قرآن مجید نے اولی الالباب یعنی عقل والوں کے ذہنی امتیازات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جو اپنے رب کی طرف سے دنیا اور آخرت میں خیر و بھلائی اور سعادت سے نوازے جاتے ہیں، کیونکہ وہ رشد و ہدایت کے راستے پر چلتے ہیں جس کو اللہ عزوجل نے اپنے مومن بندوں کے لیے مقرر کردیا ہے۔ قرآن اہل ایمان کو صحیح اور بہترین عقائد، عمدہ طرز عمل، درست افکارو خیالات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن انہیں ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ اقدار اور علم سے مالا مال کرتا ہے۔
ڈاکٹر حمدان عبد اللہ الصوفی اسلامی یونیورسٹی فلسطین میں شعبہ اصول تربیت کے استاد ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ مطالعہ قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم انسان کی سوچنے کے انداز کو درست سمت فراہم کرتا ہے۔ کئی ذہنی افعال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جیسے غور وفکر، تدبر، نظر و تحقیق، تعبیر و استنباط وغیرہ کی صلاحیت پیدا کرتاہے۔ جس طرح اس کا مقصد اصحاب عقل و فہم کے ذہنی امتیازات کو تعلیمی نقطہ نظر سے ظاہر کرنا بھی ہے، اور یہ بات سولہ آیات میں بیان کی گئی ہے۔
اولی الالباب (سمجھ بوجھ رکھنے والے) ذہنی امتیازات قرآن کی رو شنی میں:
تربیتی پہلو سے اولی الالباب کی ان خصوصیات میں سے ایک اہم خاصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ گروہ اہل ایمان کے اندر بر بنائے بصیرت، اپنے مصالح اور مفاسد کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو فرد اور معاشرے کی زندگی کے استحکام کا سبب بنتا ہے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے: {وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [البقرة: 179]
ترجمہ: “عقل و خرد رکھنے والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے”
امام سعدی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے: اس سے جان محفوظ ہوتی ہے اور مفسدوں کو لگام دی جاتی ہے، اس لیے کہ جب ظالم کو معلوم ہوگا کہ قتل کی سزا بھی قتل ہے تو اس سے قطعاََ بھی قتل کا صدور نہیں ہوگا۔ اور جب ایک قاتل سے قصاص لے کر اسے قتل کیا جاتا ہے تو ایسا کرنے سے دوسرے بھی کانپتے اور گھبرا جاتے ہیں۔ اگر قاتل کی سزا قتل کے سوا کچھ ہوتی، تو معاشرے سے شر اور فتنہ کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ یہ چیز قصاص سے بخوبی حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف مکمل عقل اور گہری بصیرت رکھنے والے ہی سمجھتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو چھوڑ کر انہیں خاص طور پر مخاطب کیا ہے (یا اولی الباب) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ اپنی عقل کا استعمال کریں تاکہ اس کے احکام میں موجود حکمت اور مصالح پر غور کریں، جو اس کی کمال، حکمت، عدل، اور وسیع رحمت پر دلالت کرتے ہیں۔
مصالح اور مفاسد میں سے بعض اتنے واضح ہیں کہ ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے کسی خاص علمی استعداد یا اعلیٰ ذہنی سطح کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اصل مسئلہ وہاں درپیش ہوتا ہے جب کسی ایک ہی معاملے میں فائدے (مصالح) اور نقصان (مفاسد) دونوں شامل ہوں. تب یہ معاملہ انتہائی غور فکر اور گہری اجتہادی بصیرت کا متقاضی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مجتہد چاہتا ہے کہ وہ فائدے یا نقصان میں سے کسی ایک کو ترجیح دے تاکہ اس سے ایک صحیح اور مفید حکم نکالا جاسکے۔ اسی لیے پچھلی آیت میں خطاب ان لوگوں سے ہے جوعقل کامل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور قصاص میں زیادہ فائدہ کو پہچانتے ہیں، اگر چہ یہ ظاہری طور پر ایک انسانی جان کا ضیاع ہوتا ہے۔ )جو بعض کج فہموں نے اخذ بھی کر رکھا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ قصاص لینے سے دنیا میں اب ایک قتل کے بجائے دو قتل ہو گئے)۔
ترجیحات کی فقہ:
فقه الاولویات (فقه الموازنات) یا دینی ترجیحات کا فہم ہونا بھی اولی الالباب کی خصوصیات میں سے ہے، جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔
اس میں اقوال اور اعمال کی جانچ کے لیے ترجیحات طے کی جاتی ہیں تاکہ اس فعل یا قول کا انتخاب کیا جائے جو اللہ کی مرضی اور منشاء سے نزدیک تر معلوم ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ [البقرة: 197]
ترجمہ: حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ۔ اور سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔
امام بخاری نے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت لی ہے کہ اہل یمن حج کرتے تھے لیکن زادِ راہ ساتھ نہیں لے جاتے تھے، اور کہتے تھے: “ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔” جب وہ مکہ پہنچتے تو لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: “سفر حج کے لیے اپنا سامان ساتھ لے جاؤ، بے شک بہترین سامان تقویٰ ہے”
اس آیت میں حج کے سفر کے لیے زادِ راہ لینے کی ضرورت کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے، تاکہ مال، کھانے اور دیگر ضروریات لوگ ساتھ لے جائیں جو کہ بھیک مانگنے سے بہتر ہے۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے لوگ ان کی ضروریات پوری کر دیں اور ہوسکتا ہے نہ کریں۔ نیز ساتھ ہی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کر دیا کہ تقویٰ بہترین زادِ راہ ہے، لہٰذا اس کا خیال بالاولیٰ رکھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “خوشخبری سنائیے میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں” [الزمر: 18]
امام رازی نے اس آیت سے کئی فوائد ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلا فائدہ یہ بیان کیا: “غور و فکر اور استدلال کا وجوب؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ ہدایت اور کامیابی اس بات سے وابستہ ہے کہ انسان کئی چیزیں سن کر ان میں سے بہترین اور درست چیز کا انتخاب کرے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ صرف سننے سے بہترین بات واضح نہیں ہوتی، بلکہ یہ چیز عقل کے استعمال اورغور و فکر کے بعد ہاتھ آتی ہے۔
امام زمخشری نے اللہ کے ان عبادت گزاروں کی جو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، کے بارے میں ایک اور صفت بیان کرتے ہوئے کہا کہ: “اور وہ (عبادت گزار) چاہتے ہیں کہ وہ دین میں گہری نظر رکھتے ہوں۔ راجح اور مرجوح، مفضول اور افضل میں تمیز کر سکیں۔ اگر ان کے سامنے دو امور آئیں: ایک واجب اور دوسرا نفل؛ تو وہ واجب کا انتخاب کریں گے، اور اسی طرح مباح اور نفل میں بھی، تاکہ وہ اس چیز کا انتخاب کریں جو اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور زیادہ ثواب والی ہو۔”
عملی اور نظری کمال:
عقلاء کی خصوصیات میں نظری اور علمی کمال بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اللہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں۔ [البقرہ: 269]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی عمل کرے تو اسے اچھی طرح کرے۔”
امام قرطبی نے حکمت کے معنی میں علماء کے اقوال نقل کیے ہیں۔
السدیؒ کا کہنا ہے کہ حکمت کا مطلب نبوت ہے، ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ قرآن کی معرفت ہے، مجاہدؒ نے کہا کہ یہ قول اور عمل میں درستگی ہے، ابن قاسمؒ نے کہا کہ یہ اللہ کے احکام میں غور و فکر اور پیروی کرنا ہے، اور حسنؒ نے اسے ورع قرار دیا۔
یہ اقوال نقل کر کے امام قرطبی کہتے ہیں کہ “حکمت دراصل احکام سے ماخوذ ہے، یعنی قول یا فعل میں کمال حاصل کرنا۔ “
آیت مذکورہ کے پیش نظرجو حکمت اور اولی الالباب کے درمیان ایک رابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، اور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ایک محقق کے لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اولی الالباب جس حکمت سے لیس ہوتے ہیں اُس کی دومکمل اقسام ہیں: نظری حکمت اور عملی حکمت۔
نظری حکمت وہ ہے جو انسان کو استدلال اور سمجھنے میں درست رہنمائی فراہم کرتی ہے، اور مسائل کے سلسلے میں صحیح تصور قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب کہ عملی حکمت انسان کو عملی زندگی میں اس کے اطلاق کو ممکن بناتی ہے۔ اور بہترین انداز میں اس کو انجام دینے کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔
مسلم معاشرے اس بات کے متقاضی ہیں کہ عملی تربیت کے اندر حکمت کے معنی کو اس انداز میں بروئے کار لایا جائے کہ طلبہ کے اندر مختلف امور کے بارے میں غور و فکر کی مہارت پیدا ہو۔ اور یہی چیز نظری حکمت کو دوام بخشنے کے علاوہ اساتذہ کے اندر اس انداز میں مہارت پیدا کرے گی، کہ وہ ممکنہ حد تک اس کو بخوبی انجام دے سکیں، تاکہ امت مسلمہ اس مقام کو پاسکے جس کی وہ مستحق ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے چاہا تھا کہ امت مسلمہ علم و عمل میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
فہم کی درستی:
فہم درست ہونا بھی قرآن کی رو سے اولی الالباب کی خصوصیات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: “وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں، اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں”۔ [آل عمران: 7]
قرآن کریم کی وہ آیات جومحکمات پر مشتمل ہیں۔ اُن کے بارے میں امام ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ یہ ام الکتاب ہیں۔ واضح اور روشن دلائل جن میں کسی بھی شخص کو کوئی اشکال و ابہام نہیں ہے۔ وہی یہ کتاب کی اصل ہیں۔ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے تو آیاتِ محکمات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک بات ہے مشتبہات کی، تو ان کی دلالت میں بہت سے لوگوں یا بعض لوگوں کے لیے ابہام ہو سکتا ہے۔ یہ آیات کبھی کبھار محکمات کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہو سکتی ہیں، لیکن کبھی کبھی ان کی لفظی اور ترکیبی حیثیت میں کسی اور معنی کا احتمال ہوتا ہے، اگرچہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔
شیخ سعدی نے قرآن کی آیات کے محکم اور متشابہ کو سمجھنے کا صحیح طریقہ بیان کیا ہے، کہ “اس میں واجب ہے کہ متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹایا جائے، اور خفی چیزوں کو واضح چیزوں کی طرف، کیونکہ اسی طرح ایک دوسرے کی تصدیق ہوتی ہے، اور اس میں نہ تو تناقض ہوتا ہے اور نہ ہی مخالفت۔”
قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ اہل حق اور درست فہم کے حاملین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ آیات محکمات کو معیار بناتے ہیں۔ جو کتاب کی اصل ہیں؛ اور حکم اور شارع کا مقصد سمجھنے کے لیے ان آیات کو استعمال کرتے ہیں جن میں مختلف اور مبہم معنی نہیں ہوتے، تاکہ وہ حق اور صحیح نتیجے تک پہنچ سکیں۔ اس کے برعکس، اہلِ ضلالت اور کجی والے لوگ آیات متشابہات کے معانی میں بغیر کسی اصول اور ضابطے کے اپنی مرضی سے اجتہاد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ معانی کو اپنی خواہشات اور غلط فہمیوں کے مطابق موڑ دیتے ہیں اور تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں۔
سابقہ گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ نصاب تربیت میں متعلم کے فہم اور احساسات کو اس کی فطری بنیاد، مضبوط اسلامی عقیدے، اور متعلم کی ذہنی، نفسیاتی، جسمانی اور علمی صلاحیتوں کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ اس طرح ہم ایک تخلیقی تربیتی نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں، جو بنیادی اصولوں، جدید تکنیکی مہارتوں اور وسائل و ذرائع کو جمع کرتا ہے اورجدید خیالات، تجربات اور افکار و نظریات سے ایک ایسے طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جس سے مسلمان شخص دو خطرناک مظاہر سے چھٹکارا پاتا ہے۔ یہ رویے یا رجحانات درج ذیل ہیں:
الف) جمود: ہر جدید نافع کو مسترد کرنے پر انسان کو آمادہ کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس سے شریعت میں بیان کردہ محکمات کی حفاظت ہو رہی ہے۔
ب) ہر نئی چیز کو یہ کہہ کر اختیار کر لینا کہ اس کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے، خواہ وہ انسان کی شناخت اور فطرت سے بغاوت ہی پر مشتمل کیوں نہ ہو۔

آیاتِ کونیہ میں نتیجہ خیز تدبر:
اہل بصیرت کی عقلی خصوصیات میں ایک یہ ہے کہ وہ آیاتِ کونیہ (کائنات کی تخلیق بیان کرنے والی آیات) پر غور و فکر کرتے ہیں، ان کی تخلیق کی باریکیوں اور ان کی تشکیل کی مضبوطی کو دیکھتے ہیں، اور پھر ان کے اندر اللہ کی طرف سے وضع کردہ تسخیری قوانین کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اللہ عز و جل فرماتے ہیں: “زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور دن اور رات کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں” [آل عمران: 190]
ان آیات کونیہ پرنتیجہ خیز غور و فکر کرنا، اللہ کی بیان کردہ نشانیوں کی تخلیق اور ان کی جزئیات اور تفصیلات کا مکمل مشاہدہ، جائزہ اور استقراء کرنا، یہ وہ ذہنی عمل ہے جسے طالبانِ علم کے ذہنوں میں مضبوطی سے راسخ کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ علمی ترقی کا طریقہ ہے اور ان سائنسی قوانین کو سمجھنے کا راستہ ہے جن پر مادی تہذیب material world کی بنیاد ہے۔ ساتھ ہی، یہ مؤمن کے لیے اپنے خالق کو جاننے اور اس کی قدر و قیمت کو سمجھنے کا راستہ بھی ہے، تاکہ وہ اللہ کی حکمت اور تخلیق کی قدرت سمجھ سکے۔ یوں مادی اور ایمانی دونوں پہلوؤں کے ساتھ تہذیب مکمل ہوتی ہے، اور اس سے مسلمان حقیقی بندگی کا مفہوم حاصل کرتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے: “کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اسے سوتوں، چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں، پھر آخر کار اللہ ان کو بھس بنا دیتا ہے۔ درحقیقت اس میں سبق ہے (اولی الالباب) کے لیے” [الزمر: 21]
آیت مذکورہ میں قرآن کریم عقل مندوں (اولی الالباب) کی توجہ ایک عام نشانی کی طرف مبذول کرتا ہے، جہاں اللہ بارش کا پانی نازل کرتا ہے، جسے زمین کی جھیلوں میں جاری کیا جاتا ہے، پھر اللہ اس پانی کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں پیدا کرتا ہے: جیسے گندم، جو، وغیرھما یا اس کی کیفیات جیسے سبزہ، سرخ وغیرھما، پھر یہ بڑھتا ہے اور خشک ہو جاتا ہے، اور زرد نظر آتا ہے، پھر اللہ اسے چورا چورا کر دیتا ہے۔
عمدگی اور میعار کا اہتمام:
اولی الباب کے ذہنی امتیازات میں ایک اور خاصیت ان کا معیار اور عمدگی کو برقرار رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس طور سے کہ وہ میعار کو مقدار پر مقدم رکھتے ہیں اور جوہر کو ظاہر پر۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “اے پیغمبرؐ! ان سے کہہ دیجیے کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اے لوگو! جو عقل رکھتے ہو (اولی الالباب) الله کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو” [المائدہ: 100]
اس آیت سے حاصل ہونے والے تربیتی فوائد میں یہ بات شامل ہے کہ تعلیمی عمل کو معلمین کی تیاری، نصاب کی ڈیزائننگ، اور طلبہ کی تربیت میں معیار اور کیفیت پر توجہ دینی چاہیے، صرف مقدار پر نہیں۔ نیز، یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی عمل کی قیادت، نگرانی اور منیجمنٹ اور اساتذہ کی تربیت کے لیے ایسی شخصیات کا انتخاب کیا جائے جن میں مؤثر صلاحیتیں ہوں، تاکہ تعلیمی معیار میں بہتری لائی جا سکے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: ” کیا اس شخص (نافرمان) کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جو مطیع فرمان ہے۔ رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا ہے اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا ہے۔ اور اپنے رب کی رحمت سے امیدیں لگاتا ہے؟ ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو اولی الالباب ہی قبول کرتے ہیں” [الزمر: 9]
ایک اور جگہ فرمایا: ” بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمھارے رب کی کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصحیت تو اولی الالباب ہی قبول کرتے ہیں” [الرعد: 19]
علم اور اس کے اطلاق (علم پر عمل) کے درمیان تعلق کو تربیتی عمل میں ایک بنیادی اصول ہونا چاہیے تاکہ تربیت معیاری ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں ماہر کمیٹیاں موجود ہوں جو تعلیمی کانفرنسوں، سمیناروں، اور سائنسی تحقیقات سے حاصل کردہ ترقیاتی سفارشات اور تجاویز کی نگرانی کریں۔ پھر انہیں عملی اقدامات میں تبدیل کریں جو تعلیمی اداروں میں نفاذ کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح، تعلیمی عمل کو معیارکی بلندیوں کی طرف لے جایا جا سکے گا۔
تاریخ کا سبق:
اولی الالباب وہ ہیں جو ماضی کے تاریخی ورثے سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ امام رازی نے فرمایا ہے کہ “اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ معلوم پہلو سے غور و فکر کر کے نامعلوم پہلو کی طرف جانا”،
قرآن پاک میں آیا ہے:
“اگلے لوگوں کے قصوں میں “اولی الالباب” کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت ہے” [یوسف: 111]
امام نسفی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: “یہ انبیاء اور ان کی قوموں کی کہانیوں میں، یا یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کی کہانی میں اولی الالباب کے لیے عبرت ہے، جہاں یوسف علیہ السلام کو والد کی محبت کی آغوش سے اندھے کنویں میں پھینکنے، اورچارپائی سے سےتخت سلطانی تک پہنچنے کا سفر دکھایا گیا۔ صبر کے نتیجے میں اس کا انجام سلامتی اور عزت کی شکل میں ہوا اور مکر وفریب خجالت اور شرمندگی پرمنتج ہوا۔
ماضی سے عبرت لینا انسان کو حال سے جوڑتا ہے، اور ماضی سے وہ اسباق اخذ کرتا ہے جو اسے اپنے حال کو بہتر سمجھنے اور غلطیاں کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ عمل فکری ترقی کی جانب ایک قدم ہے، جو فرد کی زندگی میں بہتری لاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “ہم نے اسے اس کے اہل و عیال واپس دیے اور اس کے ساتھ اتنے ہی اور۔ اپنی طرف سے رحمت اور اولی الالباب کے لیے درس کے طور پر۔” [ص: 43]
ابن عاشور نے اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ “قصة ایوب کے اجمالی اور تفصیلی واقعے سے، اگر عقلمند لوگ اس کو سنیں اور تاریخی حالات اور نظائر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایوب کا صبر ہر اس شخص کے لیے ایک مثال ہے جو مشکلات میں ہے اور امید رکھتا ہے کہ اس کی مشکلات دور ہوں گی۔”
سورۃ غافر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا ذکر آیا ہے، جس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی کامیابی اور اقتدار کے بارے میں بتایا گیا ہے، اور فرعون کا حال جسے دنیا اور آخرت میں عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر قرآن پاک ان واقعات پر دعوت فکر دیتا ہے، اور فتح اور شکست کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: “یہ ہدایت ہے اور عقل والوں (اولی الالباب) کے لیے نصیحت ہے” [غافر: 54]۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی سنتیں جو اس نے اپنے بندوں کے درمیان جاری کی ہیں، یہ ہیں کہ عقل و فہم اور تنقیدی نگاہ رکھنے والے ہی ان امور سے صحیح رہنمائی پاتے ہیں۔
سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کا ذکر کیا، جس کا اطلاق اُن قوموں پر ہوا، جنہوں نے اپنے رب کے احکامات کی نافرمانی کی، پھر اللہ نے اُن کا بھر پور حساب لیا اور انہیں بری طرح سزا دی۔ اس کے بعد عقل والوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ اللہ کی اس سنت سے درس وعبرت حاصل کرلیں۔ اللہ فرماتا ہے: “اللہ نے آخرت میں ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اے اولی الالباب! اللہ سے ڈرو کہ اللہ نے تمھاری طرف نصیحت نازل کردی ہے” [الطلاق: 10]۔
آیت میں مذکور اس ٹکڑے {اللہ سے ڈرو، اے عقل والوں} میں ایک حکمت پوشیدہ ہے جسے خطیبؒ نے ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: “یہ عقل و بصیرت رکھنے والوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانی ہے کہ وہ اس بات کو بطور عبرت لیں کہ ظالم اور سرکش دنیا میں اللہ کی پھٹکار و ناراضگی کے اور آخرت میں شدید عذاب کے شکار ہوئے ہیں، وہ اللہ سے ڈریں اوراللہ کی حدود کی پاسداری کریں تاکہ وہ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے ظالموں کے سے انجام سے محفوظ رہیں۔ خطاب عقل والوںسے ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس پیغام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان کی عقلیں انہیں غور و فکر کرنے کی دعوت دیں تاکہ وہ دوسروں کے انجام سے نصیحت حاصل کریں، قبل اس کے کہ ان پر بھی کوئی مصیبت نازل ہو۔ عقل مند وہی ہے جو دوسروں سے سبق سیکھتا ہے، قبل اس کے کہ وہ خود دوسروں کے لیے سبق بنے۔”
غور و فکر برائے یقین:
قرآن میں عقل والوں کی خصوصیات میں سے ایک خاصیت یقین کی طرف لے جانے والا غور و فکر ہے۔ اللہ عز وجل فرماتا ہے: “یہ پیغام ہے سب انسانوں کے لیے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ اس کے ذریعے سے ڈرایا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی یے اور عقل رکھنے والے (اولی الالباب) ہوش میں آجائیں” [ابراہیم: 52]۔
یہ آیت کتاب کی آیات کی کچھ خصوصیات کی طرف اشارہ کرتی ہے، جنہیں ان کے تسلسل کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے: یہ خطاب عام ہے یعنی پیغام ہر خاص و عام کو پہنچاتی ہے، پھر اس پیغام کے نتیجے میں آنے والے انذار کا ذکر ہے، پھر جو علم توحید سے پیدا ہوتا ہے، اور آخر میں اس پیغام میں موجود یاد دہانی کا ذکر ہے۔ یہ علم اور عمل کی تفصیلات ہیں۔
عقلی تدبر جو یقین تک پہنچاتا ہے، وہ ایک ذہنی اور وجدانی سرگرمی ہے۔ وہ انسان کے اندر قوت نظر اور قوت عمل کی تکمیل کرکے نفس انسانی کوگہرا سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے۔ امام الرازیؒ کا کہنا ہے کہ قوت نظریہ کی چوٹی عقیدہ توحید میں ہے، جب کہ قوت عمل کی چوٹی ذکر سے حاصل ہوتی ہے، جو کہ باطل اعمال سے دوری اور نیک اعمال کی طرف رجوع کی طرف لے جاتی ہے۔
اللہ عز وجل فرماتا ہے: “یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا، مبارک، تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل والوں کو نصیحت حاصل ہو” [ص: 29]۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے نازل کرنے کی حکمت بیان کی ہے، جو لوگوں کے لیے نازل کی گئی ہے تاکہ وہ اس کے معنی میںغور و فکر کریں اور اس میں موجود برکت اور خیر کوحاصل کریں۔ اور جو صحیح عقل رکھتے ہیں،وہ اس سے ہر مطلوب علم اور عمل کو یاد رکھ سکیں۔ اب کون کتنا اس سے نصیحت اور فائدہ حاصل کرتا ہے، یہ ہر انسان کی اس کی سوچ اور عقل فہم کے مطابق ہوگا۔
تقویٰ اور معرفت:
تقویٰ کو اولی الالباب کے ساتھ سولہ آیات میں سے چار آیات میں مربوط کیا گیا ہے اور وہ چار آیات درج ذیل ہیں:
- “عقل و خرد رکھنے والو(اولی الالباب)! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے سے پرہیز کرو گے” [البقرہ: 179]
(2 حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ۔ اور سب سے بہتر زاد ِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! (اولی الالباب) میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔ [البقرہ: 197]
- “اے پیغمبرؐ! ان سے کہہ دو کہ پاک و ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اے اولی الالباب! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہو گی”۔
(4″ اللہ نے آخرت میں ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اے اولی الالباب! اللہ سے ڈرو کہ اللہ نے تمھاری طرف نصیحت نازل کردی ہے” [الطلاق: 10]۔
اولی الألباب اور تقویٰ کی صفت کے درمیان تعلق یہ ظاہر کرتا ہے کہ تقویٰ عقل کو طاقت اور پاکیزگی نیز معاملات کے درمیان فرق و امتیاز کی صلاحیت اس طور سے پیدا کرتا ہے، کہ الجھن اور ابہام کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس بات کی تائید اللہ کا یہ فرمان ہے: “اور اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں علم دے گا” [البقرة: 282]۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ وہ ہےجو تمہیں وہ سکھاتا ہے، جس سے تمہارے دینی اور دنیوی معاملات درست کردیتا ہے، تب تک جب تک تم اس پر یقین کرو اور اس کے احکامات کی پیروی کرو۔
قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ تقویٰ انسان کو معاملات میں تمیز اور تفریق کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے، جیسے اللہ فرماتا ہے: “اے ایمان والو! اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمھاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا اور تمھارے قصور معاف کر دے گا۔ [الأنفال: 29]۔ یہاں “فرقان” ذکر ہوا ہے، جس کی سعدیؒ نے تفسیر کی ہے “علم اور ہدایت جس کے ذریعے اس کا حامل ہدایت اور ضلالت، حق اور باطل، اور سعادت مند اور شقی کے درمیان فرق کرتا ہے۔”
مزید برآں، قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ تقویٰ انسان کی عقل کو ایک روشن نور عطا کرتا ہے، جس سے وہ ایسی چیزوں کو سمجھتا ہے جنہیں دوسرے نہیں سمجھ پاتے۔ اللہ فرماتا ہے: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمھیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمھیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمھارے قصور معاف فرما دے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے [الحدید: 28]۔ الشنقیطی نے اس آیت میں ذکر کردہ نور کی تفسیر علم اور ہدایت کے طور پر کی ہے، جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرتی ہے۔
قرآن میں اولی الألباب کی عقلی خصوصیات کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:
(1 تقویٰ ایک نور کا ایسا منبع ہے جو تمام دوسری عقلی خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی و تدریسی عمل کے دوران طلبہ کے دلوں میں ایمان کے پہلو کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، کیونکہ یہ تمام پہلوؤں کی بنیاد ہے جو شخصیت کی ہمہ جہت تشکیل کرتی ہے۔
- مصالح اور مفاسد (فائدے اور نقصان) کے درمیان تمیز قائم کرنا اس طور سے کہ انسان کو مفاد حاصل کرنے میں مدد ملے، اور مفسدات کو کلی طوردفع کرنے یا جزوی طورکم کرنے میں معاون بنے۔ اس کے لیے یونیورسٹی کی تعلیمی نصاب کو ایسے تربیتی پروگراموں سے لیس کرنا چاہیے جو طلبہ کو مقاصد الشریعہ سمجھنے میں مدد دیں۔
3) دین میں ترجیحات کی اہمیت اور ان کا اندازہ لگانا، اور مقاصد میں سے وہ منتخب کرنا جو حاصل کرنے کے قریب تر ہوں، یہ بہت ضروری ہے۔ اس قسم کا فقہ اس لیے اہم ہے کیونکہ مسلمان اس دور میں ایک پیچیدہ اور دشوار زندگی گزار رہے ہیں، یہ بات ناممکن ہے کہ مطلوبہ اہداف کی ترتیب اور ان کی اہمیت سمجھے بغیر ان پیچیدگیوں کو درست کیا جاسکے۔
4) حکمت، جو نظری اور عملی مہارتوں کے ساتھ ساتھ خیالات اور طریقوں کی معیاری کیفیت کو بھی سمجھاتی ہے، یہ تعلیمی عمل کے لیے بہت ضروری ہے تاکہ ایک جدید نسل کی تیاری کی جا سکے، پھر یہ نسل نظری اور عملی مہارتوں کو یکجا کر کے معاشرے کی ترقی میں حصہ ڈال سکے۔
5) معیار standard کی درستی کے نتیجے میں فہم کی درستی، جس میں متشابہات کو محکمات سے سمجھا جاتا ہے، یہی قرآن کو سمجھنے کا درست منھج ہے۔
- آیات کونیہ (کائنات پر دعوت فکر دینی والی آیات) پرنتیجہ خیز تفکر اور انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے اس سے استفادہ کرنا، یہ پہلو کائنات کے تسخیری علم، اُس کی غایت کے بیچ ربط پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، جو امت کی بقا کا ضامن ہے۔
7) مقدار پر معیار کو، ظاہر پر باطن کو اور جوہر کو جسم پر ترجیح دینا۔ ایک ایسے دور میں جہاں موازنہ اور مقابلہ کی دوڑ میں امت کی کارکردگی جانچی جاتی ہے، اسے معیار پر پرکھنا بہت ضروری ہے۔
8) تاریخ کے اسباق پر تحقیق اور ماضی سے سیکھنا تاکہ حال کا صحیح تجزیہ اور مستقبل کی صحیح پلاننگ کی جا سکے۔ تاریخ کے اجتماعی پہلوؤں پر غور کرنے سے قوموں کی فلاح و بہبود بھی ممکن ہو سکے گی۔
9) یقین کی طرف لے جانے والا غور و فکر، وحی کی آیات اور کائنات پر ایک صحیح سائنسی منہج کے ذریعے غور کرنے کا حوالہ دیتا ہے۔ یہ عمل ایک ایسے یقین کی پیداوار ہے جو شکوک و شبہات کو دور کرتا ہے۔
مصادر و منابع:
قرآن مجید میں اولی الالباب کا ذکر از تفسیر المنار
قرآن مجید میں اولی الالباب کی صفات
اولی الالباب قرآن کی روشنی میں
مترجم: زعیم الرحمان