تکبر مذہبیت ایک مہلک بیماری اور ہمہ گیر شر ہے۔ اگر تمام انسانوں کو تکبر کی برائی سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو تو پھر داعیانِ دین اور مربیین کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس سے دور رہیں، کیونکہ اکثر صورتوں میں اس کا علاج ایک مشکل عمل ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات فرد اور جماعت دونوں پر مرتب ہوتے ہیں، اوراس میں مبتلا ہونے والا فرد شیطانی صفات اختیار کرتا ہے۔ جس کے اندر خود پسندی اور غرور کا زہر بھر دیا گیا ہو، وہ اندر ہی اندر پھولتا رہتا ہے، اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے اور اوپر سے جھوٹی عاجزی کا دکھاوا بھی کرتا ہے۔ پھرلوگ اس کی جھوٹی تعریفیں شروع کرتے ہیں اور اس کی حد سے زیادہ چاپلوسی کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت یا اس کی اطاعت کا شوق وہ نعمت ہے جس کی توفیق ان لوگوں کو ملتی ہے جو اس پر اِتراتے نہیں ہیں، اور جو لوگ اس کے حصول پر تفاخر کرتے ہیں، وہ پھر شیطان کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ وہ نہ اطاعت میں کامیاب ہوتے ہیں اور نہ دنیا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اصل دینداری تو وہ ہے کہ جس سے نفس کے اندر پاکیزگی پیدا ہو اور ظاہر وباطن دونوں کی تطہیر ہو۔ جب کہ ناقص مذہبیت وہ ذہنی ساخت ہے جس میں ایک فرد دوسروں پر اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے۔
دینی تکبر کا تصور اور اس کے اسباب:
بعض لوگ دینی تکبر کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ایک دیندار شخص جو اسلام کے احکام پر کاربند ہو یا کسی اسلامی اجتماعیت سے عملاََ وابستہ ہو اور وہ یہ سوچ رکھتا ہو کہ وہ دوسرے لوگوں سے افضل ہے، اور ان لوگوں سے بہتر جو اس کی نظر میں مذہبی نہیں ہیں اور راہ حق وہدایت سے دور ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ جو لوگ دوسری جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا سرے سے کسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں وہ بھی اس شخص سے کم تر ہیں۔
غرور کے لغوی معنی:
لفظ غرور مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے، "غر یغر”۔ یعنی جو کمی پر دلالت کرتا ہے، اور اس سے مراد عقل میں کمی ہے۔ ابن منظور نے کہا: غر یغر: یعنی اس نے اسے دھوکہ دیا اور اسے دھوکے سے پھنسایا۔
اصطلاحی لحاظ سے اس لفظ کی تعریف علامہ جرجانی نے یوں کی ہے: نفس کو اس چیز سے تسکین دینا جو اسکی خواہشات کے مطابق ہو، اور الکفوی نے کہا: غلط کومزّین کرکے صحیح بنانا۔
جو افراد یا گروہ تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل تربیتی، علمی اور طرزعمل کی وجوہات شامل ہیں:
- ایسی خاندانی تربیت جس کی بنیاد لوگوں پر برتری کے احساس پر ہو یا ان سے ارفع ہونے پر ہو۔ یہ سوچ اس صورت میں مزید پختہ ہوجاتی ہے جب اس کے ساتھ فرد کا حسب ونسب اور نسلی تعصب بھی شامل ہو۔
- ایسی کمزور ایمانی تربیت اوراسلامی تصورات اور الٰہی قوانین میں فہم کی کمی، جو داعی کو اس کے رب کی عبادت کی حقیقت سے نہیں جوڑتی۔
- پختگی پیدا ہونے سے پہلے عمل میں عجلت دکھانا اور احوالِ عمل اورعمل کرنے والوں کی مکمل تربیت نہ کرنا۔ روحانی تربیت کے مرحلے میں تشکیل اور تیاری کے مراحل سے نہ گزرنا اور خدائے قادر مطلق کا خوف اور اس کی نگرانی کا احساس نہ کرنا۔
- نفس کی نگرانی نہ کرنا، جائزہ نہ لینا اور محاسبہ کرنے میں کوتاہی کرنا، اس کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں حق اور باطل کی تمیز نہ کرنا۔ (یہ سب چیزیں) بالآخر انسان کو غرورکی طرف لے جاتی ہیں۔
- ٹھوس علم کی کمی اور مطلوبہ معیار کا علم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے کچھ داعیان دین اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کے متعلق فتوے دیں جن کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتے۔ پس اگر داعی کے پاس صحیح اہلیت اور صلاحیت ہو اور اس کا دل ودماغ علم سے منور ہو تو وہ ہرگز تکبر میں نہ آئے گا۔
- داعی کا دعوت کے مزاج سے ناواقف ہونا، دعوت کے منہج کو نہ سمجھنا، اورعمل صالح کے ساتھ اس کے تعلق کو نہ سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق: "اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ (فصلت: ۳۳)
- ایک ایسے پڑھے لکھے باشعور معاشرے کی کمی جو لاغر اور بھاری بھرکم جسامت والوں کی تمیز کرے، تاکہ نرے بولنے والوں کا بول بالا نہ ہو اور مخلص مجاہدین کو پست نہ کر دیا جائے۔
- کسی شخص کی اس کے ماننے والوں کی طرف سے حد سے زیادہ تعظیم اور احترام، اس طرح کہ وہ دیکھتا ہے کہ ہجوم اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آنکھ بند کرکے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں؛ کوئی اس کے سامنے ایک لفظ بھی بولنے کی جرات نہ کرے، نہ اس سے بحث کی جائی، نہ کوئی تنقید کی جائی اور نہ ہی کبھی اس کی کسی بات پر تردید کی جاتی ہے۔
- دین کے بارے میں غلو یا انتہا پسندی کا رویہ، جوبعض لوگوں کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ میانہ روی اپنانے والے لوگوں کو فضول اور حقیر جانیں۔
- سچی توبہ کئے بغیر گناہوں اور برے کاموں کو نظرانداز کرنا اور بھول جانا۔ جس کا میل دل میں جمع ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے اور انہیں زنگ لگ جاتا ہے۔
- میڈیا کچھ داعیوں کو گوشہ گمنامی سے نکال کر منصہ شہرت پر لاتا ہے، ان کو پالش کرتا ہے، اور انہیں لوگوں پر مسلط کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ تکبراور خود پسندی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورحق اور اہل حق پر اپنا رعب داعب جھاڑتے ہیں۔
- دعوت اور دعوتی خدمات پر مامور بعض حکام کی لاپرواہی اور داعیان دین کی علمی اور دعوتی تربیت پر فائز ذمہ داران کی جانب سے غفلت، اور صرف ناکافی امتحانات پر تکیہ کرنا۔ جہاں صرف خانہ پری کی جاتی ہے اور اصل مسائل کو نظر انداز کیا جا تا ہے
- مسلسل تعریف و توصیف وہ چیز ہے جو داعی کو خود پر فخر کرواتی ہے اور نظر ثانی یا نصیحت سے نفرت کرواتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے جا تعریف پر سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: "افسوس تم پر، تو نے اپنے ساتھی کی گردن بار بار کاٹی”۔ (متفق علیہ).
مذہبی تکبر کی علامتیں اور اثرات:
مذہبی تکبرکی بہت ساری علامتیں ہیں جو سب کے سامنے واضح ہیں ان میں یہ یہ شامل ہیں:
- اپنی ذات کی بڑائی: متکبر شخص اپنے آپ کو اپنے ہم عصروں میں سب سے افضل سمجھتا ہے اور یہ کہ وہ ان سے زیادہ مرتبے، فضیلت اور مقام کا حامل ہے اور کوئی اس سے آگے نہیں نکلنا چاہیے۔
- خود پسندی: متکبر داعی اپنے تزکیہ نفس کی مثالیں پیش کرتا ہے، اپنے کاموں کی تعریف کرتا ہے، اپنی کامیابیوں پر فخر کرتا ہے، اور اپنے قول و عمل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
- اترانا اورغلطیوں کو تسلیم نہ کرنا: جہاں وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی اور اس کے خیالات اور اقوال ہی میں کامیابی و کامرانی چھپی ہے اور ان کو مد نظر رکھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وہاں پر اس کی نظر میں اکثریت کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بلکہ اسی کی رائے سب سے بہتر ہے۔
- تحقیر: وہ ان لوگوں کی ناکامی پر خوش ہوتا ہے جو اس کی رائے سے متفق نہیں ہیں، اسی طرح دوسروں کے عیب سن کر، خاص طور پر اپنے ساتھیوں کے، ان کی حقارت، ان کے اعمال کی تحقیر، اور اپنے اعضاء اور زبان سے انہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ہے۔
- تکبر کی وجہ سے فرد، جماعت اور معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے بڑھ کر نفس اسلام پر کاری ضرب پڑتی ہے جس کی بنا پر لوگ دعوت و داعی سے بیزار ہوتے ہیں، داعی ان کی نظروں میں گرجاتے ہیں، لوگ ان سے اور ان کی باتوں سے لاتعلقی اپناتے ہیں، حتیٰ کہ ان سے لڑنا اور ان کے افکار و اعمال کی مخالفت کرنا شروع کرتے ہیں، صرف اسی تکبر کی وجہ سے۔
- متکبر داعیوں سے لوگوں کی نفرت اور ناپسندیدگی کی وجہ سے حامیوں میں کمی ہونا، جس کا نتیجہ دعوت کا کمزور ہونا یا سست پڑجانا ہے۔
- داعيوں کی صفوں میں دراڑیں ڈالنا اور ان پر حملہ کرنے میں آسانی اس لیے ہوتی ہے کیونکہ نفس پرست دیندار مصیبت کے مقابلے میں ثابت قدمی نہیں دکھا سکتے۔
- توفیق اور ہدایت سے محرومی۔ کیونکہ ہدایت صرف اس کو حاصل ہوتی ہے جو اپنے دل کی اصلاح کرے اور اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کرے۔
- قول و فعل میں تضاد، زمینی حقائق اور طریقہ کار کے درمیان دوری، جس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جس کے اجزاء منتشر ہوتے ہیں، جس کی ساخت کمزور ہوتی ہے، جس کا عقیدہ ہلا ہوا ہے اورجس کے دین میں پستی آتی ہے۔
- عمل کی اہمیت گھٹ جاتی ہے، عاجزی اور سستی چھا جاتی ہے، کیونکہ خود پسند داعی سمجھتا ہے کہ اسے کمال حاصل ہوگیا ہے۔
- خود پسندی، اپنی رائے پر ہٹ دھرمی اور جہالت: کیونکہ جو شخص خود پسند ہوتا ہے وہ اصحاب رائے سے مشورہ نہیں کرتا اور نہ ہی عقلمند لوگوں، وہ ثقہ اور مستند علماء جن کے پاس ماضی کا تجربہ ہو، کی رائے سے فیض حاصل کرتا ہے۔
دعوتی تکبر کا علاج کیسے کریں؟
ہر بیماری کا ایک علاج ہوتا ہے لیکن دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کو اس بات کی زیادہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنے قول و فعل اور طرز عمل کا جائزہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت کی روشنی میں لیں۔ تاکہ وہ کامیاب ہوں اور ان کی دعوت بھی ان کے ساتھ کامیاب ہو۔ تکبر دینی کے علاج کے تقاضوں میں یہ چیزیں ہیں۔
- نیت میں خلوص ہو اور خدا کی بے لوث بندگی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ [فاطر: 28]
- داعی اپنی ذات کی حقیقت، اپنے علم کی وسعت اور اپنی حیثیت سے خوب واقف ہوتا ہے: وہ اپنے لیے اس چیز کا دعویٰ نہیں کرتا جو اس کے پاس نہیں ہے، اور وہ اپنے آپ کو اس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جس کا وہ مستحق نہیں ہے۔
- فرد کو چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئے۔ اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے۔
- تزکیہ نفس کے لیے کام کرے، اس کی تعریف کو ناپسند کرے، اپنی حالت اور اعمال سے عدم اطمینان رکھے، نفس کی غفلت پر پکڑ کرے اور اس سے حساب لینے کا عہد کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔ [سورۃ النجم: 32]
- فرد اور جماعت کو چاہیے کہ عہدے سنبھالنے اور منظر عام پر آنے سے پہلے تربیت میں پختگی اور کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ خود پسندی اور غرور کا خطرہ ٹل جائے۔
- دوسروں کی نصیحتیں سننے اوران پر غور کرنے کی عادت ڈالیں، بلکہ بار بار نصیحت طلب کریں، یہاں تک کہ نصیحت سننا آپ کی شخصیت کا جز بن جائے، تاکہ اپنی بیماریوں کا علاج پہلی فرصت میں کر سکیں۔
- داعی کو چاہیے کہ دلوں کی بیماری کے علاج اور تزکیہ نفس کے حوالے سے ایسے علماء، صلحاء اور داعیان حق کی سیرتوں کو دیکھے جو ان امراض کا علاج کرنے میں مشہور ہیں، حتیٰ کہ اپنے وقت کے صالح لوگوں سے بھی مشورہ کرے کہ اپنے نفس کاعلاج کیسے کرسکیں۔
- داعی کا طرزِ عمل یہ ہو کہ اسے ہمیشہ اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ اس نے کیا کہا اور کیا کیا، اور کیا اس میں تکبر آیا؟ بلکہ اسے اپنے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے کہ وہ چھپ کر کیا کرتا ہے کہیں اس کے اندر تکبر یا انا داخل تو نہ ہوئی ہو، یہاں تک کہ شیطان کی چالوں کا راستہ ہی بند ہو جائے۔
- لوگوں کی تعریف کرتے وقت مناسب آداب کا خیال رکھا جائے، تعریف، احترام اور دوسروں کی اطاعت میں اعتدال کا خیال رکھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "اگر آپ میں سے کوئی اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہے تو اس طرح کہے میں فلاں کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں اگر اس کے متعلق یہ صحیح ہے اور میں خدا کے سامنے کسی کو پاک نہیں کرتا۔” (بخاری و مسلم)۔
- داعی کو چاہیے کہ دوسروں کی نصیحت سنے اور کھلے دل سے تعمیری تنقید کو قبول کرے تاکہ وہ عیبوں کو پہلے ہی جان سکے اور بیماری کے آغاز میں ہی اس کا علاج کرسکے۔
- داعی کو چاہیے کہ اپنے اوپر سے تکبر کی چادر کو ہٹائے اور جان لے کہ یہ چادر صرف خدا کو زیب دیتی ہے، جس پر صرف خدا کا دشمن ہی اس کے ساتھ جھگڑتا ہے۔
- مذہبی جماعتوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ داعی تیار کریں اور ان کی مکمل تربیت کریں، ورنہ دعوت کو اندر اور باہر دونوں طرف سے مایوسی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
- داعی ایمان، اچھے اخلاق، مفید علم اور شرعی ثقافت کے ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہے، کیونکہ دعوت ایک تحفہ ہے۔
مذہبی تکبر ایک ایسی آفت ہے جس کے خطرات انفرادی رویے سے آگے بڑھ جاتے ہیں، یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اسلامی میدان میں دعوتی کارکنوں کو لاحق ہوجاتی ہے، جس پر نظر ثانی اور جوابدہی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ دنیا اور آخرت میں فرد کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ شیخ محمد الغزالی نے جب یہ کہا تو بہت صحیح کہا: "ایک چیز جو دین کو سب سے زیادہ خراب کرتی ہے وہ دینداروں کا تکبر ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی محض کسی مذہب کے ساتھ وابستگی نے اسے جنت کی کنجیاں عطا کی ہیں اور اسے جنت کا واحد وارث بنا دیا ہے!” لہٰذا اس مذہبیت کا حامل شخص اپنے اغراض کے حصول کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کرتا ہے، خواہ اس کی اخلاقی قیمت کچھ بھی ہو۔”
حوالہ جات:
- محمد خير موسى: غرورُ التديّن عند الأفراد والجماعات في العمل الإسلامي، 3 يناير 2021.
- إسلام أون لاين: غرور التدين.. آفة تصيب الدعاة.
- شريف عبد العزيز: أمراض على طريق الدعوة (33) الغرور، 5 أكتوبر 2022
- تسنيم الرنتيسي: اختلاط الغرور بعمل الدعاة آفة فتاكة تحبط دعوتهم، 24 فبراير 2015
- محمد بن إبراهيم الحمد: معوقات الهمة العالية، 29 أكتوبر 2014.
- علاء أحمد: الغرور الدعوي.. مرض الداعية الفتاك، 23 أكتوبر 2014.
- محمد الغزالي: قضايا المرأة بين التقاليد الراكدة والوافدة، دار الشروق للنشر والتوزيع، القاهرة، 1999م، صـ 26.