ہم مغرب زدہ معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی اسلامی شناخت کو کیسے محفوظ رکھیں؟
ہم ترکی میں بحیثیت مہاجرین رہتے ہیں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ابھی پرائمری اسکول میں ہیں۔ ہم نے جن وجوہات کی بنا پر انہیں اس سال ترکی کے نظام تعلیم میں داخلہ دلوایا ہے، ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح ہمارے بچے یہاں کے معاشرے کے ساتھ گھل مل جائیں گے اور دوسری وجہ ہے یہ کہ یہاں کی زبان بھی سیکھ جائیں گے۔ لیکن اس دوران ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں اسلامی شناخت کا عدم تحفظ پہلی بڑی مشکل ہے، خاص کر جو پرائمری اسکولوں میں ماحول ہے وہ بالکل سیکولر قسم کا ہے، جیسے جمعہ کے دن بھی اسکول کھلا رہتا ہے، لیکن اسکول میں نماز پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا ہے۔ سوائے امام خطیب اسکولوں میں، مگر یہ سہولت ابتدائی مراحل میں بچوں کے لیے موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو اس عمر سے ترکی زبان کا مضمون پڑھایا جاتا ہے جس عمر میں ان پر عربی زبان کا مضمون ابھی لازمی نہیں ہوا ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اس امر میں توازن کس طرح قائم کریں ؟ ہم نے بچوں کو نجی عربی سکولوں میں پڑھانے کی کوشش کی لیکن اس میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان میں ایک چیز پیسوں کا مسئلہ بھی ہے! ہمیں کوئی تدبیر بتا دیں تاکہ ہم معاشرے میں ضم ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شناخت کا تحفظ بھی یقینی بناسکیں؟
"جو شخص اللہ کے راستے میں ہجرت کرے گا وہ زمین کو اپنے لیے کشادہ پائے گا اور اسے آسانیاں میسر آئیں گی ۔۔۔” [النساء: 100]۔
یہ وعدہ اللہ کی طرف سے ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی خاطر ہجرت کریں گے۔ اس شخص کے لیے جس پر زمین تنگ ہوچکی ہے۔ اس نے اس وجہ سے ہجرت کی کیونکہ اسے اپنی قوم نے ستایا۔ وہ ضرور اللہ کی زمین کو اپنے لیے کشادہ پائے گا، اس کے رزق میں وسعت پیدا کی جائے گی۔ اس کے عمل میں، ظرف میں اور صالح صحبت میں وسعت پیدا ہوگی، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہارے لیے عنقریب وسعت عطا پیدا کی جائے گی۔
مکرمی سائلہ:
اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ آپ نے اس ملک میں قدم رکھا ہے جہاں خیرِ کثیر موجود ہے، اگرچہ آپ کو اس بات کا خوف ہے کہ آپ کے چھوٹے بچے سیکولر ماحول میں پڑھتے ہیں۔ یہاں آپ کو اتنی زیادہ آزادی حاصل ہے کہ آپ مطمئن ہوکر بلا روک ٹوک کہیں بھی جاسکتے ہیں، کوئی خطرہ نہیں ہے، اور اپنے دین ودنیا کے معاملات بلا مداخلت انجام دے سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو وہ امن حاصل ہے جو اس وقت دنیا کے اکثر ملکوں میں ناپید ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں آپ جیسے ہزاروں مہاجرین رہتے ہیں جن کے مقاصد اور اہداف ایک جیسے ہیں، وہ آپ کے لیے ایسا سازگار ماحول فراہم کرسکتے ہیں جس میں رہ کر آپ اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرسکتے ہیں۔ اللہ کرے اس معاشرے کو آپ اور آپ جیسے دوسرے لوگوں کی وجہ سے نفع پہنچے اور اللہ نے چاہا تو آپ لوگ اپنے فہم وفراست اور دین کی صحیح پیروی کرکے دوسروں کے لیے اچھی مثال بن جاؤ گے۔
بلاشبہ معاشرے کا حصہ بننا بہت ضروری اقدام ہے اور آپ نے بہت اچھا کیا جو اپنے بچوں کو ترکی کے اسکولوں میں داخل کروایا۔ جہاں تک آپ کے اس خوف کا تعلق ہے کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں ترکی زبان سے متعارف کروائے گئے ہیں تو آپ مطمئن رہیں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس وقت سارے عرب ممالک میں یہی صورتحال ہے کہ بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں دوسری زبان سے متعارف کروایا جاتا ہے اور فرض کریں اگر آپ اپنے ملک میں بھی رہ رہے ہوتے تو اس کے باوجود آپ اس سے زیادہ کچھ مختلف نہیں کرسکتے تھے۔
یقیناً یہ ایک فطری بات ہے کہ بچے کو دوسری زبان سکھانے سے پہلے اپنی مادری زبان سکھانا زیادہ بہتر عمل ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہمارے اسکولوں میں ہورہا ہے اس کی برائیاں اپنی جگہ، لیکن یہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ ہمارے بچوں کے اندر بہترین صلاحیتیں موجود ہیں جس کی بنا پر اکثر بچے بیک وقت ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ لیتے ہیں۔ جب تک آپ کے پاس محدود اختیارات ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور بڑے عزائم اہلِ عزیمت کی ہمت کے مطابق ہی آتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیے بغیر ہی یا اچانک سے آپ کے لیے کوئی راستہ نکالا ہے تو یقیناً اس میں خیر ہی ہوگی، ان شاءاللہ۔ بہتر ہے آپ بچوں کی تعلیم کے اس عظیم سفر پر خاموشی کے ساتھ گامزن رہیں۔ پس ہمیں چاہیے کہ بچوں کو اسکول میں جو ہوم ورک دیا جائے یا جو بھی فرائض ان پر عائد کیے جاتے ہیں اس کے بارے میں ان پر سختی نہ کریں کیونکہ یہ بچوں کے کنٹرول میں نہیں ہے لہٰذا ہم ان کے تحصیل علم کو فطری انداز میں چلنے دیں۔ پھر ان کے پاس سیکھنے کے لیے ابھی کافی وقت ہے، آپ پر صرف انہیں تعلیم کی راہ پر ڈالنے کی ذمہ داری ہے ۔
آپ پر بحیثیت والدین دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ پہلے اپنی مادری زبان کے ارکان کو مستحکم کریں اور گھر پر صرف مادری زبان میں بات چیت ہونی چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے مضبوط بنانے کے لیے ٹیوشن کلاسسز لیں۔ زبان کو پختہ بنانے کا بہترین ذریعہ قرآن ہے، کسی مولوی یا معلمہ سے بالمشافہ یا انٹرنیٹ کی وساطت سے سیکھنا شروع کریں، یہ مادری زبان کو تقویت بخشنے کا ذریعہ ہے۔
بازار اور اسکولوں میں ترک معاشرے سے میل جول رکھ کر مہاجرین کی زبان مضبوط ہوگی، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ترک قوم کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اپنی قومی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بات نہیں کرتی ہے، البتہ وہ ان لوگوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں جو ان کی زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی بھی بول سکتے ہیں، کیونکہ انہیں یہ سب زبانیں نہیں آتی ہیں۔ اس بنا پر مہاجرین کی یہ خوبی ترک معاشرے میں قوت اور انفرادیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یعنی آپ کے پاس بولنے اور گفتگو کرنے کا ایک اور ہتھیار موجود ہے۔
کسی معاشرے کا حصہ بننے اور اسے قبول کرنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنی اصل سے ہٹ جائیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معاشرے کے اندر بہت زیادہ پر کشش چیزیں ہوتی ہیں لیکن اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس کے شانہ بشانہ اس نے پرورش کرنے والی جگہیں بھی بہت تعداد میں رکھی ہوئی ہیں، جیسے مسجدیں، عرب سوسائٹی اور خاندان کی سرپرستی، یہ سب چیزیں ہماری بنیادیں مضبوط کرنے کا کام انجام دیتی ہیں اور جب بچے معاشرے میں گھل مل جاتے ہیں تو وہ اس سے ایسی چیزیں بھی اخذ کرتے ہیں جو ہماری سمجھ اور عقیدے سے پرے ہوتی ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کو بڑی احتیاط سے سنبھالنا چاہیے اور ایک ہی وقت پر بچوں کے لیے زیادہ پریشانیاں پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
ہمیں اس مرحلے پر ان کی ترجیحات کا خیال کرنا چاہیے اور ترجیحات کا تعین کرنا ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اصلی محرک ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ہم ان کے ظاہری رکھ رکھاؤ میں نقص اور نمازوں میں سستی دیکھیں گے تو ہمیں چاہیے کہ پہلے ان کی نماز کے مسئلے سے نمٹ لیں اس طرح باقی چیزیں اسی کے مطابق ٹھیک ہوتی جائیں گے۔
ایک اور اہم بات جو بڑے ہونے کی حیثیت سے ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جن عبادات اور ظاہری اعمال کا اہتمام کرتے ہیں وہ ہم ایک تجربہ کار، ہدایت یافتہ اور بہت سے معلومات رکھنے والے شخص کی حیثیت سے اختیار کرتے ہیں۔ جس نے مختلف مراحل سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی ہدایت پالی ہے۔ پس اگر ہم بچوں کو تجربہ کرنے، غلطیاں دہرانے اور ان غلطیوں سے سیکھنے کے حق سے محروم کریں گے اور یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ایک ہی جست لگا کر اس حالت کو پہنچ جائیں جس حالت تک ہم اتنے مراحل گذارنے کے بعد اب جاکر پہنچ چکے ہیں تو ہم غلطی پر ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ہدایت ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور نبی کریم صلعم کا یہ قول بھی فراموش کرتے ہیں کہ "مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مٹائے گا اور ان لوگوں کو لائے گا جو گناہ بھی کریں گے اور اللہ سے معافی بھی مانگیں گے اور اللہ انہیں معاف کرے گا” پس اپنے بچوں سے نرمی برتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم غلطیاں کرتے ہیں اور معافی طلب کرتے ہیں اور پھر انہی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔
جہاں تک معاشرے میں ضم ہونے کے ساتھ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کا تعلق ہے اس کے لیے ہمیں بچوں کو اچھی صحبت اور اچھے ماحول میں زیادہ سے زیادہ رکھنا چاہیے اور اجنبی ماحول سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہفتہ واری فیملی میٹنگز کا اہتمام کریں جن کے اندر بچوں کی مشکلات کو ابھارا جائے، یہاں تک کہ ہم اور ہمارے بچوں میں قربت پیدا ہو اور آپ سمجھنے والے والدین میں شامل ہوجائیں جو اس مرحلے کی حقیقت جانتے ہوں اور زور زبردستی نہیں کرتے ہوں۔
ایک بہت اچھا قدم یہ ہوگا کہ آپ اس ہفتہ واری فیملی میٹنگ میں ایک چیز کا اہتمام کریں یعنی آپ اس میں شیخ فہد الکندری کا پروگرام دیکھیں جس میں وہ اکثر مغرب کے نو مسلموں کی میزبانی کرتا ہے۔ ان ملکوں میں خواہشات نفسانی کی کھلی چھوٹ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت سے نوازا ہے، بعض دفعہ لوگ اس پر عمل پیرا ہونے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس اکثر کفریہ حالات اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے والے ماحول میں مومنین صالحین پیدا ہوتے ہیں، ورنہ فرعون کے کفریہ محل میں موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کی پرورش کیونکر ہوتی ؟
آپ علیہ السلام کی ماں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر آپ کو چھوڑ دیا: "ہم نے موسیٰ علیہ وسلم کی ماں کو وحی بھیجی کہ اسے دودھ پلا اور جب تمہیں اس کے بارے میں خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کوئی غم یا ملال نہ کرنا، ہم اسے واپس تمہارے پاس لے آئیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔” [القصص: 7]۔ اب اگر آپ بچے کے بارے میں ڈرتے ہیں تو اسے دریا میں ڈال دیں جس طرح موسیٰ کی ماں نے اپنے بچے کے ساتھ کیا، اور یہ مت سوچیں اور نہ ڈریں کہ نہ جانے اس کے ساتھ کیا ہوگا بلکہ وہ زیادہ قوی بن کر واپس آئے گا اس کے فہم اور عزم میں مزید طاقت پیدا ہوگی۔
آئیے اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر چھوڑ کر تجربات سے گزرنے دیتے ہیں۔ انہیں ہر قسم کی رعایت دیں اور تحفظ سے پُر ماحول میں شریک کریں اور ہمیشہ اپنی دعاؤں میں شامل کریں "اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کے ذریعے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقی لوگوں کی رہبری و رہنمائی عطا کر۔ [فرقان: 74]
مترجم: سجاد الحق