اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں پر یہ انعام کیا ہے کہ اپنے اجرِ بے بہا کی بارشوں کے کچھ موسم بھی معین کر دیے جن میں طاعات و عبادات کی کھیتی اجر و ثواب کا پھل بڑھا چڑھا کر بار آور ہوتی ہے۔ ان موسموں میں تقرب الہی، عبادات اور مناسک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ان موسموں میں ایک ماہ شعبان بھی ہے۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ عبادات اور قربات کیا کرتے تھے، جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح میں یہ روایت درج کی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی مہینہ شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے، وہ شعبان کے پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔
جب یہ بابرکت مہینہ آتا ہے، تو اس کے ساتھ رحمت کے بادل بھی آتے ہیں اور رب العالمین کی جانب سے فیضان رحمت کا نزول ہوتا ہے جو دلوں کے دکھوں کو دھو کر زائل کر دیتی ہے اور انہیں اچھے اعمال کے میٹھے پانی سے سیراب کرتی ہے۔ بلکہ اس مہینے میں اعمال اللہ کے پاس پہنچتے ہیں تاکہ وہ اس دن کے لیے ذخیرہ ہو جائیں جب نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد، سوائے اس کے جو اللہ کے پاس قلب سلیم کے ساتھ پہنچے۔
شعبان کیوں خاص ہے؟
شعبان باقی مہینوں سے اسی لیے ممتاز ہے کہ اس ماہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق طاعات وشوق عبادات اپنی انتہا کو پہنچ جاتا تھا، تاکہ دل نرم ہوں، نفوس کی اصلاح ہو اور رمضان المبارک کی تیاری کے لیے دلوں کو صاف اور روحوں کو پاکیزہ کیا جائے۔ یہ ماہ ہر مسلمان پر ایک ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے جو طاعات سے محبت رکھتا ہے اللہ سے امید رکھتا ہے کہ وہ اسے رمضان تک پہنچائے گا، لیکن وہ کیسے اور کس حال میں رمضان تک پہنچے گا جب وہ زندگی کی آلودگیوں اور اس کی مشغولیات سے صاف نہیں ہوا؟ لہٰذا، شعبان کا مہینہ اس عمل کی تیاری کے طور پر آتا ہے۔
یہ مہینہ تربیت اور روحانی ترقی کا ربانی مہینہ ہے؛ مسلمان اس مہینے میں اس لیے توجہ دیتے ہیں تاکہ رمضان میں عبادت کے لیے تیار ہوں، وہ شعبان میں رمضان کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرنے کے طریقے سیکھتے ہیں، اپنے رمضان کے لیے ایک پلان بناتے ہیں اور اپنی خیرات کے کاموں کی فہرست مرتب کرتے ہیں۔ وہ شعبان کو رمضان کی تیاری کے لیے ایک تربیتی کورس کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس میں قرآن کی تلاوت، روزے اور دیگر عبادات میں اضافہ کرتے ہیں، اور اس مہینے کو جو بہت سے لوگ غفلت میں گزار دیتے ہیں، رمضان کی مزید عبادت اور بھلا ئی کے لیے ایک مضبوط محرک کے طور پر لیتے ہیں۔
شیخ عبداللہ الحامد کہتے ہیں: "شعبان کا مہینہ تمہاری سالانہ کتاب کا آخری موسم ہے اور تمہارے اعمال کی کٹائی کا موسم ہے۔ پھر تم اپنے سال کو کس طرح ختم کرنا چاہتے ہو؟ پھر وہ کون سی حالت ہے جس میں تم چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں دیکھے جب تمہارے اعمال اٹھائے جائیں؟ اور تمہارا عمل اللہ کے پاس کس حالت میں پیش ہو”؟
یہ انسان کی زندگی کا ایک فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے پورے سال کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔” [فاطر: 10]۔ تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا عمل اس حال میں اٹھایا جائے جب آپ اللہ کی عبادت میں مصروف ہوں، اس کے دین پر ثابت قدم ہوں، اخلاص، عمل، جدوجہد اور قربانی میں مشغول ہوں؟ یا آپ اسے قبول کرتے ہیں کہ آپ کا عمل سستی، آرام، کاہلی، کم ہمتی، دنیاوی خواہشات اور شبہات کے پیچھے چلنے کی حالت میں اٹھایا جائے؟
ہم مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نبی کی محبت اور اس کے طریقے کی پیروی ہر چیز میں اتنی گہری ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: "اللہ کی قسم، میں تمہیں بوسہ دے رہا ہوں، حالانکہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو، اور تم نہ نفع دیتے ہو نہ نقصان، اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہیں ہرگز بوسہ نہ دیتا” [رواہ مسلم]۔ اس عمل کی انجام دہی کا مقصد صرف یہ تھا کہ انہوں نے رسول اللہ کو حجر اسود کو چومتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور ہم اس امت کا حصہ ہیں جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور رسول مانتی ہے، اور ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور ان کے طریقے پر چلیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان المعظم کے ساتھ انتہائی لگاؤ تھا اور اس میں طاعات کا انہیں بہت ذوق تھا، اور یہی وہ سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے: کیا ہم وہ چیزیں پسند کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیں؟ کیا ہمیں اس مہینے میں ذوق عبادت اور شوق عبادت ایسا ہی ہے جیسا کہ نبی کو تھا؟ اور کیا ہم اپنی محبتوں کو اس سے جوڑتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے سے محبت کے اسباب کو روشنی کے ساتھ بیان کیا ہے، جو رمضان کے عظیم مہینے کے لیے تیاری کا مہینہ ہے، جو اعمال اور درجات کے لحاظ سے سب سے زیادہ انعام کا حامل ہے۔ جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: "یا رسول اللہ! میں نے آپ کو کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔” تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ غافل ہو جاتے ہیں، رجب اور رمضان کے درمیان، اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش ہوں جب میں روزے سے ہوں۔” [رواہ النسائی]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب آپ افطار نہیں کریں گے (یعنی لگاتار روزے رکھتے رہیں گے) اور اتنا افطار کرتے (یعنی روزہ چھوڑتے) کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔ میں نے کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اور میں نے شعبان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی اورکو روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔” [رواہ البخاری]
اس ماہ میں ایک اور یادگار لمحہ بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی، اور وہ ہے قبلہ کی تبدیلی کی یاد، تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک خاص قبلہ مقرر کیا جائے۔ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خاص مقام رکھتا ہے، یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے اور اتنی دیر تک سجدے میں رہے کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو میں اٹھی اور آپ کے انگوٹھے کو ہلایا، تو وہ حرکت کرنے لگے، میں واپس ہو گئی۔ پھر جب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا اور نماز مکمل کی تو فرمایا: "عائشہ، کیا تم نے یہ گمان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم سے ناراض ہو گئے ہیں؟” میں نے کہا: "نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! مگر مجھے گمان ہوا کہ آپ کا انتقال ہوگیا ہے آپ کے سجدے کی طوالت کی وجہ سے۔” پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتی ہو کہ یہ کون سی رات ہے؟” میں نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔” تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے، اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بندوں کی طرف نظر فرماتے ہیں، اور جو استغفار کرنے والے ہوتے ہیں انہیں معاف کر دیتے ہیں، رحم کے طلب گاروں پر رحم فرماتے ہیں، اور جو دل میں کینہ رکھتے ہیں انہیں جوں کا توں چھوڑ دیتے ہیں۔” [رواہ البيہقی]
شعبان میں طاعات کی برکات
شعبان کے مہینے میں بے شمار برکتیں اور اللہ کی خاص نوازشیں ہیں جو ہر ایسے مسلمان کے لیے ہیں جو اس مہینے کو اپنی اطاعت سے آراستہ کرتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرتا ہے، اور اللہ کی رحمتوں کے نزول کی تیاری کرتا ہے۔ شعبان میں روزے رکھنے کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رمضان کے روزوں کے لیے ایک طرح کی مشق ہوتی ہے تاکہ رمضان میں روزہ رکھنا اس کے لیے مشکل اور تھکا دینے والا نہ ہو، بلکہ وہ اس پر پہلے ہی عادی ہو چکا ہو اور رمضان میں طاقت اور نشاط کے ساتھ داخل ہو۔
اسی طرح شعبان میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی تیاری بھی ضروری ہے جیسے قیام، قرآن کی تلاوت اور صدقہ دینا۔ یہ مسلمان کو نیک اعمال کی طرف بڑھنے کی تربیت فراہم کرتا ہے، اور اس کے نفس کو اس لیے تیار کرتا ہے تاکہ رمضان میں وہ زیادہ محنت اور کوشش کرے۔
علماء نے شعبان میں روزے رکھنے کی فضیلت کو دوسرے مہینوں پر اس لیے زیادہ بتایا ہے کہ رمضان کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ روزے رمضان کے روزوں کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں، اور اس کا درجہ فرض روزوں کے ساتھ سنن رواتب کی طرح ہو جاتا ہے، یعنی یہ فرضوں کی تکمیل کا سبب بنتے ہیں۔
اس لیے سلف صالحین کا اس پر عمل واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ سلیمہ بن کہیل نے کہا: "یہ کہا جاتا تھا کہ شعبان کا مہینہ قاریوں کا مہینہ ہے۔” حبیب بن ابی ثابت جب شعبان کا مہینہ آتا تو کہتے: "یہ قاریوں کا مہینہ ہے۔” اور عمرو بن قیس المُلائی جب شعبان آتا تو اپنے دکان کو بند کر دیتے اور قرآن کی تلاوت کے لیے وقت نکالتے۔
جھگڑوں کا خاتمہ
شعبان کا مہینہ اللہ عز وجل کے پسندیدہ مہینوں میں سے ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے کے تعلق سے خصوصی اہتمام نے بھی اس ہینے کو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے، یہاں تک کہ اسے آپس کے جھگڑوں کو ختم کرنے کا عنوان بنا دیا گیا، اور اس مہینے میں متخاصم افراد کی سزا اتنی سخت ہو جاتی ہے کہ ان کے اعمال معلق رہتے ہیں اور وہ اللہ کی طرف نہیں اٹھائے جاتے۔
ہمارا پیغام متشاحنین اور متخاصمین کے لیے ہے جو اس مہینے کی برکت سے خود کو محروم کر لیتے ہیں: "موقع غنیمت جانو۔”
ابن ماجہ، طبرانی اور دیگر محدثین نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو اپنے بندوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنے تمام بندوں کو معاف کر دیتے ہیں سوائے مشرک یا متخاصم کے۔” [صححہ الألبانی]
اور یہ عجیب بات ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو عبادت میں بہت اچھے ہوتے ہیں – جیسے نماز اور فرض و نفل روزوں پر پابندی – لیکن وہ لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری نہیں لاتے، اور یہ بات ان کو متاثر نہیں کرتی۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو” [الأنفال: 1]، اور فرمایا: "مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو” [الحجرات: 10]، اور فرمایا: "صلح بہرحال بہتر ہے”۔ [النساء: 128]
غافل نہ ہوں!
خبردار رہو! کہ تم شعبان میں ہو۔
اور رمضان تمہارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
اور غافل مت ہو۔۔۔ کیا پتہ کہ یہ رمضان تمہارا آخری رمضان ہو۔۔۔ اور شعبان میں ان چیزوں کے حصول کی کوشش کرو:
۱۔ سب سے پہلے سچی توبہ کریں، گناہوں اور معاصی سے باز آئیں اور برائیوں کو ترک کریں، اللہ کی طرف توجہ کریں، اورپھر ایک نئی صاف ستھری سفید زندگی کا آغاز کریں۔
۲۔ یہ دعا کثرت سے پڑھیں "اللهم بلغنا رمضان” (اے اللہ! مجھے رمضان نصیب فرما۔) کیونکہ دعا ایمان اور روحانیت کی تیاری میں سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
۳۔ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں، اپنے نفس کی تربیت اور اس بابرکت مہینے کی تیاری کے لیے۔ روزے رکھنے کی دو صورتیں افضل ہیں: یا تو شعبان کے پہلے نصف کو مکمل روزے رکھیں، یا ہر ہفتے پیر اور جمعرات کے روزے کے ساتھ ایام بیض کے روزے رکھیں۔
۴۔ قرآن کریم کی برکتوں میں زندگی گزاریں اور رمضان میں مکمل معیت کے لیے تیاری کریں۔ یہ اس طرح ممکن ہے کہ شعبان میں روزانہ ایک سے زائد پارے کی تلاوت کریں، اور قرآن کے ساتھ تدبر اور معیت کے خاص اجلاس کا اہتمام کریں۔
۵۔ ابھی سے قیام اللیل کی مٹھاس چکھیں، ہر رات عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت ادا کرکے، اور تہجد اور سحر کے وقت مناجات کی مٹھاس چکھیں، ہفتے میں کم از کم ایک بار فجر سے پہلے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھ کر۔
۶۔ ذکر کی مٹھاس چکھیں اور زمین پر "جنت کے باغات” میں سیر کریں۔ صبح و شام مسنون اذکار کو نہ بھولیں، دن اور رات کے اذکار کا اہتمام کریں، اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔
۷۔ روزے کے احکام اور فقہ کو مکمل طور پر پڑھیں (کم از کم شیخ سید سابق کی کتاب "فقہ السنہ” سے)۔
۸۔ دلوں کو نرم کرنے والی کچھ کتابیں پڑھیں جو نفس کی تیاری اور دل کی صفائی میں مددگار ہوں۔
۹۔ گھر میں ماحول کی تیاری کریں اور اہل خانہ اور بچوں کو رمضان کے لیے تیار کریں، تاکہ رمضان کے دن ہمارے عام دنوں سے مختلف ہوں۔
۱۰۔ اللہ کے گھروں کی آبادکاری کریں، اور تمام نمازوں میں جماعت کے ساتھ شرکت کریں، اور عبادات میں جو سنن فوت ہوچکی ہیں ان کو زندہ کریں، جیسے: (فجر کے بعد مسجد میں سورج طلوع ہونے تک بیٹھنا، اگلی صفوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرنا اور اذان سے پہلے اعتکاف کی نیت سے آنا… وغیرہ)۔
مترجم: زعیم الرحمان