عرب دنیا کے مختلف مقامات سے ہمیں وقتاََ فوقتاََ ای میل کے ذریعہ خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں، جو عرب معاشرے میں اخلاقی نظام کے زوال اور اس کی مسلسل پستی اور مذہب اور اسلامی اخلاقیات کی ان اقدار سے دوری کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے جن پر ماضی قریب میں موافقت پائی جاتی تھی۔
زیادہ تر لوگ پوچھتے ہیں: ہم اس اخلاقی بحران سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ کیا واقعی یہ بات ممکن ہے کہ ہمارے معاشروں کو پھر سے دین اسلام کی مستند اقدار کی طرف لوٹایا جا سکے!؟ اگر یہ ممکن ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
جواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اپنے دین پر صبر کرنے والا دہکتے ہوئے انگاروں کو اپنی ہتھیلیوں پر آگ رکھنے والے کے مانند ہوگا”، میرے خیال میں ہم اخلاقی لاقانونیت اور گراوٹ کی کثرت اور شدت کے اسی دور میں جی رہے ہیں۔
ہم میں سے کون ہے جو مختلف ثقافتوں اور معاشروں کے انتہائی کھلے پن کے اثرات کو محسوس نہیں کرتا ہے؟، جی ہاں، اخلاقی انحطاط ہے، خدا کی شریعت کے تئیں دلیری ہے، اورباطل کا ڈنکا بج رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف خیر اورنیکی کے بڑے بڑے راستے بھی کھل چکے ہیں۔
اللہ نے کورونا وبا کو بھلائی پھیلانے کے لئے ایک اچھا موقع بنایا، کیونکہ ایک طویل عرصے تک آمنے سامنے انسانی میل جول بند تھا، بہت سے اچھے، فاضل، باکمال لوگوں نے یوٹیوب پر ویڈیوز اور زوم پروگرام کے ذریعے اپنے علم کو منتقل کرنے کا انتخاب کیا، لہٰذا اس وبا کا ایک بہت اچھا پہلو یہ بھی تھا، اور وبا کے خوف سے بہت سارے لوگ اللہ سے قریب ہوئے۔ مشائخ اور علماء کی ویڈیوز کے پھیلاؤ کے ساتھ معاملہ کچھ حد تک بڑھ گیا اور حق کی آوازیں باطل کی آوازوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں۔
یہ وقت کی بات ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے: “کہ یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا، جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے، اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا، جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے (دنیا و آخرت کی) ذلت قبول کر لی جائے، عزت وہ ہوگی جسے اللہ اسلام کو عزت عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کرے گا” [احمد، طبرانی اور الحاکم]۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اپنے دین اور شریعت کو غالب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ ذمہ داری انفرادی طور، ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہم اداروں کے کردار کا انتظار نہ کریں، چونکہ خاندان معاشرے کی ایک اکائی ہے، لہٰذا ہر ایک کو اپنی اصلاح اور اپنی بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کام شروع کرنا چاہئے، اور جب فرد کی حالت میں اصلاح ہوتی ہے تو معاشرے کی اصلاح خود بخود وجود پزیرہوتی ہے۔
بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنے بچوں سے ان کی نمازوں اور حالات کے بارے میں نہیں پوچھتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچے آوارہ گردی ميں پڑجاتے ہیں اور جانوروں کی طرح کھاتے پیتے ہیں! پھر ہم معاشرے کے زوال کی شکایت کرتے ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کو یہ درج ذیل کام کرنے چاہئے:
۱۔ وہ اپنے آپ کی اصلاح کرے اور دوسروں کو بھی اصلاح کی دعوت دے اور سب سے پہلے اپنے گھر والوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرے، اور اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ سب نمازوں کوپہلی فرصت میں قائم کرنے کی کوشش کیا کریں۔
۲۔ ضروری ہے کہ لڑکوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جلدی لے جایا جائے اور ایک ایسے مبلغ ومقررکا انتخاب کیا جائے جس کے الفاظ دلوں کو پگھلائیں۔ بچوں کو نماز جمعہ اور جماعت کی طرف راغب کرنے کے لئے انہیں اچھے ماحول سے جوڑنا چاہئے، جیسے نماز کی ادائیگی کے بعد مٹھائی کھانا، خاص طور پر اگر وہ چھوٹے ہوں۔
۳۔ قرآن مجید کی تلاوت، اس کے حفظ اور اس پرغور وفکر کے لیے مناسب وقت کا تقرر ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہفتے میں کم از کم ایک بار اپنے اہل خانہ سے مل کر سورہ کہف کی تلاوت کا اہتمام ہو، اور ان کے لئے اچھے ماحول میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنا آسان بنائیں۔
۴۔ گھر میں سنتوں کا اہتمام کریں تاکہ بچے والدین کی تقلید کر سکیں، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
۵۔ گھر کے اندر و باہر کھلے عام تلاوت کا اہتمام کریں جس طرح گناہگارکھلے عام گناہوں کاارتکاب کرتے ہیں ۔ اور جب نیک لوگ نیک اعمال کا اہتمام کرتے ہیں ،اسے بدی کے مقابلے میں بھلائی پھلتی پھولتی ہے۔
۶۔ ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بھلائی قیامت تک رہے گی، چاہے مفاسد اور برائیاں کتنی ہی کیوں نہ پھیل جائیں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بھلائی کو ہاتھوں ہاتھ لینے اور اس کا استقبال کرنے کے منتظر ہوتےہیں، لہٰذا ان کے لئے بھلائی کی کلید بنیں۔
اخلاقیات کی خرابی اور گراوٹ نیکی کا حکم نہ دینے اور برائی سے منع نہ کرنے سے یہ کہہ کر مزید بڑھ گئی ہے کہ ہر شخص کو اپنے بارے میں آزادی ہے (چاہے جو کچھ بھی وہ کرلے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث ہمیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں تاخیر کرنے والوں کا حال بیان کرتی ہے:
“قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یقیناً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دو یا عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے گا پھر تم اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی”۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہےاور یہ حدیث حسن ہے۔
دوسروں کو یہ بتانے میں شرم محسوس نہ کریں کہ آپ کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہے ہیں کیونکہ یہ آپ کے اخلاقی اقدار کے نظام کے خلاف ہے، کچھ لوگ آپ کے انتخاب کا مذاق اڑا سکتے ہیں، لیکن یقینی طور پر ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ کی رائے کے بارے میں سوچیں گے، لہٰذا اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بخل سے کام نہ لیں۔
حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دو کیونکہ انداز تخاطب اہم ہے اور طریقہ کار ناپسندیدہ نہیں ہونا چاہئے۔
دوسروں کے ساتھ مفید چیزیں شیئر کریں، بھلائی عام ہے اور پھیلتی ہے، تو خدا آپ کے ذریعہ ایک شخص کو ہدایت دے تو یہ تمہارے لئے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
ذرا تصور کریں، پیارے سوال پوچھنے والے، اگر بہت سے لوگوں کا یہ حال ہوتا، تو کیا صورتحال ٹھیک نہیں ہوتی؟!
اس نسل میں بااثر رول ماڈلز کا فقدان ہے، اور جب بھی اسے اپنے ارد گرد کچھ ملتا ہے، اس کی طرف لپکتے ہیں، تو اچھے لوگوں کے بارے میں ان کو بتائیں، ان کا اثر و رسوخ اتنا ہی وسیع ہوگا۔
اپنے بچوں کو ان معاشروں سے روشناس کروائیں جو آپ جیسی اقدار کو اپناتے ہیں اور اس میں بڑی کوشش کریں تاکہ ہمارے بچوں کے ضمیر میں چیزیں متوازن ہوں، اور وہ دوسروں کو بھی انہیں اقدار پر زندگی گزارتے ہوئے دیکھیں، اور انہیں ان کا اعلان کرنے میں شرم محسوس نہ ہو۔
اے اللہ ہمیں اپنی طرف خوبصورت واپسی عطا فرما اور ہمارے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی طرف عزت کے ساتھ لے چل اور ہماری اصلاح فرما اور ہمیں اصلاح کرنے کا ذریعہ بنا۔ آمین۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین