائی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب کا درست اندازہ لگایا، رکاوٹوں کو پہچانا، پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آئے اور کچھ بھی حالات یا اتفاقات پر نہیں چھوڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حقیقی تبدیلی کی بنیاد مردانِ حق پر ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افراد کو تیار کرنے اور اپنی دعوت کے گرد جمع کرنے کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عمل میں قدم رکھا، کیونکہ یہ وہی میدان ہے جہاں دعوتیں سرخرو ہوتی ہیں، امتیں کامیاب ہوتی ہیں، عظيم عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں اور اعلیٰ اقدار و بلند مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رجال تیار کیے جو سب سے پاکیزہ نفس والے، سب سے زیادہ پرہیزگار دلوں کے حامل، سب سے صاف سیرت والے، سب سے زیادہ امانتدار ہاتھوں والے، سب سے باعزت کردار رکھنے والے، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے، سب سے نرم دل، سب سے پاک زبان اور سب سے سچے تھے۔ یوں وہ اپنی دعوت کا آئینہ دار بن گئے، قرآن کے چلتے پھرتے نمونے، رسالت کے بے مثال ماڈل اور لوگوں کے لیے بہترین عملی نمونہ بن گئے۔
یہی سبق ہے کہ اگر امت اپنی رسالت کو عملی طور پر زندہ کرے تو وہ اپنی خیر و برکت واپس حاصل کرسکتی ہے، اور عزت و وقار کے ساتھ قوموں میں بلند ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی رسالت سے روگردانی کرے اور اس سے منہ موڑے تو اللہ کی سنت یہی ہے کہ ایسے لوگوں پر ان کے طاغوت، خواہشیں اور دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد: دعوت اور تربیت
میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو ہمیں یوں ہی گزرنے نہیں دینا چاہیے بلکہ اسے دعوت اور تربیت کے مواقع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے کچھ طریقے یہ ہیں:
- سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور اسے تھامنے کا خاص اہتمام کیا جائے، خصوصاً ایسے زمانے میں جب اپنے گھروں اور اپنی سرزمین میں بھی اسلام اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ سعادت مند وہی ہیں جو “اجنبی” لوگوں میں شامل ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے: ” اسلام اجنبیت سے شروع ہوا تھا اور دوبارہ اجنبی ہو جائے گا، تو خوشخبری ہے ان اجنبیوں کے لیے”۔
- سنت کی اشاعت: اپنے رہنے والے ماحول، خاندان، رشتہ داروں، کام کی جگہ، اور دوستوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پھیلایا جائے۔ اس کا آغاز اپنے اہلِ خانہ سے ہو، کیونکہ آپ ان کے بارے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا”۔
- علمی یا مالی تعاون: اگر استطاعت ہو تو مادی تعاون کیا جائے اور اگر علم دیا گیا ہے تو علمی میدان میں حصہ لیا جائے، تاکہ معاشرے کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان “میری طرف سے آگے پہنچاؤ خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو پر عمل ہوگا۔ یہ ایک کتاب شائع کرنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی کوئی علمی یا دعوتی کام کرنے، یا کسی رفاہی و معاشرتی سرگرمی (محلے، گاؤں یا شہر کی انجمن، ادارے یا کلب کے ذریعے) میں شرکت کرنے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔
- رسول اکرم ﷺ کے اوصاف کی یاد دہانی: خصوصاً بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کی جائیں تاکہ ان کے دلوں میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم راسخ ہو۔ اگر وہ کوئی اچھا کام کریں تو بتایا جائے کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ان کو بچپن کے واقعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری اٹھانے اور کامیاب تجارتی زندگی کے قصے بھی سنائے جائیں۔
بچوں کی تربیت کے حوالے سے:
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر بچوں کی تربیت کے چند عملی طریقے یہ ہو سکتے ہیں:
- اگر بچے 6 سے 12 سال کی عمر میں ہیں تو کھیل کے ذریعے سیکھنا (learning by playing) ایک مؤثر طریقہ ہے۔
- بڑے بچوں کے لیے اہلِ خانہ مل کر کوئی دینی دستاویزی فلم دیکھ سکتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو اجاگر کیے گئے ہوں۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات کو کہانی کے انداز میں سنانا۔
- بچوں کے ساتھ ایک علمی و ثقافتی مقابلہ رکھنا جس میں ان کی تحقیق اور تلاش کی حوصلہ افزائی ہو، اور صحیح جواب دینے والوں کو چھوٹے چھوٹے مگر حوصلہ افزا انعامات دینا۔
- گھر میں خوشی کے مظاہر قائم کرنا، جیسے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر سجاوٹ کرنا، اہلِ خاندان کو جمع کرنا، مبارکباد دینا اور بچوں کو تحائف دینا تاکہ اس ہستی کی عظمت ان کے دلوں میں اور زیادہ بڑھ جائے جس کی یاد ہم مناتے ہیں۔
اخوان اور میلادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد:
اخوان المسلمون نے ادب کے مختلف شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، خواہ وہ نثر ہو یا شاعری۔ انہوں نے اپنی تصانیف اور کلام کے ذریعے ادبی زندگی کو مالا مال کیا، اسلامی فکر کی خدمت کی اور معاشرے کو اصلاح کی طرف مختلف جہتوں میں رہنمائی دی۔
انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بے شمار قصائد پیش کیے، جو ان کے بڑے شاعروں اور ارکان نے قلم بند کیے۔ ان میں شیخ احمد حسن الباقوری، عبدالحکیم عابدین، عبدالرحمن الساعاتی، اور شیخ طنطاوی جوہری سمیت کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد پر حسن خطاب الزینی کی نظم:
فضاؤں نے زیب و زینت اوڑھ لی، دل کھل اٹھا،
بارانِ رحمت برسی تو پھولوں میں تازگی چھا گئی۔
جہاں کے لالہ وگل آرزو اور عزت سے سنور گئے،
اور جب فجر نمودار ہوئی تو مسرت کے آفتاب جاگ اٹھے۔
اے بھائی! عُروۂ وُثقٰی کو تھام لو،
کہ یہی ہے محبت و توحید، اور یہی اصل راز ہے۔
اہلِ کمال کے نقشِ قدم پر چلو اور کبھی نہ تھکو،
خواہ دوسرے دور بھی کیوں نہ جا بیٹھے ہوں۔
اور آخر میں احمدِ مختار ﷺ پر درود بھیجو،
اسی طرح اہلِ بیت اور اصحاب پر بھی، جب تک چاند روشنی بکھیرتا رہے۔
امام حسن البنّا شہیدؒ نے کسی بھی اسلامی موقع کو بغیر قلم اٹھائے نہیں جانے دیا۔ وہ ہر موقع کے گرد اپنی تحریر سے ایسا حلقہ بناتے جس میں وہ اس کے تربیتی پہلو اور حقیقی مضمون کو اجاگر کرتے۔ انہی مواقع میں نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد بھی شامل ہے۔ انہوں نے صرف یاد دہانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلمنکو ایک جامع تربیتی سبق کی صورت میں پیش کیا۔
چنانچہ اپنے ایک مضمون بعنوان ” ذکری مولد الرسول الأعظم” میں وہ کہتے ہیں:
“آج مسلمانوں کو شدید ضرورت ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کریں، اس رسول کو جس نے اسلام کی عمارت قائم کرنے اور اس کا شاندار قلعہ کھڑا کرنے کی راہ میں تکلیفیں برداشت کیں، مصیبتوں پر صبر کیا تاکہ مسلمانوں کے لیے وہ عملی نمونہ بن جائے جس کی وہ پیروی کریں، اپنی فکر و نظر کی کمزوریوں کو دور کریں اور اپنے اوپر مسلط استعمار کی بنیادوں کو ہلادیں۔
اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ایک بچے کے یاد کریں، اُس یتیم کو جو غربت میں پیدا ہوئے، جس نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کی اور ماں باپ کی شفقت کا حصہ بھی نہ پایا، تو اس یاد سے وہ اپنے دلوں میں چھائی اداسی اور دلوں کو کمزور کرنے والے اندھیروں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ اس لیے کہ وہ جان لیں کہ ایک یتیم بچہ، جس کے پاس دولت نہ تھی، صرف صبر اور ایمان کی دولت ہی سے کس طرح اپنی امت کو اٹھا سکتا ہے اور اسے پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے؟ تاکہ وہ بھی دنیا کے ہر گوشے میں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی ہدایت کا نور لے کر جائے، اور لوگوں کو راہِ ہدایت اور فلاح کی طرف رہنمائی فراہم کرے۔”
مترجم: سجاد الحق