اسلامی تعلیمات انسان کو قدرت ہونے کے باوجود معاف کرنے، مصیبتوں پر صبر کرنے، غصے کو ضبط کرنے اور غضب و جوش سے دور رہنے کی دعوت دیتی ہیں، سوائے اس صورت کے جب اللہ تعالیٰ کی حرمتیں پامال کی جائیں یا اس کے کسی حکم کو معطل کیا جائے، کیونکہ اس موقع پرمومن کا طیش میں آنا قابلِ تعریف ہے نہ کہ مذموم۔
اللہ جل جلالہ نے ایمان والوں کی تعریف کی ہے کہ وہ جوش کے وقت بردباری دکھاتے ہیں اور غصے کے دوران حکمت سے کام لیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُون، ترجمہ: “جب وہ غضبناک ہوتے ہیں تومعاف کرتے ہیں” اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر مؤمن کو وصیت ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “غصہ نہ کرو”۔
کیونکہ جوش و غصہ انسان اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے، اس کے نتائج تکلیف دہ اور انجام بھیانک ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے خاندان تک بکھر جاتے ہیں، گھر اجڑ جاتے ہیں، رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں، فتنہ و آزمائشیں بھڑک اٹھتی ہیں، خون بہایا جاتا ہے، اور قوموں و امتوں کے درمیان جنگیں بھڑک اٹھتی ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: وہی شخص کامیاب ہوا جسے خواہش، غصے اور لالچ سے بچا لیا گیا۔
غصہ شیطان کا انگارہ:
غصہ یا حد سے زیادہ چڑچڑاپن یا شدید اشتعال دراصل انتقام کی نیت سے دل کا جوش میں آںا ہے۔ جرجانیؒ اس کے معنی میں کہتے ہیں: “یہ وہ کیفیت ہے جو دل کے خون کے جوش میں آنے سے پیدا ہوتی ہے تاکہ سینے کو تسکین حاصل ہو”۔
جب ابلیس نے اپنے رب کا حکم نہ مانا اور اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا، تو وہ انسان پر کینہ و غصہ رکھنے لگا کیوں کہ وہ انسان کو (اپنے غلط گمان کے مطابق) اپنی بدبختی کا سبب سمجھتا تھا۔ لہٰذا اس نے قسم کھائی کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا اور اسے اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے گا – سوائے مؤمنین کے۔ اور چونکہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے اس نے غیض و غضب کے ذریعے بنی آدم پر قابو پانے کو اپنا حربہ بنایا، کیونکہ جب وہ غصے میں آتے ہیں تو بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بےجا اشتعال بندے میں دشمنیاں اور کینہ پیدا کرتا ہے اور شیطان کے قابو پانے کا دروازہ کھول دیتا ہے، جو اسے ایسے کام اور باتوں پر مجبور کر دیتا ہے جن پر وہ بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔ مجاہدؒ کہتے ہیں: “ابلیس (اللہ کی لعنت ہو اس پر) نے کہا: بنی آدم مجھے عاجز نہیں کرسکتے، مگر تین چیزوں میں وہ کبھی مجھ سے بچ نہیں پاتے: جب کوئی شراب پیتا ہے تو ہم اس کی لگام پکڑ کر جہاں چاہتے ہیں لے جاتے ہیں اور وہ ہمارے لیے وہی کرتا ہے جو ہمیں پسند ہو۔ اور جب وہ غصے میں آتا ہے تو ایسی بات کہتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہوتا، اور ایسا عمل کرتا ہے جس پر وہ بعد میں نادم ہوتا ہے”۔ اور بعض حکما نے کہا: “جو شخص اپنی شہوت اور غصے کی پیروی کرتا ہے وہ دونوں اسے آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔”
اسباب:
غصہ انسان کی لازمی صفت نہیں ہے، بلکہ یہ اُسے اس وقت لاحق ہوتا ہے جب وہ ظلم، ذلت، خیانت، کسی عزیز کے کھونے، کسی خاص چیز پر اصرار کرنے، نفسیاتی و جذباتی عدم توازن، ضرورتوں اور برداشت سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرتا ہے ، یا ایسے گھرانے میں رہنے کی وجہ سے جہاں جذباتیت اور حسد کا ماحول ہو، پیدا ہوتا ہے۔
یہ اسباب ایک شخص سے دوسرے شخص میں مختلف ہوتے ہیں؛ بعض لوگ معمولی باتوں پر بھڑک اٹھتے ہیں اور بسا اوقات بغیر کسی وجہ کے، اور یہ تمام اسباب و کیفیات ناپسندیدہ ہیں۔ ایسے وقت میں غصے کو روکنا اور جذبات پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ غلطی سے بچا جا سکے۔
لیکن ہر غصہ مذموم نہیں ہوتا؛ وہ غصہ محمود (قابل تعریف) ہے جو اللہ کے لیے اور دین و حق کے پہلو میں ہو۔ جب کہ مذموم غصہ وہ ہے جو افراط و تفریط کے درمیان گھومتا ہے؛طافراط و تفریط یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں مسلمان کو غصہ کرنا چاہیے لیکن وہ نرمی برتتا ہے، اور بعض مواقع پر وہ اتنا غصے میں آجاتا ہے کہ عقل و دین کی پالیسی سے باہر نکل جاتا ہے، اور اس کے پاس نہ بصیرت رہتی ہے نہ نظر، نہ اختیار۔
البتہ اسلام نے مسلمانوں کو اعتدال پر ابھارا ہے کہ طیش صرف اس وقت ہو جب اللہ کی حُرمتوں اور اس کی شریعت کی پامالی ہو، اور جب غصے کی وجہ ختم ہو جائے تو معاملہ حلم و بردباری سے ہونا چاہیے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں غصے کا علاج:
قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہ نے غصہ اور عصبیت کے علاج پر خصوصی توجہ دی ہے، جو انسان کو اس کی سیدھی فطرت سے دور کر دیتا ہے، اور نفس میں زخم اور تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ، ترجمہ: جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں [آل عمران: 134]۔
اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا، ترجمہ: رحمٰن کے ﴿اصلی﴾ بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے مُنہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام [الفرقان: 63]۔
اس سے واضح ہوا کہ قرآن نے صراحت کے ساتھ انسان کو اپنے جذبات اور غصے پر قابو پانے، غیظ کو روکنے، معاف کرنے، جاہلوں کو اچھے جواب دینے اور لوگوں کے درمیان نرمی سے چلنے کی تعلیم دی ہے، کیونکہ اس میں بدن و نفس دونوں کے لیے بے شمار فوائد ہیں۔
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمتی نصیحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ایک شخص نے عرض کیا: مجھے وصیت فرمائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “غصہ نہ کرو”۔ اس نے کئی بار سوال دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “غصہ نہ کرو” [بخاری]۔
ابو الدرداءؓ سے روایت ہے: “ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ نہ کرو، تمہارے لیے جنت ہے” [اسنادہ جید]۔
روایت میں آیا ہے کہ عرب لوگ پہلوان کو “صرّاعہ” کہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مفہوم بدل دیا اور فرمایا: “طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے” [بخاری]۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی اہم سبب کی بنا پر غصہ کرتے تو وہ شریعت کی خطا یا ایسا تجاوز ہوتا جس سے دین کے منہج سے انحراف ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے، وہ تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ایسے غصہ کے آثار ظاہر ہوئے جیسے اس پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہوں (یعنی سرخ ہوگئے)، اور فرمایا: “کیا اسی کے لیے تمہیں حکم دیا گیا ہے؟ کیا اسی مقصد کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے؟ تم قرآن کو ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہو؟ اسی کی وجہ سے تم سے پہلے امتیں ہلاک ہوئیں” [صحیح ابن ماجہ]۔
فکر اور صحت پہ غصے کے اثرات:
اگر انسان غصے اور زیادہ جذباتی ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جسمانی اور نفسیاتی اثرات پر غور کرے تو وہ صرف اللہ اور اس کی حرمتوں کے لیے ہی غضبناک ہو۔ کیونکہ شدید جذبات اور دباؤ جیسے خوف اور غصہ کرنے سے ایڈرینالین ہارمون خون میں خارج کرنے پر اکساتے ہیں، جو دل کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے اور نتیجتاً دل کو تھکا دیتا ہے۔
تیز مزاجی بلڈ پریشر میں اچانک اضافے کا سبب بنتی ہے جو دماغی شریان پھٹنے (برین ہیمرج) کا باعث بن سکتا ہے، اور یہ آنکھ کی رگوں، شریانوں کے سخت ہونے اور دیگر امراض پر اثر انداز ہوسکتا ہے، بلکہ اچانک موت کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
نفسیاتی طور پر یہ خود کو کمتر اور ذلیل کرنے پر منتج ہوتا ہے، کیونکہ غصہ کرنے والا انسان اس شخص سے معافی مانگنے پر مجبور ہوتا ہے جس پر وہ بھڑکا تھا۔ اسی کو شاعر نے یوں واضح کیا ہے:
وإذا ما اعتراك في الغَضَبِ العزَّةُ
فاذكر تذلُّلَ الاعتذارِ
یعنی اگر غضب میں عزت کروانے کی کوشش کر رہا ہے تو انجام کی ذلت یاد رکھ۔
ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں: “اس غصے کے اثرات میں رنگت کا بدل جانا، اعضاء کا سخت کپکپانا، حرکات و افعال کا بے ترتیبی سے ہونا، حرکت اور کلام میں اضطراب، زبان کا برائیوں پر چل نکلنا، مغضوب علیہ پر کینہ رکھنا، اس سے حسد کرنا، اس کی بدحالی پر خوش ہونا، اس کی خوشی پر غمزدہ ہونا، اس کے راز کو افشا کرنے اور پردہ چاک کرنے کا عزم کرنا شامل ہے۔”
فرد اور معاشرے پہ اثرات:
غصہ اور چڑچڑاپن ایسی صفات ہیں جن کا نقصان صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا دائرہ خاندانوں بلکہ پوری معاشرت تک پھیل جاتا ہے، یہاں تک کہ محض غصے کے نتیجے میں لیے گئے کسی بدحواسی کے فیصلے سے سخت جنگیں چھڑسکتی ہیں۔ عالمی جنگیں جن میں کروڑوں لوگ مارے گئے، وہ بھی محض ایک جوشِ غضب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے غلط فیصلوں کی وجہ سے تھیں، جنہوں نے سب کچھ تباہ و برباد کر ڈالا۔
مثال کے طور پر، کام کی جگہ پر باس کے ساتھ زبان درازی نوکری سے برطرفی کا باعث بن سکتی ہے، اور اسی طرح اگر کوئی شخص اس ڈرائیور پر حملہ کرے جس نے اس کا راستہ کاٹا ہو تو معاملہ عدالت تک جا سکتا ہے۔ اسی طرح بے شمار مثالیں ہیں۔ حد سے زیادہ چڑچڑاپن انسان کو قیمتی چیزوں سے محروم کر سکتا ہے بلکہ جیل تک بھی پہنچا سکتا ہے۔
یہ نہایت ضروری ہے کہ غصے والا شخص دوسروں سے دور رہے اور لوگ بھی اس سے دور رہیں جب تک کہ وہ ٹھنڈا نہ ہو جائے، اور پھر اس سے سکون سے فون پر بات کر کے کوئی حل نکالا جائے یا کچھ وقت کے لیے اسے چھوڑ دیا جائے تاکہ اس کا شدید غصہ اتر جائے۔
البتہ شدید غصے کے جو سماجی اثرات ہیں وہ سب سے زیادہ نقصان دہ اور تکلیف دہ ہیں، کیونکہ یہ تعلقات کو بگاڑ کر معاشرے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، اور دشمنوں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس میں رخنہ ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اقتصادی نظام بھی تباہ ہوتا ہے، جو آگے چل کر سیاسی حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں اختلافات اور جھگڑے بڑھ جاتے ہیں اور یکجہتی و محبت کی جگہ نااتفاقی لے لیتی ہے، جو بالآخر معاشرے کے انہدام اور وطن کی بربادی پر ختم ہوتی ہے۔
حد سے زیادہ غصہ پر قابو:
اگر غصہ عقل و دل پر قابو پا لے تو سب کچھ بکھر جاتا ہے اور انسان ایسے کام کر بیٹھتا ہے جن کے نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم شدید غصے اور حد سے زیادہ چڑچڑاہٹ کے وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں، اسی طرح:
- بولنے سے پہلے سوچنا؛ کیونکہ شدید جذبات کے دوران انسان ایسے الفاظ زبان پر لے آتا ہے جن کا مفہوم وہ سمجھ بھی نہیں پاتا اور اکثر ان کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس لیے چاہیے کہ آدمی جلد بازی نہ کرے اور اچھی طرح غور و فکر کے بعد بات کرے۔
- غصہ مناسب طریقے سے نکالنا، جیسے ہی تھوڑا سکون آئے تاکہ اس کے منفی نتائج نہ نکلیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر انسان کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، یا لیٹ جائے یا جگہ ہی چھوڑ دے۔
- ناپسندیدگی یا ناگواری کو بہتر الفاظ میں ظاہر کرنا، مثلاً غصے میں کہے: “مجھے اس کام سے غصہ، دکھ یا ناگواری محسوس ہوئی” نہ کہ یہ کہے: “تم جان بوجھ کر مجھے غصہ دلا رہے ہو یا چڑا رہے ہو”۔
- غصے کے وقت دل میں کینہ یا بغض نہ رکھنا، اور اختلافِ رائے کو تسلیم کرنا۔
- درمیانی اور قابلِ عمل حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا اور پیچیدہ باتوں سے بچنا، تاکہ تمام فریق راضی ہوں اور کسی پر بھی غصہ یا جذبات غالب نہ آئیں۔
اپنی اولاد کو غصے سے کیسے بچائیں:
والدین کی غفلت برتنے کی وجہ سے، اور رہنمائی کرنے والے مربیوں کی غیر موجودگی میں، جب کہ دوسری طرف ویڈیو گیمز اور اسمارٹ فونز عام ہو گئے ہیں، بچوں میں غصہ اور چڑچڑاہٹ بڑھ گئی ہے، یہاں تک کہ وہ معمولی باتوں پر بھی جھگڑنے لگے ہیں۔
اگرچہ جذبات کا اظہار بچوں میں ایک فطری رویہ ہے، لیکن حد سے زیادہ چڑچڑاہٹ اور مسلسل جذباتی کیفیت ایک مذموم بات ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔ اس کے لیے عملی نمونہ والدین ہیں کہ بچہ دیکھے کہ وہ غصے کے وقت کس طرح برتاؤ کرتے ہیں۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ اولاد کے سامنے زیادہ بردبار رہیں، ان کے چھوٹے موٹے جھگڑوں پر فوراً غصہ نہ کریں، بلکہ ان کے مسائل کو پرسکون انداز میں حل کریں، جس سے ان کی عزت و وقار بھی قائم رہے اور ان کا حق بھی محفوظ ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بچے دیکھیں کہ غصہ کس طرح انسان کے جسم و دماغ کو متاثر کرتا ہے، جیسے جسمانی کھچاؤ، بےچینی اور چہرے کا رنگ بدل جانا، اور اس پر زور دیا جائے کہ یہ سب چیزیں صحت پر برا اثر ڈالتی ہیں۔
اگر بچے کو کوئی تکلیف پہنچے یا کسی نے اسے شرمندہ کیا ہو، تو والدین کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ بالکل پرواہ ہی نہ کرے، کیونکہ اس سے اس کی شخصیت کمزور ہو جائے گی اور وہ خود کو شکست خوردہ محسوس کرے گا۔ بلکہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اسے سمجھائیں کہ ردِعمل میں بھی اعتدال اختیار کرے اور افراط و تفریط سے بچے۔
والدین کو چاہیے کہ صبر کی عادت اولاد میں پیدا کریں اور انہیں صبر کی فضیلت اور اجر سے آگاہ کریں، کیونکہ صبر جذبات پر قابو دلاتا ہے اور بندے کو اللہ کے اجر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ صبر کمزوری یا ذلت برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ مشکلات کا مقابلہ کرنے، برائی کا مقابلہ کرنے اور اصول پر ڈٹے رہنے کا نام ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ والدین بچوں کو غصے کے بدلے ایسے درست اور مثبت متبادل رویے تلاش کرنے میں مدد دیں، مثلاً جارحانہ عمل سے روکیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ بغیر غصے کے اپنے مسائل کیسے حل کرسکتے ہیں۔
اسی طرح جب بچہ والدین میں سے کسی پر غصہ کرے، تو اسے غصے کے ساتھ جواب نہ دیا جائے، بلکہ اس کے غصے کو نظرانداز کیا جائے – سوائے ضرورت کے مواقع پر – تاکہ یہ کیفیت بتدریج کم ہو جائے اور ختم ہو جائے۔
مترجم: زعیم الرحمان