قصہ ذوالقرنین قرآن کی ان کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے جس کے اندر علم وعمل، حکومت وعدالت، قول وفعل، رائے ومشاورت، آئین وقانون، صبر وحکمت، جاہ وحشمت اور روحانی ومادی قوت، یہ سب چیزیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس کہانی کا ہیرو ایک صالح بادشاہ ہے، جو اپنا لاؤ لشکر اور ساز وسامان لے کر نکلتا ہے تاکہ عدل وانصاف قائم کرے، حق کی طرف دعوت دے، تطہیر افکار کرکے نظام انصاف بحال کرے وہ بنیادی انسانی اقدار کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاقی فضائل کو قائم کرنا چاہتا تھا اسی مقصد سے وہ پورے عالم کے سفر پر نکلا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اسبابِ نصرت، غلبہ وتمکن، اصول سیاست اور تدبیر جیسی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بحسن وخوبی کمال درجے تک استعمال کیا۔ بلکہ ان چیزوں کو نقطۂ آغاز اور بنیاد بنا کر دنیا کوعلم وایمان اور عدل واحسان کی طرف رہنمائی کی۔
جب ہم اس کہانی پر غور وفکر کرتے ہیں تو ہم اس میں دعوت واصلاح، تربیت وقیادت، انتظام وسیاست اورعدالتی امور کے حوالے سے درس وعبرت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قصے کو بلا تخصیص بیان کیا ہے تاکہ اسے ایک ایسی مثال اور اسوہ بناکر پیش کیا جائے کہ جس کی پیروی بلا تفریق سارے لوگ کرسکتے ہوں۔ یہ ایک ایسے عدل پرور اور صاحب زہد وتقوی حاکم کی کہانی ہے جو اپنے زیر انتظام علاقے میں رہنے والی رعایا اور دیگر لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے رہنما اصول پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اسے قوت وطاقت عطا کی تھی لیکن وہ کبھی کسی کمزور کی گردن پر سوار نہیں ہوا۔ وہ مشرق ومغرب میں اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہا، وہ لوگوں کے اندر محبت اور عمل کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ان کی خدمت کرتا رہا، وہ سفر کی ساری مشکلات اور کلفتیں اٹھاتا رہا، تاکہ لوگ بہترین زندگی گزار سکیں۔
ذوالقرنین کی مختصر کہانی
ذوالقرنین کا قصہ قرآن مجید کی سورۃ "الکہف” آیات (83-98) میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم کے عظیم قصص میں سے ایک اہم قصہ مانا جاتا ہے۔ ذوالقرنین ایک عادل حکمران تھا اور اس کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے اپنی قوم کو یاجوج ماجوج سے بچانے کے لیے ایک بہت بڑی دیوار کھڑی کردی، یہاں تک کہ ان کی طرف سے آنے والے کسی بھی خطرے کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو قوت ودبدبہ عطا کیا تھا۔ اس کے پاس ایک عظیم فوج تھی جسے لے کر وہ زمین میں یہاں وہاں پھرتا تھا تاکہ لوگوں کو خدائے واحد ویکتا کی طرف دعوت دے، یہاں تک کہ وہ دنیا کے مغربی کنارے تک جا پہنچا جہاں پر کیچڑ آلود پانی کا ایک بڑا کنواں تھا۔ اس علاقے کے باشندوں کا ماننا تھا کہ اس کنویں کے قریب دنیا کی آخری حد ہے کیونکہ اس میں سورج غروب ہوتا ہے۔
پھر وہ اس قوم کے پاس علاقہ "بحیرہ ایجیئن ” میں پہنچ گیا جو بحیرہ روم کا ایک حصہ ہے جو ایک طرف شرق غربی میں ساحل ترکی سے اور دوسری طرف مغربی یونان سے گھیرا ہوا ہے۔ وہ قوم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کی بندگی کرتی تھی۔ اس طرح ذوالقرنین نے ان کو دو راستوں میں سے ایک راستہ چننے کی دعوت دی، کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اس کی مغفرت کے مستحق بن جاؤ یا اگر اپنی روش پر قائم رہے تو میں تمہیں عذاب دوں گا اور پھر تمہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا، جہاں روز قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں سخت ترعذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
اس کے بعد ذوالقرنین مشرق اقصیٰ کی طرف چلے گئے یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ طلوعِ آفتاب کے قریبی علاقے میں رہتے تھے۔ وہاں کوئی پہاڑ، دیوار یا درخت نہیں تھا جو ان کے لیے سورج سے اوٹ بن جاتا۔ پھر ذوالقرنین نے ان لوگوں پر بھی اسی طرح حکومت قائم کی جس طرح اہلِ مغرب پر حکومت چلائی تھی۔
جب وہ اس علاقے کے لوگوں کے پاس پہنچ گیا، جو علاقہ دو پہاڑوں کے بیچ میں واقع تھا اور ان پہاڑوں کے درمیان ایک بڑی کھائی تھی وہاں کے لوگ ایسی زبان میں بات کرتے تھے جو ذوالقرنین کی سمجھ سے باہر تھی۔ انہوں نے اس سے شکایت کی کہ یاجوج و ماجوج زمین میں فساد برپا کر رہے ہیں تو اس نے اس قوم اور یاجوج ماجوج کے درمیان رکاوٹ حائل کی۔ اس نے بغیر کوئی مادی امداد لیے ان کے لیے دیوار کھڑی کردی۔ پہلے اس نے لوہا جمع کرایا، پھر اسے ایک جیسے سوراخوں میں ڈال کر دونوں پہاڑوں کی درمیانی زمین کو پاٹ دیا یہاں تک کہ دونوں چوٹیوں تک برابر برابر کردیا پھر آگ بھڑکائی اور اس کے اوپر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دیا یہاں تک وہ بہت سخت اور مضبوط ہوگیا۔
قصہ ذوالقرنین میں تعلیمی تصورات
ہم قصہ ذوالقرنین سے بہت ساری تعلیمات حاصل کرسکتے ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، حکمت، عمل صالح اور عدل وانصاف شامل ہیں، جو اس طرح سے ہیں:
اس بات پر ایمان کہ اللہ ہر چیز پر نظر رکھتا ہے: یہ صحیح عقیدے کی بنیاد ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "واقعہ ایسا ہی ہے کہ ہم اس کی ہر خبر کا علم رکھتے ہیں” (الکہف:91) علامہ طبری کہتا ہے: "اور ہم جانتے ہیں کہ سورج نکلنے کی جگہ کہاں ہے ہماری نظر سے وہاں کی مخلوقات، ان کے حالات، ان کے اسبابِ عیش اور باقی سب چیزیں چھپی ہوئی نہیں ہیں۔”
بدلہ عمل کے مطابق ہے: جیسا کہ ذوالقرنین کی زبان سے بیان ہوا: ” فرمایا جو ظلم کرے گا اسے ہم سزا دیں گے پھر اسے اپنے رب کے حضور جانا ہوگا جہاں اللہ اسے بدترین عذاب دے گا” ( الکہف: 87)
مدد کرنا فرض ہے: جب ذوالقرنین دو دیواروں کے بیچ میں پہنچ گئے اس نے ایک قوم دیکھی جس کے اندر ظلم اور جہالت پھیل گئی تھی۔ جب کسی قوم میں یہ دونوں برائیاں ایک ساتھ پھیل جائیں ان کے اوپر قدرتی آفتیں مقدر کردی جاتی ہیں، وہ ذلیل وخوار ہوتی ہیں فساد انہیں گھیر لیتا ہے۔ جب وہ ان کے پاس آگیا اس نے ان کے لیے دیوار بنائی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ظالموں کے ظلم اور جابروں کے قہر سے بچا لیا۔ اس نے اس خدمت پر ان سے مال یا اجر طلب نہیں کیا۔
حکمران کی انکساری: قوت ودبدبہ اور عزت سے سرفراز ہونے کے باوجود ذوالقرنین کے دل میں غرور کے لیے ذرہ برابر جگہ نہیں تھی، حالانکہ وہ ساری دنیا پر حاکم تھا اور اس نے دنیا کو مغلوب کر رکھا تھا۔
اسباب کا اختیار کرنا: پس اللہ تعالیٰ اس قصے کے ذریعے اشارۃََ ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ ذوالقرنین صرف اللہ کے ہاں اپنی حیثیت پر تکیہ کرکے اور اس پر توکل کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ وہ حتی الامکان اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالٰی پر توکل کرتا ہے۔ اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ اس کے ہر سفر کی شروعات سے پہلے اشارہ کرتے ہیں، جب اللہ فرماتا ہے ” تو اس نے اسباب اختیار کیے۔”
خیر کے راستے میں قوت صرف کرنا: اگرچہ ذوالقرنین کا مقصد بہت بڑا تھا اور وہ کائنات کے آخری سرے تک پہنچ بھی گیا، لیکن اس نے اپنی طاقت وجبروت کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ اور نہ ہی لوگوں پر اپنا تسلط قائم کرنے یا ان کی دولت ہتھیانے کی کوشش کی۔ جب کہ وہ ان کی جہالت ومحتاجی کا فائدہ اٹھانے پر قادر تھا۔ اس کے برعکس اس نے اپنی ساری توانائیاں حق کی آواز پھیلانے میں استعمال کیں اور اس نے اپنی قوت، عدل وانصاف قائم کرنے اور مظلوموں اور پٹے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے صرف کی۔ اسی قوت کے ذریعے اس نے متکبرین، فاسقین اور فاجرین سے مقابلہ کیا۔
ساری بھلائی اللہ کی طرف سے ہے: یہی وجہ ہے کہ ذوالقرنین اپنی ہر فتح اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، وہ کہتے ہیں "اس نے فرمایا یہ میرے رب کی رحمت ہے” اور سارے امور اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں، اور کہتا ہے: ( جو کچھ میرے اللہ نے مجھےعطا کیا ہے وہی بہترین ہے) یہ بات اس منطق کے خلاف ہے جس پر فرعون جیسے متکبرین بھروسہ کرتے ہیں، جس نے کہا تھا "کیا مصر پر میری بادشاہت قائم نہیں ہے؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہتی ہیں” ؟ یا جو بات قارون نے بولی تھی: ” یہ مجھے میرے اپنے علم کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے”۔
دعوت کو پوری دنیا میں پھیلانا: پس ایک مومن بندے کے اوپر فرض ہے کہ عدل کو پھیلانے اور ظلم کو مٹانے کی کوشش کرے۔ اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ زمین کے چپے چپے تک اللہ کا پیغام پہنچائے، نہ کہ اس علاقے تک محدود رہے جہاں وہ رہتا ہو اور ٹھیک یہی کام ذوالقرنین نے کر دکھایا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین: اس قصہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین تمکین وغلبے کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جد وجہد کرنے والے صالح بندوں سے کیا ہے۔
شخصیت کا ارتقاء: یہ بات ذوالقرنین کی اس کوشش سے واضح ہوتی ہے جو وہ اپنی ذات، امکانات اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے کرتا ہے، جو اللہ نے اس کو ودیعت کی ہوئی ہیں۔ کیونکہ صرف صلاحیتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ انہیں ظاہر کرنا اور پروان چڑھانا بھی ضروری ہے۔ انہیں اپنے اور لوگوں کے فائدے کے لیے استمعال کرنا از حد ضروری ہے۔
جزاء وسزا کا نظریہ: یہ وہ موقعہ ہے جس سے معلمین کو ہر سطح پر فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے چاہیں تو غلطی کی سزا دیں یا احسان کا رویہ اپنائیں۔ ذوالقرنین نے مطلقاً کوئی چیز اختیار نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” اس نے کہا جو ظلم کرے گا ہم اسے سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور رب اسے بہت برا عذاب دے گا اور جو ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اسے بہترین جزا ملے گی اور ہم اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں گے” (الکہف: 87-88)۔
غیروں کو علم سکھانا: ذوالقرنین علیہم السلام نے اس علم میں بخل سے کام نہیں لیا جو اسے عطا ہوا تھا۔ اس میں معلمین کے لیے علمی سبق ہے، کہ اپنے ماتحت لوگوں کو عمل میں شریک کریں۔ چنانچہ ذوالقرنین نے صرف اپنی فوج سے کام نہیں لیا، بلکہ ان لوگوں کو بھی شریکِ عمل کیا جو اس سے مدد چاہتے تھے اور اس نے ان لوگوں کی جسمانی قوتوں کو دھات اٹھانے اور اسے پاک وصاف کرنے میں لگا دیا۔
علم غلبہ حاصل کرنے کا پہلا وسیلہ ہے: یہ بہت ہی اہم تعلیمی ہتھیار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو بہت سی صلاحیتوں اور علوم سے نوازا تھا، تاکہ وہ زمین میں غلبہ حاصل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ہم نے اسے زمین میں غلبہ وتمکن عطا کیا اور اسے ہر چیز کے اسباب فراہم کیے” چونکہ قوموں کی قیادت وسیادت اور تمدن کی تعمیر، علم واسباب کو اختیار کیے بغیر ناممکن ہے۔
زمین میں سیر وسفر اور دیگر اقوام سے تعامل: یہ چیز تبادلہ افکار ونظریات، تجربات، اور ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔
ذمہ داری کا احساس: ذوالقرنین ایک عادل حکمران تھا اس نے لوگوں کو صرف وہ دیوار کھڑی کرکے نہیں دی جس کی انہوں نے مانگ کی تھی، بلکہ اس نے دیوار سے بڑھ کر ان کے لیے وہ کھائی پاٹ کردی اور بنفس نفیس خود اس کام میں حصہ بھی لیا۔
صبر واستقامت، بردباری اور برداشت: یہ ذوالقرنین کی وہ صفات ہیں جو علم اور معرفت کے علاوہ اسے حاصل تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی نظر سیاست، جغرافیہ، صنعت وحرفت پر بھی تھی اور لوگوں سے معاملہ کرنے کا فن بھی اسے حاصل تھا۔
مفسدین کو ختم کرنا: ایک عادل حکمران پر واجب ہے کہ مفسدین کو منصب واختیارات سے بے دخل کرے، تاکہ وہ غریبوں، کمزوروں اور محتاجوں کی دولت ہڑپ کر نہ لے جائیں اور کہیں فساد نہ برپا ہو۔
علم سے استفادہ کرنا: لوہا نکالنے کا عمل، اسے پگھلانے اور اس پر تانبا انڈیلنے کا ہنر آج تک استعمال میں ہے۔
مؤثر اسلوبِ حکومت: ایک عادل وعاقل حکمران وہ ہے جو اپنی پوری زندگی اور حکومت خیر واصلاح پھیلانے اور فساد سے جنگ کرنے میں لگائے تاکہ عوام الناس اور مفسدین کے بیچ میں رکاوٹیں کھڑی ہوں۔
قانون کی بالادستی: یہ کوئی خالی خولی باتیں نہیں ہیں جنہیں عبارات کا جامہ پہنایا گیا ہو، جنہیں کچھ لوگوں پر تو لاگو کیا جاتا ہو اور بعض لوگوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
آزمائش وامتحان: پس غلبہ محض علم اور خیر واصلاح کا دعویٰ کرنے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے وہ آزمائش وابتلا ضروری ہے جس سے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی صداقت کا امتحان ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ آزمائش طول بھی پکڑ سکتی ہے۔
مشاورت کے اصول اپنانا: اس اصول کو فیصلہ کرتے وقت مدنظر رکھنا چاہیے خاص کر ان معاملات میں جہاں حتمی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور رجوع کی گنجائش نہ ہو۔ یہی جمہوریت کی معراج ہے۔
اہلِ شوریٰ کی تقرری: وہ علماء اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرینِ میں سے ہوں۔
فقیروں کی امداد اور خبر گیری: یہی وہ کام ہے جسے ذوالقرنین عمر بھر کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے زمین کا بیشتر حصہ طے کیا اس مقصد کے تحت کہ غریبوں اور عامہ الناس کی مدد کی جائے۔
قصہ ذوالقرنین اس مومن بندے کی کہانی ہے جسے اللہ عزوجل نے زمین میں بادشاہی اور غلبہ عطا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں سے عدل وانصاف اور ایمان قائم کروانا چاہتا تھا اور خیر وشر کی جنگ کے درمیان فیصلہ کرانا چاہتا تھا۔ ذوالقرنین خیر کی نمائندگی کر رہا تھا اور یاجوج ماجوج کے قبائل شر کی طرف سے تھے جنہوں نے زمین میں فساد برپا کر رکھا تھا۔ اس قصہ میں علم وتربیت اور نصیحت موجود ہے۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے والے متکبرین کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر غالب ہے اور انہیں تباہی کا پیغام پہنچاتا ہے اور یہ کہ ساری عزت اللہ کی ہے اور اس کے بعد اس کے رسول اور ایمان والوں کے لیے۔
مآخذ وحوالہ جات:
- سورہ الکہف کی موضوعی تفسیر: احمد بن محمد شرقاوی (ص: 89)
- ابن رجب حنبلی: بیان وحکمت کا مجموعہ (15/384)
- ڈاکٹر عثمان قدری مکانسی: قصہ ذوالقرنین کے تعلیمی تصورات
- ڈاکٹر محمد علی صلابی: غلبہ وحکومت کے متعلق ذوالقرنین کا تصور
- اُسامہ ملوحی: سورة الکہف کا مطالعہ اور ذوالقرنین
مترجم: میر سجاد الحق