حالیہ چند عشروں میں عرب اور دیگر اسلامی معاشروں میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکیوں (اور لڑکوں) کی شادیاں بہت تاخیر سے ہو رہی ہیں۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھا ہے اور کئی خاندانوں میں نظر آ رہا ہے جس سے کئی نوجوانوں کی امیدیں اور خواہشات بری طرح کچلی جا رہی ہیں۔
عدم ازدواج (شادی نہ کرنے) کا یہ رجحان سنجیدہ سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو کہ بادی النظر میں اسلامی روایات سے دوری کا نتیجہ ہے جو بیٹیوں کی شادی کی ترغیب دیتی ہیں اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر اور سست روی سے خبردار کرتی ہیں۔ چوں کہ اس تاخیر کرنے میں کئی فتنے اور فساد ظاہر ہوتے ہیں، لہٰذا اسلامی روایات ان سے بھی آگاہ اور خبردار کرتی ہیں۔
یہ رجحان پہلے عرب اور دیگر اسلامی معاشروں میں نہیں تھا مگر مغربی سوسائٹی میں کافی پہلے سے اسے قبولیت اور فروغ حاصل رہا ہے۔ خصوصاً ان ممالک میں جنہیں آج بچوں اور نوجوانوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی آبادی میں بچوں کا تناسب کم ہے، بلکہ شادیاں اور ولادتیں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اب ورک فورس کے لیے دیگر ممالک سے تارکین وطن کو اپنے ملک میں بسانا پڑ رہا ہے۔
تصورِ تجرد (شادی نہ کرنے کا تصور):
تجرد (کنوار پن/عنوسہ) کے کئی سماجی اسباب ہیں جن کی بناء پر اسے مختلف معانی دیے جا سکتے ہیں۔ رہائشی علاقہ، طرزِ زندگی (لائف اسٹائل)، کلچر، رسوم و روایات وغیرہ۔
اگرچہ کہ یہ لفظ مرد و عورت دونوں کے لیے صحیح ہے لیکن عرب میں عورتوں ہی کے لیے مستعمل ہے۔
اصطلاحاً “العنوسه” سے مراد وہ عورت ہے جس کی عمر شادی کے لیے موزوں عمر سے تجاوز کر گئی ہو۔ عنوسہ کا مصدر عنَس ہے اور جمع عُنُس، عُنَّس اور عوانس ہیں۔
عَنَسَتِ البِنت کا مطلب وہ لڑکی ہے جس کی شادی کی عمر نکل گئی۔ اور عَنَسَ الرجل کا مطلب وہ مرد ہے جس کی عمر گزر چکی ہو اور اس نے شادی نہ کی ہو۔
یہ لفظ “عنَّستِ البنتُ البِكْرُ” میں نون کی تشدید کے ساتھ بھی آتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی کنوار پن کی حالت طویل ہو گئی اور وہ شادی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی نہ کرنے کی وجہ سے اپنے والدین کے گھر میں ہی رہی۔ “عنَّس الفتاةَ” کا مطلب ہے کہ اسے شادی سے روکا گیا، یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر سے نکل گئی۔
الجوھری کے مطابق، “عنست الجارية” کا مطلب ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر میں طویل عرصے تک رہی یہاں تک کہ وہ کنواروں کی فہرست سے نکل گئی، اور اگر وہ ایک بار شادی کر لے تو اس پر لفظ “عنست” (کنواری) کا اطلاق نہیں ہوتا۔
تاریخی طور پر یہ لفظ ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو اون کی کُنچیاں بناتی تھیں، انہیں “عوانس” کہا جاتا تھا۔
تجرد، اسلام کی نظر میں:
شادی کو آسان بنانا نہ صرف بنیادی انسانی ضرورت بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔ معاشرے کا یہ کام ہونا چاہیے کہ ان تمام رکاوٹوں کو دور کرے جو اس میں آڑے آتی ہیں۔ ایسا کرنا عبادت و احکامات اسلام کی اطاعت ہے۔ ساتھ ہی، رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر عمل ہے جس سے انہیں اپنی امت پہ فخر ہو گا۔ ساتھ ہی یہ عصمت کی حفاظت اور شرم و حیا کے حصار کو قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
شادی کے نتیجے میں بہت سارے فوائد مرتب ہوتے ہیں، مثلاً امت کی تعداد میں کثرت، مرد و عورت کی حرمت کی حفاظت، خاندان کی بنیاد، جو کہ معاشرے کی تشکیل کا پہلا جز ہے۔ اسی لیے شریعت اسے آسان بنانے پر زور دیتی ہے۔
اللّه تعالیٰ سورہ روم میں فرماتے ہیں: “اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سےتمہارے جوڑ بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں” [الروم: 21]
سورہ نور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “تم میں سے جو لوگ مجرد (غیر شادی شدہ) ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللّه ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا” [النور: 32]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: “اے نوجوانو، تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم و حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اور جو استطاعت نہ رکھے، اسے روزہ رکھنا چاہیے، کیونکہ روزہ ایک ڈھال ہے۔” [بخاری اور مسلم]
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: “بہترین اور برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچہ کم ہو”
ایک صحابیؓ جو شادی کا ارادہ رکھتے تھے، ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “جاؤ اور لوہے کی انگوٹھی بھی ہے تو لے کے آؤ (مہر کے لیے)”۔ [بخاری]
ابی العجفاء السلمی کہتے ہیں، ہم سے حضرت عمرؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “عورتوں کے مہر میں مبالغہ (غلو) نہ کرو، کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کا ذریعہ ہوتا تو نبی (صلى الله عليه وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار ہوتے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اپنی بیویوں یا بیٹیوں کو کبھی بھی بارہ اوقیہ سے مہر نہیں دیا”
شادی میں تاخیر کی وجوہات:
مسلم معاشروں میں شادی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جنہوں نے غیر شادی شدہ نوجوانوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ مصری قومی مرکز برائے سماجی مطالعہ (نیشنل سینٹر فار سوشل اینڈ کریمنل اسٹڈیز) کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ مصر میں ایک تہائی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی عمر تیس برس سے زائد ہے اور وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ زیادہ تر عرب ممالک کا یہی حال ہے۔
اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں:
1. سوسائٹی اور اس کے عناصر ترکیبی یعنی افراد، خاندان اور اداروں میں اسلامی اقدار کی قبولیت کتنی ہے۔ یہ ایک اہم وجہ ہوگی اگر روایات مقدم ہوں اور دینی اسپرٹ مؤخر۔
2. سماج کے برے رسوم و رواج کی تقلید کرنا، جیسے شادیوں پردکھاوے کی غرض سے بے جا فضول خرچی، بہتیرے فنکشن، یا پھر یہ کہ بڑی بہن کی شادی سے پہلے چھوٹی کی نہیں ہوگی۔
3. مناسب روزگار کے مواقع کی عدم موجودگی اور نوجوانوں کے درمیان بے روزگاری کا پھیلاؤ جو انہیں گھریلو اور ازدواجی اخراجات کی فراہمی سے عاجز کردیتی ہیں۔
4. کیریرازم ، یعنی فیلڈ کی مہارت اس لیے حاصل کرنا تاکہ زیادہ آمدن ہو سکے۔ اسی کے پیچھے توانائیاں لگا دینا اور زیادہ سے زیادہ کی ہوس رکھنا۔
5. بعض ولی حضرات کا لڑکی کا مہر بہت زیادہ مقرر کرنا۔
6. لڑکیوں کا شوہرکی خوبیوں کے حوالے سے مبالغہ آمیز شرائط عائد کرنا جس کی وجہ سے تمام پیغامِ نکاح دینے والوں کو مسترد کیا جاتا ہے کہ وہ ان جملہ صفات کے حامل نہیں ہیں۔
7. کچھ خاندانوں کی خراب ساکھ جس کی وجہ سے ان کے بچوں اور بچیوں سے کوئی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا نہیں چاہتا۔
8. اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دینی رجحانات و خیالات میں کمزوری، جس کی وجہ سے وہ حلال ترک کر کے حرام اختیار کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے نکاح ان کے نزدیک ایسا مسئلہ بن جاتا ہے، جس میں کوئی جلد بازی نہیں ہوتی۔
9. بڑے پیمانے پر نوجوان لڑکوں کا بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے لیے منتقل ہونا ہے، جو انہیں وہیں پر قیام اور وہاں کی مقامی خواتین سے شادی کرنے پر مجبور کردیتا ہے، ان سے شادی کرنے کے کم اخراجات کی وجہ سے یا کچھ دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے، جیسے وہاں کی شہریت پانے کی وجہ سے، جہاں انہوں نے شادی کی ہو۔
10. بعض لڑکیوں کا تعلیم کو شادی پر ترجیح دینا جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے تک شادی سے رکی رہتی ہیں۔
11. والدین کا اپنی بیٹیوں پر جبرو زیادتی اور ان کی شادیوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر یا بلا وجہ رکاوٹ ڈالنا، یا ان فوائد کے حصول کی خاطر جو وہ ان سے حاصل کرتے ہیں۔
12. میڈیا کے اثرات جومرد اور عورت کے درمیان مساوات کا دعویدار ہے، یہ چیز بھی عورتوں کو مردوں کے سامنے چیلینج کرنے پر ابھارتی ہیں اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور ان سے شادی کرنے سے انکار پر تیار کرتی ہیں۔
فرد اور معاشرے پر اثرات:
تجرد یا شادیوں میں تاخیر یا نہ ہونے کے اثرات افراد اور معاشروں پر اس کے رواج کے بقدر مختلف طریقوں سے پڑتے ہیں۔ بعض لڑکیوں کے نزدیک یہ ایک بھیانک خواب ہوتا ہے، جو ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ جب کہ بعض اسے ذاتی پسند یا تقدیر سمجھتی ہیں جس سے فرار ممکن نہیں۔
اگرچہ عرب اور دیگر مسلم معاشروں میں یہ اب بھی مغرب سے کم تر ہے لیکن بہرحال اس کے منفی اثرات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
- لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ان کے اور ان کے خاندانوں کے لئے ذہنی پریشانی اور غم کا باعث بنتی ہے۔ کچھ لڑکیاں لوگوں کی نظروں اور باتوں سے شرمندگی اور خوف محسوس کرتی ہیں، جس سے افراد اور معاشرے کے آپسی تعلقات خراب ہوتے ہیں۔
- تباہ کن سماجی مظاہر مثلاً وقتی نکاح، نکاحِ مسیار یا حرام تعلقات۔
- ازدواجی بندھن کو حل کرنے اور دولہے کو راغب کرنے کے لیے بعض لوگوں کا جادو ٹونے اور توہمات کی جانب متوجہ ہونا۔
- معاشرے کے دیگر شادی شدہ جوڑوں کے متعلق گھٹن بھرا حسد کا احساس اور سماجی تعلقات پر اس کی عکاسی جو بعض لوگوں کو ان سے انتقام لینے پر آمادہ کرتا ہے۔
- کچھ لوگوں ڈپریشن اور زندگی سے عدم اطمینان کے شکار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روز مرہ کے معمولات اورپیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور معاشی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
- لڑکیوں پر بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ، جو عملاََ پہلے ہی بہت سے گھروں میں موجود ہے، جو کبھی کبھی ہیجانی صورت حال کا باعث بن جاتا ہے اور مختلف نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ کچھ لڑکیوں کو شادی سے نفرت کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ شوہر کے کنٹرول سے بچ سکیں، کیونکہ وہ اپنے باپ اور بھائی کی سخت سلوک کے تجربات کی روشنی میں سمجھتی ہیں کہ شادی صرف ان پر عائد کردہ دباؤ میں اضافہ کرے گی۔
تربیتی حل:
یہ مسئلہ ہر ایک کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہے، چاہے وہ گھر ہو، معاشرہ ہو یا حتیٰ کہ ادارے، جس نے الازہر جیسے دینی ادارے کو “آسانی پیدا کرو، مشکلات کھڑی نہ کرو” کے عنوان کے تحت اس رجحان پر لگام دینے کے لیے دسیوں اقدامات میں سے ایک قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔
اسلام اور شریعت نے ایسے مسائل کے حل کے لئے چودہ صدیاں قبل بنیادی اصول فراہم کئے ہیں، لیکن لوگوں کا اسلامی تعلیمات سے دور ہونا ان مظاہر کے پھیلنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ شادی پہلے سب سے آسان چیزوں میں سے تھی، لیکن اس کے بعد خصوصاً ہمارے زمانے میں لوگوں نے اللہ کی آسان کردہ چیزوں کو مشکل بنا دیا، اور جسے اللہ نے وسیع کیا، اسے تنگ کر دیا، اور خود پر ایسی سختیاں عائد کیں جو اللہ نے عائد نہیں کیں تھیں، جس کے نتیجے میں نوجوانوں لڑکوں میں تجرد اور لڑکیوں میں کنوار پن دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسلام نے اس طرح کے رجحانات کے حل کے سلسلے میں کئی بنیادیں اوراصول وضع کیے ہیں، جو اس کا قلع قمع کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے خطرات سے محفوظ کرتے ہیں:
1۔ امت کی دینی اور اعتقادی اساس کو بحال کرتے ہوئے اور لوگوں کے قلوب میں رب پر اس انداز سے توکل کا بیج بوتے ہوئے کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کی فراوانی پر قادر ہے اور انہیں رزق دیتا ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تین لوگوں کی مدد کرنے کی ضمانت اللّٰه نے دی ہے، ایک جو اس کی راہ میں جہاد کو نکلے، دوسرا مکاتب جو قرض کوادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اور تیسرا وہ جو پاکدامنی کے لیے نکاح کرے۔ ” [ترمذی]
2۔ اخلاقی تعمیر نو: اس کا مطلب ہے لوگوں کے دلوں میں صحیح تصورات کے بیج دوبارہ بونا، خاص طور پر نوجوانوں اور ابھرتی ہوئی نسلوں میں، تاکہ ان میں طہارت اور عفت کی حفاظت کی محبت پیدا کی جائے۔
3۔ ہر چیز میں اعتدال اور توازن کی ترغیب دینا، خاص طور پر مہر میں، تاکہ یہ کسی کی استطاعت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: “تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللّه ان کو اپنے فضل سے غنی کرے گا”۔ [النور: 32]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بے شک، عورت کے لیے ایک نعمت یہ ہے کہ اس کی منگنی، اس کا مہر، اور اس کی زچگی آسان ہو” [صحیح الجامع]
4۔ مناسب شریکِ حیات کا انتخاب کرتے وقت اخلاق اور دین کو دولت پر ترجیح دینا چاہیے۔ اگر نیک اخلاق اور دین کا التزام موجود ہو، تو یہی حقیقی کامیابی اور فائدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو، تو اس سے نکاح کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر فتنے اور فساد پھیل جائے گا”۔ [ترمذی]
5۔ اسلامی ممالک میں ترقی حاصل کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ زندگی کے حالات بہتر ہوں اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم ہوں اور شادی کے ذریعے نئے خاندان قائم کیے جا سکیں۔
6۔ مہر کو کم کرنا اوراس کی ادائیگی کو آسان بنانا، اور اس میں مبالغہ سے پرہیز کرنا، اسلام میں خاندان اور معاشرت کے فائدے کے لئے ترغیب دی گئی ہے۔ جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “ایک آدمی اپنی بیوی کے مہر سے اس قدر بوجھل ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں اس کے خلاف عداوت پیدا ہو جائے”۔ [ابن ماجہ]
7۔ میڈیا کو اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا چاہیے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی کرنے کی ترغیب دینے کا ذریعہ بننا چاہیے، نہ کہ حوصلہ شکنی کا ذریعہ۔
8۔ ہاؤسنگ کے بحران اور محدود ملازمت کے مواقع کے حل کے لئے کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ جائز ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکیں اور نوجوانوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے۔
9۔ خیراتی شادی کے منصوبوں، دعوتی فورمز، مساجد اور سیمینارز کو فعال کرنا، خاص طور پر شادی سے ہچکچاہٹ اور تجرد پسندی کے اس دور میں۔
10۔ رسم و رواج پر دوبارہ نظر ثانی کرنا اور ان غلط معاشرتی عادات کو ترک کرنا جو شادی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جیسے برادری و قوم کے تعصب اور والدین کا اپنی ملازمت کرنے والی بیٹیوں کو شادی سے روکنا۔
11۔ اس پر توجہ دینے کے لیے خاص سیمینارز اور نشستیں منعقد کرنا سماجی اداروں اور خصوصاً یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے۔
12۔ افراد میں شادی کے بعض معیارات میں تبدیلی کرنا، جہاں خوبصورتی ایک نوجوان کے لئے دلہن کی تلاش میں واحد معیار نہ ہو، اور نہ ہی ایک نوجوان کی خوبصورتی اور دولت لڑکی کے لئے بنیادی مقاصد ہوں۔
اس تجرد یا کنوار پن کی روش عرب اور اسلامی معاشروں کی بنیادوں کے لیے سنجیدہ خطرہ بن چکی ہے، جیسا کہ مختلف تحقیقات اور اعداد و شمار میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے، اسلام ہر قادر نوجوان کو شادی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سورۃ النور کی مندرجہ بالا آیت کی تشریح کرتے ہوئے ابن عباس نے کہا: “اللہ نے نکاح کا حکم دیا، اس کی ترغیب دی، اور انہیں اپنے آزاد اور غلاموں کی شادی کرنے کا کہا، اور اس بارے میں انہیں خوش حالی کا وعدہ دیا۔”
مترجم: زعیم الرحمان