یہ قوت ارادی اور جرأت کی طاقت ہے جس کے ذریعے ہم سستی، لالچ اور نفسیاتی کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں۔ کسی کام کو انجام دینے میں جو طاقت لگتی ہے اسے قوت ارادی کہتے ہیں۔ یہی قوت ہمیں کمزوری سے بچاکر طاقت عطا کرتی ہے اور ہمیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کے قابل بناتی ہے۔
ایک بار جب دونوں افواج ( مسلمان اور فارس) کا جنگ میں آمنا سامنا ہوا تو مسلمان یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ فارسی جنگ میں اپنے ساتھ تربیت یافتہ شیر لے کر آگئے ہیں، اور شیر بلا وارننگ دھاڑتے ہوئے، اپنا جبڑا کھولے مسلم فوج کی طرف چھلانگ لگاتا ہے۔ چنانچہ ایک شیر دل شخص مسلمان فوج سے نکل آتا ہے اور اس ناقابل تصور دہشت ناک منظر میں ہیرو بن کر شیر کی طرف لپکتا ہے۔ دونوں طرف کی افواج حیران ہوکر یہ منظر دیکھ رہی ہیں اور یہ سوچ رہی ہیں کہ ایک آدمی، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، شیر کا سامنا کیسے کر سکتا ہے؟! ادھر شیر کی طرف طوفانی رفتار سے دوڑنے والا آدمی شیر سے نہیں ڈرتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ شاید شیر اس شخص سے ڈر گیا ہے، پھر یہ آدمی ایک شکاری کی طرح اپنے شکار پر جھپٹا مارتا ہے اور کئی بار اسے چھرا گھونپ کر مار ڈالتا ہے، فارسیوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ پھر ہمارے سردار سعد بن ابی وقاص اس بطل جلیل کے پاس گئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ شیر دل آدمی کون تھا؟ وہ ‘شیروں کا شکار کرنے والا’ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص تھا۔
تاخیر نہ کرنا:
تاخیر کرنا، ہماری قوت ارادی کو کمزور کرنے کا ایک قوی ذریعہ ہے۔ جب ہمارے اندر کسی چیز کو حاصل کرنے کا جذبہ اور عزم موجود ہو تو ہمیں اس جذبے کو بروئے کار لاکر کام کی ابتدا کردینی چاہئے، پھر اگر یہ جذبہ کسی وجہ سے ٹھنڈا پڑ جائے یا تردد محسوس ہو تو ہمیں سست نہیں پڑنا چاہئے۔ ہم لوگ کیا کرتے ہیں، ہم شک کو اپنے اندر سرایت کرنے دیتے ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے خارجی حالات کی سازگاری پر بہت زیادہ تکیہ کریں گے تو ہم ہرگز کامیاب نہ ہوں گے۔
قوت ارادی بیرونی حالات کی سازگاری پر منحصر نہیں ہے۔ جب ہمیں کسی مقصد کے لئے اندر سے ترغیب ملتی ہے جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس ترغیب پر عمل کرنا چاہئے اور اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے ارادے کو مضبوط کرنا چاہئے، اور کام کرنے یا حاصل کرنے کا بہترین وقت اب ہے نہ کہ بعد میں ہے۔
اپنے مقصد سے دستبردار نہ ہوں:
قوت ارادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پہلی کوشش میں ہی آپ کو مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ استقامت کا قوت ارادی سے گہرا تعلق ہے، قوت ارادی ناکامیوں اور مشکلات پرقابو پانے کی خواہش اور جذبہ ہے۔ اگر ہم ساری مشکلات اور ناکامیوں کے باوجود ثابت قدم رہیں گے تو ہم اپنی قوت ارادی کو مضبوط کریں گے اور ترقی دیں گے۔ بلکہ مشکلات ہماری قوت ارادی کو اور زیادہ مہمیز لگانے کے طاقتور محرک ہیں۔
آپ ایک آسان زندگی گذار کر کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس سے آپ کی قوت ارادی بڑھ سکتی ہے۔ لیکن زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی تیاری کے ذریعے ایک مضبوط اور حقیقی قوت ارادی کی تخلیق ہوسکتی ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ سے کہا کرو: "میں کبھی ہار نہیں مانوں گا، میں اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا جو میں چاہتا ہوں، کیونکہ اس دنیا میں کوئی چیز دائمی نہیں ہے اور کچھ بھی ناقابل تغیر نہیں ہے۔”
اپنے سامنے واضح مقصد اور اہداف رکھیں:
اگر ہم الجھن کا شکار رہیں اور غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہوں اور ہمیں معلوم نہ ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناقابل تسخیر قوت ارادی کو پیدا کرنا ناممکن ہوگا۔ لیکن اگر ہمیں واضح طور اپنے مقصد پر نظر ہو تو ہمارے لئے اس مقصد کے حصول پر اپنی توانائیاں مرکوز کرنا آسان ہو جائے گا۔ اگر ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، تو ہم اس کے حصول کے لئے زیادہ بہتر انداز میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی بری عادت سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو یہ بات یقینی بنانی پڑے گی کہ آپ اس تبدیلی کے لئے سو فیصد پرعزم ہیں، لیکن اگر ابھی تک آپ کا ذہن لاشعوری طور تھوڑا سا بھی اس عادت سے جڑا ہوا ہے توآپ کی توجہ تقسیم ہوجائے گی، اور آپ اس بری عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے مطلوبہ قوت ارادی پیدا نہیں کرسکیں گے۔
بری عادات چھوڑ دیں:
ہماری بری عادات ہماری توانائیاں ضائع کر دیتی ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی بری عادت کے غلام ہیں تو آپ اپنی خود اعتمادی اور عزت نفس کو کھو دیتے ہیں۔ اور اکثر ایک بری عادت اسی قسم کی دوسری عادت کی طرف لے جاتی ہے، تاہم اگر یہ بری عادت چھوٹ جائے تو ہم اپنی قوت ارادی میں بہت زیادہ اعتماد محسوس کریں گے، اور اس سے ہمیں مزید اچھی عادات اپنانے کی ترغیب ملے گی۔ اسی طرح کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے میں کامیابی حاصل ہونے سے آپ کے اندر زندگی کی ہر بری چیز سے نجات حاصل کرنے کی خواہش اور قوت ارادی مضبوط ہوگی۔ کامیابی سے قوت ارادی آتی ہے۔
اپنے جسم کی طرح اپنی قوت ارادی کی پرورش کریں:
اگر آپ دوڑنے کی ورزش شروع کرو گے تو ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ یہ دوڑ پہلے دن ہی لمبی دوڑ میں تبدیل ہو جائے گی۔ اگر آپ ڈرائیونگ سیکھ رہے ہیں تو راتوں رات ماہر بننے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ تاہم اگر ہم باقاعدگی سے ٹریننگ کریں گے، تو ہم آہستہ آہستہ مگر بتدریج اپنے دوڈنے یا گاڑی چلانے کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہی کام قوت ارادی کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے، اگر ہم باضابطہ طریقے سے قوت ارادی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم بتدریج اس میں دن بہ دن بہتری لاسکتے ہیں۔ آپ ان شعبوں کی ایک فہرست بنائیں جہاں آپ اپنی قوت ارادی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ، اور پھر ان شعبوں میں زیادہ سے زیادہ قوت ارادی اور مضبوطی پیدا کرنے کے لئے شعوری کوششیں کریں۔
فوائد پر نظر رکھیں:
اگر آپ ایک مشکل ترین ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے فوائد کو ہر لمحہ یاد رکھنا ضروری ہے۔ اکثر بری عادات پر قابو پانے کے لئے ہمیں مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن سب سے پہلے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ چیزوں، لذتوں اور خوشیوں کی قربانی دینی پڑے گی اور انہیں ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں ان فوائد کے مثبت اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو ہمیں توجہ مرکوز کرنے اور اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر فوائد کے بارے میں ہمارا ذہن واضح ہے، تو یہ ہمیں اپنی قوت ارادی کو بہتر بنانے اور کام کرنے میں ایک مضبوط ترغیب ثابت ہوگی۔ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہماری قوت ارادی میں بہتری نہیں آئے گی۔
قوت ارادی، ہمارے اندر سے آتی ہے:
قوت ارادی صرف ذہنی پہلو تک محدود نہیں ہے کہ جس میں عقل کی قوت استعمال کی جاتی ہے حقیقی قوت ارادی ایک اندرونی ذریعہ سے آتی ہے جو کوئی کام کرنے یا کچھ حاصل کرنے کی خواہش کا نام ہے، پھر اگر اس خواہش کو عقل کی حمایت بھی حاصل ہو تو ہم ایک بہت بڑی قوت ارادی پیدا کر سکتے ہیں جو ہمیں اس پر عمل درآمد کرنے میں مدد کرے گی۔ اکثر اوقات جب ہم ضرورت سے زیادہ سوچتے ہیں تو ہمیں فوراََ عمل شروع کرنا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ سوچنے سے شکوک و شبہات اور ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ایک مضبوط اور مصمم قوت ارادی تک پہنچنے کے لئے، ایک شدید خواہش اور ضمیر کی آواز پر لبیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
منفی ذہنیت والی شخصیت نہ بنیں:
قوت ارادی پیدا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ منفی رویہ ہے۔ جب ہماری توقعات منفی ہوتی ہیں تو ہم ہمیشہ اپنا ارادہ خود ہی کمزور کرتے ہیں، منفی ذہنیت سے بچنا قوت ارادی پیدا کرنے میں سب سے بڑا معاون بن سکتا ہے۔ قوت ارادی – اپنی فطرت کے لحاظ سے – مثبت اور مقصد پر مبنی رویہ ہے، ضروری نہیں کہ آپ خوش مزاج، بہت زیادہ پرامید ہوں، لیکن کم از کم بہت زیادہ انحصار کرنا تو چھوڑ دیں۔ ہمارے خیالات ہمارے عزم و ارادے پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے خیالات مثبت ہوں۔
قوت ارادی ایک ایسی چیز ہے جسے ہر کوئی فروغ دے سکتا ہے اور مضبوط کر سکتا ہے۔ یقیناََ، قوت ارادی کو صحیح مصرف کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر ہم قوت ارادی کو صرف دولت اور طاقت جمع کرنے کے لیے استعمال کریں گے تو ہماری زندگیاں بے جان اور خشک حروف بن کر رہ جائیں گی۔ تاہم اگر ہم اپنے آپ کو بہتر بنانا اور ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں قوت ارادی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ بہترین شخص بننے کے لئے اہم اور غیر شفاف فیصلے کرنا کافی نہیں ہے، ہمیں تبدیلیوں کو حقیقت بنانے کے لئے اندرونی ارادے کی ضرورت ہے۔ بہترین انسان بننے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آپ اہم، غیر حقیقت پسندانہ اور مبہم فیصلے کریں۔ بلکہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر قوت ارادی پیدا ہو تاکہ تبدیلیاں حقیقی اور واقعی نظر آئیں۔
وصل اللهم على سيدنا محمد و على آله وصاحبه وسلم
مترجم: سجاد الحق