اگرچہ ابن رشد (فلسفی و مفکر) فلسفہ کی وجہ سے مشہور ہوئے، لیکن تعلیمی شعبے میں بھی ان کا بہت اثر تھا، کیونکہ انہوں نے اپنی تصنیفات کا ایک بڑا حصہ معاشرے میں تعلیمی اصلاحات پر بات کرنے، لوگوں کی عقل، فکر اور تجزیہ کو فروغ دینے، صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے، ابتدائی عمر سے بچے کی تربیت کا خیال رکھنے، اور طالب علموں کی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق تعلیمی نصاب میں تنوع رکھنے کی اہمیت جیسے موضوعات کو اجاگر کرنے پر وقف کیا۔
اس اسلامی فلسفی اور مفکر نے حفظ اور تعلیم سے زیادہ عملی مشق کی اہمیت پر زیادہ زور دیا ہے، کیونکہ جو طلباء اس طریقہ پر سیکھتے ہیں وہ باتوں کو سمجھنے اور لاگو کرنے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ آپ نے طالب علموں میں موجود اپنی انفرادی خصوصیات کو مد نظر رکھنے اور انہیں سکھانے میں ان کی صلاحیتوں کی رعایت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے بہت سے تعلیمی افکار وضع کیے جو صدیوں سے اسلامی اور عالمی معاشرے کو متاثر کرتے چلے آرہے ہیں۔
ابن رشد کی پیدائش اور تعلیم:
ابو الولید محمد بن احمد بن محمد ابن رشد (1126ء – 1198ء) کو قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں قرطبہ اسلامی دنیا کا بہت ہی اہم ثقافتی مرکز اور شہر تھا۔ آپ ایک طبیب، فقیہ، فلسفی، عالم فلکیات و طبیعیات اور ماہر تعلیم تھے۔
آپ کی پرورش اندلس کے ایک باوقار گھرانے میں ہوئی۔ آپ نے مؤطا امام مالک اور دیوان المتنبی کو حفظ کیا۔ آپ نے مالکی مذھب پر فقہ کی تعلیم حاصل کی، اشعری فکر کے مطابق عقیدے کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے حدیث، علوم طبیعیات اور فلسفہ پڑھا۔ آپ کے والد آپ کی تعلیم کا شوق رکھتے تھے، اور آپ کو پڑھنے اور تحقیق پر ابھارتے تھے۔
آپ نے ابو الولید باجی، ابن طفیل اور ابن سینا سے تعلیم حاصل کی، اور آپ اہم ترین اسلامی فلسفیوں میں سے ایک تھے، کیونکہ آپ نے فلسفے کا دفاع کیا۔ آپ نے افلاطون اور ارسطو کے بعض نظریات کو سمجھنے میں ابن سینا اور الفارابی جیسے سابق علماء اور فلاسفہ کی اصلاح کی۔
ابن طفیل نے آپ کو ‘خلیفۃ الموحدین’ ابو یعقوب سے متعارف کرایا، اس نے آپ کو اپنا طبیب مقرر کیا، پھر قرطبہ میں قاضی بن گئے، اور اشبیلیہ میں منصب قضا کا عہدہ سنبھالا، اور خلیفۂ موحدین ابو یعقوب یوسف کی خواہش پر ارسطو کی کتابوں کی تشریح کی۔
آپ بہت سے شعبوں میں اپنی تحریروں کی وجہ سے مشہور ہوئے، خاص کر: (ارسطو کی کتابوں پر تشریح) یہ مختلف شعبوں میں ارسطو کی کتابوں پر تبصروں اور تشریحات کا مجموعہ ہے، دوسری کتاب (تھافت التھافت) ہے، جس میں انہوں نے ابو حامد الغزالی کی کتاب "تھافت الفلاسفہ” کا جواب دیا ہے۔ اس کتاب میں الغزالی نے فلسفہ پر دھاوا بولا ہے اور فلسفیوں پر کفر کا الزام لگایا ہے۔
آپ کی ایک کتاب جس کا نام ( فلسفہ اور مذہب کا رشتہ: ایک واضح بات) ہے، جس میں انہوں نے فلسفے اور دین میں ہم آہنگی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عقل کی اہمیت پر زور دیا ہے، اور فقه مالکی پر آپ کی کتاب کا نام ( کامیاب مجتہد۔۔۔ مقدمہ) ہے، جس میں انہوں نے اصول فقہ اور اس کے قواعد پر بات کی ہے۔
انہوں نے طب میں بہت سی دوسری کتابیں چھوڑی ہیں، مثلاََ: اصول طب، ادویات۔ اسی طرح ریاضیات اور فلکیات میں "علم طبیعیات” اور "آسمان اور عالم”، اور فلسفہ سیاست میں "ملکی سیاست” اور "شرعی سیاست” ہیں۔ ان کی تصانیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور انہیں آج بھی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں پڑھایا جاتا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اندلس کے علما اور مخالفین نے آپ پر کفر اور لادینیت کا الزام لگایا، پھر ابو یعقوب یوسف نے آپ کو ملک بدر کرکے مراکش بھیج دیا، جہاں آپ 1198 عیسوی میں وفات پا گئے۔
ابن رشد کے تعلیمی نظریات:
- ابن رشد نے مسلم ذہنیت کو بیدار کرنے اور اس کی تجدید کرنے کی کوشش کی، اس چیز نے آپ کو تعلیم و تربیت کے میدان میں تحقیق اور تالیف کی طرف راغب کیا۔ آپ کی آراء میں عقل کا احترام اور اس کی قیمت پائی جاتی ہے، آپ فکر اور فیصلہ سازی میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں، اور آپ کی آراء میں یہ سب شامل ہیں:
- دینی تعلیم واجب ہے: یہ تربیت بچپن اور پیدائش کے وقت سے اثر انداز ہوتی ہے، جس انساان کی نشو و نما شرعی اخلاق پر ہوتی ہے، وہ بلاشبہ نیک ہوتا ہے، اور یہ تربیت عقل اور وحی سے اپنے اصول اخذ کرتی ہے۔ یہ وہ تعلیمی طریقہ ہوتا ہے جو فرد کی اس وقت تک تربیت کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ صالح نہ بن جائے، اور انسان کو اپنے کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، اور اسے اس کی انفرادی اور جماعتی حیثیت سے دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
- حقیقی کہانیاں پریوں کی کہانیوں سے بہتر ہیں: ان کہانیوں کو سننے سے عقل کی پرورش ہوتی ہے اور تخیل کو غذا ملتی ہے۔
- تعلیم دینے کے دو طریقے ہیں: تصور کرنا، یہ چیز کو تصور کرنے سے، یا اس کی مثال کے ذریعہ دی جاتی ہے، دوسرا طریقہ تصدیق ہے اور یہ ثبوت یا دلیل کے ذریعہ ہوتی ہے۔
- تربیت میں انفرادی خصوصیت کو مدنظر رکھنا: ضروری ہے کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق معاملہ کیا جائے، جہاں ہر انسان صحیح علم اور صحیح عمل کی تعلیم کے ذریعے سعادت حاصل کرسکے۔
- خوبصورتی کی تعلیم: انسانی روح کے اندر خوبصورتی کی اقدار اور خوبصورتی کی محبت پیدا کرنا بہت اہم ہے۔
- تعلیم میں دو بنیادی مقاصد ملحوظ نظر رکھنا: نفس کی سلامتی اور جسم کی سلامتی، یعنی بچپن سے جسمانی تربیت اور جائز موسیقی کی تعلیم دینی واجب ہے۔
- اسباب اور مسسببات پر ایمان: بچے کو سببیہ کی منطق سکھائی جائے، "ہر چیز کے وجود کی ایک وجہ اور علت ہوتی ہے، اور سبب بغیر مسبب (سبب کا خالق) نہیں ہوتا ہے، اور منطق کا تعین سبب اور مسبب کے درمیان موجود ربط کی نوعیت پر ہے” اور اس میں سائنسی اور تحقیقی فکر پر توجہ اور زور دیا جاتا ہے۔
- تعلیم چھوٹی عمری سے شروع ہوتی ہے: یہ تعلیم فضائل اور اچھے اخلاق پر مبنی ہوتی ہے، اور یہ اس کے برعکس پیدا ہونے والے نتائج سے خبردار کرتی ہے۔
- پریوں کی کہانیوں اور فحش کلام سے دوری: تاکہ بچوں کو صحیح ذوق کی تعلیم دی جائے۔
- نوجوانوں کو بری شاعری سننے سے محفوظ رکھیں: جس میں برائی، بداخلاقی اور فسق و فجور کی طرف دعوت شامل ہے، جو اچھے اخلاق اور پاکیزگی کے منافی ہے، اور جو اعلیٰ فضائل کو مٹا دیتی ہے۔
- تعلیم لوگوں کو راستہ دکھانے کا شرعی ذریعہ ہے: یہ ان کی رہنمائی کرتی ہے انہیں آگاہ کرتی ہے کہ ان کی سلامتی کس میں ہے، انہیں کمال کی طرف لے جاتی ہے، اور مسلم ذہنیت کو اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے لیے علمی معیارات فراہم کرتی ہے۔
- تعلیم کا مقصد: ایسے عادلانہ معاشرے کی تعمیر ہے جو جسمانی اور روحانی لحاظ سے صحت مند شہریوں پر مشتمل ہو۔
- ذمہ دارانہ تعلیمی نظام کی ضرورت ہے: جس میں انسان کی آزادی اور اختیار کو یقینی بنایا جائے، کیونکہ معلم ہی وہ شخص ہے جو افراد کو ان کے مناسب وظیفۂ حیات کی طرف رہنمائی کرتا ہے تاکہ ہر فرد وہی کرے جس کے لائق وہ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مربی کو لوگوں کی طبیعت اور معاشرتی تشکیل کی واقفیت ہو تاکہ لوگوں کی رہنمائی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
- مہارت کی تعلیم : تاکہ انسان نظریاتی عمل کی حدود سے باہر نکل کر اس کی عملی مشق اور تجربات کرے، یہاں وہ خالص حسابی منطق سیکھنے پر زور دیتا ہے جو فکری، حسابی اور تجربتی منطق پر مبنی ہے۔
- ایک دوسرے کے لیے سینہ کشادہ رکھنے کی تعلیم: خود کو الگ تھلگ رکھنے اور اپنی ذات میں منہمک رہنے سے پرہیز کریں، جس سے اپنے آپ کو بہت سے نقصانات ہوتے ہیں اور اس میں معاشرتی نقصانات بھی ہیں۔
- پرسکون اور پر مسرت تعلیمی فضا: تشدد سے دور رہنا چاہیے جس کی وجہ سے ایک طالب علم کو دوسروں کے سامنے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
- ایک کامیاب استاد کی خوبیاں: وہ نظریاتی علوم سے واقف ہو۔ اسے دنیا کا تجربہ اور ہنر حاصل ہو، یہ مہارت اس کے تعلیمی صنعت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی دلیل پیش کرتی ہے، اور اس کے نظریاتی مرحلہ سے عملی اور تجربتی مرحلہ میں داخل ہونے کی نشاندہی کرتی ہے، تاکہ وہ تعلیمی وظیفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے ذریعے وہ شاگرد کی طبی جسمانی صحت کا تحفظ کرے گا اور اخلاقی تعلیم کے تحت اس کی عقل اور زبان کی حفاظت یقینی بنائے گا۔
- نوجوانوں کے لئے عربی گرائمر کی تعلیم: جب آپ نے عربی گرامر کا مطالعہ کرتے وقت بچوں کو "اس کی اصطلاحات کے ابہام اور اس کے مسائل کی پیچیدگی اور کثرت تاویلات” کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کو نوٹ کیا، تو آپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے "نحو کے اہم مسائل” کے نام سے ایک قابل قدر کتاب وضع کی، جس میں انہوں نے نحو کے ابتدائی اصول اور اساسی قواعد کی تشریحات پر توجہ کی اور انہیں تاویلات اور فضول چیزوں سے دور رکھا۔
- تاریخ، ورثہ اور اسلاف کے علوم کی تعلیم ایک ضرورت ہے: چونکہ علم ایک عالمی انسانی وراثت کی نمائندگی کرتا ہے، جو مختلف اقوام کی شرکت اور خدمات کے نتیجے میں جمع ہونے والے مجموعے سے عبارت ہے، لہٰذا متاخرین کے لیے اسلاف سے منتقل ہونے والی وراثت سے بے نیاز رہنا مشکل ہے.۔
ابن رشد کے تعلیمی نظریات نے اسلامی اور عالمی تعلیمی نظریات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ آپ کے نظریات کو ابن خلدون، ابن تیمیہ اور ابن القیم الجوزی سمیت بہت سے فلسفیوں اور مفکرین نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح آپ کے خیالات نے عرب اور اسلامی دنیا میں تعلیم کے ارتقاء اور ترقی کو بھی متاثر کیا ہے۔ آپ کے نظریات کا بچوں کی ابتدائی تربیت کے اہتمام، تعلیمی مناھج کے تنوع، عملی مشق کی اہمیت، انفرادی خصوصیات کو مدنظر رکھنے، اور نوجوانوں کے دلوں میں اخلاقی فضائل کی تخم ریزی کرنے کے لیے دینی تعلیم پر توجہ اور ایک بہترین معاشرے کی تعمیر میں بڑا رول ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
أحمد شحلان: ابو ولید بن رشد ۔۔ فلسفی مصلح، ص 218
ابن رشد: بے ربط کی بے، ص 325-326
ابن رشد: دوٹوک بات، ص 33
علی سعید اسماعیل: اسلامی تربیت کے اصول، ص 226