کامیابی غیر سنجیدگی سے نہیں ملتی ہے۔ کوئی قوم مسخرے پن سے ترقی نہیں کرتی اور نا ہی کسی معاملے کے سلجھانے میں اس سے مدد مل پاتی ہے۔ سنجیدہ رہنے ہی سے ہم اپنی امیدوں اور مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان میں پوشیدہ صلاحیتوں کو عیاں کرتی ہے۔ انسان سستی، غفلت اور جمود کا شکار ہوتا ہے تو اس کی حالت ٹھہرے پانی کی طرح ہوجاتی ہے لیکن جب وہ کام میں مصروف ہوتا ہے تو اس کی کیفیت بہتے پانی کی سی ہوجاتی ہے۔
قرآن کی آیات میں تدبر کرنے والا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال پر غور و خوض کرنے والا یہ ضرور پائے گا کہ خواہ قول ہو یا عمل، ان ہدایتوں میں سنجیدگی کا غلبہ ضرور ہے۔ یہ اس لیے کہ حیاتِ مسلم علم، عمل یا عبادت میں گزرتی رہے۔ یہ صحیح ہے کہ تھکاوٹ اور مشقت کے بعد نفس کو راحت پہنچا دینا بھی ضروری ہے لیکن اصل بات یوں ہی ہے کہ زندگی کا محور اعمالِ صالحہ میں سنجیدگی ہی رہے۔
سنجیدگی کا مفہوم اور اہمیت:
“الجد” معنی ہے سنجیدگی کے اور یہ مذاق، سستی، کمزوری اور لاپروائی کی ضد ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ شرعی و دعوتی فرائض کو بر وقت، ثابت قدمی اور تندہی کے ساتھ سر انجام دیا جائے، اس سلسلے میں دستیاب تمام تر وسائل کو برائے کار لایا جائے اور ان تمام حیلوں اور رکاوٹوں پر قابو پایا جائے جو ان کی انجام دہی کی راہ میں حائل ہوتے ہوں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ:
إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ، ترجمہ: “یہ قرآن یقینا ایک فیصلہ کن بات ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے”۔ [الطارق: 12-13]
اس سے واضح ہوتا ہے کہ سنجیدگی قرآن میں کس قدر رچی بسی ہے۔
سنجیدگی مومن کی بنیادی صفت اور اس کے اخلاق میں موجود لازمی ادب ہے۔ وہ مؤمنین جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوتا ہے کہ وہ اس کی دعوت کے لیے جیئیں گے اور اسی کی راہ میں جان دے دیں گے … ان کی زندگی کے مختلف حالات و واقعات میں سنجیدگی کے اثرات اور مظاہر نظر آتے ہیں۔ اور یہی بات ہم اللہ تعالیٰ کے اس قول میں پاتے ہیں کہ: “اے یحییٰ! قوت کے ساتھ کتاب حاصل کرو !” [مریم: 12]
ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ: مضبوطی سے کتاب کا علم حاصل کرو، یعنی سنجیدگی، سخت محنت اور شوق کے ساتھ علم حاصل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی کہا کہ “ہم نے اسے (یحییٰؑ) بچپن میں ہی حکمت عطا کی۔” [مریم: 12]
یعنی انہیں علم، فہم، سنجیدگی، ارادے کی پختگی، نیکی کی طرف رغبت، اس جانب مکمل توجہ اور اس کے حصول کے لیے سخت محنت کا جذبہ بچپن ہی میں عطا کیا حالاں کہ وہ کم عمر تھے۔
سنجیدگی کی یہی صفت مردانِ باہمت کا سہارا ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے کوئی بھی قوم کسی ایسے مقام تک پہنچ پاتی ہے جس کی وہ متمنی اور آرزو مند ہوتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
“جو شخص (صرف) جلد گزر جانے والی ( مادی دنیا) طلب کرتا ہے تو ہم اسے اس قدر دے دیتے ہیں، جو ہم چاہیں اور جس مقدار کا اس کے بارے میں ارادہ کریں پھر اس کے لیے دوزخ قرار دیں گے کہ وہ اس کی جلادینے والی آگ میں جلے گا اس حال میں کہ وہ راندہ اور مذموم ہوگا۔ اور جو کوئی بھی آخرت چاہے اور اس کے مطابق اس کے لیے اس حال میں کوشش کرے کہ وہ مومن ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں قابل قدر دانی ہیں۔” [ بنی اسرائیل: 18-19]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی دنیا کو سنجیدگی سے چاہے وہ اسے پالے گا اور جو کوئی آخرت کے لیے سنجیدہ ہوجائے وہ اس کی کامیابی حاصل کرلے گا۔
اسلام میں سنجیدگی:
سنجیدگی کا تصور قرآن مجید کی اکثر آیات اور سنت نبوی میں اکثر ملتا ہے۔ یہ ان اہل ایمان اور اللہ کے ان دوستوں کی صفت ہے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ایسے کی ہے کہ:
“یہ لوگ بھلائیوں کی طرف دوڑتے ہیں اور اور وہی ان میں سبقت لے جانے والے ہوتے ہیں۔ [المؤمنون: 61]
امام قرطبیؒ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ بھلائیوں کی طرف دوڑتے ہیں … یعنی اللہ کی اطاعت کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں تاکہ بلند درجات اور بلند مقامات کو پہنچ سکیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں بھی سنجیدگی کا حکم دیا ہے جیسے ہم سے پہلوں کو حکم دیا تھا، فرمایا:
“جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے، اسے قوت کے ساتھ پکڑ لو”۔ [البقرۃ: 63]
یعنی جدوجہد اور سنجیدگی کے ساتھ عمل کرو لہٰذا ہمیں اعمال میں پہل کرنی چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے کہ ہم کوتاہی کریں، غفلت سے کام لیں یا سستی کی صفت ہم میں پیدا ہو کیوں کہ اس کا انجام پچھتاوا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے، وہ کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے، تاکہ میں وہ نیک اعمال کروں جو چھوڑ دیے تھے”۔ [المؤمنون: 99-100]۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے صحابہؓ کو نصیحت کرتے تھے کہ “نیک اعمال میں جلدی کرو” [ مسلم] اور اس طرح خبردار کرتے کہ سست اور غافل انسان بھی بیدار ہوجائے … کہ “اے امت محمدؐ! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم بھی جان جاؤ تو تم تھوڑا ہنسو اور بہت رؤو” [بخاری]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت اور سنجیدگی کی ترغیب دیتے ہوئے یوں بھی کہا کہ :
“طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور محبوب ہے۔ ویسے لیکن ہر مومن میں ہی بھلائی ہے۔ جو چیز تم کو فائدہ دے اس کے لیے لالچ کرو۔۔ مدد صرف اللہ سے مانگو اور عاجز بن کر نہ رہو، اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یوں نہ کہو کہ اگر ایسا ایسا کرتا تو یوں ہوتا۔۔ بلکہ یوں کہو کہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا اور جو اس نے چاہا وہی ہوا۔ کیوں کہ اگر کہنا شیطان کے کام کے دروازے کھول دیتا ہے۔” [مسلم]
زندگی کا محنت اور سنجیدگی سے معمور ہونے کا یہ بھی مطلب نہیں کہ انسان اپنے نفس کی راحت کا سامان نہ کرے۔ کیوں کہ نفس تھکن کا شکار ہوکر اندھا ہوجاتا ہے۔۔ اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی اجازت دینے پر یوں تبصرہ کیا کہ: تاکہ یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے۔
سلف صالحین اپنے علمی دروس کے دوران کبھی خوش طبعی کا سامان بھی کردیا کرتے کہ طلبہ اکتاہٹ نہ محسوس کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مزاح فرمایا کرتے تھے لیکن ہمیشہ سچی بات کہتے۔ اسی طرح جب کوئی چیز پسند آتی تو تبسم فرما دیا کرتے تھے۔
سنجیدہ مسلمان کی نشانیاں:
سنجیدگی کی کچھ علامات اور مظاہر ہوتے ہیں جن میں سے کچھ اہم ہم یہاں ذکر کرتے ہیں تاکہ ہر فرد انہیں اپنی ذات میں تلاش کرے۔ اگر وہ انہیں پائے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اس پر قائم رہے۔ اگر یہ اس میں موجود نہ ہوں تو وہ کوشش کرے اور اپنی شخصیت کو اس سے آراستہ کرے یوں کہ یہ صفت اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم اور مضبوط اینٹ کی حیثیت اختیار کرلے۔
ان علامتوں میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱۔ انسان دنیا کے امور میں، اہل خانہ اور پڑوسیوں کے معاملات میں اور معاشرے دیگر کے افراد سے تعامل میں سنجیدگی اختیار کرے۔ حدیث ہے کہ :
“جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ پڑوسیوں کو تکلیف نہ دے۔
جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو مہمان کی تکریم کرے۔
جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔” [بخاری]
۲۔ انسان مضبوط ہو اور طاقت اختیار کرے۔ جیسا کہ صحابہ کرامؓ دینی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ہوتے تھے۔ جب ہجرت کا وقت تھا تو حضرت عمرؓ نے قریش کو کھلا چیلنج دیا کہ : میں ہجرت کررہا ہوں، تو جو کوئی چاہے کہ اس کی ماں اس پر روئے، اس کی بیوی بیوہ ہوجائے، اور بچے یتیمی کا شکار ہوجائیں تو میرا پیچھا کرے ۔۔ لیکن ان میں سے ایک بھی یہ ہمت نہ کرسکا۔
۳۔ انسان ثابت قدمی کا پیکر اور جدوجہد کا خوگر ہو۔ اور ہم اس کی بہترین مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں پاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کی دعوت کے سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی اور خفیہ ہو یا اعلانیہ، آسانی ہو یا تنگی ہر ماحول میں تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے بغیر دعوت دیتے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے خوف اور لالچ کے ہر حربے کو آزما کر دعوت سے باز رکھنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم و حوصلہ سے بھرپور وہ تاریخی الفاظ کہے کہ : “اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تاکہ میں دعوت کا کام چھوڑ دوں تب بھی نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کردے یا میں ہی اس راہ میں جان سے چلا جاؤں۔”
۴۔ انسان اپنی روزی روٹی اور اپنے اہل و عیال کے رزق کے معاملے میں سنجیدہ ہو، حلال کی تلاش میں ہو اور پھر اسے حلال جگہ ہی خرچ کرے۔ حدیث ہے کہ : “قیامت کے دن بندہ اپنے قدم ان سوالات کے بغیر اپنے قدم نہیں ہٹا سکے گا کہ:
عمر کہاں گزاری؟
علم پر کیا عمل کیا؟
مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟
اپنے جسم کو کس کام میں کھپایا؟ [ترمذی]
۵۔ انسان اپنی جان، مال، آل اولاد اور جو کچھ بھی ہے اللہ کی راہ میں وقف کرے۔ اس کی مثال ہمیں خیرالقرون کے افراد کی سیرت میں ملتی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں جہاد کرنے اور دین کی مدد کرنے میں گزاری۔ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھیں جو اپنا تمام مال لاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میں نے گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی چھوڑا ہے۔ حضرت عثمانؓ جو تبوک کے موقع پر پورے لشکر کی تیاری کا اہتمام کردیتے ہیں ۔۔ اور اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں۔
۶۔ انسان اپنے دین میں، عبادات میں، مراسمِ دینیہ میں اور اللہ کے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی جدوجہد میں سنجیدہ ہو۔
۷۔ انسان وقت کی قدر کرنے والا ہو، اسے اللہ کی اطاعت میں، اس کے دین کی خدمت میں، اپنے بھائیوں کی خبر گیری میں، رشتہ داری نبھانے میں اور لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں صرف کرے۔
۸۔ آج کا کام کل پر مت چھوڑے ۔۔ سستی نہ کرے، ٹال مٹول سے کام نہ لے کہ کام جمع ہوجائیں اور انجام اچھا نہ ہو۔
۹۔ سنجیدگی کی علامت ہے کہ انسان حیلے سے بچے اور رکاوٹوں کو اہمیت نہ دے، سنجیدہ مسلمان مشکلات کے آگے ہار نہیں مانتا، تکلیفوں کے آگے کمزور نہیں پڑتا۔ بلکہ سامنا کرتا ہے، حل تلاش کرتا ہے، جدوجہد میں اضافہ کرتا ہے اور آخری لمحے تک کوشش جاری رکھتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموحؓ کی بہترین مثال ہے۔ جہاد میں شرکت کے خواہشمند تھے لیکن لنگڑاہٹ کی وجہ سے بیٹے بھی منع کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رخصت دے دی۔ انہوں نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ لنگڑا تے ہوئے ہی جنت میں داخل ہوجاؤں ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔
سنجیدگی سے کام کے اصول:
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہو تاکہ وہ سنجیدہ ہوسکے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ٹال مٹول سے بچے، عمر ضائع نہ کرے، وقت برباد نہ کرے، بے کار اور سست لوگوں کا مصاحب نہ بنے۔غیر ضروری کاموں میں مشغول نہ ہو اور نہ ہی غیر ضروری آسائشوں میں حد سے بڑھے۔ کیوں کہ یہ سب صفات سنجیدگی کو کم کردیتی ہیں اور انسان کو ارادے اور عمل میں کمزور کردیتی ہیں۔
سنجیدگی کو اپنانے کے اہم اصول درج ذیل ہیں :
پہلا أصول: سنجیدگی کا پہلا اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے ۔۔ اللہ اس کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے۔ اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ [الطلاق: 2-3]
ایک اور جگہ فرمایا: اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ لکھے جیسا اللہ نے سکھایا ہے۔ اور وہ لکھوائے جس پر قرض ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور کوئی کمی نہ کرے۔ [البقرۃ: 282]
دوسرا اصول: سنجیدگی کا دوسرا اصول ہے کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہاں تک کہ جب موت ان میں سے کسی پر آتی ہے تو کہتا ہے کہ اے رب! مجھے لوٹا دے کہ جو زندگی چھوڑ آیا اس میں نیک اعمال کروں ۔۔ ہر گز نہیں! یہ تو کہنے کی بات ہے۔ اور ان کے پیچھے ایک برزخ ہے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ [المؤمنون: 99-100]
تیسرا اصول: ہر حقدار کو اس کا حق دو۔
سلمانؓ نے ابو درداءؓ کو کہا کہ: یقیناََ تمہارے رب کا تم پر حق ہے۔ تمہارے نفس کا تم پر حق ہے، اہل و عیال کا تم پر حق ہے، لہٰذا ہر حق دار کو ا س کا حق دو۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمان سے سچ کہا۔ [البخاری]
چوتھا اصول: نیک کام کرو، اگر یہ نہیں تو کسی کی اس پر مدد کرو اور اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو کم از کم برائی سے رک جاؤ۔
ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔
کہا گیا: اگر کسی کے پاس کچھ نا ہو (تو کیا کرے؟)
آپؐ نے فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرے، خود بھی فائدہ لے اور دوسروں کو بھی پہنچائے۔
کہا گیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو؟
فرمایا: کسی ضرورت مند اور پریشان حال کی مدد کرے۔
کہا گیا: یہ بھی ممکن نہ ہو تو؟
فرمایا: نیکی یا بھلائی کا حکم دے۔
کہا گیا: ایسا بھی نہ کرے تو؟
فرمایا: برائی سے رک جائے، یہ بھی صدقہ ہے۔ [بخاری و مسلم]
پانچواں اصول: ترجیحات کا تعین کیا جائے، سب سے اہم سے آغاز کرکے پھر دوسرے اہم امور کی طرف بڑھا جائے، حصولِ ہدف کے لیے کوشش ہو اور عمل میں تدریج اختیار کی جائے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے ہوئے رہنمائی فرمائی کہ: سب سے پہلے انہیں اس بات کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں (محمدؐ) اس کا رسول ہوں۔ اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے دن رات میں پانچ نمازیں ان پر فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو تسلیم کرلیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقیروں کو دی جائے گی۔ [بخاری و مسلم]
عملی مثالیں:
ذیل میں ہم چند مثالوں کا ذکر کریں گے کہ جن سے ممکن ہے کہ راہِ حق پہ گامزن لوگوں میں سنجیدگی کی روح پھونک دیں تاکہ وہ اہداف کے حصول کی جانب رواں دواں ہوں۔
دعوت کے آغاز میں جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
اے کپڑے میں لپٹنے والے! رات کو قیام کرو، مگر تھوڑا سا۔ آدھی رات، یا اس سے کچھ کم۔ یا اس پر کچھ بڑھا دو، اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ [المزمل: 1-4]
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو لمبا قیام فرمانے لگے یہاں تک کہ حضرت خدیجہؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ترس آنے لگا ۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول وفات تک رہا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اس حکم کی پیروی کی اور اپنے پر سختی کی۔۔ یہاں تک کہ اللہ نے سورہ کے آخر میں یہ نرمی فرمادی کہ: “یقیناً آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب، کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات قیام کرتے ہیں، اور آپ کے ساتھ ایک جماعت بھی۔ اللہ رات اور دن کا حساب رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تم اس (قیام) کا پوری طرح احاطہ نہ کر سکو گے، تو اس نے تم پر رحم فرمایا، لہٰذا قرآن میں سے جو آسان ہو وہ پڑھو۔” [سورۃ المزمل: 20]
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوئے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا اور انفرادی طور پر دعوت دینا شروع ہوگئے۔ ان کی کوششوں سے وہ بہترین لوگ مسلمان ہوئے جن سے اسلام کو مدد ملی اور وہ اللہ کی طرف دعوت کے لیے مضبوط ثابت ہوئے۔ جیسے کہ عثمان بن عفانؓ، زبیر بن عوامؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، طلحہ بن عبیداللہؓ، وغیرہ۔
یہی صحابہؓ ہیں جو احد کے اگلے دن ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور حمراءالاسد کی طرف نکلتے ہیں حالانکہ ان کے جسم زخموں سے چور تھے۔ حتیٰ کہ سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے ہلکا زخمی فرد، شدید زخمی فرد کو اٹھاکر گیا۔ اور وہ بوڑھا جس کی بھنویں آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اور کمر جھکی ہوئی تھی ۔۔ جہاد میں شامل تھا ۔۔ ایک نوجوان کہتا ہے: چچا! اللہ نے آپ جیسوں کو جہاد کے بوجھ سے آزاد کیا ہے ۔۔۔ تو وہ ضعیف روتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ بیٹے! جب اللہ نے کہا کہ ہلکے ہو یا بھاری، نکل پڑو ۔۔ تو اس نے کسی کو اس سے باہر نہیں کیا ہے۔۔ سو، سنجیدہ مسلمان کو دنیا کی فانی زیب و زینت روک نہیں سکتی، وہ حیلوں، بہانوں کا سہارا نہیں پکڑتا کیوں کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔
یہ جعفر بن ابی طالبؓ کی مثال ہے۔ عظیم شخصیت کے حامل اور منفرد مجاہد ۔۔ جنگ موتہ میں دائیں ہاتھ میں علم لیے ہوئے تھے، وہ کاٹ دیا جاتا ہے، بائیں ہاتھ سے تھام لیتے ہیں۔ وہ بھی کاٹ دیا جاتا ہے تو سینے سے لگا لیتے ہیں کہ جب تک سانسیں باقی ہیں، کوئی پلک جھپکنے جتنا دورانیہ بھی ایسا نہ ہو کہ جھنڈا نہ لہرائے۔
جنگ قادسیہ کے دوران سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس ایک نابینا شخص حاضر ہوا۔ یہ عبداللہ بن ام مکتومؓ تھے جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓ کے ساتھ مؤذن مقرر کیا تھا۔ انہوں نے شاملِ لشکر ہونے کا ارادہ کیا حالاں کہ نابینا پن کی وجہ سے ان پر جہاد فرض نہیں تھا لیکن انہوں نے علم اٹھانے کی اجازت مانگی۔ سعدؓ متحیر ہوئے اور گویا ہوئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تم تو نابینا ہو! عبداللہؓ نے کہا: اے سعد! جو دیکھ سکتا ہے وہ دشمن کے گھوڑے دیکھے گا تو شاید بھاگ بھی جائے لیکن میں تو دیکھ ہی نہیں سکتا تو میں اپنی جگہ پر رہوں گا۔ حضرت سعدؓ نے کہا: تم نے سچ کہا۔ اور جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ معرکے کے بعد وہ اس حال میں شہید پاگئے گئے کہ جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔
صلاح الدین ایوبی کی مثال لیجیے۔ عظیم رہنما جن کو مسجد اقصیٰ کی اسیری غمزدہ کیے ہوئے تھی۔ نہ مزاق کرتے تھے، نہ ہنستے تھے بلکہ کہتے تھے کہ: مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ وہ مجھے ہنستا ہوا دیکھے جب کہ بیت المقدس صلیبیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے ان پر کرم کیا اور ان کے ہاتھوں بیت المقدس کو آزادی نصیب ہوئی۔
غرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ بغیر سنجیدگی کے کوششیں ضائع ہوجاتی ہیں، دعوت کی صدا کمزور ہوجاتی ہے، اس کا علم سرنگوں ہوجاتا ہے، اس کا قافلہ پیچھے رہ جاتا ہے، اس کے دشمن آگے نکل جاتے ہیں اور یہ امانت ضائع ہوجاتی ہے۔ اللہ کی مدد کے بعد یہی صفت ہے جس سے متصف ہوکر مردانِ کار اس مقام تک امت کو پہنچاتے ہیں جس کی وہ امید کرتی ہے اور آرزو رکھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سنجیدگی مقاصد کے حصول اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کمزوری اور سستی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی سے، بزدلی اور بڑھاپے سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے، اور قبر کے عذاب سے۔ [بخاری]
مترجم: زعیم الرحمان