بقلمِ: ڈاکٹر طلعت فہمی
مغربی تہذیب و ثقافت مسلمانوں کی زندگیوں اور گھروں میں گھس چکی ہے اور اس کی یلغار نے اسلامی تہذیب کے قلعوں کو سمعی، بصری، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، تعلیمی نصاب اور سیاسی، انفرادی و اجتماعی زندگی، ثقافتی، فنی اور سماجی غرض ہر اعتبار سے اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ اب مغرب کو ہی اپنی منزل اور سمت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مغربی یلغار کا خاص نشانہ مسلم خواتین ہیں۔ اس لئے کہ یہی خواتین ایک خاندان کی ریڑھ کی ہڈی اور معاشرے کی تعمیر کا بلڈنگ بلاک ہیں۔ قوموں کے مستقبل کی تشکیل میں ان کا عظیم کردار ہے۔ مغربی ثقافت نے بہت سی مسلم خواتین کی زندگیوں پر ناقابل تردید اثرات مرتب کیے ہیں۔
مغربی حملے کے کچھ آثار
محتاط محقق مغربی حملے کے اثرات کے حوالے سے چند ایک تمثیلی اشارے کرتا ہے، لیکن یہ درج ذیل آثار تک محدود نہیں ہے:
- اول: ان بنیادی تصورات کے اندر اضطراب اور شکوک وشبہات پیدا کرنا جو کہ اسلام مسلم معاشرے میں خواتین کے کردار اور جانشینی کے کاموں میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بارے میں قائم کرنا چاہتا ہے، امانت کو سنبھالنے اور سچائی کے ساتھ زمین کی تعمیر نو کے لئے کام کرنا۔
- دوم: خواتین میں اس یقین کو مضبوط کرنا کہ انہوں نے سچائی کو کھو دیا ہے اور انہیں مذہب اور روایتی رسم و رواج سے آزادی کی جنگ لڑنی ہوگی۔
- سوم: عورتوں کے لیے مردوں کی قوامیت یعنی سرپرستی اور ذمہ داری کو بگاڑنے میں حصہ ڈالنا، جس کا مقصد ان کی عزت و تکریم کرنا اور انہیں زندگی کی سختیوں اور مشکلات سے بچانا تھا۔
- چہارم: حقوق نسواں کی سوچ سے متاثر ہونا، جو اسے طاقتور بننے اور مردوں اور خاندان سے بے نیاز ہونے پر مجبور کرتی ہے۔
- پنجم: بین الاقوامی کنونشنز اور قوانین کی طرف راغب ہونا جو ایک آدمی کو بطور باپ اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی اچھی پرورش میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے روکتے ہیں۔
- ششم: بین الاقوامی کنونشنز اور قوانین سے مرعوب ہوکر ان کی پیروی کرنا جو کہ عورت کو اپنے شوہر کے خلاف شکایت کرنے، اس کے خلاف بغاوت کرنے اور بطور بیوی اپنے فرائض سے دستبردار ہونے کا حق دیتے ہیں۔
- ہفتم: آرائش و زیبائش کے فنوں میں مشغول کرکے اس کے لباس اور حیا کو چھین لینا۔
مسئلہ کے مظاہر:
جہاں تک مغربی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر خواتین کو درپیش مسائل کے مظاہر کا تعلق ہے تو اس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں:
- اول: زندگی کے تمام معاملات کے بارے میں رہنمائی کرنے والے دین یعنی اسلام کی صحیح تفہیم کی عدم موجودگی۔
- دوم: خواتین کو زندگی کے معاملات میں ان کے اصل کردار کو صحیح طریقے سے سمجھنے سے محروم کرنا۔
- سوم: اسلامی کمیونٹی انکیوبیٹرز کی کمی جو اسلاموفوبیا کے رد میں لوگوں کو اسلامی شناخت اور اسلام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنے میں مدد دے۔
- چہارم: بعض معاشروں اور خاندانوں میں باپ، بھائی اور شوہر کے بطور مردوں میں شعوری کردار کی کمی۔
- پنجم: بہت سے گھروں کی خواتین میں پیار، محبت، رحم دلی، اور شفقت کی کمی کا پایا جانا۔
- ششم: مسخ شدہ ماڈلز کو اجاگر کرنا جو حقیقی اسلام، دین فطرت کی تعلیمات سے دور ہیں۔
- ہفتم: عورتوں کے ساتھ تعامل میں بعض ایسی رسوم و رواج کا غالب آجانا کہ جن کا تعلق اسلامی تعلیمات سے بالکل بھی نہیں ہوتا۔
- ہشتم: ورچوئل دنیا کے ذریعے سوشل میڈیا کے حق میں غیر شعوری (دلی اور ذہنی) کشادگی۔
اس بات کی تصدیق مذکورہ مغربی پالیسیوں کو اپنانے کے بعد روسیوں اور امریکیوں کے اپنے معاشروں کے بیان سے ہوتی ہے۔ اپنی کتاب (Perestroika) میں روسی میخائل گورباچوف کہتے ہیں: ’’خواتین کے پاس اب گھر میں اپنے روزمرہ کے فرائض انجام دینے اور بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں ہے۔ ہم نے تحقیق کی ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کے رویے، ہمارے حوصلے، ہماری ثقافت اور پیداوار میں ہمارے بہت سے مسائل جزوی طور پر خاندانی تعلقات کی خرابی اور خاندانی ذمہ داریوں کے بارے میں سست روی کی وجہ سے ہیں۔‘‘
سابق امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر کہتے ہیں: ’’سماجی فحش نگاری نے ہمارے لیے غیر ذمہ دار نسلیں پیدا کی ہیں جو جرائم کی طرف مائل ہیں۔ امریکہ میں ہر پانچ منٹ میں تین جرائم ہوتے ہیں (ایک قتل، ایک ڈکیتی، اور ایک عصمت دری)۔ آج جرم ہمیں مہنگا پڑتا ہے۔ ہم جرائم کا مقابلہ کرنے پر سالانہ 80 بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کرتے ہیں، اور دولت کے غلط استعمال اور سماجی بدعنوانی میں اربوں کا اضافہ کرتے ہیں، لیکن موت اور انسانی زندگی کی تباہی میں انسانی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
اصل ماخذ کی طرف رجوع:
مغربی تہذیب و ثقافت کے پھیلائے ہوئے اس زہر اور اس کے اثرات کا علاج درج ذیل ہے:
اول: سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا کہ اسلام میں عورت کا مقام کیا ہے؟ خدائے تعالیٰ نے خواتین کو بہت زیادہ عزت دی ہے اور تاریخ نے اسلام جیسا کوئی مذہب یا قانون نہیں دیکھا جس نے عورت کو اتنا بڑا مرتبہ دیا ہو۔ خدائے تعالیٰ نے اس کے مقام و مرتبہ کو محفوظ رکھا، اس کی قدر کی، اس کو عزت دی، اس پر بہت توجہ دی، اور اسے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے} (النساء: 1)۔
اسلام میں عورت ماں، بہن، بیٹی، خالہ، دادی اور بیوی ہے، زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں مرد کی ساتھی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مرد کے ساتھ زمین پر جانشینی اور خلافت کا مشن سونپا ہے۔ بچوں کی پرورش اور ان کی بہترین طریقے سے تربیت کرنے، اور عزت تکریم کے حوالے سے اللہ نے اسے مردوں کے برابر بنایا ہے۔ جب کہ زمانہ جاہلیت میں اسے سب سے اہم حق یعنی زندہ رہنے تک کا حق اس سے چھین لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔) (الاحزاب: 35)۔
اسلام ہی ہے جس نے عورت کو ماں کے طور پر عزت دی اور بیٹے کو سکھایا کہ خدا کی مخلوق میں سب سے زیادہ حقدارماں ہے تاکہ وہ اس کی تعظیم کرے، اس کی توقیر کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اور فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ سے استفسار کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری ماں)، اس نے فرمایا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری ماں)، اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر تمہاری ماں)، اس نے پوچھا: یا رسول اللہ پھر کون؟ فرمایا: ( تیرا باپ)۔ رواہُ مسلم۔
اسلام نے عورت کو بطور بہن بہت توقیر کی، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورتیں مردوں کی بہنیں ہیں) اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ اسے بیٹی کے عزت دی۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ فرمایا) رواہُ مسلم۔
اسلام شوہر کو سکھاتا ہے کہ اچھی بیوی اس پر خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا بہترین اور لذت سے بھر پور ہے، اور دنیا کی سب سے پُر لطف چیز نیک بیوی ہے۔) رواہُ مسلم
دوم: اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، اسلام نے عورتوں کو وراثت کا حق دیا ہے: "مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے” (النساء: 7)۔
اسلام عورت کے ازدواجی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اسے حق حاصل ہے کہ وہ کسی مدعی ( پیغامِ نکاح بھیجنے والا) کے پیغام کو قبول کرے یا اسے مسترد کر دے، اور یہ جائز نہیں ہے کہ اسے کسی ایسے شخص سے شادی کرنے پر مجبور کیا جائے جسے وہ نہ چاہتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے اور کنواری عورت سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے۔‘‘ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ، یہ کیسے جان لیا جائے کہ اس نے اجازت دے دی؟ فرمایا: جب وہ خاموشی اختیار کرے۔ (متفقٌ علیہ)
عورت سے نکاح کرتے وقت مہر واجب کر دیا ہے اور اسے عورت کی ملکیت قرار دیا ہے، عورت اور اس کے شوہر کے درمیان رشتے کی بنیاد حسن سلوک اور باہمی رفاقت کو بنایا اور بیوی کے نفقہ کو شوہر پر واجب قرار دیا ہے۔
تیسرا: عورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہے؛ جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے عورتوں کے معاملے میں اللہ کے رسولؐ نے تمام عمر رحمت، شفقت اور حسن سلوک سے کام لیا ہے۔ انہوں نے حجۃ الوداع کے موقعے پر ارشاد فرمایا:
(عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری مددگار ہیں جو اپنے لیے کچھ نہیں رکھتیں، ہم نے انہیں صرف اللہ کی امانت سمجھ کر لیا ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلام سے حلال کیا، پس اے لوگو، میری بات پر دھیان دو۔) رواهُ الترمذی وغیرہ۔
عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک ایک نیا تصور تھا جس سے عرب ابھی تک واقف نہیں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو یہودی وہاں موجود تھے، ان کے ہاں اگر کوئی عورت حائضہ ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھانا پینا نہیں کرتے تھے، نہ خواب گاہوں میں اس کے ساتھ رہتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کا توڑ کس طرح کیا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا عورت اپنے شوہر کے ساتھ حیض کی حالت میں کھانا کھا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتے جب میں حیض کی حالت میں ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتن لے کر مجھے اس میں تقسیم کر دیتے اور میں اس میں سے اپنی ضرورت کے بقدر لیتی پھر اسے نیچے رکھ دیتی اور پھر وہ برتن کو اٹھاتے اور اس پر اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے رکھا ہوتا تھا۔ پھر اس میں سے تقسیم کرتے۔ یہ امام نسائی کی روایت ہے اور صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد میں اس کے قریب قریب عبارت موجود ہے۔
بات کھانے پینے سے بڑھ کر پیار، محبت، نفسانی اور قلبی لگاؤ تک جا پہنچی، آشنائی اور لذت، عورت کو تسلی دینا، اور اسے احساس دلانا کہ وہ محبوب اور مطلوب ہے۔ ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیمہ میں تھی، جب مجھے حیض آیا اور باہر نکل گئی، تو میں نے اپنے حیض کے کپڑے لے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ کیا آپ حائضہ ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، تو وہ میرے ساتھ خیمے (غسل خانہ) میں داخل ہوئے۔ تو میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بوسہ لیتے تھے جبکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔ رواہُ بخاری۔
یہ اللہ کے رسول ہیں صلی اللہ علیہ وسلم، جو اپنی بیوی کے بہت قریب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی صحبت میں رہتے ہیں، ان کے دل کو خوش کرتے ہیں، ان سے قرآن سنتے جب وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میں حیض کی حالت میں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ رواہُ بخاری۔ یہ اس بات کی مثالیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ کس طرح کا بہترین سلوک کیا، جس میں آپ نے ان کی نفسیات اور احساسات کو مدنظر رکھا، اور ان کے ساتھ نرمی اور ہمدردی سے پیش آئے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک فارسی پڑوسی تھا جو بہترین کھانا بناتا تھا، اس نے کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بنایا اور پھر انہیں دعوت دینے گھر آیا۔ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ کی طرف اشارہ کرکے کہا: اور یہ؟ اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا۔ پھر اس نے انہیں دوبارہ بلایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : اور یہ؟ اس نے کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر اس نے انہیں تیسری مرتبہ بلایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یہ؟ اس نے کہا: ہاں، تو وہ ایک دوسرے کے کھیلتے رہے یہاں تک کہ اس کے گھر پہنچے۔
یہ ہیں خدا کے رسول – صلی اللّٰہ علیہ وسلم – انہوں نے اکیلے دعوت قبول کرنے سے انکار کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دعوت دینے والے کا کھانا لذیذ ہے اور اس کی بیوی کو یہ کھانا پسند ہے، اس لیے انہوں نے تنہا جانے اور اسے گھر پر اکیلا چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اور دعوت کو ٹھکرادیا یہاں تک کہ اس شخص نے اسے ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی، چنانچہ وہ راضی ہو گئے۔ تو کیا کسی نے اس طرح کسی عظیم ہستی کو اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح محبت کرتے دیکھا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب عمرو بن العاص نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا: "آپ علیہ السلام کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟” انہوں نے جواب دیا: عائشہ رضی اللہ عنھا۔ صحیح ابن ماجہ۔
بخاری اور مسلم کی روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفروں میں نکلے، یہاں تک کہ جب ہم البیضاء میں تھے یا لشکر میں تھے تو میرا ہار گُم ہوگیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے کہنے پر ٹھہرے اور لوگ آپ کے پاس ٹھہرے لیکن وہ پانی پر نہیں تھے اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : "کیا تم دیکھتے نہیں کہ عائشہ نے کیا کیا؟” وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ والے لوگوں کے ساتھ رہی، وہ پانی پر نہیں تھے اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو میری ران پر سر رکھے ہوئے سو رہے تھے، تو انہوں نے کہا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کر بند کر رکھا ہے جب کہ لوگوں کے پاس پانی نہیں ہے۔، "پھر اس نے مجھے ملامت کرنی شروع کی،’ اور مجھے اپنے ہاتھ سے پہلو میں گھونپنا شروع کر دیا، جبکہ رسول اللہ برابر سو رہے تھے ۔ سوتے رہے۔ آخر کار رسول اللہ جاگ گئے پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کے بارے میں آیت نازل فرمائی تو انہوں نے تیمم کیا، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اے ابوبکر کے گھر والو، تمہاری پہلی برکت کیا ہے ؟” عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : چنانچہ ہم نے اونٹ کو اپنی جگہ سے اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔ بخاری
یہ ہیں، خدا کے رسول، اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ٹھہرے رہے، اس کے لیے ایک ہار ڈھونڈ رہے ہیں جو اس نے اپنی بہن اسماء سے ادھار لیا تھا، اور وہ اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تلاش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اس قدر نرم دلی اور حساسیت۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ صفیہ رضی اللہ عنھا ان کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اپنے اونٹ پر سوار تھے، جب وہ کچھ دور گئے تو اونٹ کو ٹھوکر لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اور وہ گر گئے، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھاگتا ہوا ان کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے نبی، ہماری جان آپ پر فدا آپ کو کچھ ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ تم اس عورت کو دیکھو اور اس کی خبر لو۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا ان کے چہرے پر ڈالا، وہ ان کی طرف بڑھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا ان پر ڈال دیا، اور وہ عورت اٹھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو ان کے آگے کیا، تو وہ سوار ہو گئے، اور وہ چلتے رہے یہاں تک کہ جب وہ مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے کہنے لگے: وہ توبہ کرنے والے، ہمارے رب کی عبادت کرنے والے قابل تعریف ہیں، اے ہمارے رب، وہ حمد کرتے ہیں۔ وہ یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔‘‘ رواہُ بخاری
یہ ہیں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ابو طلحہ کو ہدایت کی کہ پہلے صفیہ کی دیکھ بھال کریں اور ان کے بڑھاپے اور بھاری جسم کے باوجود انہیں تنہا چھوڑ دیں، پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال دیا تاکہ صفیہ کے زمین پر ہوتے ہوئے انہیں کچھ نظر نہ آئے، وہ ان کی طرف بڑھے اور اپنا کپڑا ان پر ڈال دیا تاکہ اسے ڈھانپیں یہاں تک کہ وہ اپنی حالت بہتر کر کے زمین سے اٹھیں۔
ہم خواتین کے تئیں رسول اللہ کے نرم جذبات کو ہمیشہ دیکھتے ہیں، رسول اللہ کا خواتین کے ساتھ برتاؤ ان کی نفسیات، ان کی فطرت اور ان کے دلی کیفیات کو سمجھنے پر مبنی تھا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج کے ساتھ تھے، تو صحابہ کی ماؤں میں سے ایک نے ایک کھانے سے بھرا ایک برتن بھیجا، چنانچہ وہ عورت جس کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اس نے خادم کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور پلیٹ گر کر ٹوٹ گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمع ہو گئے۔ پلیٹ توڑ دی. ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پلیٹ کو جمع کیا، پھر تھالی میں جو کھانا تھا اسے جمع کرنے لگے۔ اور فرمایا: تمہاری ماں تمہیں روئے۔ پھر اس نے نوکر کو قید کر لیا یہاں تک کہ وہ جس کے گھر میں تھا اس سے ایک پلیٹ لے آیا، چنانچہ جس کی پلیٹ ٹوٹی ہوئی تھی اسے اچھی اور معیاری پلیٹ دے دی اور جس کی پلیٹ ٹوٹی ہوئی تھی اس کے گھر میں رکھ آئے” رواہُ بخاری۔
اگر ہم میں سے کسی کی بیوی ایسا کرے تو کیا وہ اسے طلاق دے دے گا یا مارے گا؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کیا اور عائشہ کی پلیٹ ام سلمہ کو اور ام سلمہ کی پلیٹ عائشہ کو دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریح کے لیے اپنی جوان بیوی کی ضرورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جب کہ میری دو سہیلیاں بعثت کا گانا گا رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا منہ دوسری جانب کر لیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا: شیطان کی بانسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور فرمایا: انہیں چھوڑ دو، جب وہ سو گئے نے تو میں نے ان کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: عید کے دن نیزہ بازی کا کھیل چل رہا تھا، تو میں نے اس بارے میں جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی: ہاں۔ تو انہوں نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر دیا، میرے گال ان کی شانوں پر تھے۔ میں لگاتار دیکھتی رہی، یہاں تک کہ جب میرا دل بھر گیا تو انہوں نے کہا: کیا یہ تمہارے لیے کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تو پھر جاؤ، رواہ بخاری
یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو اسے پاکیزہ گانے سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دے رہے ہیں اور اسے نیزہ بازی کا لطف لینے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ پیار اور محبت سے ان کے پیچھے کھڑی ہیں، اپنے گال ان کے شانوں پر رکھے ہوئے تماشا دیکھ رہی ہیں جب کہ رسول اللہ ان کے لئے برابر کھڑے ہیں یہاں تک کہ وہ خوب سیر ہوکر بوریت محسوس نہ کریں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک یا خیبر سے تشریف لائے اور جب وہ سو رہے تھے تو ہوا چلی جس سے پردے کا ایک پہلو سرک گیا اور اس کے پیچھے کچھ کھلونے تھے وہ ظاہر ہوگیے، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عائشہ سے کہا: عائشہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میری بیٹیاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان ایک گھوڑا دیکھا جس کے دو پَر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میں ان کے درمیان کیا دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا: ایک گھوڑی۔ اس نے کہا: یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟ اس نے کہا: دو پَر۔ فرمایا: دو پروں والا گھوڑا؟ اس نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پروں والے گھوڑے تھے؟ چنانچہ فرماتی ہیں: میری اس بات پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم برابر ہنستے رہے یہاں تک کہ ان کے جبڑے ظاہر ہوگئے۔ رواہُ ابو داؤد
اور انہی سے مروی ہے کہ: "میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، اور میری سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔ اتنے میں اللہ کے رسول داخل ہوئے، تو میری سہیلیاں ان سے چھپنے لگیں تو رسول اللہ انہیں ایک ایک کرکے چپکے سے میرے پاس لے آئے تاکہ وہ میرے ساتھ کھیلیں” رواہُ بخاری۔
یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ عل وسلم جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہنستے کھیلتے، انہیں تسلی دیتے، اور ان کی سہیلیوں کو اس کے پاس جانے اور اس کے کھلونوں سے کھیلنے کی ترغیب دیتے تھے، اس کی عمر کا لحاظ کرتےاوراس کی تفریح کی ضرورتوں کا خیال کرتے تھے۔
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کو فرد کی بھلائی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سے بہترین ہوں۔” رواہُ الترمذی
اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے خواتین کی خدمت کی، ان کی معاونت کی، انہیں محبت اور عزت دی، اور ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا اور ان کی نفسیاتی اور روحانی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تفریح کی۔ اس سب کی بنیاد رحمت، راستبازی، نیکی، پیار اور محبت پر تھی، نہ کہ غلبہ، جبر اور غصے پر۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خاتون کو نہیں مارا، نہ کسی کی توہین کی، اور نہ کبھی زیادتی کی۔
فرانسیسی سماجی ماہر نفسیات گستاف لوبون اپنی کتاب Civilization of the Arabs میں لکھتے ہیں: "اسلام کی بڑائی کا باعث صرف عورتوں کے درجات کو بلند کرنے تک محدود نہیں تھی، بلکہ یہ پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کے درجے کو بلند کیا ہے۔”
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين.