رمضان کا مبارک اور مختصر مہینہ ختم ہوتے ہی مقدس عید الفطر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے یہ عید شکرانے کے طور پر مقرر کی ہے، جیسا کہ اس کے کلام میں ہے: "…تاکہ تم لوگ مقررہ مدت پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، اور تاکہ تم شکر گزار بنو” [قرآن 2:185]۔
عید الفطر شوال کے پہلے دن شروع ہوتی ہے، جب مسلمان روزہ افطار کرتے ہیں اور خوشی سے روزوں کی تکمیل کا اعلان کرتے ہیں۔ پہلی عید ہجرت کے دوسرے سال منائی گئی، جب رمضان کے روزے پہلی بار رکھے گئے تھے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عید کے پہلے دن روزہ رکھنا منع ہے، لیکن دوسرے دن سے شوال کے چھ نفلی دنوں کے روزے رکھنا جائز ہے۔
عید الفطر کے آداب:
عید الفطر کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ مسلمان رمضان کے روزوں کے بعد اس دن روزہ افطار کرتے ہیں۔ شرعی تعلیمات نے اس مبارک موقع پر کچھ آداب بیان کیے ہیں جو مسلمانوں کو ضرور اپنانے چاہیے۔ یہ آداب درج ذیل ہیں:
- غسل کرنا، خوشبو لگانا اور اچھا لباس، ہاں نئے کپڑے پہننا ضروری نہیں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن غسل کیا کرتے تھے، اور یہی عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ اس پر اکثر علماء جیسے علقمہ، عروہ، عطاء، النخعی، الشعبی، قتادہ، ابوالزناد، مالک، الشافعی، اور ابن المنذر نے بھی اتفاق کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اور الفقیہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل فرماتے تھے [ابن ماجہ]۔ ابن رشد نے کہا: "علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عید کی نماز سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔”
- عید کی نماز سے پہلے طاق تعداد میں کھجوریں کھانا: عید کی نماز کو جانے سے پہلے طاق تعداد میں کھجوریں (3، 5 یا زیادہ) کھانا سنت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے سے پہلے طاق تعداد میں کھجوریں کھایا کرتے تھے” [بخاری]
- عید کی رات اور دن میں نماز عید تک کثرت سے تکبیر ("اللہ اکبر”) پڑھنا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے:
- "اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے!”
- "اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، ولله الحمد اور تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔”
- عیدگاہ جانے اور واپس آنے کے لیے الگ راستہ اختیار کرنا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : "عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپسی میں الگ راستہ اختیار فرماتے تھے” [بخاری]۔ ساتھ ہی عید کی نماز کے لیے پیدل چل کر جانا بھی مستحب ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "عید کی نماز کے لیے پیدل جانا سنت ہے” [ترمذی]
- عید کی نماز پڑھنا: اگرچہ علماء میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا مستحب۔
- مبارکباد کا تبادلہ: یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ سے ثابت ہے۔ جُبَیر بن نُفَیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عید کے دن ملتے تو ایک دوسرے سے کہتے: ‘ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ ‘ (اللہ ہماری اور تمہاری نیکیاں قبول فرمائے)۔”
- عید پر خوشی منانا اور مسرت کا اظہار: مسلمانوں کو اس موقع پر خوشی ظاہر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے، جب کہ دو لڑکیاں گانا گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور منہ پھیر لیا۔ بعد میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور کہا: ‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی آلات کیسے؟ ‘ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا: "انہیں چھوڑ دو۔” جب ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول ہوئے، تو میں نے لڑکیوں کو اشارہ کیا کہ چلی جائیں” [بخاری و مسلم]۔
عید الفطر کی نماز کے احکامات:
اسلامی شریعت نے مسلمانوں کو ہر دور میں عید الفطر کی نماز ادا کرنے کے طریقے واضح کیے ہیں تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔ ذیل میں اس کی تفصیل ہے:
- نماز کا طریقہ: عید کی نماز گھر میں بھی پڑھی جا سکتی ہے، چاہے اکیلے یا خاندان اور بچوں کے ساتھ مل کر۔ یہ نماز کھلے میدانوں یا بڑی مساجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے، خاص طور پر جب کوئی رکاوٹ ہو جیسے COVID-19 جیسی وبا۔
- نماز کا حکم: عید کی نماز کا حکم کبھی فرض اور کبھی سنت کی طرح ہوتا ہے (علماء کے درمیان اس پر اختلاف ہے)۔
- عید کی مبارک باد: عید کی مبارک باد دینا صحابہ کرام کا طریقہ تھا، اس لیے یہ ایک اچھی روایت ہے۔
- خوشی کا اظہار: عید کے دنوں میں خوشی منانا اور مسکرانا سنت ہے
- رابطہ کرنا: خاندان اور دوستوں سے فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے بھی رابطہ کرنا اچھا عمل ہے۔
- خطبہ: نماز کے بعد خطبہ سننا سنت ہے، لیکن اگر کوئی خطبہ نہ سنے تو نماز ہو جاتی ہے، کوئی حرج نہیں۔
عید کی نماز دو رکعتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلی رکعت میں "تکبیر تحریمہ” (یعنی نماز شروع کرنے والی اللہ اکبر) کے علاوہ سات تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ امام صاحب پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ (سورہ نمبر 87) اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ (سورہ نمبر 88) تلاوت کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی (سورۃ الاعلیٰ) اور ھَلْ اَتٰکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ (سورۃ الغاشیہ) پڑھتے تھے”۔ [صحیح مسلم]
بچوں، نوجوان لڑکوں، اور عورتوں بشمول وہ لڑکیاں جو بلوغت کو پہنچ چکی ہوں لیکن ابھی حیض نہ دیکھا ہو کو عید کی نماز میں لے جانا مستحب ہے، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے دور رہیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر ہمیں نوجوان لڑکیوں، پردہ نشین عورتوں (غیر شادی شدہ یا گھر میں رہنے والی)، اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جانے کا حکم دیا گیا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے الگ رہنے کی ہدایت فرمائی” [صحیح مسلم]۔
عید کی نماز طلوع آفتاب سے 15 منٹ بعد بغیر اذان اور اقامت کے ادا کی جاتی ہے۔
عید کی نماز دو رکعت پر مشتمل ہے: پہلی رکعت میں سات تکبیریں (” اللہ اکبر” کہنا) اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔
زکوٰۃ الفطر:
زکوٰۃ الفطر رمضان کے اختتام پر عید الفطر سے پہلے ادا کیا جانے والا ایک خاص قسم کا صدقہ ہے۔ یہ عید کی نماز سے قبل یا روزے ختم ہونے تک ادا کرنا ضروری ہے۔ باقی زکوٰۃ کے برعکس، یہ صدقہ افراد پر فرض ہے نہ کہ مال پر، اور اس کا مقصد انسان کے نفس کو پاک کرنا ہے۔
ہر مسلمان پر، چاہے جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، زکوٰۃ الفطر فرض ہے، بشرطیکہ وہ اسے مقررہ وقت پر ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے فرمایا: ” زکوٰۃ الفطر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں پر اس لیے فرض کیا ہے کہ ان کے روزے فضول باتوں اور بے حیائی سے پاک ہو جائیں، نیز غریبوں کو کھانا فراہم ہوجائے۔ جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کرے، وہ مقبول زکوٰۃ ہے۔ اور جو نماز کے بعد ادا کرے، وہ عام صدقہ شمار ہوگا ” [ابو داؤد]۔
زکوٰۃ الفطر کا مقصد روزہ داروں کے روزوں کی تطہیر اور رمضان میں ہونے والی کوتاہیوں یا ناشائستہ گفتگو کی تلافی کرنا ہے۔ اس کے ساتھ یہ عید کے دن غریبوں اور ضرورت مندوں کو خوشی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ عید کے موقع پر لوگوں سے مدد مانگنے پر مجبور نہ ہوں۔ جیسا کہ وکیع بن جراح رحمہ اللہ نے کہا: "رمضان کی زکوٰۃ الفطر نماز میں سجدہ سہو کی مانند ہے۔ یہ روزے میں کمی بیشی کو پورا کرتی ہے، جیسے سجدہ سہو نماز کی لغزشوں کو درست کرتا ہے”۔
اس صدقہ کے لیے درکار مقدار ایک مخصوص پیمانہ ہے (جسے صاع کہا جاتا ہے) جس میں کھجور، کشمش، گندم، جو، چاول، خشک دودھ، یا علاقے میں عام طور پر کھائی جانے والی اسی قسم کی بنیادی خوراک ہے۔ بعض علماء حالات کے پیش نظر رقم دینے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ رمضان میں عبادات اور مذہبی اعمال کو پورے ذوق وشوق سے بجالانے کی کوشش کریں، یہ خیرات ان کے روزوں کو مکمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بلند ہمتی ایک اعلیٰ صفت ہے جو مخلص دلوں اور قابلِ عزت روحوں کی پہچان ہے ایسی بلند ہمت رکھنے والے لوگ امت کے بہترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
ہر مسلمان کو یہ فرض سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ غریب لوگ بے چینی سے اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ عید کے موقع پر اپنے بچوں کو خوشیاں دے سکیں، جب کہ دینے والے کو اللہ تعالیٰ اس کی سخاوت پر اس کے مال اور زندگی میں برکت عطا فرماتا ہے۔
آخری بات:
عید الفطر خوشی، امید اور مثبت سوچ کا وقت ہے۔ اس موقع پر مومنین اپنے ایمان سے وابستگی کی خوشی کو دوبارہ تقویت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ مل کر لذیذ کھانوں اور مشروبات کا اشتراک کرتے ہوئے خوشیاں منائیں۔ اپنی بیویوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آکر انہیں خوش کریں، اور اپنے بچوں کا خیال رکھیں، انہیں ایک مسکراہٹ یا ماتھے پر بوسہ دے کر محبت کریں۔ یہ خاندانی رشتوں کو مضبوط بنانے، پڑوسیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے، دوستانہ تعلقات استوار کرنے، اور غریبوں کے ساتھ سخاوت سے پیش آنے کا بھی وقت ہے۔
:المصادر والمراجع
- عبد الله بن قدامة: المغني، ج 2، ص 228.
- ابن حجر العسقلاني: فتح الباري 2/517
- النووي: المجموع شرح المهذب (6/91).
- ابن رشد: بداية المجتهد ونهاية المقتصد (1/216).
مترجم: سجاد الحق