علماء اور دُعاۃ کی زندگی اُمت کے اجتماعی حافظے (Memory) کا حصہ ہے۔ ان کی سیرتوں کا مطالعہ ایک دعوتی ضرورت ہے تاکہ اُس سے رہنمائی اور اعتبار حاصل ہوسکے۔ یہ کام اُمت کی شناخت اور اصل کو گہرا کرنے، اور میراث کے تحفظ میں مدد دیتا ہے۔ یہ کسی بھی داعی کے لیے خیر کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جب وہ راہِ دعوت کے مسافر بنتے ہیں۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فرمایا کرتے تھے: “کانو یعلِّمون ابناءہم المغازی و یقولون: هذه مآثر آبائکم فلا تضیّعوها” یعنی وہ اپنے بچوں کو غزوات کی تعلیم دیتے اور کہتے: ” یہ تمہارے آباء کی میراث ہے، اسے ضائع مت کرنا “۔
صالحین کی سیرتوں اور ان کے واقعات کا مطالعہ دلوں کو زندہ کرتا ہے، غفلت اور قساوت کو زائل کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں کو متوجہ کرتا ہے۔ امام سفیان بن عیینہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ دونوں نے کہا: “عند ذکر الصالحین تتنزل الرحمة” یعنی، جب بھی صالحین کا ذکر کیا جاتا ہے تو رحمت اترتی ہے، کیونکہ اس سے دل خیر کے شوق سے، اسے چاہنے اور اس پر خوش ہونے سے معمور ہو جاتے ہیں۔ اور بلاشبہ انجینئر محمد العصار رحمہ اللہ انہی میں سے ایک تھے۔
ولادت اور شہادت:
انجینئر محمد العصار کا تعلق مصر کے شہر دمنہور (محافظہ البحیرۃ) سے تھا۔ وہ 4 اپریل 1947ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان سادہ مگر تعلیم دوست تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا راستہ تعلیم و علم کے لیے وقف کیا، اور غیر معمولی ذہانت و قابلیت کے ساتھ نمایاں مقام حاصل کیا۔
انہوں نے دعوت کی راہ اس دور میں دیکھی جب وہ اخوان المسلمین میں شامل ہوئے اور ان کے سرگرم اراکین میں شمار ہوئے۔ وہ خصوصاً تربیت (التربیۃ) کے شعبے میں نمایاں رہے، اور نوجوانوں پر ان کی چھاپ نمایاں ہے۔ انہی کی کاوش سے اخوان کی دعوت البحیرۃ میں مضبوط ہوئی۔ ان کے ساتھ استاد محمد دسوقی، استاد محمد سویدان اور انجینئر محسن القویعی شامل تھے۔ ان تینوں کی انفرادی طرز اسلوب تحریک کے نوجوانوں میں اثر انداز رہی۔
03 نومبر 2013ء میں وہ اپنے گھر دمنہور سے گرفتار کیے گئے۔ ایک فوجی عدالت نے انہیں 15 برس کی سزا سنائی، بعد ازاں اپیل پر یہ کم ہوکر 7 برس رہ گئی۔ بالآخر وہ 20 رمضان 1440ھ (25 مئی 2019) بروز ہفتہ “اعتقال برج العرب – اسکندریہ” میں ایک شدید قلبی دورہ پڑنے کے باعث وفات پا گئے۔ وہ عمر کے 72 برس گزار چکے تھے۔ انہیں علاج اور مناسب طبی سہولت نہ مل سکی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دعوت کے شہسوار:
ڈاکٹر صلاح عبد الحق ان کی مرثیہ میں لکھتے ہیں: “العصار اپنے صالح حال اور قوی اخلاق کے باعث نمایاں شخصیت تھے۔ وہ مساجد کے ربّانیین میں سے تھے۔ کثرتِ عبادت، تلاوت کتاب، تحصیلِ علم اور قیام اللیل میں ان کا شوق مشہور تھا۔ وہ صوفیہ و زُہد کے مشرب سے قریب اور جہاد و دعوت کے میدان میں پُرجوش تھے۔ ان کے نزدیک ہر بڑے کام کی اصل قوت یہ تھی کہ انسان کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑی رہے۔
ان کے دعوتی اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بالکل سادہ اور براہِ راست بات کرتے تھے، پیچیدہ اصطلاح یا فنی ابہام میں نہیں الجھتے۔ مطلوبہ حقیقت کو کھول دیتے، استشہاد سامنے رکھتے اور مفہوم یوں سمجھاتے کہ سامع کے دل میں اتر جائے، اور کسی مزید سوال و وضاحت کی ضرورت باقی نہ رہے۔
ان کی شخصی مقبولیت اور پُرجوش انداز بیان ان کی بات کو مزید مؤثر بناتا تھا۔ ان کی سادگی اور اعتدال بھرپور عملی صداقت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ فقہ و علم کے ساتھ تجربہ، شعور اور عملی مثالیں موجود تھیں۔ جسمانی طاقت، مشکلات برداشت کرنے کا ذوق، سادہ خوراک و رہائش اور عسکری شان کی طرح ہمیشہ تیار رہنے کی خصلت ان میں نمایاں تھی۔ بڑے القاب، مجالس میں صدارت اور دنیاوی نمود و نمائش ان کی نگاہ میں کچھ نہ تھے۔ ان کے لیے حقیقی سرمایہ وہی تھا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، یعنی رضا و ثواب۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا} [الأحزاب:23]۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے العصار نے اپنی آخرت کی تیاری فرمائی اور دنیا سے رخصت ہوئے۔
شخصیت کی نمایاں خصوصیات:
داعی و مربی، استاد خمیس شَمّہ کے مطابق، انجینئر العصار کی شخصیت کئی پہلوؤں سے ممتاز تھی:
- نرم خو، متواضع، ہمیشہ دوسروں کو اہمیت دینے والے۔ کبھی آگے بڑھنے کے شائق نہ تھے، دوسروں کو آگے رکھتے۔
- ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبے کے مطابق قدر دیتے۔
- ذہانت و حاضر دماغی ان کی نمایاں صفات تھیں۔
- ان کی مجالس میں گفتگو ہمیشہ موقع کے مطابق اور لوگوں کے دلوں کو سکون دینے والی ہوتی۔ ایک واقعہ: ایک عقیقے کی تقریب میں جب کہ میزبان کا بھائی بے اولاد تھا، العصار نے ساری گفتگو کو : “نعمتِ رضا” کے موضوع پر رکھا۔ بعد میں بھائی نے محبّت سے گلے لگا کر یوں ظاہر کیا کہ وہ بات دل میں اتر گئی۔
اُن کے اقوال و افکار:
خمیس شمّہ کے مطابق، بعض موضوعات پر وہ بار بار گفتگو کرتے تھے:
- توريث القيم: اہلِ باطل بھی اپنی اقدار کو نسل در نسل منتقل کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں (قصۃ أصحاب الأخدود – سورۃ البروج۔ بادشاہ، ساحر، راہب و غلام کی کہانی اسی پر دلیل ہے)۔
- قصہ جُریج العابد: اس میں انہوں نے عائلی حقوق (خصوصاً ماں کے حقوق) اور معاشرے میں عوام کے طور طریقوں سے تربیت کا پہلو واضح کیا۔
- اکثر کہتے: “من تكلم بخير نضج، ومن سكت ضمر”۔ اور: “حسبك من شر سماعه، وحسبك من خير بلاغه”۔
- نصیحت کرتے: “اے داعی! لوگوں کے پاس خود جاؤ، ان کی محفلوں میں شریک رہو، جھوٹے زہد و تقویٰ کے پیچھے مت چھپو۔ کام کے لیے بلایا جائے اور تم پہلو تہی کرو گے تو اللہ بھی تمہیں مؤخر کردے گا۔”
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کا ذکر ہمیشہ شوق سے کرتے اور فرماتے: “مجالس ہی اللہ کی طرف سے پیغام ہیں”۔ ابو امامہ الباہلی کے قول کو دہراتے: “بلغوا عنا أحسن ما تسمعون”
- شیخ غزالی کی عبارت کو کثرت سے دہراتے: “من لم يشرح بهذا الدين صدراً، ولم يقنع به عقلاً، ويريد أن يقيمه بالعصا فهو قاطع طريق، وليس بداعية”۔
خاتمہ
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے انجینئر محمد العصار پر، ان کی محنت کو میزانِ حسنات میں رکھے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، انہیں شفیع و ناصر بنائے، اور انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ، اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنت الفردوس میں جمع فرمائے۔
وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً۔
مترجم: سجاد الحق