محاسبہ نفس برے انجام سے بچاتا ہے۔ ہم اس كو حاصل كرنے كى مشق کیسے كریں؟
انسان فطرتاً معصوم عن الخطا نہیں ہے، وہ ہمیشہ اچھائی اور برائی کی قوتوں کا مقابلہ کرتا رہتا ہے، تقویٰ کے محرکات اور خواہشات کے دواعى اسے اپنى طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ اس لئے محاسبہ نفس، نفس کی تربیت کا ایک اہم عامل ہے جس پر ہر بندے کو ہميشگى اختيار كرنى چاہئے، تاکہ وہ باربار توبہ کرے، اور پر سکون ہوكر، صاف ذہن اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ عبادت كى طرف متوجہ ہوكر شیطان اور نفس امارہ (برے کاموں کی طرف دعوت دینے والے ) کے سامنے دروازے بند کردے۔
بے شک محاسبہ کا نہ ہونا انسان کو گمراہی کے تاریک سمندر میں ڈوبنے کا پیش خیمہ ہے جس كى انتہا جہنم كى وه آگ ہے جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں، اور دنیا میں فساد تب ظاہر ہوتا ہے جب سماج یا فرد کو کسی حساب کا خوف نہ ہو، چاہے وہ رب ذو الجلال كا خوف ہو، یا کسى حکمران كا، یا معاشرے كا، یا نفس لوامہ كا۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:” یہ لوگ حساب (آخرت) کی امید ہی نہیں رکھتے تھے، اور ہماری آیتوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے رہتے تھے”۔ [النبأ: 27-28]
محاسبہ نفس کے معنی اور قرآن وسنت سے حوالے:
اہل لغت محاسبہ نفس کی تعریف كچھ اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ” حاسب يُحَاسِبُ ” کا مصدر ہے ، اور یہ (ح س ب) مادے سے مأخوذ ہے، جس كے معنى گننے كے ہيں۔ عربی میں کہتے ہیں: ” حسبت الشيء أحسبہ حسباً وحسبانًا، وحساباً وحسابۃ ” يعنى میں نے يہ چيز شمار كى اور ” وحاسبتہ من المحاسبۃ ” محاسبہ حاسب سے ہے، اور اسى طرح كہا جاتا ہے ” وشيء حساب” كہ يہ چیز کافی ہے، قرآن کریم میں اس حوالے سے آتا ہے: (حساب دینا) یعنی کافی۔
اصطلاحاََ: كسى شخص کا رات کے وقت اپنے دن کے کاموں کا جائزہ لینا، چنانچہ اگر وہ اطمینان بخش ہوں تو انہیں جارى ركھنا اور اس ميں اضافہ كرنا اور اگر وہ مذموم ہوں تو ممکنہ حد تک انہیں چھوڑنا اور آئندہ ایسے کاموں سے اجتناب کرنے كا نام محاسبہ نفس ہے۔
اس تعریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محاسبہ نفس ، غلطی کی صورت میں نفس کو ملامت كرنے اوراسے سزا دینے كى حد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا مفہوم اس بات كو بھی شامل ہے کہ اچھائی کی صورت میں اسے اچھا بدلہ دیا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کى جائے، تاکہ وہ حق اور ثواب اور فرائض كى بجا آورى پر زیادہ فعال ہو اور اس سے زیادہ محبت کرے، اور گمراہی، برے كاموں اور گناہوں سے دور رہے، اور ان سے نفرت کرے۔
محاسبہ، دل کے خوف اور زیادہ منافع حاصل کرنے کی طلب سے پیدا ہوتاہے، اور اس سے دانائی میں اضافہ، فہم میں وسعت، دلیل کو ثابت کرنے کی قوت، اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہش اور شہوت کے غلبے کی صورت میں محاسبہ نفس کمزور پڑ جاتا ہے۔ پس محاسبہ، انسان کا اپنے اعمال پر غور كرنا، اور اپنى غلطیوں کو تلاش کرنا اور نیک کاموں میں آگے بڑھنے كا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو محاسبہ نفس کرنے کا حکم دیتا ہے، جیسے الله جل جلالہ فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل (یعنی فردائے قیامت) کے لئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) خدا سے ڈرتے رہو بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے”۔ [الحشر: 18]
قرآن میں بہت سی آیات ہیں جو مستقل احتساب کی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے اللہ تعالی کا فرمان: "حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں، عالی قدر (تمہاری باتوں کے) لکھنے والے، جو تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں”۔ [الانفطار:10-12]، اور فرمایا: "اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں، جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں، کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے”۔ [ق: 16-18]
اللہ تعالی فرماتے ہیں: "اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوگا۔ اور ہر ایک جماعت اپنی کتاب (اعمال) کی طرف بلائی جائے گی۔ جو کچھ تم کرتے رہے ہو آج تم کو اس کا بدلہ دیا جائے گا، یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی۔ جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے ہیں”۔ [الجاثية: 28، 29 ]۔ "جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کروگے یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے”۔ [البقرة:284]
کوئی بھی سرگوشی یا كوئى چھوٹا عمل ایسا نہیں ہے جس پر بندے کا حساب نہ لیا جائے۔ آپ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: "وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں) سینوں میں پوشیدہ ہیں (ان کو بھی)” [غافر:19]۔ اور فرماتے ہیں: "(لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے برابر بھی (چھوٹا) ہو اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں (مخفی ہو) یا زمین میں۔ خدا اُس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا باریک بین (اور) خبردار ہے”۔ [لقمان:16]، اور فرماتے ہیں: "تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا”۔ [الزلزلة:7-8]
قیامت کے دن مجرم حیران رہ جائیں گے کہ سب کچھ محفوظ ہو چکا ہے، آپ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ” اور (عملوں کی) کتاب (کھول کر) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو۔ (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو عمل کئے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا” [الکہف:49]، اور فرمایا: "اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا ہے” [النبأ:29]
اور اللہ تعالی نے واضح بیان فرمایا ہے كہ اچھے كاموں كا بدلہ اور ثواب، دنيا اور آخرت ميں محاسبہ نفس كرنے میں ہے۔ آپ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:” اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے”۔ [النازعٰت:40-41]
اس عمل قلبی کی اہمیت کے بابت، نبی اکرمﷺ نے ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:” عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اورموت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے۔ الترمزی، امام نووی علیہ رحمہ فرماتے ہیں: "امام ترمذی اور دوسرے کئی علماء کہتے ہیں :مَنْ دَانَ نَفْسَهُ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے۔”
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، ایک نصاری صحابی آئے، انہوں نے نبی ﷺ کو سلام کیا، پھر کہا: اے اللہ کے رسول کون سا مومن افضل ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس کا اخلاق زیا دہ اچھا ہو۔‘‘ انہوں نے کہا: کون سا مومن زیا دہ عقل مند ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد (کے مراحل) کے لئےزیادہ اچھی تیاری کرتے ہیں۔ یہی عقل مند ہے۔‘‘ (صيح ابن حبان)
صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین بھی محاسبہ کی معاملے میں حضرت نبی ﷺ کے منہج پر چلتے رہے، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اس سے پہلے کہ (بروز قیامت) تمہارا حساب لیا جائے، اپنا محاسبہ کرلو، اور وزن کئے جانے سے پہلے اپنا وزن کرلو، اور قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلوکہ (جس دن تم سب کے سامنے پیش کئے جاؤگے، تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا)۔‘‘
جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا سر، آخری وقت میں، اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا تو آپؓ نے ان سے فرمایا: "چھوڑو اسے، تم اپنی ماں کو کھو دو (کلمہ بد دعا)، مجھ پر اور عمر کی ماں پر افسوس، اگر میرا رب مجھے معاف نہ کرے”۔ یہ بھی منقول ہے کہ عمر بن خطابؓ اپنے باغ میں گئے اور واپس آئے تو لوگوں نے عصر کی نماز ادا کر لی تھی، تو انہوں نے کہا: "إنا لله وإنا إليه راجعون، مجھ سے با جماعت عصر کی نماز چھوٹ گئی، میں تم سب کو گواہ بنا رہا ہوں کہ میری (حائط) مسکینوں کے لئے صدقہ ہے۔ تاکہ عمرؓ کی بھول کا کفارہ ہو۔ (حائط) کھجوروں کے باغ کو کہتے ہیں۔
حضرت ابو الدرداءؓ جب بیمار ہوتے تھے تو ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کے ساتھی ان کے پاس آتے اور ان سے کہتے ہیں: ’’تمہیں کس بات کی شکایت ہے؟‘‘ وہ کہتے ہیں: میرے گناہوں سے” تو وہ پوچھتے ہیں: ‘تم کیا چاہتے ہو؟’ وہ کہتے ہیں: ‘جنت’۔ اور یہی اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا بھی حال ہے، جب کبھی بھی ان کو سردرد ہوتا تھا، تو اپنے سر پر ہاتھ رکھتی اور کہتی تھیں: ‘يہ میرے گناہوں كى وجہ سےہے” اورجو گناه اللہ معاف کرتا ہے وه اس سے زیادہ ہے۔”
جعفر بن سلیمان نے سعید بن ایاس جریری سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے اور انہوں نے حضرت حنظلہ (بن ربیع) اُسیدی رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہے، کہ انہوں نے کہا ۔۔اور وہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے ۔۔ کہا: حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ مجھ سے ملے اور دریافت کیا: حنظلہ! آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا: حنظلہ منافق ہو گیا ہے، (حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ نے) کہا: سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں حتیٰ کہ ایسے لگتے ہیں گویا ہم (انہیں) آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں سے نکلتے ہیں تو بیویوں، بچوں اور کھیتی باڑی (اور دوسرے کام کاج) کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بھول بھلا جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہی کچھ ہمیں بھی پیش آتا ہے، پھر میں اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ چل پڑے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولؐ! ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں، تو حالت یہ ہوتی ہے گویا ہم (جنت اور دوزخ کو) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم آپ کے ہاں سے باہر نکلتے ہیں تو بیویوں، بچوں اور کام کاج کی دیکھ بھال میں لگ جاتے ہیں ۔۔ ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس طرح میرے پاس ہوتے اور ذکر میں لگے رہو تو تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں فرشتے (آ کر) تمہارے ساتھ مصافحے کریں، لیکن اے حنظلہ! کوئی گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور کوئی گھڑی کسی (اور) طرح۔‘ (مسلم)۔
ابن شماسہ مہریؒ سے روایت ہے، انہوں نے کہا”: ہم عمرو بن عاصؓ کے پاس حاضر ہوئے، وہ موت کے سفر پر روانہ تھے، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان! کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: جو کچھ ہم (آیندہ کے لیے) تیار کرتے ہیں، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ میں تین درجوں (مرحلوں) میں رہا ۔ (پہلا یہ کہ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا۔ (دوسرے مرحلے میں) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے، تاکہ میں آپؐ کی بیعت کروں، آپؐ نے دایاں ہاتھ بڑھایا۔ کہا: تو میں نے اپنا ہاتھ (پیچھے) کھینچ لیا۔ آپ نے فرمایا: ’’عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: ’’کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: یہ (شرط) کہ مجھے معافی مل جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کردیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے؟ اور ہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کیے گئے تھے، اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے۔‘‘ اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا، کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا، اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا، پھر (تیسرا مرحلہ یہ آیا) ہم نے کچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا؟ جب میں مرجاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر (دعا کرتے ہوئے) ٹھہرنا، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے، تاکہ میں تمہاری وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں”۔ (مسلم)
محمد بن ابی حاتم وراق سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ امام بخاریؒ لیٹ گئے جب کہ ہم کتاب تفسیر کے تالیف میں لگے ہوئے تھےاور اس دن وہ اپنے آپ کو تخریج میں بہت تھکا رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا: "میں نے آپ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے بغیرعلم کے کچھ نہیں کیا، تو اس لیٹنے میں کیا فائدہ ہے؟” انہوں نے جواب دیا: "میں نے آج خود کو بہت زیادہ تھکا دیا لیکن یہاں شگاف ہے، میں ڈر رہا ہوں کہ دشمن کی طرف سے کوئی حملہ ہوجائے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آرام کروں اور تیاریاں کروں، کیونکہ اگر دشمن ہم پر اچانک حملہ کرتا ہے تو ہم تیار ہوں۔”
مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو اپنے آپ سے کہتا رہا: "کیا تو وہ کام کرنے والا نہیں ہے؟ کیا تو وہ کام کرنے والا نہیں ہے؟ پھر اس کی مذمت کرے، پھر اسے ختم کرے، اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی پابندی کرنے پر مجبور کرے، تو وہ اس کی رہنما ہوگئی۔
محاسبہ نفس میں مدد دينے والے اعمال
محاسبہ نفس کیلئے معاون وجوہات میں سےكچھ اہم وجوہات :
- گناہوں کے زياده ہونے اور حساب کى ہولناكى سے بچنے کے لئے ابتدا ہی سے محاسبہ نفس كى مشق کرنا۔
- یہ تصور كرنا کہ مراقبہ نفس سے اللہ تعالی كا ديدارممکن ہوجاتا ہے اورمراقبہ انبیاء، صالحین اور نيک لوگوں کے قرب کا ذریعہ ہے۔
- نفس کو یاد دلانا کہ ترکِ محاسبہ تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچاتا ہے، اور یہ دوزخ میں داخل ہونے، کفار، گمراہ اور خبیث لوگوں کے قریب پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
- نیک لوگ، جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں، کی صحبت اختیار کرنا اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا۔
- سلف صالحین میں سے اہل محاسبہ و مراقبہ لوگوں کی حکایات پرغور کرنا۔
- زیارت قبور کرنا اور ان مُردوں کی حالتوں پر غور کرنا جو اپنا محاسبہ نہ کر سکے یا اپنی کمزوریوں کی تلافی نہ کر سکے۔
- علم و وعظ کى مجالس میں شرکت کرنا، کیونکہ یہ محاسبہ کی طرف دعوت دیتی ہیں۔
- قیام اللّیل، تلاوت قرآن اور قرب الٰہی میں شوق رکھنا۔
- لہو و لعب کی جگہوں سے دور رہنا، کیونکہ یہ انسان کو اپنا محاسبہ کرنا بُھلا دیتی ہیں۔
- انسان کا اپنے رب کی یاد کرنا اور دعا کرنا کہ وہ انہیں اہل محاسبہ اور اہل مراقبہ میں سے بنائے۔
فوائد اور ثمرات
محاسبہ نفس کے دنیا اور آخرت میں بے شمار فوائد اور ثمرات ہیں، جن ميں بعض درجہ ذيل ہيں:
- نفس کی خامیوں اور کوتاہيوں کی پہچان: جو انسان کو اپنی حقیقی مقام پر لے جاتی ہیں۔
- حقوق اللہ کی معرفت اور ان کی بڑی نعمتوں کی قدر کا احساس: جب ایک بندہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا موازنہ اپنی نافرمانیوں سے کرتا ہے تو یہ اسے ہر ذلت اور برے کام سے باز رکھتی ہیں۔
- نفس کی پاکیزگی: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یقینناََ فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔‘‘ [الشمس: 9-10]
- زندہ ضمیر کی تربیت : ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا اور اعمال و افعال کو شریعت کے ترازو میں تولنا۔
- حقوق العباد کاعلم ہونا اور انہیں تسليم كرنا اور ادا کرنے کی کوشش كرنا۔
- اطاعت میں زیادتی اور گناہوں سے اجتناب، نفس کی خامیوں کی پہچان اور ان سے رجوع۔
- بندے کا اپنے رب کے سامنے عجز وانکساری کا مظاہرہ کرنا اور گناہوں سے نجات کے لیے مدد مانگنا ۔
- مشکلات کے وقت صبر کا مظاہره کرنا۔
دونوں جہانوں میں مسلمان کی کامیابی اور سعادت كا دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ محاسبہ نفس پر قائم رہے، اور وه ایسے کاموں میں لگ جائے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو، اور ايسے كاموں سے دور رہے جن سے الله ناراض ہوتا ہے، تاآنکہ وہ اپنے دین کی حفاظت اورقوت ایمان کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ انسان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ دل کی صلاحیت صرف اور صرف محاسبہ کے ذریعے ممکن ہے، اور اس کے ذریعے انسان اپنے نفس کی خامیوں اور برائیوں کو جانتا ہے، اور وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی پاتا ہے۔
حوالہ جات
- المناوي: التوقيف على مهمات التعاريف، ص 640
- الفيروزآبادي: القاموس المحيط 1/94
- الماوردي: أدب الدنيا والدين، ص 453-454
- أبو نعيم: حلية الأولياء 10/88.
- الدينوري: المجالسة وجواهر العلم 1/344.
- ابن أبي شيبة: المصنف 10/163.
- ابن القيم: إغاثة اللهفان 1/79.
- ابن حجر: فتح الباري 1/ 480.
- الذهبي: الكبائر ص 17.