دیار غیر میں ہجرت ایک سخت مرحلہ ہے جس سے وہ شخص گزرتا ہے جو اپنے وطن سے مجبوراً نکلتا ہے، ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے تاکہ اپنا مقصد حاصل کرے، اور اس مرحلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گزرے جب مجبوراً اپنے وطن سے نکلے تو رخصتی کے وقت اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "اللہ کی قسم! تُو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا” [روایة احمد]۔
ہجرت سے مراد ایک جگہ سے دوسری جگہ کام، تعلیم یا کسی تلخ حقیقت سے فرار کے لیے منتقلی ہے، یا کسی پیچیدہ سیاسی مسئلے کے باعث جلاوطنی، ایسا شخص دہکتے ہوئے انگاروں پر کھڑا ہوتا ہے، اپنی محبوب سرزمین کے لیے شدتِ شوق میں چیخ اٹھتا ہے، جسے وہ برسوں پہلے چھوڑ آیا، اس میں وہ احباب، دوستوں، اہل خانہ اور خاندان کو یاد کرتا ہے، اپنے نہ ختم ہونے والے شوق کو دل میں بسائے ہوئے۔
اس کے باوجود، اس پر لازم ہے کہ وہ نئے وطن میں اپنی زندگی کو اپنی اسلامی شناخت سے ہم آہنگ کرے اور دینی اخلاق کی حفاظت کرے، دنیا کی چکا چوند اسے دھوکہ نہ دے اور اس کے عقیدے سے دور نہ کرے، اور ساتھ ہی لازم ہے کہ پردیسی نئے معاشرے میں ضم ہو، اس کی عادات و قوانین سیکھے مگر ساتھ ہی اپنی انفرادیت و امتیاز کو برقرار رکھے۔
ہجرت کرنے والے مسلمان کی اخلاقیات:
ہر اُس مسلمان پر جو پردیس کا ارادہ کرے، چاہے پڑھائی کے لیے، کام کے لیے یا ہجرت کے لیے، لازم ہے کہ:
- ہر ماحول میں دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے اور اللہ سے ڈرتا رہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتَّقِ الله حيثما كنت [ترمذی] یعنی جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ مغرب میں رہنا حرام چیزوں جیسے سود، جوا، خنزیر یا مردار کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
- مثبت کردار ادا کرے، کمزور اور مظلوم کا ساتھ دے:
لیکن اس سے پہلے جس ملک میں آیا ہے اُس کے قوانین کو سمجھے تاکہ کسی مشکل میں نہ پڑے، کیونکہ بہت سے مسلمان اخلاق اور عدل کی عمدہ مثال بنے۔ - غداری اور خیانت سے بچے:
کیونکہ ایسی حرکتیں مقامی لوگوں کے دل میں پردیسیوں کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لكل غادر لواء يوم القيامة يُقال: هذه غدرة فلان [متفق علیہ]، یعنی ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس پر لکھا ہوگا: یہ فلان کی غداری ہے۔ - دوغلا پن نہ کرے:
مسجد میں، گھر میں، گلی میں، کام کی جگہ پر، سب جگہ اُس کا ایک ہی اخلاق ہونا چاہیے، جیسے قرآن میں فرمایا گیا: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا [المائدہ: 8] یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ - رحم دل بنے، حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ بھی:
: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: في كل كبد رطبة أجر [بخاری]، یعنی ہر جاندار کے ساتھ بھلائی میں اجر ہے۔ - جس ملک میں جا رہا ہے، اُس کی معاشرتی زندگی کے اصول اور ہدایات سیکھے۔
- پرانے اور نئے آنے والے مسلمانوں میں معلومات اور تجربات کا تبادلہ کرے:
تاکہ سب کا ایک دوسرے اور اپنے ماحول پر علم بڑھے۔ - نیک، صالح صحبت اختیار کرے اور ممکن ہو تو مسجد کے قریب رہائش تلاش کرے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی اچھی مثال سے اُن منفی تصورات کو توڑے جو جھوٹ یا بعض دوسرے مسلمانوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سے بن چکے ہیں۔
- اپنے مالی معاملات سمجھداری سے منظم کرے، غیر ضروری اخراجات سے بچے:
تاکہ اُسے کبھی ذلت یا گناہ والے طریقے سے پیسہ کمانے کی نوبت نہ آئے۔ - اپنے وطن میں موجود اہل خانہ سے رابطے میں رہے:
تاکہ پردیس کی تنہائی اور بوجھ کا احساس کم ہو۔
دیار غیر میں اسلام کی سفارت:
مسلمان جو اپنا وطن چھوڑ کر برسوں پردیس میں رہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور عقیدے کا ایک اچھا سفیر بنے۔ یہ اس طرح ممکن ہے:
- اسلام پر فخر کرے:
چاہے وہ عقیدہ ہو، عبادات ہوں یا اخلاق، کیونکہ اسلام میں کوئی شرمندگی یا راز کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا [فاطر: 10] "جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے”۔ - اپنی اسلامی شناخت کو واضح رکھے:
نماز، اسلام یا دینی احکام کو لوگوں سے نہ چھپائے، اور غیر مسلموں میں بھی نرمی اور تعاون کا رویہ اپنائے۔ - لوگوں، خاص طور پر کمزوروں، کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہے:
اُن کے خوشی اور غم میں شریک ہو۔ - صفائی کا خیال رکھے:
چاہے لباس ہو، گھر ہو یا وہ جگہیں جہاں وہ رہتا اور گھومتا ہے۔ - ملک کے قوانین کی پابندی کرے:
تاکہ لوگ اس کی عزت کریں، اور وقت کی پابندی کرے کیونکہ یہ بھی اسلامی صفت ہے۔ - حرام کاموں سے بچے:
جیسے شراب نوشی، کلبوں میں جانا، بے حیائی، دھوکہ، چوری، فراڈ، دوسروں کو ڈرانا یا نظر و زبان کی بے احتیاطی۔
دیار غیر میں بچوں کی تربیت:
جو شخص خود دین سے عملاً اور قولاً جُڑا ہوا نہ ہو اور مغربی تہذیب میں کھو جائے، وہ نئی نسل کو ایسا نہیں بنا سکتا جو اپنے دین کو جانے، اپنی اخلاقیات و عقائد کی حفاظت کرے اور بدلتی دنیا کا مقابلہ کر سکے۔ لہٰذا بچوں کی تربیت خود اپنی تربیت کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بہرحال بیرون ملک رہتے ہوئے بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے شیخ محمد صالح کی بتائی گئی یہ ہدایات اپنائی جا سکتی ہیں، گھر کے اندر بھی اور باہر بھی:
- والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اگر قریب مسجد نہ ہو تو گھر میں باجماعت نماز ادا کریں۔
- روزانہ قرآن کی تلاوت سننا اور پڑھنا، محبت و ترغیب کے ساتھ، نہ کہ جبر سے۔
- خاندان کا ایک ساتھ کھانے پر جمع ہونا۔
- ممکنہ حد تک عربی (یا اپنی مادری) زبان میں گفتگو کرنا۔
- گھریلو اور سماجی آداب کا خیال رکھنا جیسا کہ قرآن نے سکھایا ہے۔
- والدین اور بچوں دونوں کو فحاشی پہ مبنی فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
- رات گھر پر گزارنا اور زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں رہنا۔
- بچوں کو چھوٹی عمر سے لے کر ثانویہ تک اسلامی اسکولوں میں بھیجنا۔
- بچوں کو مسجد کی طرف راغب کرنا، خاص طور پر جمعہ اور باجماعت نمازوں میں۔
- بچوں اور نوجوانوں کے لیے تربیتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں تلاش کرنا۔
- بچوں کو دور دراز یونیورسٹیوں میں بھیجنے سے حتی الامکان پرہیز کرنا۔
- مکمل حلال کھانے کا خاص خیال رکھنا، اور والدین کا ہر قسم کی حرام چیزوں سے مکمل اجتناب کرنا۔
- بچوں کے سامنے اسلام کی اصل خوبصورت تصویر پیش کرنا۔
- بچوں کے ذہن میں آنے والے سوالات اور خیالات پر کھل کر گفتگو کرنا۔
- خاندانی تربیتی کیمپوں کا انعقاد جہاں پوری فیملی ساتھ جائے۔
- والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
- بچوں کو آسان اور عام فہم زبان میں اسلام کے بارے میں بات کرنے کی تربیت دینا۔
- بچوں کو قرآن حفظ کرنے کی تربیت دینا، اور اگر ممکن ہو تو کسی مسلم ملک بھیج کر دین کی گہری تعلیم دلوانا۔
- بعض بچوں کو جمعہ کے خطبے دینے اور نماز کی امامت کی تربیت دینا تاکہ وہ مقامی اسلامی کمیونٹی کے قائد بن سکیں۔
- بچوں کی جلد شادی کروا کر ان کے دین اور دنیا کی حفاظت کرنا، ایسی دین دار اور بااخلاق لڑکیوں سے جو اچھی اور معروف خاندانوں سے ہوں۔
- خاندانی جھگڑوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنا تاکہ بچے دیکھ سکیں کہ اسلامی حل کیسی برکت لاتا ہے۔
- رقص، موسیقی، گانے، اور بے حیائی کے میلوں میں شرکت نہ کرنا، اور بچوں کو اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ چرچ وغیرہ جانے کی اجازت نہ دینا۔
مغرب میں ہجرت کرنے والے مسلم پر عائد ذمہ داریاں:
ہر مسلمان جو بیرون ملک پڑھائی، کام یا ہجرت کے ارادے سے جا رہا ہو، اس پر لازم ہے کہ:
- اپنی ذات کی حفاظت کرے، کیونکہ ہر نفس اپنا ذمہ دار ہے۔ اگرچہ اسلام جماعت کا دین ہے، مگر سب سے پہلے مسلمان کو اپنی اصلاح کا حکم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ”
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ [التحريم: 6] - سفر سے پہلے اپنے دین میں مضبوطی پیدا کرے، یعنی دین کے بنیادی احکامات، حلال و حرام کی حدود اور عقیدہ اچھی طرح سیکھ لے تاکہ سفر میں اپنا ایمان محفوظ رکھ سکے۔
- مساجد اور اسلامی مراکز میں تربیتی ماحول تلاش کرے، جہاں خود، بیوی اور بچوں کے لیے دینی سہارا میسر ہو، جیسا کہ اللہ نے فرمایا: "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ..”
ترجمہ: مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، تماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ [التوبة: 71] - لباس، بول چال، یا ہیئر اسٹائل میں مغربی تقلید سے بچے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا کہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھے گا [بیہقی]۔
- فرض عبادات کی پابندی کرے، حرام سے بچے، جیسے سود، حرام تجارت، فحاشی وغیرہ، تاکہ اللہ سے تعلق مضبوط رہے اور اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھ سکے۔
- دیگر مسلمانوں سے جُڑا رہے، تعلقات بنائے، تاکہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "المسلم للمسلم كالبنيان يشد بعضه بعضا”
ترجمہ: مسلم مسلم کے لیے دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ [مسلم] - گھر میں اسلامی ماحول قائم کرے، خود والد ایک مثالی کردار بنے، بچوں کی تربیت پر نظر رکھے اور انہیں نئے معاشرتی چیلنجز میں بہکنے نہ دے۔
- مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں رہائش کا انتخاب کرے، جہاں اجتماعی طور پر اسلامی ماحول بنایا جا سکے، مگر الگ تھلگ ہو کر نہیں۔
- خود بھی اور اہلِ خانہ کو بھی دین کا علم سکھانے کی کوشش کرے، قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرتا رہے تاکہ دل میں دین کی محبت اور بیداری قائم رہے۔
- اصلاحِ نفس اور دعوتِ دین کو اپنا اصول بنائے، کیونکہ جب انسان دوسروں کو دین کی دعوت دیتا ہے، تو خود بھی دین پر مضبوطی سے جمے رہنے میں مدد ملتی ہے، چاہے دعوت قولی ہو یا عملی۔
ہجرت کا بچوں کی سماجی تربیت پر اثر:
یقیناً پردیس میں بچوں کی پرورش ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس میں والد ہجرت کی تلخ تکالیف اور بچوں کو وطنِ اصلی میں چھوڑنے کی دشواری کے درمیان حیران و پریشان کھڑا ہوتا ہے؛ اور بچہ ثقافتی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے، ایک طرف وطنِ اصلی کی ثقافت اور دوسری طرف اُس معاشرے کی ثقافت جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے۔
جب کہ پردیس میں رہنے والے بچے بہت سی مشکلات جھیلتے ہیں کیونکہ وہ اپنی معصوم فطری بچپن کی سرگرمیاں آزادی سے انجام دینے سے محروم رہتے ہیں، والدین کے ہمیشہ کے خوف کی وجہ سے کہ وہ اکیلے باہر نہ نکلیں؛ اور ان کی کھیل کود کی آزادی صرف ہفتے میں ایک بار یا شاید مہینے میں ایک بار، عوامی پارکوں میں محدود ہو جاتی ہے جہاں کھیلنے کی نوعیت ایک جیسی ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں، مہاجرت میں وسیع خاندان کا نہ ہونا، جو دین، اقدار، عادات و روایات کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرے، خود ایک اور چیلنج بن جاتا ہے جس کا سامنا مہاجر خاندان کو کرنا پڑتا ہے۔
بلکہ اور بھی چیلنجز موجود ہیں، جو ہجرت کے طویل سفر کے بعد وطنِ اصلی واپسی کے اثرات کی صورت میں سامنے آتے ہیں، جیسے کہ:
- معاشرے میں تیز رفتاری سے گھلنا ملنا اور ہم آہنگ ہونا مشکل ہونا۔
- مقامی بولی میں بعض الفاظ کا تلفظ اور سمجھنا دشوار ہونا۔
- سماجی تعلقات اور کھلے معاشرے میں رسمی بات چیت کی کثرت۔
- قدرتی ماحول کا اُس ماحول سے مختلف ہونا جس میں وہ پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔
- نصابی کتب اور تعلیمی مواد کی دشواری۔
پردیس ہجرت یا وطن میں سکونت؟
نوجوانوں کی ذہنی کشمکش: بہت سے نوجوان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر یہ خواب وطن میں کام تلاش کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ باہر جا کر دولت کمانے کے لیے ہوتا ہے، لیکن وہ جلد ہی ایک الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ پردیس کو چنیں اور گھر والوں کو چھوڑیں یا وطن میں رہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ والدین بھی اس سوچ کی حمایت کرتے ہیں کہ بہتر روزگار کے لیے باہر جانا چاہیے، چاہے اس کی قیمت جدائی ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے لوگ جو وطن چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس فیصلے کے لیے بہت سی وجوہات پیش کرتے ہیں، وہ بار بار کہتے ہیں "مستقبل کا خوف”، بلکہ کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ہی وطن میں اجنبیت کی زندگی گزار رہے ہیں، نہ سہارا ہے نہ روزگار کا موقع اور نہ کوئی امید، جب کہ وہ ہم عمر جو پردیس جا چکے ہیں، انہوں نے قلیل وقت میں اپنا خواب پورا کر لیا ہے۔
اس کے باوجود تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اصل وطن سے روح کا تعلق باقی رہتا ہے، چاہے جسم کتنی ہی نعمتیں پردیس میں حاصل کر لے؛ حضرت یوسفؑ باوجود اس کے کہ مصر میں حکم و اختیار کے مقام تک پہنچے، پھر بھی انہوں نے وصیت کی کہ ان کا جسد فلسطین منتقل کیا جائے جہاں ان کے باپ دادا کی قبریں تھیں اور وہ پلے بڑھے تھے۔
سمجھ دار، آزاد اور بہادر وہ ہوتا ہے جو حالات کو بدلتا ہے، نہ کہ ان سے بھاگتا ہے، وطن کی لڑائیاں ہمیشہ ہتھیاروں اور جنگ سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اکثر ان کی سب سے اہم لڑائیاں بغیر ہتھیار کے ہوتی ہیں، اس لیے مصیبت کے وقت وطن کا ساتھ دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ جلد ہی سب اطمینان اور خوشحالی کی خوش خبری سن سکیں۔
البتہ اگر حالات اس حد تک پہنچ جائیں کہ جان کا خطرہ ہو، قتل یا بے گناہ قید یا بے وفائی یا ایسا غیر محفوظ ماحول ہو جس میں جینا اور بسنا ممکن نہ رہے، تو اسلام نے اس وقت بہتر اور محفوظ جگہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا،
ترجمہ: جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی رُوحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مُبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ [النساء:97]۔
مصادر:
- غریب الوطنی میں اسلام کی سفارت
- سلسلة: مغرب میں مسلم فرد ج 2
- الفقر في الوطن غربة والغنى في الغربة وطن
مترجم: زعیم الرحمان