تربیت اہلِ خانہ میں مشاورت کی اہمیت: خاندان کو استحکام بخشنے والا اصول
شوریٰ محض کسی ریاست کے سیاسی نظام کا نام نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کے مجموعی کردار کی عکاسی کرنے والا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اور ان کے معاملات آپس میں مشاورت سے طے کیے جاتے ہیں” (شوری:38) خاندان تو مسلم معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی رکن کی حیثیت رکھتا ہے، پھر اس کی نشوونما میں شوریٰ کے اصول کو اپنانا استحکام حاصل کرنے اور افراد خانہ کو جوڑنے کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے۔ جن بچوں کی پرورش ایسے گھر میں ہو جہاں اس طرح کے اصولوں پر عملدرآمد ہوتا ہو، مثال کے طور پر، دوسروں کی رائے کا احترام کیا جاتا ہو اور ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو، تو یہ چیز بہت حد تک ان کی عقلی نشوونما اور منظم سوچ و بچار کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوگی۔
قرآن وسنت کے نقطہِ نظر سے اہلِ خانہ کی تربیت میں مشاورت کی اہمیت:1
قرآن مجید نے اہلِ خانہ کی تربیت میں مشاورت کے اصول کو اپنانے اور اسے زندگی کے معاملات میں فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس میں بچے کو دودھ پلانے اور والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کا دودھ چھڑانے تک کے معاملے میں مشاورت کرنے کا حکم بھی شامل ہے۔ اس میں اس بات کی تنبیہ مضمر ہے کہ ازدواجی تعلق قائم کرنے اور اس تعلق کو دوام بخشنے کے لیے مشاورت کرنا بدرجہ اولی لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اس صورت میں بچے کے باپ کو انہیں معروف طریقے سے کھانا کپڑا دینا ہوگا مگر کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بار نہ ڈالنا چاہیے نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسے بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں” ( البقرہ: 233)۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں کہا ہے: (لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں) ۔ یعنی “اگر بچے کے والدین دو سال پورے ہونے سے پہلے ہی دودھ چھڑانے میں مصلحت دیکھتے ہیں اور دونوں مشورے پر متفق ہیں تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے”۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس امر میں فریقین میں سے کسی ایک کو دوسرے سے الگ حیثیت میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس بات کی اجازت ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق پر بلا مشورہ اپنی رائے تھوپ دے۔ اور اس امر میں بچے کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لیے زوجین میں مشاورت ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر ایک رحمت ہے جس میں اس نے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں والدین پر مشاورت کو ایک شرعی اور اخلاقی فریضہ قرار دیا ہے اور اس آیت کو ایک رہنما اصول کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس کی بنیاد پر خاندانی امور میں مشاورت کی اہمیت کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے جس قول سے مسلم خاندان کی زندگی میں اصول مشاورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے: “اور اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی تو دونوں کے خاندان سے ایک ایک حکم مقرر کرلو۔ پھر اگر وہ دونوں اصلاح کی نیت رکھتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں صلح کرادے گا یقیناً اللہ علیم و خبیر ہے” (نساء: 35)۔ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کبھی زوجین مشکل حالات میں پڑجائیں تو ان کے خاندان والوں کو آپسی مشاورت سے مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ دونوں خاندانوں میں امن وراحت بحال ہو۔
رسول اللہ صلعم نے اپنے اہلِ خانہ کی تربیت میں مشاورت ہی کے طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے۔ “میں نے رسول اللہؐ سے بڑھ کر کسی شخص کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے” (احمد)۔
سنت مطہرہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ باپ بیٹیوں کی شادی کے بارے میں اپنی بیوی سے مشورہ کرے، کیونکہ بیٹیاں باپ سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہیں۔ چنانچہ مسند احمد کی ایک روایت میں آیا ہے۔ “عورتوں کو ان کی بیٹیوں کے معاملے میں شریکِ امر کرو”۔ مطلب یہ ہے کہ جن لڑکیوں کی شادی کی بات چل رہی ہو وہ اپنی ماؤں سے مشورہ کرتی ہیں ان کی رائے لیتی ہیں یہ کہ انہیں نکاح کا پیغام بھیجنے والا پسند ہے یا نہیں وہ راضی ہیں کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گھر اور بچوں کے معاملات میں بیوی سے مشورہ کرنا اوروں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ شوہر کی زندگی کا حصہ ہے اور گھر کی فلاح وبہبود کے لیے دوسرے پہیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ وہ زیادہ وقت گھر میں گزارتی ہے اس لیے وہ معاملات کو زیادہ بہتر جانتی ہے اور اس پر بچوں کے وہ معاملات بھی عیاں ہیں جو باپ پر مخفی ہیں۔ اس لیے کسی مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو گھر والوں پر مسلط کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اپنی بیوی سے مشورہ کرے اور اگر وہ معقول رائے دے تو اسے قبول کرے۔
تربیت اہلِ خانہ اور مشاورت: چند مثالیں
ہمارے پاس بہت ساری ایسی مثالیں ہیں جن سے تربیت اہلِ خانہ کے مسئلے میں اظہارِ رائے اور مشورے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، مثلاً جس طرح نبی اکرم صلعم نے اپنی زوجہ محترمہ أم سلمہ کی اصابت رائے اورعقل دیکھ کر ان سے مسلمانوں کے ایک عمومی مسئلے کے بارے میں مشورہ کیا۔ یہ واقعہ حدیبیہ کے دن پیش آیا ہے، جب صحابہ نے احرام کھولنے کے حکم کی تعمیل نہیں کی اور وہ قربانی کرنے اور سر منڈوانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس وقت نبی اکرم صلعم نے اپنی زوجہ محترمہ أم سلمہ کو سارا ماجرا بیان کیا۔ أم سلمہ نے کہا “اے اللہ کے رسول انہیں ملامت نا کریں ان پر بہت سخت آزمائش پڑی ہوئی ہے کیونکہ آپ صلعم نے معاہدہ صلح قبول کرکے اور انہیں بغیر فتحیاب لوٹا کے جو تکلیف جھیلی ہے اس وجہ سے وہ بہت غمگین ہیں۔ پھر فرمایا اے اللہ کے نبی، آپ صلعم باہر نکلیں اور کسی سے بات کیے بغیر اپنا دنبہ ذبح کریں اور حجام کو بلوا کر سر مبارک منڈوائے”۔ آپ صلعم باہر آئے اور یہی سب کیا اس طرح سارے صحابہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کا سر منڈوانے لگے۔
صحابہ کرام بھی گھر کے افراد سے مشاورت میں اسی منہج نبویؐ پر عمل پیرا رہے۔ یہاں ہم ابو طلحہ کی مثال پیش کرتے ہیں، جو اپنی زوجہ سے مشورہ طلب کرتے ہیں جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر دعوت دینا چاہتے تھے۔ اس نے اپنی زوجہ سے کہا: “میں نے آج حضور صلعم کی آواز سنی تو مجھے لگا کہ اس کی آواز بھوک کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہے کیا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے”؟ اس نے کہا، ہاں، تب اس نے روٹی کے کچھ ٹکڑے نکالے پھر اپنے برقعہ کا کپڑا لیا اور تھوڑا سا کپڑا روٹی پر باندھ دیا اور پھر مجھے رسول اللہ صلعم کے پاس بھیجا۔ جب میں رسول اللہ صلعم کے پاس گیا میں نے اسے مسجد میں پایا اور وہاں اور بھی لوگ تھے میں ان کے سامنے کھڑا ہوگیا رسول اللہ صلعم نے مجھ سے کہا۔ “کیا تمہیں ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، تب رسول اللہ صلعم نے لوگوں سے کہا اٹھو جو وہاں موجود تھے وہ سب چل پڑے اور میں بھی ان کے آگے آگے چل پڑا یہاں تک کہ میں ابو طلحہ کے ہاں پہنچ گیا اور اسے اطلاع دی۔ ابو طلحہ نے بیوی سے کہا “اے ام سلیم رسول اللہ صلعم اور باقی لوگ بھی آچکے ہیں لیکن ہمارے پاس ان کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے”۔ اس نے کہا “اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں” پس ابو طلحہ چلا گیا اور رسول اللہ صلعم سے جاملا۔ رسول اللہ صلعم ابو طلحہ کے ساتھ آئے اور اندر داخل ہوگئے۔ اب رسول اللہ صلعم نے کہا “اے ام سلیم لے آؤ جو بھی تمہارے پاس ہے” تو اس نے وہ روٹیاں پیش کیں پھر رسول اللہ صلعم نے حکم دیا کہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے جائیں پھر ام سلیم نے برتن سے گھی نکال کر اسے سوپ کے جیسا بنادیا۔ پھر اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس پر کچھ پڑھا اور کہا “دس مہمانوں کو اندر بلاؤ” انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا پھر نکل گئے پھر رسول اللہ نے بولا اور دس کو بلاؤ، انہیں بھی کھانے کا حکم دیا انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور نکل گئے اس طرح دس دس کرکے سب نے پیٹ بھر کر کھا لیا وہ ستر یا اسی لوگ تھے” (بخاری)۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلعم نے انصار کے ایک شخص سے کہا کہ اپنی بیٹی کو جلیبیب کے نکاح میں دے دو۔ انصاری نے کہا میں اس کی ماں سے مشورہ کرتا ہوں، انہوں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔ راوی نے کہا وہ شخص اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس بات کا ذکر کیا تو بیوی نے کہا نہیں، اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا کیا رسول اللہ صلعم کو جلیبیب کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا ہم نے تو فلاں اور فلاں شخص کا رشتہ بھی ٹھکرادیا۔ لیکن ان کی بیٹی یہ سب باتیں پردے کے پیچھے سن رہی تھی۔ کہتے ہیں، وہ آدمی رسول اللہ صلعم کو خبر سنانے کے لیے نکلنے لگے تھے کہ بیٹی نے روک لیا اور کہا کیا تم رسول اللہ صلعم کو انکار کرو گے؟ اگر آپ صلعم اس بات پر خوش ہیں تو میرا نکاح اسی سے کرادو۔ راوی کہتا ہےکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ لڑکی ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہو۔ اس کے والدین نے کہا، بیٹی تم نے ٹھیک کہا ہے۔ پھر اس کے والد رسول اللہ صلعم کے پاس چلا گیا اور کہا اگر آپ صلعم اسی میں راضی ہیں تو ہم بھی اس پر خوش ہیں۔ رسول اللہ صلعم نے کہا میں راضی ہوں۔ پس اس کا نکاح کرایا گیا۔ اس کے بعد اہلِ مدینہ جنگ کے لیے نکل گئے اور جلیبیب بھی اپنی سواری پر سوار ہوکر چلا گیا لوگوں نے دیکھا وہ قتل ہوکر ایک جگہ پڑا ہے اس کے آس پاس مشرکین کی لاشیں ہیں جنہیں اس نے قتل کیا ہے انس کہتا ہے اس کے بعد میں نے اس عورت کو دیکھا ہے کہ وہ مدینہ میں سب سے زیادہ نکاح کے لیے پسند کی جانے والی عورت ہے۔
جب ام المومنین میمونہ بنت حارث نے ایک لونڈی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر آزاد کیا، حضور صلعم نے تاکید کی کہ مشورہ کرنا بہتر تھا۔ میمونہ بنت حارث سے مروی ہے کہ اس نے ایک لونڈی کو آپ صلعم کی اجازت کے بغیر آزاد کردیا، پھر جب وہ دن آیا جس دن اس کی باری ہوتی ہے اس نے کہا: ” یا رسول اللہ کیا آپ کو خبر ہے کہ میں نے لونڈی کو آزاد کردیا؟ آپ صلعم نے فرمایا کیا تم سچ بول رہی ہو؟ اس نے کہا ہاں، آپ صلعم نے فرمایا اچھا ہوتا اگر تم نے اسے اپنے ماں کے رشتہ داروں کو دیا ہوتا اور اجر بھی زیادہ ملتا” (بخاری)۔
اور أم سلمہ ہمیشہ خیر کے کاموں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرتی تھی۔ عبداللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے کہتا ہے میں نے ابی بن کعب سے سنا ہے اور وہ ان تین اشخاص میں سے ہے جن کی توبہ قبول کی گئی ہے کہ وہ کبھی کسی جنگ میں پیچھے نہیں رہا ہے جو رسول اللہ نے لڑی ہیں، سوائے دو جنگوں کے، ایک جنگ عسرہ اور دوسری جنگ بدرہے۔ وہ کہتا ہے میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے نبی اکرم صلعم کے پاس دوپہر کے وقت گیا اور وہ اکثر جب سفر سے واپس آتے تو دوپہر کو واپس آتے سب سے پہلے وہ مسجد جاکر دو رکعت نفل پڑھتے تھے۔ حضور صلعم نے مجھ سے اور میرے دونوں ساتھیوں سے بات چیت کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن ہمارے سوا کسی بھی پیچھے رہ جانے والے سے بات چیت کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ اس طرح لوگوں نے ہم سے بات کرنا بند کردیا۔ سو میں اسی حالت میں پڑا رہا یہاں تک کہ میرے لیے جینا دشوار ہوگیا۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس بات کی تھی کہ اگر میں اس حالت میں مرگیا تو رسول اللہ صلعم میری نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے اور اگر خدا نخواستہ رسول اللہ صلعم اس دوران دنیا سے رخصت ہوئے تو میں یہاں اکیلا شخص رہ جاؤں گا، کوئی مجھ سے بات تک نہیں کرے گا، نہ کوئی سلام کرے گا، نہ جنازہ پڑھے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وساطت سے ہماری توبہ قبول فرمائی اس وقت رات کا تیسرا پہر باقی تھا اور رسول اللہ صلعم أم سلمہ کے پاس تھے۔
اور کہتا ہے کہ ام سلمہ میرے لیے محسنہ تھی اسے میرے معاملے کی فکر تھی۔ رسول اللہ صلعم نے کہا اے ام سلمہ کعب کی توبہ قبول ہوئی ہے تو اس نے کہا، کیا میں اسے خبر بھیجوں اور اسے خوش خبری سنادوں؟ اس نے کہا ایسے تو لوگ تمہیں رات بھر تنگ کریںگے اور سونے کا موقع نہیں دیں گے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلعم نے فجر کی نماز ادا کی اور اللہ کے ہاں ہمارے توبہ کی قبولیت کا اعلان کروایا اور جب آپ صلعم خوش ہوتے تھے آپ صلعم کا چہرہ کھل أٹھتا تھا ایسا لگتا کہ جیسے بدر کامل ہو اور ہم تین وہ لوگ تھے جو عذر پیش کرنے میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے توبہ نازل کی اسی وقت ان باقی پیچھے رہ جانے والوں کا معاملہ پیش کیا جنہوں نے رسول اللہ کو جھوٹ بولا تھا اور بے بنیاد عذر پیش کیے تھے انہیں اتنی سخت وعید سنائی گئی جتنی کسی اور کو نہیں سنائی گئی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “جب آپ ان لوگوں کی طرف واپس جاؤ گے وہ عذر پیش کریں گے آپ صلعم کہہ دیں ہمارے سامنے عذر پیش نہ کرو ہم تم لوگوں پر کبھی یقین نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ نے ہم پر تم لوگوں کی حقیقت کھول دی ہے اور عنقریب اللہ اور اس کے رسول تمہارا عمل دیکھیں گے” (بخاری)۔
جب ابوبکر صدیق داخل ہوا اور رسول اللہ صلعم سے اجازت مانگی اس نے دیکھا کہ لوگ دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی ہے اس نے کہا کہ ابوبکر کو اجازت مل گئی اور وہ داخل ہوا۔ پھرعمر آیا اس نے بھی اجازت مانگ لی اسے اجازت دی گئی اس نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا ہوا ہے اور آپ کے آس پاس ازواج مطہرات ہیں جو چپ چاپ بیٹھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ عمر رضہ نے کہا میں ایک ایسی بات کروں گا کہ نبی صلعم کو ہنسی آئے گی تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول اگر آپ دیکھتے بنت خارجہ نے مجھے نان ونفقہ کا مطالبہ کیا اور میں نے اٹھ کر اس کی گردن پر ضرب لگائی اس پر رسول اللہ صلعم کو ہنسی آگئی اور فرمایا یہ جو عورتیں میرے پاس بیٹھی ہوئی تم لوگ دیکھ رہے ہو یہ بھی مجھ سے نان ونفقہ مانگ رہی ہیں۔ پس ابوبکر عائشہ کی طرف گیا اور اس کی گردن پر ہاتھ لگایا اسی طرح عمر نے اٹھ کر حفصہ کی گردن پر ہاتھ لگایا۔ دونوں نے مل کر ان سے پوچھا کیا تم سب رسول اللہ صلعم سے اس چیز کا مطالبہ کرتی ہو جو اس کے پاس نہیں ہے؟ انہوں نے جواباً کہا ہم اللہ کی قسم اٹھا کر کہتی ہیں ہم نے رسول اللہ صلعم سے کبھی اس چیز کا مطالبہ نہیں کیا ہے جو اس کے پاس نا ہو۔ پھر رسول اللہ صلعم نے انہیں ایک مہینہ یا انتیس دن کے لیے الگ چھوڑ دیا پھر اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ” اے نبی صلعم اپنی ازواج مطہرات سے کہہ دو” یہاں تک” تم میں سے جو نیک عورتیں ہیں ان کے لیے اجر عظیم رکھا گیا ہے” (احزاب: 28-29)۔
کہتے ہیں، پہلے آپ صلعم نے عائشہ سے ابتدا کی اور فرمایا اے عائشہ میں تمہارے سامنے ایک بات رکھنا چاہتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم اس امر میں جلد بازی سے کام نہ لو یہاں تک کہ پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرو اس نے عرض کیا وہ کیا بات ہے یا رسول اللہ صلعم ؟ پس آپ صلعم نے اس پر یہ آیت تلاوت کی اس نے کہا، اے اللہ کے رسول کیا میں آپ کے متعلق والدین سے مشورہ کروں؟ نہیں، بلکہ میں اللہ اور رسول کو چنتی ہوں اور آخرت کے گھر کو ترجیح دیتی ہوں اور میں سوال کرتی ہوں کہ آپ صلعم اپنی دوسری بیویوں سے میرے جواب کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔ آپ صلعم نے فرمایا مجھے ان میں سے کوئی بھی عورت سوال نہیں کرتی ہے جب تک میں اسے خود نہ بتادوں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت گیر بنا کر یا جبر کرنے کے لیے مبعوث نہیں کیا ہے بلکہ اس نے مجھے سکھانے اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے” (مسلم)۔
خاندانی مشاورت کے فائدے
خاندان کو اصول مشاورت اور اظہارِ رائے کے احترام کی بنیاد پر تربیت کرنے میں بہت بڑا فائدہ ہے:
- خاندان محض افراد کے مجموعہ کی حیثیت سے نکل کر ایک ادارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جہاں ہر کوئی اپنی رائے، تجربہ اور نقطہِ نظر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
- خاندانی مشاورت کی مجلسوں سے بیوی اور بچوں کے شعور میں خاندان کے لیے اپنائیت بڑھتی ہے خاص کر جب انہیں یہ بات محسوس کروائی جائے کہ یہ مجلسیں امانت ہیں یعنی ان مجالس کی باتیں گھر سے باہر نہیں آنی چاہیے کیونکہ ان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ گھر کی پوشیدہ اور خاص باتیں ہوتی ہیں اور ان باتوں کو باہر پھیلانا امانت میں خیانت ہے۔
- جس گھر میں شوریٰ کے اصولوں پر عملدرآمد ہوتا ہے وہ گھر حق سے زیادہ قریب اور غلطیوں سے بہت دور ہوتا ہے۔
- مشاورت سے ایک باہمی اجتماعی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے کام کی تفویض، تقسیمِ عمل اور اپنی ذمہ داری اٹھانے کے عمل میں آسانی ہوتی ہے اور ہر کوئی برضا ورغبت قبول کرتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کو یکساں مواقع میسر ہیں۔
- اس میں جو گفتگو، بحث و مباحثہ اور ایک دوسرے کی راۓ کا احترام ہوتا ہے اس سے مستقبل کی منصوبہ بندی اور تیاری کی عملی شروعات ہوتی ہے۔ اس گھر سے وہ افراد نکلیں گے جو ڈائیلاگ کا طریقہ کار اپنانے کے قابل ہوں گے۔ زندگی کا سامنا کامل اعتماد سے کریں گے وہ منصوبہ بندی کرنا اور مشکلات کا مقابلہ کرنا سیکھ جائیں گے۔ بلکہ وہ اس تجربے کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کریں گے۔ ایسی مجلسیں جو مشاورت کے اصول پر قائم کی جائیں گی دوریاں مٹانے، لڑائیاں، غیبت اور تہمتیں ختم کرنے میں مدد کریں گی، بلکہ اس کے بجائے اتفاق واتحاد اور ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوگی۔ کیونکہ وہ ذاتی واجتماعی محاسبہ کی فضا ہموار بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
- مشاورت اللہ اور رسول اللہ صلعم کے طریقہ کار میں ایک بہت ہی لازمی عنصر ہے۔
- مشورہ سے گفتگو اور دوسروں کو قبول کرنے کی قدرت پیدا ہوتی ہے: بہت سارے بچے اور عورتیں جب کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ وہ یہ سب کچھ اپنے گھروں میں نہیں کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو دوسروں کو قبول نہیں کرپاتے کیونکہ وہ گھر میں یہ چیز بھی نہیں سیکھتے ہیں یہ بات بچوں کی پرورش کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔
- صلاحیت کو نکھارنے والا: ویسے تو سوچنے کا عمل مشکل ہے لیکن جب انسان سوال کرتا ہے اور ڈور کے سروں کو پکڑ کر مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی کبھی ایسا حل نکل آتا ہے جو بہت ہی منفرد ہوتا ہے۔
اس طرح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاندانی زندگی کو قیام کے ابتدائی دنوں سے مشاورت اور آپسی رضامندی کی اساس پر قائم کرنا چاہیے۔ اسی لیے شریعت والد کو اپنی بیٹی پر شادی کے معاملے میں رائے پوچھے بغیر جبر کرنے سے منع کرتی ہے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کے بعد ضروری ہے کہ زوجین اور بچوں کے درمیان افہام وتفہیم اور مشاورت کا عمل جاری رہے۔ کتنی ہی بیویاں اور بچے ایسے ہیں جن کی رائے گھر والوں کے لیے خیر وبرکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔
مآخذ وحوالہ جات:
- ڈاکٹر یوسف قرضاوی: اسلامی زندگی میں عورت کا مقام، ص85، امام خطابی کی کتاب سنتوں کے نقوش سے منقول
- انجنیئر عبد اللطیف برجاوی: خاندان میں شورائی کلچر کی اشاعت
- ابن کثیر: تفسیر ابن کثیر، 1/635
- صالحی: نیک بندوں کی سیرت میں رشد وہدایت کے راستے، ص 52
- ہیثمی: منفرد احادیث کا مجموعہ اور ان کی افادیت 9/368