پہلے دور میں کچھ لوگوں نے فلسطینی کاز کو اس کی اسلامی جہت اور مفردات دین کے ساتھ اس کے گہرے تعلق سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اسے ایک چھوٹے سے خطے تک محدود رکھنے کی کوشش کی، جو بمشکل ان ممالک کے لوگوں کو جگہ دے سکے، اور تنازعہ کے "نظریے” کو مسترد کردیا، اور اسے کوئی مذہبی رنگ نہیں دیا۔ اس چیز نے اس قضیہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اسے ایک ایسے خالی دائرے میں دھکیل دیا ہے، جس نے اسے اس کی حقیقی گہرائی سے دور رکھا ہے۔ اگرچہ ہمارے اور غاصب صہیونیوں کے درمیان تنازعہ کو مذہبی تنازعہ قرار دینے کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے – اور یہ ایک سچ بات ہے – لیکن جن مذہبی محرکات کو غاصبین جواز فراہم کرتے ہیں وہ سب کمزور اور جھوٹے ہیں۔ یہاں تک کہ صہیونی ریاست کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان نے بھی مذہب کو "صرف مواصلات کا ذریعہ” سمجھا، لہذا ہمیں وہاں کچھ وقت کے لئے رہنا چاہئے، ہر وقت نہیں، پوپ اوربان دوم کی طرح، جن کی تقاریر نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے خداوند کے نام پر بات کرنے کا دعویٰ کیا تھا، انہیں یہ کہہ کر فروغ دیا گیا: "اس لیے کہ میں، میں نہیں ہوں، بلکہ خداوند ہے جو آپ کو مسیح کے وزیروں کے طور پر، تمام طبقوں کے لوگوں کو تلقین کرنے کے لیے ابھارتا ہے۔
وہ تمام دنیاوی عزائم جو یورپیوں پر حاوی تھے، جب وہ بدحال زندگی گزار رہے تھے، ان تمام عزائم کو ایک پرکشش مذہبی چادر میں بہت بدنیتی سے باندھ دیا گیا۔ حتىٰ کہ معاملہ گناہوں کی مکمل معافی کا وعدہ کرنے کی حد تک پہنچ گیا، جیسا کہ پوپ کے خطبے میں ذکر ہے: "میں موجود لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں، اور جو غیر حاضر ہیں ان کے لیے اعلان کرتا ہوں، باوجود اس کے کہ مسیح یہ حکم دیتے ہیں، کہ جو لوگ وہاں جاتے ہیں ان کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اگر ان کی زندگیاں دنیاوی زنجیروں سے آذاد ہو جائیں، چاہے وہ زمین پر سفر کرتے ہوئے، یا سمندر پار کرتے وقت، یا کافروں یعنی مسلمانوں کے خلاف گھمسان کی لڑائی کے درمیان، اور یہ مغفرت میں ہر اس شخص کو بخشتا ہوں جو مجھے پرب کی طرف سے دیے گئے اختیار کے مطابق چلتا ہے۔
یہ خالصتاََ دنیاوی عزائم تھے جنہوں نے انہیں ہر طرح کی سفاکیت اور بربریت کے ساتھ خون بہانے کی اجازت دی۔ ان کی راہ میں کوئی سرخ لکیر نہیں کھینچی گئی، جس سے وہ ہمارے گھروں پر قبضہ کرنے اور ہمارے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے کے قابل ہوگئے۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک اس میں تباہی اور فساد پھیلایا، یہ سوچ کر کہ انہیں خلود حاصل ہے اور وہ یہ سب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، حالانکہ ہوا یہ کہ مقدس سرزمین نے انہیں نکال دیا، دھکیل دیا، وہاں سے ہٹا دیا، جب وہاں کے ایک مومن گروہ نے خود کی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ صلیبیوں کی گندگی اور مکروہ چیزوں سے مسجد کو پاک کیا جائے۔ جہاد، صبر اور قربانی کے عظیم اوراق رقم کرنے کے بعد قاضی محی الدین بن ذکی نے منبر نور الدین الشہید پر، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے بعد پہلے خطبہ جمعہ کا آغاز اس آیت سے کرتے ہوئے فرمایا: "الله نے ظلم کرنے والوں کو کاٹ دیا، تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں” [الأنعام: 45]۔
جو چیز فلسطین کے قضیہ کو دیگر قضیوں سے ممتاز کرتی ہے وہ مسجد اقصیٰ کی موجودگی، برکات میں اس کا اختصاص اور بہت سی دوسری چیزیں ہیں جو دوسرے قضیوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے ایک خاص مسجد کے زاویے سے نمٹا جائے، اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جنہیں مسجد کی خصوصیت حاصل ہے، اس پورے یقین کے ساتھ کہ دوسرے لوگ کبھی بھی ایسی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوں گے جو حق کا بول بالا کرے، باطل کو مٹا دے، اور زمین کو قابض حملہ آوروں سے پاک کرے۔
اس کے پیچھے راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر طاقت کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑا ہے جو اس آیت میں بیان کردہ خصوصیات کے حامل ہیں ” یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔” [الحج: 41]۔ یہ بات طے ہے کہ نماز کا قیام صرف مساجد کے قیام سے ہی ممکن ہے، جو ہم ہادی بشیرعلیہ السلام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں، جنہوں نے مکہ کا وقت مسجد الحرام سے محروم اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزارا۔ جہاں انہوں نے پورے تین سال شعب ابوطالب میں گزارے۔
اقتدار اور بااختیاری کی پہلی نشانیاں مسجد سے جڑی تھیں، اور کون سی مسجد تھی! مکہ مکرمہ کے اندر دعوت کے تمام امکانات کی مکمل بندش اور طائف کے لوگوں کی ناکامی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریش کے کفار کے غلبے سے دعوت کو آزاد کرنے کی کوشش، منتج ہوئی آپ علیہ السلام کے سفر اسراء پہ، جہاں آپ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ، اور وہاں سے آسمان کے سفر پر گئے۔ نبیوں اور رسولوں کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنے پر بغیر کسی ثالث کے نماز فرض کروائی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ طاقت کی سب سے نمایاں نشانی مسجد قبا کی تعمیر تھی۔ اس کے بعد ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست کی طاقت کی علامت کے طور پر مسجد نبوی کی تعمیر، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی مکہ کی طرف روانہ ہوئے، اللہ کی مدد، فتح اور لوگوں کا اسلام میں جوق در جوق داخل ہونا، اور پھر مسجد الحرام کو شرک اور بتوں سے پاک کر دیا گیا۔
جزیرہ نما عرب کو شامل کرنے کے لئے اس فتح مبین کے ساتھ ملت اسلامیہ کو بااختیار بنانے کا علاقہ بڑھ گیا، اس کے بعد ہونے والی تمام کامیاب اسلامی فتوحات میں، بااختیار بنانے کا تعلق ان ممالک میں مساجد کی تعمیر اور ان کے میناروں سے اذان کی آواز سے تھا۔ فتوحات مبارکہ کے عروج پر بیت المقدس کو فتح کرنے کا وعدہ پورا ہوا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ ادم کے گنبد میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت سے پہلے چھ باتوں کو شمار کرتا ہوں۔ میرا دنیا سے وصال، پھر بیت المقدس کی فتح۔۔۔ حدیث [صحیح بخاری] اور اسی طرح اپنے ساتھیوں کو خندق کے دن شام کی فتح کی خوشخبری دی جب آپ علیہ السلام نے چٹان کو ایک پھاوڑے سے مارا اور اس میں سے ایک روشنی باہر آئی جس نے شام کے محلوں کو روشن کر دیا۔
امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو فتح حاصل کی وہ شام کے مسلمانوں کے بااختیار ہونے کی علامت تھی۔ اسی طرح سلطان محمد فاتح نے آیا صوفیہ کو ایک مسجد کے طور پر اختیار کیا، جہاں نماز ادا کی جاتی تھی اور اذان دی جاتی تھی، جو قسطنطنیہ کی فتح میں طاقت کی علامت تھی۔ چھیاسی سال پہلے اسے عجائب گھر میں تبدیل کرنا اس بات کے برعکس تھا جو مسلم حکمرانی کے عدم استحکام اور اس جگہ پر ان کی حقیقی حاکمیت کے خاتمے کی پیش گوئی کرتی تھی۔ اسی طرح اور مساجد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جن کے دفاع میں مسلمانوں نے لاپرواہی برتی، اور وہ ان سے چھین لی گئی، جیسا کہ اندلس، ہنگری، بلغاریہ، یونان، بھارت، ترکستان اور دنیا کے بہت سے حصوں میں ہوا جہاں مسلمانوں کی عظمت و رفعت مساجد کی عظمت و رفعت سے وابستہ تھی، اور اسکے برعکس بات بھی درست ہے۔
جہاں تک مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے تو صیہونی گروہوں کا اس پر قبضہ ملت اسلامیہ کے انتہائی کمزور اور ذلت آمیز ادوار کی طرف درست اشارہ ہے، جس سے ہمیں یقین ہے کہ ملت کی بحالی اور اس کے پرانے دور میں واپسی صرف اسی صورت میں ہوگی جب مسجد اقصیٰ اسلامی سیادت اور مسلمانوں کے اثر و رسوخ کے تابع ہو اور مسلمان زمین پر بااختیار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مساجد کو مردوں کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے عام مردوں کے ساتھ نہیں، بلکہ جن کا بیان اللہ کی کتاب میں منفرد اور واضح ہے: "جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰة سے غافل نہیں کردیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی۔ [النور: (37)]۔
مسجد اقصیٰ کے ستون:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجدوں کے لیے ستون ہیں، فرشتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اگر وہ غیر حاضر ہیں تو ان کی کمی محسوس کرتے ہیں، اور اگر وہ بیمار ہیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں، اور اگر وہ ضرورت مند ہیں تو ان کی مدد کرتے ہیں۔ ”[البانی، صحیح الترغیب، حدیث نمبر: 329، حسن صحیح]”
یہاں اس حدیث کے ساتھ ایک طویل وقفہ ضروری ہے، جس کے گہرے معنی واشارے عقل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ مساجد دراصل اسلامی ریاست اور اس کے اقتدار کے مراکز کی طاقت کے ستون ہیں اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ اللہ کے گھر ہیں، جو اس کے بندوں کو پناہ دیتے ہیں، جو تجارت یا فروخت سے اس کی یاد اور وقت پر نماز کے قیام سے غافل نہیں ہوتے ہیں، اور مشکل ترین حالات میں بھی نماز ضائع نہیں ہونے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کی محبت سے بھرے ہوئے تھے، پس اللہ کی محبت نے انہیں روشن کیا، اور اس محبت سے مساجد روشنی مستعار لیتی تھیں، یہاں تک وہ لٹکتی لالٹینیں، اور چراغ معلوم ہوتی جو روشنی بکھیر رہی ہوتی۔
یہ وہ ستون ہیں جن کے ساتھ فرشتے بیٹھتے ہیں، ان سے مانوس ہوتے ہیں، ان کے لیے استغفار کرتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جب وہ غیر حاضر ہوتے ہیں تو انہیں یاد کرتے ہیں، اور جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے ہیں کہ مساجد کے ستون ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ تمام مسلمان ان کے ستون نہیں ہیں، بلکہ صرف ان میں سے کچھ لوگ جو ان میں آتے رہتے ہیں اور باجماعت نماز میں شرکت کرنے کے بہت شوقین ہیں، اور یہاں تک کہ اس کی پہلی صفوں میں جمع ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنے والے، مساجد کے آداب میں شائستگی رکھنے والے، خدا کے گھروں سے محبت کرنے والے، جن کے دل ان سے جڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں چاہیے اس حدیث اور اس کے موتیوں اور خزانوں کے ساتھ غوطہ زن ہوں، جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ نبأ کی ایک آیت میں خیموں کا ذکر آیا ہے: "اور پہاڑوں کو ہم نے ستون بنایا”، یہ ایک ایسی آیت ہے جس نے بہت سے معاصر مغربی اسکالرز کو اپنے اندر کے سائنسی معجزات کی وجہ سے اسلام سے متعارف کرایا۔ جدید سائنس کی ترقی اور ارضیات کی ترقی کے بعد انسان فطرت کے مختلف مظاہر اور اس کے تمام علاقوں کے بارے میں بہت زیادہ علم تک پہنچ گیا ہے، جس میں سائنس دانوں کے مفروضے بھی شامل ہیں جو پہاڑوں کی شکل اور زمین میں ان کی توسیع کی حد کے بارے میں بات کرتے ہیں، لہذا ان میں سے بہت سوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بڑے بڑے پہاڑ ایک کھونٹی کی شکل سے ملتے جلتے ہیں، وہ زمین میں گہرائی تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ، بمشکل ایک تہائی سے زیادہ، کھونٹی کی طرح نظر آتا ہے۔ ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مساجد کے ستون وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے اخلاص میں مبالغہ کرتے ہیں تاکہ ان کی اجرت ریا کے شک میں نہ جائے۔
اگر یہ حدیث ہمیں مساجد کے ستون کے بارے میں بتاتی ہے تو اس سے ہمیں مسجد اقصیٰ کے ستون کی تلاش کی طرف راغب ہونا چاہیے، جو عظیم ترین مساجد میں سے ایک ہے، مسجد الحرام اور مسجد نبویﷺ کے بعد۔
آپ کبھی بھی مسجد اقصیٰ کے ستون نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اس میں اپنے آپ کو نہ لگائیں، اور آپ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کا کام دوسروں کو نظر آتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، یا وہ کام مسجد کی مبارک سرزمین میں پوشیدہ رہے۔
آپ اس میں اس وقت تک حصہ دار نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اپنے علم، محبت، آرزو، کوشش اور جہاد سے بابرکت سرزمین میں اپنی زندگی اور کام کو بروئے کار نہیں لاتے۔
اگر آپ نے اپنے محلے اور اپنے ملک کی مساجد میں "ستون” بننے پر عمل نہ کیا ہو اور اپنے دل کو ان سے منسلک نہ کیا ہو اور ان کے اطراف کو اپنی دعاؤں، تعریفوں اور یادوں سے نہ بھر دیا ہو تو تم اس میں حصہ دار نہیں ہو گے۔
آپ اس میں اس وقت تک حصہ نہیں لیں گے جب تک کہ آپ زمین کی تمام مساجد کے لئے اپنے آپ کو داؤ پر لگانے کا عہد نہ کریں، آپ نماز کی دعوت اور عبادت گزاروں کی واپسی سے خوش ہوں گے جسے اس مذہب سے نفرت کرنے والوں نے نقصان پہنچایا ہے اور اس کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، اور زمین پر کسی بھی مسجد کے تقدس کی کوئی بھی خلاف ورزی آپ کو تکلیف دے گی۔
اگر آپ ظالموں، جابروں، منافقوں کے ساتھ ساتھ قابض یہودیوں کی بہت طاقتور طریقہ سے مذمت نہیں کریں گے تو آپ کبھی بھی مسجد اقصیٰ کے ستون نہیں ہوں گے۔ آپ اپنی ثابت قدمی اور صبر سے انہیں مسجد اقصیٰ، اس کے گردونواح اور قوم کے حق کو چھیننے سے عاجز کئے ہوئے ہیں۔
آپ مسجد اقصیٰ کے لئے اس وقت تک ستون نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ لگاتار وار اور مار برداشت نہ کریں اور یہ چیز آپ کے شوق میں مزید اضافہ نہ کرے اور آپ اس کے ستونوں کو مستحکم کریں۔
جب خیمے کے حصے باقاعدگی سے اس کے ارد گرد تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ بہترین طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکیں تو یہ الاقصیٰ کے مفادات میں سے ایک ہوگا، کہ اس کے اپنے ستون باقی ستون سے متفق نظر آئیں، اور اپنے درمیان ایک اعلیٰ نظام کے تحت باریاں تقسیم کریں، جو اس کے خلاف سازش کرنے والوں اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے خواہاں تمام لوگوں کے سامنے اس کے تحفظ اور استحکام کو یقینی بنائے۔
آپ الاقصیٰ کے ستون نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ کا دل اس کی مٹی میں نہ ہو، اور آپ کی روح ہمیشہ اس کے گنبدوں کے ارد گرد گھومتی رہے، گرچہ آپ کا جسم اس سے دور ہو یا دور کر دیا جائے۔
اس انسان کیلئے خوشخبری و بشارت ہے جسے اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کا ستون ایک ایسے وقت میں منتخب کرے جب اس کی حرمت، اور پاکیزگی کو برقرار رکھنے والے ستون کم پڑ گئے ہوں۔
شیخ الاقصیٰ رائد صلاح کیلۓ خوشخبری ہے۔ خوشخبری ان لوگوں کیلئے جو محبوب الاقصیٰ اور اس کے بابرکت ماحول میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ خوشخبری ان جوانوں، بزرگوں، بچوں اور عورتوں کیلئے اور ہر اس انسان کیلئے جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں اپنے دل کی دھڑکن کو الاقصیٰ کی دھڑکن سے جوڑ دیا ہے، اور الاقصی ٰ کو بلند رکھنے کے لیے اپنی جانیں پہلے ہی بیچ دی ہیں۔
مبارک ہے وہ جس نے الاقصی کی آزادی کو اپنی زندگی کا منصوبہ اور اپنے کاموں، حرکات و سکنات کا محور بنایا۔
اس کے لیے خوشخبری ہے جو بولتا ہے، تو گویا الاقصیٰ اپنی زبان سے بولتی ہے، اور اگر وہ روتا ہے، تو گویا الاقصیٰ اپنی بیگانگی اور محرومی کی آہ وبکا کر رہی ہو، اور اگر وہ مسکراتا ہے یا ہنستا ہے، تو گمان ہوتا ہے کہ الاقصیٰ کو اس کی زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر مخلص برزق
ترجمه: ڈاکٹر بہاءالدين