مسکراہٹ، لوگوں کے اندر مقبولیت عطا کرنے والے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ دلوں کو فتح کرنے والا تعلیمی طریقہ ہے۔ کیونکہ یہ درد کو دور کرتی ہے، زخموں کو بھر دیتی ہے اور یہ خوشی و اطمینان کی علامت ہے۔ یہ اس اخلاق حمیدہکا حصہ ہے جس کی طرف اسلام نے بلایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں امیر یا غریب، چھوٹے یا بڑے اور مرد یا عورت کا فرق نہیں کیا ہے۔
فرد اور معاشرے پر مسکراہٹ کا بہت بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اس کی وجہ سے لوگوں میں محبت و الفت پھیل جاتی ہے۔ ان میں وحشت اور نفرت مٹ جاتی ہے۔ زندگی اور زیادہ خوبصورت اور پرمسرت بن جاتی ہے انسان کی طبیعت اور سماجی تعلقات میں بہتری آتی ہے اس لیے کہ یہ اچھے آداب و عادات اور اچھی طبیعت کا گیٹ وے ہے۔ یہ پریشانی اور غم سے نجات دلاتی ہے اور انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔
قرآن وسنت میں مسکراہٹ کی تعلیم
انسانی زندگی میں مسکراہٹ کی قدر و قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن پاک نے ایک سے زیادہ مقامات پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہانی بھی شامل ہے جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ایک چیونٹی باتیں کر رہی ہے جس پر سلیمان علیہ السلام کو ہنسی آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : “اور سلیمان کے پاس اس کی فوج جمع ہوگئی جس میں جن و انس اور پرندے شامل تھے اور جب وہ چینٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چینٹیو! اپنے اپنے خولوں میں چھپ جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کی فوج بے خبری میں تمہیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالے۔ یہ بات سن کر سلیمان ہنس پڑا۔۔۔” [النمل: 17-19]
اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کا حال بیان کرتے ہیں جب اس کے پاس اولاد کی خوشخبری آئی تو وہ خوشی و مسرت سے ہنس پڑی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور اس کی بیوی کھڑی ہوئی ہنس دی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری سنائی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی۔” [ھود: 71]
اور اللہ تعالیٰ مومنین اور کافرین کے حال میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ” اور مجرم جو ہیں وہ مومنوں پر ہنسا کرتے تھے اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو ایک دوسرے کواشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھر والوں کی طرف جاتے تھے تو اتراتے پھرتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے یہ لوگ گمراہ ہو گئے ہیں حالانکہ وہ ان پر محافظ بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے لیکن آج مومنین واپس کافروں پر ہنسیں گے” [مطففین: 29-33]
مسکراہٹ ایک ایسی عادت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئی جسے ہر اس شخص نے دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی نافرمانی کے سوا کبھی کسی بات پر بھی چہرہ نہیں بنایا۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا: “اگر آپ ترش رو ہوتے یا سخت دل ہوتے تو لوگ آپ سے دور دور بھاگتے” [آل عمران: 159]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اپنے بھائی سے مسکراتے ہوئے ملنا تمہارے لیے صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تیرے لیے صدقہ ہے، کسی راہ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا تیرے لیے صدقہ ہے، کسی نابینا شخص کے لیے اس کی بینائی بننا تیرے لیے صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ پتھر، کانٹا اور ہڑی اُٹھانا تیرے لیے صدقہ ہے، اور اپنے ڈھول سے اپنے بھائی کے ڈھول کو بھر دینا تیرے لیے صدقہ ہے” [ترمذی]
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے کوئی کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھے۔ اگر تم کوئی نیکی نہ پاؤ تو کم سے کم اپنے بھائی کو مسکرا کر ہی ملو، اگر تم گوشت لاؤ گے یا ہانڈی پکاؤ گے تو اس میں شوربہ ذرا اور ڈال دو پھر اپنے ہمسایہ کو بھی دو” [ترمذی]
سیرت کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں سے معاملات کرنے کی بہت اعلیٰ مثالیں درج ہوئی ہیں کہ کس طرح آپ لوگوں سے ہمیشہ فراخ دلی سے ملتے، اور اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں پھیلاتے اور خود بھی اُن سے مسکرا کر ملتے تھے۔ جیسا کہ جریر بن عبد اللہ نے روایت کی ہے کہتے ہیں: “اسلام لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی بھی اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، آپ نے میری طرف جب بھی دیکھا تو مسکرا کر دیکھا اور جب میں نے شکایت کی کہ مجھ سے گھوڑے پر بیٹھا نہیں جاتا ہے تو اپنے ہاتھ سے میرے سینے پر ہاتھ لگا کر فرمایا اے اللہ اسے ثابت رکھ اور اسے ہادی و مھدی بنا دے۔” [بخاری]
عبید اللہ بن مغیرہ سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن الحارث بن جزء سے سنا ہے: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی شخص کو مسکراتے ہوئے نہیں پایا ہے” [احمد]
سماک بن حرب سے مروی ہے فرمایا:” میں نے جابر بن سمرہ سے کہا: کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس نے کہا : ہاں بہت، آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد تب تک اپنی جائے نماز سے نہیں اٹھتے تھے یہاں تک کہ سورج چڑھ جاتا، پھر جب سورج طلوع ہوتا تھا تو آپ کھڑے ہوتے اور ہم لوگ جاہلی دور کی باتیں کر رہے ہوتے تھے ہم ہنستے تھے اور آپ مسکراتے تھے۔ [مسلم]
شیخان انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ “نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ لوگ اٹھے اور چلانے لگے، اور کہنے لگے : یا رسول اللہ بارش نہیں ہوتی ہے، پیڑ زرد پڑ گئے، جانور ہلاک ہو گئے، اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کریں تو آپ نے فرمایا : اے اللہ، ہمیں سیراب کر یہ آپ نے دو بار فرمایا، راوی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے کہیں کوئی بادل نہیں دیکھا تھا لیکن جونہی آپ نے دعا فرمائی ایک بادل اٹھا اور بارش برسنے لگی۔ آپ منبر سے اترے نماز پڑھی اور نکل گئے اور بارش اگلے جمعہ تک ہوتی رہی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے اٹھ گئے تو لوگوں نے پھر آواز لگائی، گھر تباہ ہوگئے، راستے کٹ گئے آپ اللہ سے بارش رکوانے کی دعا کریں تو آپ نے مسکرا کر فرمایا: اے اللہ، ہمارے آس پاس برسا لیکن ہم پر نہ برسا، پھر مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور اس کے آس پاس بارش ہوئی اور مدینہ کے اندر ایک بھی قطرہ نہیں گرا اور میں نے مدینہ کی طرف دیکھا تو بادل اس کے گرد و نواح میں اس پر تاج بن کر منڈلا رہے تھے”
صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا آپ کے ہاتھ میں ایک روٹی اور کھجور تھی تو نبی کریم نے فرمایا: “ادھر آؤ اور کھاؤ، تو میں نے کھجور کھانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا : تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تیری آنکھ میں بیماری ہے تو اس پر میں نے کہا: میں تو دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، تو رسول اللہ نے تبسم فرمایا” [صحیح ابن ماجہ]
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض اپنے قریبی صحابہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے نہیں ملتے تھے بلکہ آپ کا یہی رویہ ہر دور و نزدیک اور دوست و دشمن اور اچھے برے کے ساتھ عام تھا۔ انس بن مالک سے مروی ہے فرمایا: میں نبی کریم کے ساتھ چل رہا تھا، اور آپ نے کندھوں پر نجرانی چادر اٹھائی ہوئی تھی جس کے سروں پر موٹے موٹے نقش بنے ہوئے تھے، ایسے میں آپ کو ایک اعرابی نے آ لیا اور زور زور سے اپنی طرف کھینچا یہاں تک کہ میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر اس کے کھینچے کی شدت سے چادر کے سرے سے نشان پڑ گئے، پھر آپ نے فرمایا: “مجھے اللہ کے مال میں سے لاکے دو جو تمہارے پاس ہے، پھر اس کی طرف مڑے اور ہنس دیے پھر اسے دینے کا حکم دیا” [بخاری ومسلم]۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دوسروں کی طرف مسکرانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے۔ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ : کیا اصحاب رسول ہنسا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں اور اللہ کی قسم ان کے دلوں میں پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ایمان تھا۔
مسکراہٹ میں داعی اور مربی کے لیے فائدے
مسکراہٹ میں داعی اور مربی کے لیے بے شمار فائدے ہیں، مسکراہٹ اسے اپنے دعوتی اہداف حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے، جو کہ اس طرح سے ہیں:
- لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا: اس کی وجہ سے مربی اور داعی کی شخصیت کا مثبت اثر پڑتا ہے، اس طرح لوگ اس کی طرف کھیچتے چلے جاتے ہیں اور اس کی دعوت پر کان دھرتے ہیں۔
- اعتماد حاصل کرنا: اچھے عادات واطوار دکھانے سے داعی اور لوگوں کے بیچ میں اعتماد بڑھتا ہے اور لوگ اس کی دعوت پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔
- محبت و الفت کا بڑھنا : اس کی وجہ سے لوگوں میں پیار ومحبت پھیل جاتا ہے اور داعی لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں کامیاب ہوتا ہے، جس سے اس کی دعوت پھیلانے میں آسانی ہوتی ہے۔
- حسنِ اخلاق کی دلیل : ابو ذر غفاری سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: کبھی کسی نیکی کو حقیر مت جانو، چاہے وہ تیرے بھائی سے تیرا مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو۔ [مسلم]
- دوسرے کلچروں سے رابطہ بڑھانے کا وسیلہ : یہ بین الاقوامی زبان اور لوگوں کے مشترکہ ذریعہ اظہار کا مظہر ہے، یہ کسی خاص زبان یا کلچر کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع: مسکراتے چہرے والا شخص رسول اللہ کی سنت پر عمل پیرا ہوتا ہے یعنی خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے ملتا ہے۔
- ایک مددگار معاشرے کی تشکیل: جس معاشرے کے افراد آپس میں مسکراہٹ، پیار ومحبت اور دوستی سے پیش آتے ہیں اس کے اندر تعاون، اتحاد اور ترقی بڑھتی ہے۔
- اسلام کا پھیلاؤ: چونکہ یہ خوشی و اطمینان کا مظہر ہے اور یہ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت رکھنے والی خوبی ہے، اس لیے جس داعی کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے وہ لوگوں کو اسلام کی خوبصورتی اور مٹھاس سے روشناس کراتا ہے۔
- یہ اچھائی اور خیرات کا دروازہ ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تیرا اپنے بھائی سے مسکراتے ہوئے ملنا تیرے لیے صدقہ ہے۔ [ترمذی]
- روح کو تازہ اور غموں کا مداوا کرنے والی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے محبوب وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیارا عمل کسی مسلمان بھائی کو خوش کرنا ہے۔ [ رواہ طبرانی فی الکبیر]
- اطمینان بخشنا: یہ دلوں کو حزن و ملال اور حسد سے پاک کرتی ہے اور دلوں میں نئی روح پھونکتی ہے۔
- مسکرانے والے سے تعاون: چاہے اس کے کام میں اسے مدد چاہیے یا جو حق وہ پیش کرتا ہے اس میں مدد یا قبولیت کی بات ہو، اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا ہے: “اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ترش رو ہوتے اور سخت دل بنتے تو یہ لوگ تم سے دور بھاگتے” [آل عمران: 159]۔ یعنی ایک شخص کی سختی دکھانا لوگوں کو اس سے دور کرتی ہے اور ایک شخص کا مسکرا کر ملنا، لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اسے لوگوں کے قریب کرتا ہے اور ان کا تعاون دلاتا ہے۔
پس مسکرانا، دلوں کو جیتنے کا سب سے آسان طریقہ ہے اور یہ بہت لوگوں کی رہنمائی کرنے کا اچھا وسیلہ ہے۔ یہ دلوں تک پہنچنے کا راستہ ہے اور اپنے مسلمان بھائی سے اپنی اندرونی حالت بیان کرنے کا عملی طریقہ ہے۔ یہ ایسا قوی ہتھیار ہے جو بچپن سے قربت حاصل کرنے، صحیح رہنمائی کرنے اور دوسروں کی محبت پانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک سچا جذبہ ہے جس کے اندر سے خوبصورتی اور امید کی کرن پھوٹتی ہے جو انسان کو باقی جانداروں سے ممتاز کرتی ہے تاکہ اس کا چہرہ کامل سکون وراحت، تر و تازگی اور انبساط و بشاشت کی معراج بن جائے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- ابنِ رجب : معرفت صحابہ کی حقیقت 8/6998
- ابنِ قیم الجوزیہ : آخرت کا زاد راہ 2/424
- فقہی ڈکشنری : 25/168
- ابنِ عثیمین : فتاویٰ کا مجموعہ 3/31
- سلمان بن یحییٰ مالکی : وہ اخلاق جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑا!
مترجم: سجاد الحق