دنیاوی زندگی کی زینت و آرائش نے ہماری ملت کے افراد کے اذہان کو جکڑ لیا ہے، انہیں پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات میں مبتلا کر کے بڑے مقاصد اور اعلیٰ اخلاق سے غافل کر دیا ہے۔ ان میں جذبہ جہاد، سنجیدگی اور کھرا پن ختم کر دیا ہے اور انہیں پست ہمتی اور عیش و عشرت کی زندگی کا غلام بنایا ہے۔
جب یہ مرض معلمین اور مبلغین پر بھی اثرانداز ہوتا ہے تو یہ لاعلاج ہو جاتا ہے، کیونکہ امت اپنے علماء اورممبلغین کی بدعنوانی اور بگاڑ کی وجہ سے ہی فساد کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لذائذ اور عیش کوشی میں مبتلا ہونے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، سیاہ کملی کے بندے، تباہ ہو گئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔“(بخاری)۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے اپنے پیروؤں کو دنیا کی مباح چیزوں کو ترک کرنے اور ان سے کنارہ کش ہونے کا حکم نہیں دیا ہے۔
آرام و آسائش کا مفہوم
عیش و عشرت کے موضوع پر کلام کرنے والے حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ متاع زندگی سے لطف اندوز ہونے کے حوالے سے ان کے الگ الگ تصورات ہیں۔ اور بعض اس میں افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ مشہور لغت قاموس المحیط میں لکھا ہے کہ عیش وعشرت سے مراد "نعمتیں اور صاف و پاک کھانا اور کسی صاحب کی اچھی اور خوبصورت چیز”۔ علامہ راغب الاصفہانی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد: ’’نعمت کی ایسی وسعت اور فراوانی ہے کہ بندہ اسی میں غرق ہو کر رہ جائے۔ اور مترف وہ ہے کہ جسے ناز و نعم کی فراوانی نے حق سے غافل کردیا، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا”.
اصطلاحی طور پر اس کا مفہوم لذات، آسائش کی فراوانی، اور زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا، شہوات اور خواہشات میں اس حد تک غرق ہو جانا کہ بندہ خدا کی اطاعت سے لاپرواہ ہو جائے، اور مقصد زندگی سے غافل ہو جائے۔
پس مترفین وہ ہیں جو نعمتوں اور آسائش کی فراوانی سے مغلوب ہو کر خواہشات اور لذتوں میں مشغول ہو گئے اور حق کو بھول گئے اور نعمتوں کے زیادہ سے زیادہ حصول کیلئے دوڑ دھوپ کرتے رہے اور انہیں میں اضافے کے خواہشمند رہے، یہاں تک کہ وہ سرکشی اور نعمتوں پر ناشکری کے انتہائی مقام پر پہنچ گئے (1)۔
بعض لوگ دولت اور عیش و عشرت کو ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں، جو کہ ایک غلط تصور ہے، کیونکہ دولت اور نعمت میں اتار چڑھاؤ عیش و عشرت یا عیش کوشی کے تصور سے مختلف ہے۔ اگرچہ شریعت نے ایک مسلمان کے لیے دولت مند ہونے کی اجازت دی ہے، لیکن یہ اسے حاصل کرنے کے لیے فریم ورک اور ذرائع کا تعین بھی کیا ہے، اسے خرچ کرنے کے دروازے متعین کیےہیں، اور اچھے آدمی کے ہاتھ میں اچھی رقم کی تعریف بھی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا – "اے عمرو، نیک آدمی کے لیے اچھا پیسہ کیا ہی اچھی چیز ہے” (بخاری)۔
جہاں تک عیش و عشرت یا عیش کوشی کا تعلق ہے، تو وہ بغیر محنت اور مشقت کے مال حاصل کرنا اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں پر خرچ کرنا یا جائز چیزوں میں اس طرح اسراف کرنا ہے کہ انسان اپنی خواہشات اور مال کا غلام بن کر اسے مختلف جائز اور حرام ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اسے حق کے ساتھ لڑنے کیلئے بھی استعمال کرتا ہے (2)۔
اسلام اور عیش و عشرت
اسلام نے مال و دولت کے حصول کے خلاف جنگ نہیں کی ہے اور اپنے حامیوں کو حلال مال کے حصول سے منع نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے عیش کوشی سے نفرت کی ہے اور اس کا مقابلہ کیا ہے، یہاں تک کہ اس کے بارے میں مذکور تمام قرآنی آیات اس کی مذمت اور تنبیہ کی صورت میں آئی ہیں۔ جیسا کہ بعض احادیث نبوی میں عیش و عشرت سے منع کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ دلی لگاؤ رکھنے پر بھی متنبہ کیا ہے۔
اسلام نے حرمت کے وہ حدود متعین کیے ہیں جن سے بندہ مال سے تعامل کرتے وقت تجاوز کرتا ہے، جن میں سے بعض یہ ہیں: ذخیرہ اندوزی کرنا، اسے ناجائز خواہشات کی تکمیل میں صرف کرنا، سودی کاروبار کرنا، اسے انفرادی و اجتماعی بگاڑ کے کاموں میں صرف کرنا، اسراف و تبذیر کرنا۔ اسے غیر ضروری اور لایعنی چیزوں میں خرچ کرنا، وغیرہ (3)۔
قرآن پاک میں ان لوگوں کا ذکر بار بار ملتا ہے کہ جنہیں عیش و عشرت کے سبب ہلاک کیا گیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں‘‘(الاسراء: 16)، ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے” اس کے علاوہ ایک اور جگہ رب ذوالجلال فرماتے ہیں:”یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس انجام کو پہنچنے سے پہلے خوشحال تھے”(الواقعة:45)
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں اس بڑے فتنے کے بارے میں باخبر کیا ہے۔ چنانچہ عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخدا مجھے تمہاری فاقہ کشی کا اندیشہ نہیں ہے، بلکہ مجھے تمہاری طرف سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا تمہارے سامنے اسی طرح سے پھیلادی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں کیلئے پھیلائی گئی تھی تاکہ تم بھی اس میں اسی طرح بھاگ دوڑ کرنے لگو گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے کی اور پھر وہ تمہیں بھی اسی طرح ہلاک کرے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر گئی۔” (بخاری)۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ پیو، صدقہ کرو، اور وہ لباس پہنو جس میں اسراف اور تکبر کی ملاوٹ نہ ہو۔ (ابن ماجہ)۔
عیش وعشرت کے حوالے سے اسلام جس طرح ہمیں متنبہ کرتا ہے اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اسلام ہمیں دنیا کی نعمتوں اور خوشیوں سے لطف اندوز ہونے سے منع کرتا ہے، بلکہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنے اور ان نعمتوں میں مگن ہوکر آخرت کو فراموش نہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ ابوالاحوض الجشمی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی وساطت سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں دیکھا کہ ان کے کپڑے گرد آلود تھے تو فوراً کہا: کیا تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: کس قسم کا مال؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے مختلف قسم کے مال سے نوازا ہے مثلاً بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ، انہوں نے کہا: اگر اللہ نے تمہیں مال کی نعمت سے نوازا ہے تو وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی نعمتوں، اور اس کے فضل و کرم کا آپ پر کیا اثر ہے۔” (احمد و الطبرانی) (4)
عیش و آرام کے اسباب: مظاہر و آثار
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کرکے عبادت اور اور زمین کی اصلاح و آبادکاری اس کا مشن قرار دیا۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں (الذاریات56-57)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی روزی کا خیال رکھا ہے اور انہیں زمین کو نیکی سے آباد کرنے کی تلقین کی ہے۔
تاہم، کچھ لوگ زندگی میں اپنے مشن اور مقصد کو بھول گئے اور نعمت کی فراوانی نے انہیں اپنے رب کا شکر ادا کرنے سے اندھا کر دیا، بلکہ بعض لوگوں نے تو خدا کے قوانین کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ دنیوی عیش وعشرت میں مگن ہونے کے چند اسباب یہ ہیں:
• انسان دنیاوی زندگی میں اپنے مشن کی حقیقت کو بھول جائے اور اپنے رب کی نعمتوں کا انکار کرے۔
• انسان اپنی زندگی کے مختلف معاملات میں توازن قائم نہ رکھے، جس میں وہ دین حنیف (اسلام) کے قوانین سے اپنی روح کی تربیت کی قیمت پر اپنی جسمانی جبلتوں اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
• لمبی عمر جینے کی امید، تاخیر، موت کو بھول جانا یا موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے سے انکار، اور جزا و سزا سے انکار۔
• غیروں کی تقلید کی طرف میلان اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہونا اور اس ماحول کو اپنے اوپر طاری کرنا۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:’’بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔‘‘ (الزخرف: 22)۔
• ناقص پرورش کے ساتھ ساتھ پیسے کی کثرت اور نعمتوں کی فراوانی، کیونکہ اکثر والدین اپنے بچوں پر کسی ذمہ داری کا بوجھ ڈالے بغیر ان کے لیے تمام وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
• خواہشات، راحت و آرام اور لطف اندوزی کی طرف نفس کا میلان۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: "لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے‘‘ (آل عمران: 14) (5)۔
علماء، مصلحین اور داعیان اسلام، امت کی نجات کا وسیلہ ہیں، ان کے حوالے سے خطرہ اس بات کا ہے کہ کہیں یہ طبقہ اس آفت کی گرفت میں نہ آئے اور ان پر حملہ آور ہو۔ کیونکہ یہی طبقہ اس امت کا جوہر، اس کی امیدوں کا محور اور اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اس طبقہ خاص میں عیش و عشرت کے نمایاں مظاہر یہ ہیں:
• آخرت میں اعلیٰ درجات کے حصول کے سلسلے میں غفلت برتنا: جیسا کہ ابن القیم کہتے ہیں: "شیخ اسلام نے مجھ سے کسی مباح چیز کے بارے میں کہا کہ یہ اونچے مراتب کے منافی چیز ہے۔ اس کا چھوڑ دینا اگر چہ نجات کیلئے شرط نہیں ہے لیکن جو عارف باللہ ہوتے ہیں وہ بہت سی مباح چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کہ حلال و حرام کے درمیان بہت باریک چیزیں ہوتی ہیں یہ اعلیٰ درجات سے مطابقت نہیں رکھتا، اور اگر اسے ترک کرنا نجات کی شرط نہیں ہے، تو پھر اہل علم بہت سی مباح چیزوں کو حلال اور حرام کے درمیان رکاوٹ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔
• زندگی کی رعنائیوں سے لگاؤ جب کہ اصل ہدف اور مقصد کو فراموش کرنا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان خوشیوں کی طرف متوجہ ہوکر ان سے لطف اندوز ہوتا ہے تو وہ ان چیزوں سے وابستہ ہو جاتا ہے جس سے اسے لگاؤ ہوتا ہے اور اس کے اعصاب پر سوار ہوکر اس کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں، جیسے ماکولات و مشروبات کی فراوانی۔ جو اسے روزے یا عبادت سے روکتے ہیں، اور نیند کی افزائش سے بھی، جو اسے نماز، خاص طور پر قیام اللیل سے روکتی ہے، اور زندگی میں فراوانی کی دوسری صورتیں مثلاً سواری (گاڑی)، عالی شان گھر اور اعلیٰ قسم کا لباس۔
أمور اور معاملات کو انجام دینے میں سستی کرنا یا انہیں اس طریقے سے مکمل کرنے سے گریز کرنا جس طرح انہیں کیا جانا چاہیے۔ مالدار شخص اکثر ایسے معاملات میں تاخیر کرتا ہے جنہیں وہ مشکل سمجھتا ہے یا اس سے اسے تھکاوٹ اور تکلیف ہوتی ہے۔
سستی اور کاہلی جو انسان کو اس کا کام کرنے سے روکتی ہے، اس میں غفلت، حق کا دفاع اور صاحب اقتدار (سلطان) کا خوف۔
• زندگی سے محبت کرنا، موت سے نفرت کرنا، مباح چیزوں میں مگن ہونا، معصیت اور گناہ کا ارتکاب کرنا، حرام کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام جاننا اور معروف (بھلائی) کا انکار کرنا۔
• ایمان ، عاجزی اور تقویٰ کی کمی کے ساتھ ساتھ دل کی سختی اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا خوف۔
• تربیت کی کمی، لوگوں کو احسن طریقے سے ان کے رب کی طرف بلانے سے بے اعتنائی برتنا، یا حق کے ساتھ کھڑا ہونے سے کترانا، دعوتی اور تربیتی کاموں میں تسلسل نہ رکھ پانا، عبادات میں تساہل اور ہمیشہ رخصت کی جانب مائل ہونا۔
• ظاہری چیزوں (لباس وغیرہ) کی جانب زیادہ توجہ دینا، یعنی مختلف اعضاء کی نرمی اور ملائمت کا بہت زیادہ خیال رکھنا، اور عیش و عشرت اور خود کی دیکھ بھال کے اسباب میں اضافہ کرنا، خوشبو کا زیادہ استعمال کرنا، بالوں کو سنوارنا۔ مہنگے ترین پرفیوم، اور ان کے حصول کے لیے بھاری رقم خرچ کرنا (6)۔
• عیش پرست داعی دوسروں کے مقابلے میں مدعونین کیلئے کم مفید ہوتا ہے، کیونکہ اس کا نعمتوں میں غرق ہونا اور اس کے اسباب کو حاصل کرنا اسے شرعی علوم کے حصول میں رکاوٹ بنتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس جو محدود معلومات ہوتی ہیں وہ انہیں پر قناعت کرتا ہے، اور انہی کو وہ بار بار دہراتا ہے۔ کیونکہ اس گہرائی کے ساتھ ان علوم میں غوطہ زنی نہیں کی ہوتی ہے (7)۔
دنیوی عیش وعشرت کے حصول کی لعنت جب کسی مشن میں گھس جائے تو اسے تباہ کر دیتی ہے اور اسے مکمل طور پر فنا کر دیتی ہے، یہ داعیان حق اور قوموں کے زوال کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ یہ داعیان حق کو دعوت دین کی لوگوں کے بیچ خوب نشر و اشاعت سے باز رکھتی ہے، بلکہ اس کی وجہ سے ماہرین تعلیم تعلیمی و تربیتی کام پرعمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جب دیکھتے ہیں یہ ایک مشکل، وقت طلب، محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی صبر آزما بھی ہے، لہذا وہ اس سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
دنیا کی رغبت و عیش وعشرت کا علاج
اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا مرض پیدا نہیں کیا جس کا علاج انسان کی بھلائی اور راستی کے لیے نازل نہ کیا ہو، لہٰذا عیش و عشرت اور دنیا میں مشغولیت کا علاج یہ ہے:
اللہ تعالیٰ کی ذات پر سچا یقین اور انسان کی تخلیق کا اصلی مقصد اور اس کی صحیح معرفت اور پھر انسانی زندگی میں اس کی اہمیت کا ادراک ، تاکہ وہ کبھی بھی اس سے غافل نہ ہونے پائے کہ اس سے اللہ کو کیا مطلوب ہے۔
انبیاء و مرسلین کے سردار جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا شعوری اور مستقل مطالعہ کرنے کے علاوہ سلف صالحین کی سوانح عمری اور حالات کو پڑھ کر ان پیشواؤں کی رہنمائی کی طرف لوٹنا۔
ماضی اور حال کے عیش پرستوں کی حالتوں پر غور کرنا اور ان سے عبرت لینا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کو لاپرواہی، اطاعت کی کمی، دل کی سختی، حد سے زیادہ دنیا کی فکر اور پراگندہ خیالات وغیرہ کی وجہ سے اکثر بیشتر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اپنے نفس کی مسلسل تربیت کرنا کہ قدرت ہونے کے باوجود ہر خواہش کا پورا ہونا مقصود نہیں ہے۔
دنیوی زندگی کی لذتوں کو عارضی سمجھنا کہ یہ بندے کو اس کے رب اور آخرت کے قریب لانے کیلئے ہیں اور اس کی یاد تازہ کرتا ہے کہ جو اللہ نے مومنین کے لیے دنیا اور آخرت میں تیار کیا ہے۔
اپنے نفس اور اہل و عیال پر خرچ کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو ذمے داری اٹھانے کی تربیت دینا اور مقصدِ زندگی سے آشنا کرنا کہ ان کے وجود کی حقیقت کیا ہے۔
مجاہدۂ نفسی کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات میں کثرت کرنا، خاص طور پر صدقہ کرنا، غریبوں کے لیے حساس ہونا، ان کی حالت زار کو محسوس کرنا اور ان کی کفالت کرنا، نیکی کے کاموں میں مختلف طریقوں سے خرچ کرنا، اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا۔
بغیر مشقت کے رزق کے حصول کی کوشش بندے کو اطاعت کے کاموں میں غفلت کی طرف لے جاتی ہے۔
ایک شخص کو دینی و دنیوی طور فائدے میں وقت گزارنے کی تاکید اور بے روزگاری اور خالی پن کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی شخص رزق کی تلاش سے باز نہ آئے اور دعا کرتے رہیے: اے اللہ! مجھے رزق عطا کر، کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سونے یا چاندی کی بارش نہیں کرتا۔
مومنین کو بالعموم اور داعیان حق کو بالخصوص خود احتسابی سے کام لینا چاہیے۔ چاہے رزق کی فراوانی ہو یا کمی ہو اور انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں یہ سب ان کی آزمائش کیلئے تو نہیں ہے!
یہ جانتے ہوئے کہ داعی کے لیے عیش و عشرت مناسب نہیں ہے، اور یہ کہ جو چیز ان کے لیے مناسب ہے وہ یہ کہ خدا کے دین کی سربلندی کیلئے کام کریں، اس کی طرف دعوت دینے اور اس کا دفاع کرنے کو ترجیح دیں۔ کیونکہ جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ پائیدار ہے اور جو کوئی خدا کے لئے کچھ چھوڑتا ہے خدا اسے اس کا بہترین متبادل عطا کرے گا۔
دولت کے نشے میں مست لوگوں کو زمانے کے حوادث اور تغیرات دن و رات پر غور کرنا چاہیے اور انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر وہ آج دولت مند ہیں تو کل وہ فقیر بھی ہو سکتے ہیں۔
مربیین کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر تسلط لوگوں کو پرہیزگاری، سخاوت اور دین کی محبت کا عادی بنائیں، اور انہیں اس میں پہل کرنے اور مسابقت کرنے کے لیے مائل کریں، اور ان پر کچھ ذمہ داریاں ڈالیں، اور انہیں غور و فکر کرنے اور مصالح اور نقصانات کو پہچاننے اور ان کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ترغیب دیں۔ مسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور ان کی مدد کے لیے کام کریں (8)۔
لہٰذا، اسلام کی نظر میں عیش و عشرت معاشرتی زوال کا ایک سب سے بڑا سبب ہے، خاص طور پر جب معاشرے میں عیش پرستوں کی کثرت ہو جائے اور یہی لوگ مناصب پر بیٹھ جائیں۔ قرآن کریم نے اسی اجتماعی سنت کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ: ” جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں”۔ (الإسراء:16)
حوالہ جات:
- الترف: موسوعة التفسير الموضوعي للقرآن الكريم.
- محمد علي نشأت: رائد علم الاقتصاد ابن خلدون، وكالة الصحافة العربية (ناشرون) الجيزة، مصر، 2019م.
- حسان عبد الله: نظرية الترف في القرآن وعلاقتها بهلاك الأمم وفنائها (1-2).
- سعد بن عبد الله البريك: الترف، 30 يوليو 2008م.
- بشاير عبد الله العويمر: الترف وأثره في حياة الداعية، 2016.
- محمد موسى الشريف: الترف وأثره في الدعاة والصالحين، طـ1، دار الأندلس الخضراء ضمن سلسلة “معالم على طريق الصحوة” برقم (31)، 1421هـ.
- شريف عبد العزيز: أمراض على طريق الدعوة (30): الترف، 4 أكتوبر 2022م.
- فيصل البعداني: الترف .. وخطره على الدعوة والدعاة.