امت مسلمہ کی عیدیں اللہ کی جانب سے وہ تحفہ ہیں جن سے اللہ نے اپنے مؤحد بندوں کو عبادات کے بڑے مواقع پر فرمانبرداری کے رویے کے نتیجے میں سرفراز فرمایا۔ خصوصاََ حج کا موقع اور عرفہ کا دن جب کہ حجاج واپس یوں گناہ سے پاک ہوکر لوٹتے ہیں کہ گویا اسی دن انہوں نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو۔۔ اور پوری دنیا میں موجود مسلمان بھی گواہ ہوتے ہیں اور اپنے بے حد اور مسلسل رحم کرنے والے رب کی جانب سے بخشش کے متمنی ہوتے ہیں۔
اس دن دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں کی تکبیرات کی گونج ہوتی ہے۔ اللہ کی پاکیزگی کی گواہ اور اس کی عظمت کا اعلان کرتی صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ : اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہی سب سے بڑا ہے، اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ اسی کے لیے تمام شکر ہے، وہ بڑا ہے اور سب سے بڑا ہے، اسی کے لیے ڈھیروں تعریفیں ہیں اور اسی کی پاکیزگی صبح و شام بیان ہوتی ہے۔ وہ خدائے برحق کہ جو یکتا ہے، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو غالب کیا اور اسی کی یکتائی نے تمام لشکروں کو شکست دی۔ وہ اللہ کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں بجا لاتے، اسی کے طریقے پر یکسو ہیں خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے ۔۔ اے اللہ! رحمت فرما ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ان کی آل پر، ان کے اصحاب پر، ان کے مددگاروں پر، ان کی ازواج پر اور ان کی اولادوں پر ۔۔۔ اور ڈھیروں سلامتی نازل فرما۔
عید ایک بہت بڑا خوشی کا موقع ہے کہ جس میں انسان سارے غم و ہم بھلا دیتا ہے اور سراپا خوشی ہوجاتا ہے۔۔۔ اللہ کی کبریائی سے شروع ہونے والا یہ دن یکجا قلوب کی اس آواز سے گونج رہا ہوتا ہے کہ: اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے اور اسی کے لیے تمام شکر ہے۔
اگر ایام عید سال کے سب زیادہ دلچسپ دن نہ ہوں تو بھی اہم اور بہت دلچسپ ایام میں سے ہیں۔ انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ خوشی مناتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: یہ دو دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا :ہم ایام جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے ان دو دنوں کے بدلے تمہیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی صورت میں اور بہتر دو دن عطا کردیے ہیں۔ [نسائی، ابوداؤد، احمد]
عید کا دن دین کے اہم مظاہر اور شعائر میں سے ہے اور انسان میں بھی تہوار کو منانے اور اس میں خوش ہونے کا فطری داعیہ موجود ہے۔ بچے ، بوڑھے سب اس کے منتظر رہتے ہیں اور خوشی و مسرت اور اللہ کی فرمانبرداری کا امتزاج اس میں پایا جاتا ہے۔
اسلام میں عید:
عید اللہ کا اپنے بندوں کے لیے تحفہ ہے کہ ان کے دل خوش ہوں اور ان کی روحیں مسرور ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کھانے اور پہننے کی بہت سی چیزیں حلال کی ہیں اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے بندے ان دنوں میں فضول خرچی اور زیادتی سے بچتے ہوئے اس کی نعمتوں کا اظہار بھی کریں۔۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا [الاعراف: 31]۔
عید اسلام کے شعائر اور اہم مظاہر میں سے ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ میرے گھر آئے اور اس وقت انصار کی دو بچیاں جنگ بعاث کے بارے میں گارہی تھیں۔ انہوں نے کہا: پیغمبر علیہ السلام کے گھر میں شیطان کے آلات؟؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اے ابوبکر! ہر قوم کی خوشی ہوتی ہے اور یہ ہماری خوشی ہے۔ [بخاری، مسلم، ابن ماجہ]
حتیٰ کہ اسلام نے خوشی کے اس موقع پر روزہ بھی حرام کردیا ہے تاکہ مسلمان مکمل لطف اندوز ہوسکیں ۔۔ ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے: ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن [مسلم]۔
الٰہی حکمت:
ابن رجب الحنبلیؒ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے اس امت کی خوشی و مسرت کے مواقع اپنی نعمتوں کے پورا ہونے اور رحمتوں کی تکمیل پر مشروع کیے ہیں۔ تو عید الفطر سال میں ایک مرتبہ روزوں کے مکمل ہونے پر آتی ہے۔ جب وہ روزے مکمل کرتے ہیں تو اللہ ان کی گردنوں کو جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔ تو اس طرح اللہ نے عید روزوں کی تکمیل پر رکھی اور اس طرح اسے جزا اور ثواب کا ایک دن بنا دیا۔ اس دن وہ اپنے صدقات اور نمازیں لیے بخشش کی حالت میں نکلتے ہیں اور صدقۂ فطر اور نمازعید کی صورت میں اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں۔
اور عید کی نماز کے مقاصد میں سے ہے کہ :
(۱) اسلامی شعائر کا اظہار ہو اور عیدین کی نماز بڑے اسلامی شعائر میں سے ہی ہے۔
(۲) ہر قوم کے افراد اپنی شان و شوکت اور افرادی قوت کے اظہار کے لیے کسی نا کسی موقع کا اہتمام کرتے ہیں کہ جس میں وہ جمع ہوجائیں جبھی سب مسلمانوں پر عیدین کے لیے نکلنا ضروری قراردیا گیا ہے حتیٰ کہ بچوں، عورتوں، گھروں میں موجود پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں تک کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
(۳) اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے کہ اسی نے ہمیں اپنی عبادات بجا لانے کی توفیق عنایت کی ۔۔ اس طرح عید الفطر روزوں کی تکمیل کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہے۔
آدابِ عید:
یہ درست کہ عید کے دن خوشی اور تفریح کے ہیں لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موقع کے لیے بھی کچھ آداب بتا دیے ہیں تاکہ یہ معاملات بھی اسلامی شان اور اخلاق کے مطابق ہی سرانجام دیے جائیں۔ یہ آداب درج ذیل ہیں :
۱۔ نیت: مسلمانوں کی نیت ہو کہ وہ اپنے رب کو راضی کریں گے، اپنی کثرت کا اور طاقت کا اظہار کریں گے اور اپنی اجتماعیت کو مضبوط کریں گے۔
۲۔ غسل، زیب و زینت اور خوشبو کا استعمال: تاکہ اللہ اپنی نعمتیں اپنے بندوں پر دیکھے اور مسلمان اچھی حالت میں اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کرے۔
۳۔ عورتوں، بچوں کا جانا: ام عطیہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا کہ: لڑکیاں، پردہ نشین عورتیں اور حائضہ خواتین بھی نکلیں، وہ بھلائی کی باتوں کو سنیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، جب کہ حائضہ عورتیں نماز سے دور رہیں۔ [بخاری]
۴۔ نمازِ عید سے قبل کچھ کھانا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ نماز عید کو جانے سے پہلے طاق تعداد میں کھجوریں تناول فرماتے۔
۵۔ نمازِ عید کے لیے جلدی جانا اور عید کی نماز میں زائد تکبیرات کہنا۔
۶۔ عذر نہ ہو تو عیدگاہ کی طرف پیدل جانا اور آتے جاتے مختلف راستے اختیار کرنا۔
۷۔ مصافحہ اور مبارکباد: لازم ہے اور چاہیے کہ عید کی مبارکباد ایک دوسرے کو دی جائے۔
۸۔ جس کو نماز عید نہ مل سکے وہ اسے اکیلے یا پڑھ لے یا جماعت مل جائے تو جماعت سے پڑھ لے۔
گمشدہ سنتیں:
عصر حاضر میں عیدین کی سنتوں میں سے بہت سی اب بھلائی جاچکی ہیں۔ بعضوں نے کہالت کی وجہ سے، کچھ نے لاعلمی کی بنا پر اور کچھ نے جانتے ہوئے ان سنتوں کو ناپید کرنے کی سعی کی۔ ان میں سے چند یہ ہیں :
۱۔ عید الفطر کے روز نمازِ عید کو جانے سے قبل کھانا: یہ ایک سنت طریقہ ہے کہ مسلمان عید الفطر کے روز نماز کو جانے سے قبل طاق تعداد میں کھجوریں کھاتے ہوئے جائے۔
۲۔ کھلے میدان میں نماز پڑھنا: یہ بھی ایک بھلائی گئی سنت ہے، جس پر کچھ عرصہ قبل تک بھی لوگ عمل پیرا نہیں تھے، حتیٰ کہ بعضوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔
۳۔ نمازِ عید کو پیدل چلتے ہوئے جانا: اب لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر جایا کرتے ہیں۔
۴۔عیدگاہ جاتے ہوئے اور واپسی پر مختلف راستہ اختیار کرنا۔
۵۔ بچوں اور عورتوں کا عیدگاہ جانا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عید:
عید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ماحول خوشی کا منظرنامہ پیش کرتا تھا، اور یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور علم کے ساتھ ہوتا تھا۔ گھر کے چپے چپے میں خوشی اور مسرت کا سامان ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کا اظہار کرتے اور یہ بھی کوشش کرتے کہ بچے اور عورتیں بھی عید کی خوشیوں میں مکمل شریک ہوں۔
لیکن خوشی و مسرت کے عام کرنے کے باجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے اور اس بات کو بھی یقینی بناتے کہ اس دن اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام نہ ہو۔
اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر موجود ہوتا تو نیا لباس زیب تن فرماتے۔ جس سے بھی ملتے مسکراہٹ کے ساتھ ملتے، کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تو خوش طبعی کے ساتھ ملاقات کرتے۔ بچوں سے پیار و محبت کا معاملہ رکھتے اور اہل خانہ سے بھی بہت خوشدلی سے پیش آتے تاکہ وہ بھی عید کی مسرت میں شریک ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے شور سنا اور بچوں کی آوازیں بھی آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر دیکھا تو ایک حبشی عورت کچھ کھیل تماشہ کررہی ہے اور بچے اس کے اردگرد جمع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! آؤ چلو دیکھتے ہیں۔ میں آئی اور اپنا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر رکھ دیا اور اسی طرح میں دیکھتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے رہے کہ کیا اب بھی دل نہیں بھرا؟ کیا اب بھی مزا نہیں آیا؟ میں کہتی رہی کہ نہیں ۔۔ تاکہ دیکھوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں میری کتنی اہمیت ہے۔ [ترمذی]
ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ پر زیادہ خرچ کرتے اور مسلمانوں کو بھی کہتے کہ وہ اپنے بچوں پر اور خود پر فراخی سے خرچ کریں تاکہ سب لوگ اور بچے بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔
عید کی مبارکباد:
عید کے موقع پر مبارکباد دینا جائز ہے اور یہ بات چاروں فقہی مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی و حنبلی) کے اتفاق سے ثابت ہے۔
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ عید کے دن جب آپس میں ملا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ تقبل اللہ منا و منکم (اللہ آپ سے اور ہم سے نیک اعمال قبول فرمائے) [البانی نے اسے صحیح کہا ہے]
محمد بن زیاد الالبانی فرماتے ہیں: میں نے ابو امامہ باہلیؓ کو دیکھا کہ عید کے دن اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے ہیں کہ تقبل اللہ منا و منکم (اللہ آپ سے اور ہم سے نیک اعمال قبول فرمائے)۔ [اسے زائر بن طاھر نے تحفۃ عید الفطر میں روایت کیا ہے]۔
صلہ رحمی:
رشتہ داروں سے حسن سلوک ایک عظیم اخلاقی صفت ہے۔ اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے اور بھرپور تلقین کی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تربیت دیتا ہے، ان کے ساتھ تعلق جوڑنے کی تاکید کرتا ہے، ان تک خیر پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور شر کو ان سے دور رکھنے کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے فرمایا ہے کہ: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین کے ساتھ اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ [النساء : 34]۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ [بخاری]
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم (حسن سلوک) رحمٰن سے ہے جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے، اللہ اس سے جڑجاتا ہے اور جو کوئی اسے توڑتا ہے اللہ اس سے اپنے آپ کو توڑ لیتا ہے۔ [ بخاری]
عید اور ہمارے بچے:
عید اگر چہ بچوں، بڑوں سب ہی کے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہے اور اسلام نے بھی اس پر زور دیا ہےکہ انسان نا صرف خود بھی ایسے مواقع پر خوش ہو بلکہ بچوں اور گھر والوں کے لیے بھی اس دن خوشی کا سامان کرے، لیکن یہ عید بچوں کی تربیت کا ایک بہترین موقع بھی ہے کہ انہیں عید کے آداب سکھائے جائیں، اس کی سنتوں سے واقفیت دی جائےاور قربانی کے وقت انہیں پاس رکھا جائے کہ اس طرح ان کی یہ عملی تربیت ممکن ہوسکے گی کہ دین کو خوشی اور تفریح سے کس طرح جوڑا جائے۔
تربیت کے جدید اصولوں میں یہ مسلم ہے کہ بچوں کی تعلیم میں ان کے روز مرہ کے عملی تجربوں کو ذریعہ بنایا جائےاور غیر رسمی طریقوں سے سکھایا جائے کیوں کہ یہ بچوں کے سیکھنے کے اہم ذرائع ہیں۔
عید جیسے مواقع پر لباس خریدنے سے ہی عملی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے کہ بچوں کو خریداری کا طریقہ سکھایا جائےاور رنگوں کی پہچان کرائی جائے۔ ملنے جلنے کے اتنے مواقع عید کے علاوہ میسر نہیں آتے تو ہمیں چاہیے کہ بچوں کو یہ بھی سکھائیں کہ مہمانوں کا استقبال کیسے کریں، ان سے خوش اسلوبی سے کیسے پیش آئیں، ان کو سلام کس طرح کیا جائے، اور کیسے ان کے لیے دسترخوان وغیرہ تیار کیا جائے۔
عیدی جب ملے تو انہیں سکھایا جاسکتا ہے کہ جمع کرنا کیا ہوتا ہے، تفریق کس طرح کی جائے، کتنی رقم ملی ہے، کتنی انہوں نے خرچ کی ہے، اور کتنی ابھی باقی ہے۔۔ اسی طرح بچت، اور خرچ جیسی مالیات کی بنیادی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں، صدقہ کی عادت ڈلوائی جاسکتی ہے۔ یہ بتایا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ کیا ہے اور کس طرح نکالی جاتی ہے اور اس کے اپنے غیر ضروری کپڑوں کو دے دینے کی عادت بھی ڈل سکتی ہے۔
بلکہ انہیں کھجوروں کا ایک ٹوکرا بھی دیا جاسکتا ہے کہ وہ عیدگاہ میں نمازیوں میں تقسیم کریں اس طرح احساس ِ ذمہ داری بھی پیدا ہوگا اور سنت بھی پوری ہوجائے گی۔
عید منانے کے طریقے:
اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے عیدین کو ہجری سال سے منسلک کیا، اس طرح عید مختلف دنوں اور موسموں میں آتی ہے ، کبھی گرمی میں آتی ہے تو کبھی سردی ہوتی ہے، کبھی بہار ہوتی ہے تو کبھی خزاں کا موسم ہوتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کو خوشگوار بنادیتا ہے۔
عید کی چھٹیوں میں عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے لوگوں کو چاہیے کہ مختلف تجاویز اور منصوبوں پر غور کریں۔ جیسے کہ:
۱۔ عید کی مخصوص تقریبات منعقد ہوسکتی ہیں جن میں خاندان کے افراد اور دوست اور رشتہ دار ملاقات کریں اور ایک اچھا، خوشگوار وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں۔
۲۔ عید میں گھر میں وقت گزرتا ہے جب کہ عام دنوں میں مصروفیات کے سبب ایسا ممکن نہیں ہوتا، اس طرح ساتھ بیٹھنے اور ساتھ کھانے کا وقت مل جاتا ہے۔
۳۔ تفریحی مقامات پر جایا جائے اور بچوں کے ساتھ وہاں وقت گزرے تاکہ وہ بھی باپ کی شفقت اور اس کی خوشی طبعی محسوس کریں۔
۴۔ اندرونی اجتماعی کھیل کھیلے جائیں جن کے لیے زیادہ جگہ ضروری نہیں ہوتی لیکن گھر کے افراد جڑ جاتے ہیں۔
۵۔ باربی کیو پارٹیز کا اہتمام ان بہت ہی اچھی چیزوں میں سے ہے کہ جب انسان کھلی فضا میں بیٹھتا ہےاور اپنے بچوں اور خاندان کے ساتھ طرح طرح کے لذیذ گوشت سے لطف اٹھاتا ہے۔
عید کا دن خوشی، مسرت اور عبادت کا دن ہے، لہٰذا کسی بھی وجہ سے یہ دن گھر میں کسی غم یا پریشانی میں نہ بدل جائے۔ کوئی مسئلہ ہے تو بھی بعد کے لیے چھوڑدیں، اور اس دن کو خوشی کا دن بنائیں، گھر کے لوگ ہوں یا باہر سب خوش رہیں اور خاص کر ان ایام میں غریبوں کو اس خوشی میں شریک کرنا نہ بھولیں۔
مترجم: زعیم الرحمان