پندرہویں صدی عیسوی میں قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے اسلامی تاریخ کے عظیم فاتح سلطان محمد کی شہرت کے باوجود شیخ آق شمس الدین اس کے روحانی فاتح کہلائے جانے کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے اس عظیم اسلامی فتح کو یقینی بنانے کے لیے ترک قوم کو اس وقت متحرک کیا اور کم عمری سے ہی سلطان محمد فاتح کی تعلیم وتربیت میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے ان کے دل میں قسطنطنیہ شہر کو فتح کرنے کی شدید اور کبھی نہ ختم ہونے والی خواہش پیدا کی۔
شیخ شمس الدین ایک آزاد شخص اور باعمل علماء کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کے مقصد سے جڑ کر اپنا علم اور تجربہ اس کی خدمت میں رکھ دیا۔ انہوں نے تاریخ کے اہم مرحلے پر دنیا کو ایسا لیڈر تیار کرکے دیا، جس نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر اسےایک نئی سمت عطا کی۔
آق شمس الدین کی ولادت اور علم:
محمد شمس الدین بن حمزہ المعروف آق شمس الدین 792ھ میں دمشق کے شہر منارات الشام میں پیدا ہوئے اور بعض مؤرخین کے مطابق ان کا سلسلہ نسب ہمارے آقا ابوبکر صدیقؓ سے جاکر ملتا ہے۔
انہوں نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر عماسیہ، حلب، اور اس کے بعد استنبول میں تعلیم حاصل کی۔ وہ بچپن سے ہی علم میں دلچسپی رکھتے تھے، انہیں علم سے محبت تھی اور اپنی زندگی علم کے لئے وقف کردی، یہاں تک کہ وہ اسلامی علوم کے مشہور علماء میں شمار ہونے لگے۔ اس کے علاوہ طب، فلکیات، حیاتیات اور ریاضی میں بھی مہارت حاصل کی۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اس دور کے بڑے علماء میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے زمانے کے مشہور علماء میں سے ایک بن گئے، اور کئی سالوں تک عثمانی درس گاہوں میں کام کرکے سینکڑوں تخلیقی صلاحیت رکھنے والے طالب علموں کی تربیت کی۔
شیخ شمس الدین کی پرورش اس دور میں ہوئی جب سلطنت عثمانیہ نے بہت سے اسلامی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا اور ان ممالک کو اپنی خلافت میں ضم کرکے اپنے جھنڈے تلے جمع کیا تھا اور دنیا کی سب سے غالب طاقت بن گئے تھے۔ یہاں تک کہ یورپ پر حملہ کرکے مغربی ریاستوں کو بھی خوف زدہ کیا، انہوں نے خلافت کو یورپ کی طرف بڑھانے اور اسلام کی سچائی پھیلانے کو اپنا ہدف بنالیا تھا۔
جس دور میں شیخ آق شمس الدین پیدا ہوئے، وہ علم اور علماء کی عزت افزائی، قوت کے طریقوں کی تلاش میں دلچسپی اور ان اصولوں پر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرنے کا دور سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان ایک لمبے عرصے تک اسلامی خلافت کے سایے میں رہے، جس کے دوران علم نے ترقی کی اور ملت آگے بڑھی۔ اسلامی ریاست پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت اور دین پر توجہ دی۔
یہ وہ زمانہ ہے جب عثمانی حکمران علماء، اساتذہ اور درس گاہوں سے متعلق قوانین کا خیال رکھتے تھے، علماء اور ان کے علمی مقام کی درجہ بندی کرتے تھے، تحقیق وایجادات کے ذرائع ان کے سامنے رکھتے تھے اور اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کی مادی اور اخلاقی مدد کرنے پر تیار تھے۔ اس دور میں درس گاہوں، اداروں اور پبلک لائبریریوں نے بہت ترقی کی۔
شیخ آق شمس الدین نہ صرف دین اور تزکیہ نفس کے عالم تھے، بلکہ نباتیات، طب اور فارمیسی کے سائنسدان بھی تھے۔ وہ اپنے دور میں دنیاوی علوم، نباتیات کی تحقیق اور بیماریوں کے علاج میں اس کی موزوںیت کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
انہوں نے جسمانی بیماریوں پر اتنی ہی توجہ دی جتنی توجہ نفسیاتی بیماریوں کو دیتے تھے اور خاص کر وبائی بیماریوں کی طرف توجہ دی، جو ہزاروں افراد کی موت کا سبب بن رہی تھیں۔ انہوں نے ترکی زبان میں “مادۂ حیات ” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں انہوں نے کہا کہ “یہ تصور کرنا غلط ہے کہ بیماریاں خود بخود لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں، بلکہ بیماریاں انفیکشن کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی ہیں، یہ انفیکشن اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن یہ زندہ بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے”۔
شیخ آق شمس الدین نے پندرہویں صدی عیسوی میں مائکروب کی تعریف پیش کی، اور ایسا کرنے والے وہ پہلے شخص بن گئے۔ جب کہ مائیکراسکوپ اس وقت تک ایجاد نہیں ہوا تھا۔ آپ کینسر کی تحقیق میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور اس کے بارے میں لکھا بھی تھا۔ طب پر انہوں نے دو کتابیں لکھیں، ” مادۂ حیات “، اور ” طب کی کتاب”۔
فتح قسطنطنیہ کے چھ سال بعد، شیخ آق شمس الدین نے سلطان فاتح کے اصرار کے باوجود استنبول چھوڑنے کی ضرورت محسوس کی اور اپنے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا، اور وہیں863 ہجری میں وفات پائی۔

آق شمس الدین اور محمد فاتح کی تعلیم:
شیخ آق شمس الدین قرآن، سنت، فقہ اور مختلف زبانوں عربی، فارسی اور ترکی کے علاوہ ریاضی، فلکیات، طب، نباتیات، فارمیسی اور تاریخ کے علوم میں ایک اعلی مقام رکھتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں عثمانی سلطان مراد خان نے اپنے بیٹے محمد دوم (الفاتح) کو پڑھانے کے لئے منتخب کیا۔ وہ محمد الفاتح کے استاد اور مربی تھے، جس سے سلطان محمد فاتح نے علم حاصل کیا۔
شیخ آق شمس الدین نیکی کے کاشت کار تھے، وہ انسانی خیر کے سرچشمے سے آگاہ تھے۔ انہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ وہ ننھے شہزادے محمد کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
الفاتح کو قرآن مجید، سنت رسولؐ، فقہ، عربی، فارسی اور ترکی زبانیں، فلکیات، ریاضی اور تاریخ جیسے بنیادی علوم کی تعلیم دی گئی جس سے محمد فاتح کے عسکری اور ثقافتی رجحانات پر بہت گہرا اثر پڑا۔
محمد فاتح نے اپنے وزیر محمود پاشا کے سامنے شیخ کے لئے اپنے احترام کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “شیخ آق شمس الدین کے لئے میرا احترام اختیاری نہیں ہے، میرے اندر اس کے ساتھ جذباتی وابستگی اور رعب محسوسں ہوتا ہے۔”
وہ ایک عظیم الشان شخص تھا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا تھا، لہٰذا جب سلطان ان سے ملنے آتا تو وہ ان کے لیے اپنی مجلس سے نہیں اٹھتا تھا۔ لیکن جب شیخ آق سلطان کے پاس جاتا تو سلطان ان کے احترام اور عقیدت میں اپنی مجلس سے کھڑا ہوتا تھا اور انہیں اپنے برابر بٹھاتا تھا۔ یہاں تک کہ سلطان اور اس کے وزراء نے یہ بات محسوس کی اور سب سے وزیر اعظم “محمود پاشا” نے سلطان سے حیرت کا اظہار کیا اور ان سے کہا: اے میرے عظیم سلطان، مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب شیخ آپ سے ملنے آتے ہیں تو آپ شیخ “آق شمس الدین” کے لیے اپنی مجلس سے کھڑے ہوتے ہیں لیکن دوسرے علماء اور مشائخ کے لیے نہیں اٹھتے، حالانکہ جب آپ شیخ سے ملاقات کرنے جاتے ہیں تو وہ آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔
سلطان نے جواب دیا: مجھے بھی اس کی وجہ معلوم نہیں ہے، لیکن جب میں انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو میں ان کے لیے کھڑے ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ جہاں تک دوسرے علماء اور شیوخ کا تعلق ہے تو وہ میری موجودگی سے کانپتے ہیں، اور مجھ سے بات کرتے ہوئے ان کی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں، لیکن جب میں شیخ آق شمس الدین سے بات کرتا ہوں تو میری زبان لڑکھڑاتی ہے۔
شیخ آق شمس الدین نے قسطنطنیہ کے محاصرے میں حصہ لیا اور اس کی فتح میں بہت بڑی کوشش کی۔ آپ نے سپاہیوں اور کمانڈروں کی رہنمائی کی، ان کے سامنے اس عمل کی عظمت اور عند اللہ اس کی فضیلت بیان کی، اس کے علاوہ خدا سے مسلسل دعا کرتے رہے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے عاجزی کے ساتھ خدا سے ان کی عزت اور مدد کے لیے دعا کی۔
امیر حسین انیسی اپنی کتاب “فضائل آق شمس الدین” میں لکھتے ہیں کہ عثمانی شہزادوں اور علماء نے سلطان سے ملاقات کی اور کہا: “آپ نے ہم میں سے ایک شیخ کی بات پر عمل کرتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو اس محاصرے میں دھکیل دیا۔ یعنی ( شیخ آق) اور اس کی وجہ سے سپاہی ہلاک ہو گئے اور بہت سارا سازوسامان ضائع ہوگیا، اب مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ مغربی ممالک کی امداد قلعے میں جاچکی ہے، اب اس فتح کی کوئی امید نہیں ہے۔
جب سلطان نے یہ خبر شیخ آق شمس الدین کو بھیجی، توانہوں نے ایک پیغام کے ذریعے یہ جواب دیا اور کہا: “وہی عزت دینے والا، نصرت عطا کرنے والا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بندہ اپنی کوشش کرتا ہے مگر تقدیر اللہ لکھتا ہے اور حتمی فیصلہ اللہ ہی کا ہے، ہم نے اللہ کا سہارا لیا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کی ہے، اللہ نے چاہا تو مدد آنے میں دیر نہیں لگے گی، پلک جھپکنے کی دیر میں اتنی اچھی خبر آئے گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی”۔
اس پیغام کا سلطان اور اس کے سپاہیوں پر گہرا اثر پڑا، چنانچہ جنگی کونسل نے فتح کی راہ پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سلطان نے شیخ آق شمس الدین کے پاس جا کر ان کا ہاتھ چوم لیا اور ان سے کہا کہ وہ انہیں کامیابی کے متعلق اللہ کی دعا سکھائیں، اور انہوں نے انہیں سکھایا، اس طرح وہ قسطنطنیہ پر عام حملے کا حکم دیتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔
قسطنطنیہ کی فتح کے بعد شیخ آق شمس الدین نے سب سے پہلے مسجد (آیا صوفیہ) میں جمعہ کا خطبہ دیا اور شیخ کو قسطنطنیہ کی دیوار کے قریب ایک جگہ پر موجود صحابی ابو ایوب انصاری کے مقبرے پر لے جایا گیا۔
تعلیمی فکر:
شیخ آق شمس الدین ایک استاد، مربی، رہنما اور سماجی مصلح تھے، جنہوں نے تعلیمی اور فکری دونوں پہلوؤں میں دلچسپی لی۔
شیخ سیاسی، سماجی اور نفسیات کے شعبوں میں ایک منفرد تعلیمی فکر کے حامل ہونے کی وجہ سے ممتاز تھے۔ جب کہ نصاب تعلیم میں انہیں باعمل علماء کے لئے ایک نمونہ قرار دیا گیا ہے، جس نے خود کو اپنی قوم کے مسائل سے ہم آہنگ کرکے اپنے علم اور تجربے کو اس کی خدمت میں پیش کردیا۔
شیخ نے علوم دنیا پر بہت توجہ دی اور آپ کا ماننا تھا کہ اگر اس علم کو تعلیم وتربیت کے ساتھ ضم کیا جائے تو یہ طاقت اور فتح کا ایک ہتھیار بن سکتا ہے، جو چیز انہوں نے سلطان محمد فاتح اور عثمانی فوج کی تعلیم وتربیت میں عملا کر دکھائی اور وہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب رہے۔
شیخ نے محمد فاتح کی شخصیت میں ان تصورات کو ابھار کر اپنی تعلیمی فکر کو نافذ کرایا۔ آپ نے انہیں ایمان، اسلام اور خیر کے تصورات پر پروان چڑھایا۔ یہ بات اس طرح واضح ہوتی ہے کہ جب محمد جوان تھا تو وہ اسے سمندر کے کنارے پر لے جاکر قسطنطنیہ کی دیواروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے: کیا تم ان بلند و بالا دیواروں اور عظیم شہر کو دیکھ سکتے ہو؟ یہ قسطنطنیہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ان کی امت کا ایک آدمی اپنی فوج لے کر اسے فتح کرے گا اور اسے امت واحدہ میں شامل کرے گا پھر دعا کرتا ہے ” اے اللہ قسطنطنیہ فتح ہوجائے، یہ شہزادہ اس کا شہزادہ ہوجائے، اور اس لشکر کو وہ شرف عطا ہو”۔
شیخ کی تعلیم کوئی زبانی جمع خرچ نہیں تھی، بلکہ آپ نے سلطان کے اکیس برس کا ہونے پر یہ کام عملاََ کر دکھایا اور قسطنطنیہ کی فتح کے لیے تیاری کی۔ شیخ نے اپنے بیٹوں اور شاگردوں کو فوج میں سب سے آگے رہنے کے لیے کہا اور خود بھی ان کے ساتھ رہے، جس کی وجہ سے شہر فتح ہونے تک سپاہیوں کے دلوں میں جوش و خروش برقرار رہا۔
شیخ آق شمس الدین کی علمی کتابوں میں مادۂ حیات، طب کی کتاب، مشکلات کا حل، روشن پیغام، ذکر اللہ پر مقالہ، اولیاء کا مقام، تصوف پر ایک مقالہ اور تصوف کے چیلنجز کی ادائیگی پر ایک کتاب شامل ہیں۔
اللہ شیخ پر رحم کرے جس کے بارے میں اس کے شاگرد سلطان محمد الفاتح نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا: “آپ لوگ میرے چہرے پر یہ جو خوشی دیکھتے ہو، یہ خوشی صرف اس قلعے (قسطنطنیہ) کو فتح کرنے کی نہیں ہے، بلکہ میری خوشی کی نمائندگی میرے دور میں موجود ایک محبوب شیخ سے ہوتی ہے اور وہ شیخ میرے رہبر شیخ آق شمس الدین ہیں۔”
مآخذ و حوالہ جات:
اسامہ حسانی: آق شمس الدین۔۔۔ قسطنطنیہ کے روحانی فاتح، جنوری، 2017
عبد الرحمن اتشیل: عہد حکومت عثمانیہ کے اوائل میں علماء اور سلاطین، ترجمہ سعید آل عبد السلام، صفحہ نشر واشاعت دمشق، 2022
ابو سعید مصری: انسائیکلو پیڈیا آف تاریخ اسلامی، مکمل انسا ئیکلوپیڈیا، ص، 974
محمد حرب: عثمانیوں کی تہذیب اور تاریخ دار القلم نشر واشاعت و طباعت، دمشق 1999 ، ص، 375
عامر محمد خطاب: آق شمس الدین کی تعلیمی فکر اور سلطان فاتح کی شخصیت سازی میں آپ کا کردار، ماسٹرز تحقیقی مقالہ، دار الاسری العربیہ، 2021
رندہ عطیہ: آق شمس الدین۔۔۔ فتح قسطنطنیہ کا روحانی باپ، 20، اگست 2020
مترجم: سجاد الحق