ایک مسلمان ہر سال اس عید کی آمد کے استقبال میں اپنی پلکیں بچھائے انتظار کر رہا ہوتا ہے، جسے وہ رمضان المبارک کے روزوں، ذکر واذکار اور اس میں اللہ تعالیٰ کی خوب عبادت کرکے آخر میں پا ہی لیتا ہے۔ البتہ اس مبارک گھڑی کی سب سے زیادہ خوشی اور مسرت بچوں کو محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس موقعہ پر بچوں کو پہننے کے لئے نیا لباس، مزے اڑانے کے لیے گھر والوں سے عیدی اور دوستوں یاروں سے ملنے جلنے اور خوشیاں منانے کا بہترین موقع ہاتھ آتا ہے۔
ہاں جو سب سے اہم ترین بات ہے وہ بچوں کی تربیت میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بچہ تجربات کر کر کے اور بڑوں کی نقل اتارتے اتارتے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ایک باپ یا ماں کے لیے زندگی کا ہر لمحہ بچے کو کچھ سکھانے کے حوالے سے بہت غنیمت ہوتا ہے، خاص کر بچے کی عمر کے ابتدائی مراحل تعلیم وتربیت کے نقطہ نظر سے کافی آسان ہوتے ہیں۔
اسلام میں عید کی فضیلت واہمیت:
عید کی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی تربیت کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے بچے کو عید کا مفہوم ومقصد ذہن نشین کیا جائے، پھر اسے اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ اسلام میں عید کی اہمیت کیا ہے اور آخر میں اس کے فقہی احکامات کی وضاحت کی جائے، جس میں نماز ادا کرنا، رشتہ داروں سے ملاقات کرنا، لوگوں میں خوشیاں بانٹنا، انہیں سلام کرنا، یتیموں اور فقیروں کی مدد کرنا اور باقی سارے نیک اعمال آتے ہیں۔
مسلمان کل دو عیدیں مناتے ہیں۔ پہلی ماہ رمضان کے روزوں کے اختتام پر آتی ہے، جسے عید الفطر کہتے ہیں اور دوسری ذی الحجہ کی دسویں تاریخ پر آتی ہے، جسے عید الاضحیٰ کہتے ہیں۔ ہر ایک عید کے اپنے اپنے احکامات اور تعلیمات ہیں، جن سے بچوں کی تربیت میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
عید خوشی ومسرت بخشنے والی نعمت ہے، اس میں گھر سے باہر نکل کر لوگوں سے ملنا جلنا، ایک دوسرے سے تعارف کرنا، مرد اور عورت دونوں کے لئے سنت ہے، کیونکہ عید مسلمانوں کے لیے جاہلی عادات واطوار اور تہواروں کا بدلہ ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “اہلِ جاہلیت نے سال میں دو دن مخصوص کیے تھے جن کے اندر وہ کھیل کود اور تفریح میں مشغول رہتے تھے، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم لوگوں کے ہاں دو دن ہوتے تھے جن کے اندر تم کھیل کود میں مشغول رہتے تھے، مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے تمہارے لیے زیادہ بہتر دو دن عطا کیے ہیں اور وہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن ہیں ” (نسائی)۔
اللہ تعالیٰ نے اس مبارک موقعہ کو مسلمانوں کی اجتماعی شادمانی اور آپسی تعلقات کو تقویت بخشنے کے لئے مخصوص کیا ہے، تاکہ لوگ روزے اور حج جیسی عظیم عبادات انجام دینے پر رب کا شکر ادا کریں، جو عبادات انہوں نے اجتماعی طور پر ایک ہی وقت پر سر انجام دی ہیں۔ اس کے علاوہ عید اور خوشی کا عبادت سے رشتہ بھی سمجھایا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس کی غرض وغایت بھی معلوم ہوگئی اور وہ غرض اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔
عید کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا مظہر، ان کی شان وشوکت کی علامت اور لوگوں کے مختلف ٹیڑھے راستوں کے درمیان ایک معتدل اور منفرد راستے پر فائز ہونے کی دلیل ہے۔ اسی طرح صلہ رحمی میں مضبوطی، رشتہ داروں اور اقربا کے درمیان دوریاں کم کرنے، محتاج اور مفلوک الحال لوگوں کا مانگنے سے بچ جانے، ان کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑنے جیسی برکتیں رکھی ہوئی ہیں۔ عید سے ٹھہری ہوئی معمول کی زندگی میں تازگی اور نیا پن داخل ہوتا ہے، گھر والوں اور اہل وعیال کی خوشیاں دوبالا ہوتی ہیں اور ان پر کھانے پینے، لباس اور عیش وعشرت کی دوسری نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت میں عید سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ:
یقیناً عید کو بچوں کی تعلیم وتربیت میں استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ بچے خاص کر اسی موقعہ کے انتظار میں ہوتے ہیں اور اکثر یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ عید کب آئے گی؟ اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہ ہے:
- نئے کپڑے: بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری کے موقعے پر ان کی تربیت کی جاسکتی ہے اور انہیں بہت سی چیزیں سکھائی جاسکتی ہیں، مثال کے طور پر انہیں مختلف رنگوں، ناموں اور ان کی آپسی نسبت کے متعلق جانکاری دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح انہیں گندے اور نامناسب کپڑوں کی پہچان کرائی جاسکتی ہے یا اس چیز کے متعلق ان کی رائے جانی جاسکتی ہے اور اس طرح غیر محسوس طریقے سے بچے کو ایسے کپڑوں سے دور رکھا جاسکتا ہے۔
کل ملا کر خریداری کے عمل کے ذریعے بچے میں خود اعتمادی، خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور اپنی پسند ناپسند کے بنیادی اصول پروان چڑھائے جاسکتے ہیں، ہاں اس کے لیے ہمیں بہت ہی احسن طریقے سے استفادہ کرنا ہوگا۔
- معاشرتی معاملات: اس موقعہ پر بچہ بہت سے ایسے اجتماعی معاملات میں شرکت کرتا ہے جو کہ عام دنوں میں میسر نہیں ہوتے ہیں، اس لحاظ سے بہت اچھا موقعہ ہے کہ ہم اس دن کو ان کی تعلیم و تربیت میں صرف کریں، جیسے؛ دوسروں سے پیش آنے کا طریقہ کیا ہے؟ ہم انہیں مہمانوں سے بات کرنا اور ان کی خاطر تواضع کرنا سکھائیں گے کہ کس طرح مہمانوں کی بات سنتے وقت اور انہیں جواب دیتے وقت ان کی طرف اعتماد سے دیکھیں اور عزت سے پیش آئیں اور ان سے بات کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ نہ ان کے قدموں میں کپکپاہٹ پیدا ہو اور نہ ان کی زبان ہچکچائے تاکہ وہ آسانی سے اپنی بات کا مطلب بیان کرسکے۔
اور اس صاف گوئی کے ساتھ ساتھ ہم اسے اس بات کی تعلیم بھی دیں گے کہ اگر اسے کوئی بات اچھی نہ لگے تو وہ کس طرح اس پر اعتراض کرے۔ اسی طرح کہیں مہمان بن کر جائے تو سلام کیسے کرے اور اپنے میزبان کی عزت کیسے کرے؟ دسترخوان بچھانے میں ان کی مدد کس طرح کرے، اور خود مہمان ہو تو احسان مندی کے رسومات کیسے بجا لائے اور میزبان بن کر استقبال کے آداب کا کیسے خیال رکھے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کے آداب کا کس طرح خیال رکھے۔
- عیدی: یہ عید پر بچے کی خوشیوں کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے بچے کو بہت ساری چیزوں کی تعلیم وتربیت کی مشق کروا سکتے ہیں۔ بچے کو گنتی، جمع وحساب اور اس طرح کی دوسری باتیں سکھائی جا سکتی ہیں، مثلاً ہم اسے پوچھیں گے کہ اس کے پاس کتنے پیسے ہیں؟ اور کچھ پیسے خرچ کرنے کے بعد اس کے پاس کتنے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح اس چیز کی تعلیم کہ مال کو کس طرح خرچ کرے اور کن کن چیزوں میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور کیسے کوشش کرے کہ اس میں تھوڑے سے پیسے صدقہ کے لیے نکالے؟ یعنی عیدی کا تصور بچے کو مالیت سمجھانے، مال جمع کرنے اور انفاق کرنے کے اصول سکھانے کے حوالے سے مفید ابتدا ہوگی۔
- دینے کا تصور: یہ دن اس لحاظ سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے ذریعے بچوں کو ان کی اپنی مرضی سے انفاق کرنا سکھا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ بچے کو عید سے ایک یا دو دن پہلے ہی عیدی دی جائے تاکہ وہ خود اپنے مالکانہ حقوق استعمال کرکے اپنے پیسوں سے صدقہ فطر ادا کرسکے۔ بچے کو پیسے دے کر یہ بولنا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو ایک بات ہے اور بچے کا خاص اپنے پیسوں سے اللہ کے لئے نکالنا دوسری قسم کی تربیت ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کو صدقہ فطر کے معنی ومفہوم، مقصد اور وجوہات کے بارے میں جانکاری دی جائے۔ جس طرح ہم نے اسے ماہ رمضان کے متعلق تعلیم دے کر اپنے ساتھ شریک کیا ٹھیک اسی طرح ماہ صیام کے بعد آنے والے ایام بارے میں اسے تعلیم دینے میں فائدہ ہوگا۔
- صدقہ کرنا: ہم بچے کو پچھلی عید کے کپڑے صدقہ کرنے میں شریک عمل کرسکتے ہیں۔ اس دوران وہ نئے کپڑے خریدنے پر خوش ہوگا اور ہم اسے اس بات کی تعلیم دے سکتے ہیں کہ کس طرح ہم اپنی خوشی کے موقعہ پر ان بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں جن کے پاس خوش ہونے کے لئے یہ سب چیزیں نہیں ہیں۔ بچے کو ہم یہ موقعہ دیں گے کہ وہ اپنے بہترین کپڑوں میں سے جو چاہے نکال کر صدقہ کرے، پھر ہم ان کپڑوں کی خوبصورت پیکنگ کرنے میں رضا کارانہ طور اس کی مدد کریں گے، اس شرط پر کہ ذمہ داری وہ اٹھائے گا اور ہم صرف معاون ہوں گے۔ اس طرح بچے کے اندر احسان جیسی صفت کی پرورش کا آغاز ہوگا۔
ہم بچے کو شریک کرکے کچھ کیک اور بہت سا حلوہ تیار کریں گے اور اسے نمازیوں میں بانٹنے کا موقعہ دیں گے۔ یہ سارے تجربات اسے خوشیاں بانٹنے اور دوسروں میں تقسیم کرنے کی تعلیم دیں گے اور وہ یہ سیکھ جائے گا کہ کس طرح دوسروں کو خوش کرنے سے ہم خوشی محسوس کرسکتے ہیں۔
تعلیمی ہدایات:
عید کے دن میں بہت سارے تعلیمی فائدے ہیں، جن پر ٹھہر کر غور کرنا اور یہ تعلیمات اپنے بچوں کو دینا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، وہ اس طرح سے ہیں:
- پہلا سبق: ایک مسلمان اپنی اولاد کو یہ تعلیم دے کہ عید شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے اور شریعت کے قوانین میں سے ایک قانون ہے اور اللہ کے مظاہر عبادات میں سے ایک مظہر ہے۔
- دوسرا سبق: یہ کہ عید خوشی ومسرت کا دن اور اہل وعیال کو انعام واکرام سے نوازنے کا موقع ہے۔
- تیسرا سبق: اس موقعہ پر اسلامی آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے اس دن اور ہر لمحہ دور رہنے کی ضرورت ہے۔ اسلام میں عید کا وہ تصور نہیں ہے جو بعض نے سمجھا ہے کہ عید خواہشات کے پیچھے چلنے اور اخلاق کا قلادہ گردن سے اتار پھینکنے کا نام ہے، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ یہ فرمانبرداری کی ایک شکل ہے۔
- چوتھا سبق: عید پر اسلامی اخوت کے جذبات دور دور تک پہنچتے ہیں۔ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق، تعاون اور باہمی ہمدردی نظر آتی ہے۔
- پانچواں سبق: برائی اور دکھاوے سے دوری، کچھ لوگ ایسے ہیں جو عید کی خوشیوں میں حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نعمت کا اعتراف اور شکر کرنے سے غافل رہتے ہیں ہمیں اس کام سے منع کیا گیا ہے۔
- چھٹا سبق: ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان بھائیوں کی یاد دلائیں جن پر عید تو آتی ہے لیکن وہ ماضی کی خوشحال زندگی کے بعد طرح طرح کی مصیبت میں مبتلا ہیں، جو بے شمار نعمتیں میسر ہونے کے بعد غربت وشقاوت سے بھرے ہوئے زہر کے گھونٹ پی رہے ہیں، کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولیں۔
- ساتواں سبق: ہمیں گھر میں بات چیت اور عیدی کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ ان دونوں میں بچوں کے لئے بہترین تربیت ہے۔
- آٹھواں سبق: بچوں کو عیدین کے احکام وآداب سکھائیں۔ عید کے دن نہانے کی فضیلت، عید الفطر کی نماز سے پہلے کھجور سے افطار کرنے کی اہمیت، رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا، ملاقات کرنا اور نئے کپڑے زیب تن کرنے کی سنت پر عمل پیرا ہونا اور خوشبو لگانا۔ اس کے علاوہ ہم انہیں بتائیں کہ عید کے پہلے دن روزہ رکھنا حرام ہے وغیرہ۔
- نواں سبق: عید کی خوشی کا جنت سے جو تعلق ہے ہمارے اوپر ذمہ داری ہے کہ ہم اس موقعہ پر بچوں کو یہ بات سکھائیں۔
- دسواں سبق: عید ایک عبادت ہے۔ سب سے ضروری بات جو ہمیں معلوم ہونی چاہیے اور اپنے بچوں کو بولنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ عید محض نئے کپڑے پہننے، باغوں اور پارکوں میں انجوائے کرنے اور سیر وسپاٹے پر نکلنے کا نام نہیں ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ جائز ہے مگر ہمیں بچوں کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ یہ ایک طرح کی عبادت ہے جس کا حکم ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ پھر اس کے ساتھ جڑی دوسری باتیں بھی انہیں سکھائی جائیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عید منانے کا طریقہ:
عید کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہدایت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے، خاص کر ان کی عورتوں اور بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عید منانے میں بہت سی اعمال کا اظہار ہوتا تھا جن میں اہم ترین یہ ہیں:
- غسل کرنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلنے سے پہلے غسل کرتے تھے، جو کہ بعض روایات سے ثابت ہے۔
- کھانا تناول کرنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے سے پہلے عید کے دن کھجور تناول فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز سے واپس آنے کے بعد اپنے قربانی کے جانور کا گوشت تناول فرماتے تھے۔
- عید گاہ میں نماز پڑھنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نمازعید گاہ میں ادا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک بار اپنی مسجد میں نماز عید ادا کی، جس دن بارش برس رہی تھی۔
- خوبصورت کپڑے پہننا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے لیے اپنے سب سے اچھے کپڑے زیب تن فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیدین اور جمعہ کے لیے ایک خاص لباس تھا۔
- نماز کا طریقہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر ذرا دیر سے اور عید الاضحیٰ جلدی ادا کرتے تھے۔
- عید گاہ جانے کا راستہ: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ عید گاہ جانے والے راستے کے برخلاف دوسرے راستے کا انتخاب کیا جائے۔ اگر ایک راستے سے عید گاہ جاؤ گے تو دوسرے راستے سے واپس آؤ۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کہ نماز کے لیے پیدل چل کر جاؤ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیا، تاکہ نماز واذکار اور لوگوں کے اجتماع میں شرکت کرسکیں۔
- خوشیاں اور محبتیں پھیلانا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ اپنے اہل وعیال اور پوری امت کے اندر خوشیاں عام کی جائیں۔
- رشتہ داروں سے حسنِ سلوک: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صِلہ رحمی پر ابھارا ہے۔ عید چونکہ رنجشیں اور دلوں کی کدورتیں دور کرنے کا بہت ہی منفرد اور عظیم لمحہ ہے، اس لیے ایک دوسرے سے رابطہ اور پیار ومحبت استوار کیا جائے، چاہے اس کے لیے فون یا پیغام بھیجنے کا بھی بند وبست کرنا پڑے۔
- بچوں کو خوش کرنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ عید کے دنوں میں اپنے اہل بیت پر بہت زیادہ مہربان ہوتے تھے اور مسلمانوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ عید پر اپنی ذات اور اپنے بھال بچوں کا زیادہ خیال رکھیں۔
- مسکینوں اور فقیروں کو خوشیوں میں شریک کرنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن کبھی بھی فقیروں کو فراموش نہیں کیا ہے اور ایک مومن پر فرض ہے کہ اس چیز پر عمل کرے اور غریبوں اور ان کے بچوں کو اپنی استعداد کے مطابق تحفے تحائف دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔
آخری بات:
بلاشبہ عید ایک بہت عظیم دینی فریضہ اور اہم موقعہ ہے جس سے فائدہ اٹھا کر بچوں کی تربیت کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ عید کے احکامات اور تعلیمات کے ذریعے ان کے دلوں میں اعلیٰ اخلاقی فضائل واقدار کی تخم ریزی کی جاسکتی ہے۔ بچے اس کی آمد سے خاص طور پر خوش ہوتے ہیں اور سال بھر انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ بچوں کے ان امور سے جڑی ہوئی ہے جن سے وہ محبت کرتے ہیں اور وہ خوشیاں منانے، کھیلنے کودنے ، باغوں اور کھیت کھلیانوں کی طرف جانے اور عیدی حاصل کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مآخذ وحوالہ جات:
- ابن القیم: زاد المعاد، 1/384.
- ۔ عید کے نصائح۔https://bit.ly/3gMsUle.
- ۔ میں اپنے بچوں کی پرورش میں عید سے کیسے استفادہ کروں۔ https://bit.ly/3BuLmZ6.
- عید کے پانچ تعلیمی تصورات جو ہم اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں۔.
- ندی القصبی: آپ عید الفطر کو کیسے ایک بہترین موقعہ میں تبدیل کرسکتے ہیں جہاں آپ اپنے بچوں کو کچھ باتیں سکھا پائیں۔
مترجم: سجاد الحق