مسجد فرد اور معاشرے کی تربیت گاہ ہے، لہٰذا مسجد کے قائدانہ کردار کی بازیافت کیسے ہو؟
فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مسجد کا کردار سب سے اہم اور بنیادی ہے۔ مسجد کو اسلامی سماج کے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے۔ مسجد فرد اور معاشرے کی تربیت کی پہلی نرسری ہے۔ یہی وجہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے موقعے پر قُبا میں عمرو بن عوف کے قبیلے پہنچے تو وہاں تب تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک نہ مسجد کی تعمیر عمل میں لائی۔ جو کہ فرد اور معاشرے کی تعمیر کیلئے اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا اور قدیم ستون ہے۔
اس عظیم ستون کی تعمیر کے ذریعے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صفوں کو ایک برادرانہ سماجی ڈھانچے میں جوڑنا چاہا، جس میں وہ اس ابھرتی ہوئی تحریک کے افراد کی تعلیم و تربیت کا بندوست کرسکیں اور انہیں منظم و متحد کر سکیں۔ اس کی تعمیر کے پیچھے رسول اللہ کا مقصد حصولِ علم اور تربیت کو آسان اور موثر بنانا تھا۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی اور عظیم جماعت کی تربیت کرنے کی صورت میں عملاً ایسا ہی ہوا۔
اسلام میں مسجد کا مقام و مرتبہ:
اسلام میں مسجد کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے جیسا کہ قرآن نے اسے واضح کیا ہے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کو اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ (اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز سے غافل نہیں کرتی) [النور: 36-37]۔
مساجد تاریک دنیا میں روشنی کا مینار ہیں اور وحشتناک صحرا میں زندگی کا سرچشمہ ہیں۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کو نفع بخش اور باوقار زندگی کے لیے تیار کرتی ہیں، انہیں تقویٰ اور پاکیزگی اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہیں اور ان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ جسمانی اور روحانی طہارت کیے بنا اس میں داخل نہ ہوں۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ مسجد کی تعمیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، (جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عباد ت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔” [توبہ: 108]۔
ایک مسلمان کا باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے، دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سننے کیلئے جانا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر یقین رکھتے ہیں۔) [التوبہ: 18]۔
اور اللہ تعالیٰ، جو کہ ہر چیز کا مالک ہے، مساجد کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کے لئے خاص ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح بندوں پر اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو) [الجن: 18]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں کی اس عظیم حیثیت کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کی باجماعت نماز اس کے گھر یا بازار کی نماز پر پچیس درجہ افضل ہے۔ جو شخص اچھی طرح وضو کرکے مسجد چلا جائے اور سوائے نماز پڑھنے کے اور اسے کوئی کام نہ ہو، اس کے ہر قدم کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس سے ایک گناہ مٹاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ پھر جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے۔ تو فرشتے اس کے حق میں اللہ سے مانگ رہے ہوتے ہیں کہ اے ہمارے رب، اس پر رحم کر اور اسے معاف فرما، برابر تک تب جب تک وہ اپنی جگہ بیٹھا رہتا ہے۔” [رواہُ بخاری]۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے وعدے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کہ جو کوئی زمین پر اللہ کیلئے گھر بنائے گا یعنی مسجد کی تعمیر کرے گا تو اللہ جنّت میں اس کے لئے گھر بنائے گا۔ چنانچہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کے لئے مسجد تعمیر کرے گا اللہ اس کے لئے جنّت میں ایسا ہی گھر بنائے گا۔ “ (بخاری)۔
مسلم نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک روئے زمین پر سب سے پسندیدہ جگہ مساجد ہیں، جب کہ سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہیں۔” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صبح اور شام کے وقت مسجد (نماز کیلئے) جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے جنت میں اس کیلئے ایک جگہ تیار کر رکھی ہے جس میں وہ صبح و شام آتا جاتا رہے گا” (بخاری و مسلم)
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات قسم کے لوگ ہیں جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ وہ دن جب اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا: عادل امام، وہ نوجوان جو خدا کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو، وہ دو اشخاص جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، وہ شخص جسے ایک اعلیٰ منصب اور جاہ و جلال والی ایک خوبصورت دوشیزہ اپنے نفس کی طرف بلائے لیکن اس نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جس نے صدقہ کیا اور اسے چھپایا حتیٰ کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کی صفائی اور ان کی اچھی دیکھ بھال کی تاکید فرمائی اور اس معاملے میں بڑے ثواب اور اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے انعامات مجھے دکھائے گئے، یہاں تک کہ ایک شخص نے مسجد میں پڑی گندگی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھالیا، اس کے بعد میری امت کے گناہ پیش کیے گیے۔ میں نے اس شخص کے گناہ سے بڑھ کر کوئی گناہ نہ دیکھا جسے اللہ نے قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت عنایت کی تھی لیکن اس نے اسے بُھلا دیا ۔” (داؤد و ترمذی)۔
مساجد کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فرشتے ان میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اسی لئے انہیں ناگوار بدبو سے پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ فرشتوں اور عبادت گزاروں کو ان سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور لہسن کھانے سے منع فرمایا، لیکن جب ہمیں اس کی سخت ضرورت پڑ گئی، تو ہم نے اس میں سے کچھ کھا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس بدبودار درخت کا پھل کھائے گا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی وہی چیزیں اذیت دیتی ہیں جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں مساجد بنانے، ان کو صاف و شفاف رکھنے اور وہاں خوشبو کا اہتمام کرنے کا حکم دیا ہے (ترمذی و ابوداؤد )، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کی حالتِ عذر میں گھر پہ ہی اس جگہ نماز پڑھتے جو کہ نماز کیلئے مخصوص ہوتی تھی- جیسا کہ عتبان بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ کے قصے سے بھی معلوم ہوتا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کے اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مساجد تعمیر کیں۔ ارشاد باری ہے: (اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نما ز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے)۔ اس لیے کہ یہ پاکیزہ جگہیں (مساجد) ان کے لیے سب کچھ تھیں، انہی میں وہ نماز پڑھتے تھے، یہی ان کی درسگاہیں تھیں، ادباء اور شعراء یہیں پر ملاقاتیں کرتے، یہی مساجد بیماروں اور زخمیوں کے علاج کے مراکز تھے جہاں ان کا مداوا ہوتا، اور اللہ سے معافی کے طلبگار بھی انہی مساجد کی طرف رجوع کرتے۔
فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت میں مسجد کا کردار:
مسجد فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مذہبی اور تہذیبی و ثقافتی بیداری پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اور ایک اچھی نسل کی تعمیر و نشونما میں مدد کرتی ہے اور انہیں ایک بہترین اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے قابل بناتی ہے۔ معاشرے کی تعمیر کے سلسلے میں مسجد کا کردار درج ذیل ہے:
خدا اور یوم آخرت پر ایمان لانے کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کرنا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر یقین رکھتے ہیں) [التوبہ: 18]۔
لوگوں کو دین کی تعلیم دینا اور انہیں اس کی سمجھ بوجھ عطا کرنا : مسجد کے علاوہ کوئی بھی ایسی مناسب جگہ نہیں ہے جہاں پر ہر شخص اپنے دین کی تعلیم حاصل کرسکتا ہو، لہٰذا مساجد کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں آنے والے لوگوں کو سکھائیں کہ ان کے حقوق اور واجبات کیا ہیں۔ مثلا عبادات، معاملات، تعلقات اور حقوق۔
اخلاقی تربیت : مسجد ہر اس جھوٹ، لغو اور جھگڑے سے پاک ہے جس سے نمازیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اسی لیے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مساجد کے احترام اور ان کی حرمت کی تاکید کی گئی ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کے اخلاق کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے: “جو شخص کسی فرد کو مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے، تو وہ کہے: خدا تمہیں یہ چیز کبھی نہ لوٹائے، کیونکہ مسجدیں اس کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘ (مسلم)
سماج کی تربیت: اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج کی بہتر تربیت کے حوالے سے مساجد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے جو انہیں سماج کے باقی تمام اداروں سے ممیز کرتی ہے۔ یہ سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو دن میں پانچ بار اکٹھا کرتی ہے، جس میں ایک بچہ اپنے پڑوسیوں، ہمسائیوں اور علاقے میں رہنے والے اپنے ہم عمر ساتھیوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اچھی صحبت میں گھل مل جانے کی عادت ڈالتا ہے، اور یہی حال بڑی عمر والوں کا بھی ہے۔
مسجد بطورِ دانشگاہ: ایک ایسی جگہ جہاں قابل اور ذہین لوگ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مختلف تعلیمی مراحل سے گزرنے کے بعد فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ قرآن کے نزول کی حکمت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ اس کے پیچھے یہ حکمت کار فرما تھی کہ لوگ ساتھ ساتھ ان احکام پر عمل کر سکیں۔ اگر اس کے برعکس قرآن ایک ہی وقت میں نازل ہوتا تو ان کے لئے ایک ہی وقت میں متفرق احکام پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے۔ ) [الاسراء: 106]۔
مسجد بطورِ دار الافتاء اور دار القضاء: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھتے تھے اور وہ آپ سے سوال کرتے تھے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسجد میں تھے تو ایک شخص نے آپ سے مُحرِم (احرام پہنا ہُوا شخص) کیلئے میقات کے احکام کے بارے میں استفسار کیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا، پھر خلفاء راشدین بھی مسجد میں فتوے دیتے اور لوگوں کے درمیان فیصلے بھی کرتے، تو اس طرح مساجد بیک وقت دار الافتاء بھی ہوا کرتیں اور دار القضاء بھی۔
مسجد بطورِ گھڑ سواری سکھانے کی تربیت گاہ: رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مسجد ان کی دعوت کی گواہ ہے کہ خدا کے رسول نے انہیں جہاد کیلئے یہیں تیار کیا، یہاں ہی ان کی تربیت کی- اور یہیں سے وہ روانہ ہوئے اور ترتیب دیے گئے، یہاں تک کہ اس نے اسلام کے کچھ سپاہیوں کو ہتھیاروں کی تربیت دینے کی اجازت دی، جب کہ وہ ان پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی اجازت دے دی کہ وہ پیچھے سے ان پر نظر رکھے، اور جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو انہیں ڈانٹا اور روکنے کی کوشش کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں چھوڑ دیں۔
مشاورت اور شوریٰ کی جگہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اندر اہم امور اور معاملات میں اپنے صحابہ سے مشورہ کرتے تھے، یہاں تک کہ واقعۂ افک کے حوالے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مسجد نبوی میں ہی مشورہ کیا تھا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حمد و ثناء بیان کر کے لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ نہیں دیتے جو میرے گھر والوں کی کردار کُشی کرنے میں مشغول ہیں جب کہ میں نے کبھی بھی ان کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی۔” (بخاری و مسلم)
مسجد بطورِ وفود کے استقبال اور ان سے گفت و شنید کا مرکز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف وفود کے آنے جانے میں اضافہ ہوتا گیا، خاص طور پر فتحِ مکہ کے بعد، بنو ثقیف کے اسلام قبول کرنے، اور تبوک سے رخصت ہونے کے بعد، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے استقبال کے لیے مسجد کے علاوہ کوئی جگہ نہیں تھی۔
بچوں کی تربیت: مساجد کی اہمیت صرف بڑوں تک محدود نہیں، بلکہ مسلم معاشرے کے نونہالوں کے لیے بھی اس کی اہمیت برابر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی پرورش پر زور دیا کہ ان کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ مساجد سے محبت کرنے لگیں اور یہ کہ انہیں مسجد اپنے ساتھ ساتھ لے جائیں تاکہ وہ اس کی وسعت میں پرورش پائیں، اور ان کی روحیں سنور جائیں، ان کے اذہان صاف و پاک ہو جائیں، اور ان کا تزکیہ ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کو مارو پیٹو(اگر وہ نماز نہ پڑھیں) اور ان کے بستر الگ کرو) (ابو داؤد۔ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو مسجد آنے سے کبھی نہیں روکا- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین رضی اللہ عنھما ان کی پیٹھ کے اوپر سوار ہوگئے اور جب وہ اپنا سر اٹھانے لگے تو اپنا ہاتھ آرام سے پیچھے لے جاتے اور انہیں ایک ایک کرکے آہستہ نیچے رکھتے” اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنی رانوں پر رکھا۔” (احمد و حاکم)۔
مساجد کے قائدانہ کردار کو کیسے بحال کیا جائے؟
اسلام میں مسجد کے کردار کو تعلیمی اور تربیتی اقدامات اور بہتر طریقۂ کار کے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے، جن میں سے بعض یہ ہیں:
مسجد کے تعلیمی و تربیتی پہلو پر توجہ دینا: مسلمان افراد کو تعلیم دینے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دینا، نیز ایسے تعلیمی، ثقافتی اور سماجی پروگراموں کا انعقاد کرنا جو مسلم کمیونٹی کی دینی اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔
کمیونٹی کی شرکت: سماج کا ہر فرد مساجد کی مدد اور ان کے لیے ضروری وسائل مہیا کرنے میں دلچسپی رکھنے والا ہو۔ بشمول خیراتی تنظیموں کے تعاون کے ذریعے۔
حفظ قرآن اور شرعی علوم کے حلقوں کا قیام: ان حلقات کا قیام بڑوں اور چھوٹوں دونوں کیلئے یکساں مفید ہے، کیونکہ بہت سے علماء و مشائخ ان ہی حلقات سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔
مقابلوں کا انعقاد: ان خاص مقامات پر علمی اور ثقافتی مقابلوں کا انعقاد ممکن بنانا، تاکہ طلباء کو سیکھنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا بھرپور موقع ملے۔
مختلف سماجی اور خدمتِ خلق کے پروگراموں کا انعقاد: ضرورت مندوں کی امداد کرنے اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے مقصد سے مختلف پروگراموں کا انعقاد عمل میں لانا۔
مسجد میں تعلیمی نصاب تیار کرنا: ایسا تعلیمی نصاب تشکیل دینا جو وقت کے تقاضوں اور معاشرے کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جس میں اچھے اسلامی اقدار، اچھے اخلاق اور زندگی کے لیے ضروری بھی شامل ہو۔
جدید ذرائع (Tools) کا استعمال: یہ تقریروں اور کلاسز میں استاد اور طالب علم کے درمیان تعامل کو بڑھانے اور سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے۔
ائمہ و مبلغین کی تیاری اور انہیں اہل بنانا: ائمہ و مبلغین کیلئے ایسے تعلیمی و تربیتی پروگرام ترتیب دینا تاکہ وہ اپنے عہدے کے مطابق اچھی مہارت اور بہتر تجربہ حاصل کر سکیں۔
حلقۂ خواتین کا قیام: مسجد سے منسلک یا اس کے قریب ان حلقات کا قیام عمل میں لانا تاکہ خواتین کو دنیوی اور آخروی دونوں اعتبار سے فائدہ ہو، جہاں وہ اپنے دین کے معاملات سیکھیں گی اور سماجی معاملات و مسائل سے بھی آگاہ رہیں گی۔
علمی دروس کا انعقاد کرنا: نماز کے بعد، یا جمعہ کے دن مختلف اور مناسب اوقات میں دروس کا اہتمام کیا جائے تاکہ لوگوں کو ان کے دین کے بارے میں واقفیت دی جائے نیز ان کے مختلف مسائل اور سوالات کو ایڈریس کیا جائے۔
محتاج اور ضرورت مندوں کے لیے عطیات اور خیرات جمع کرنا: اس کا مطلب پڑوس میں رہنے والے غریب اور حاجت مندوں کی مسلسل مالی امداد کرنا ہے ، اس کے علاوہ ان ضرورت مندوں کا بھی خیال کرنا جو باہر رہتے ہوں۔
بچوں کو کثرت کے ساتھ مسجد جانے کی عادت ڈالنا: خاص طور پر وہ بچے جو سمجھ بوجھ کی سطح کو پہنچ چکے ہوں، انہیں ساتھ مسجد کے آداب بھی سکھائے جائیں، سلف صالحین کے عہد میں سمجھدار اور ناسمجھ بچے دونوں کثرت سے مسجد آتے تھے، اور بچوں کو اس بہانے خدا کے گھروں سے دور نہ کیا جاتا کہ وہ نمازیوں کو تنگ کرتے ہیں اور انہیں پریشان کرتے ہیں یا ان کے خشوع وخضوع میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مسجد میں لائبریری کا قیام:ممتاز اہل علم کی نگرانی میں مطالبے پر کتاب لینے اور پھر پڑھنے کیلئے دی جائیں، بشرطیکہ ان میں شرعی علوم اور سائنسی اسباق پر مبنی اسباق شامل ہوں۔
ائمہ اور مبلغین کا تقرر جو عالم بھی ہوں اور صالح بھی: یہ مساجد کے کردار کو بحال کرنے میں ایک اہم عنصر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “خدا کی کتاب سے سب سے زیادہ واقف لوگوں کو لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔” (مسلم)
اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام اسے روحانی اور مادی رہنمائی کا ذریعہ بناتا ہے، یہ بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک علمی دانشگاہ اور ادب کا مرکز ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں روحیں پگھل جاتی ہیں، جہاں مختلف مراتب کے لوگ جمع ہوکر خود غرضی، تکبر اور خواہشات کی آلائشوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔ پھر خالص اور پاک ہوکر اللہ کی بندگی کے نتیجے میں آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔
مصادر ومراجع:
ابن كثير: البداية والنهاية 3/209.
د. فرغلي جاد أحمد: الدور التربوي للمسجد، ص143-144.
الندوة العالمية للشباب الإسلامي: كتاب الإسلام والحضارة ودور الشباب المسلم، ص 513.
ابن حجر العسقلاني: الإصابة في معرفة الصحابة 1/143.
د. بدر عبد الحميد هميسه: تنبيه العابد إلى فضل المساجد
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ